آج پھر جب میں صبح کام کے لیے نکلی تو میرا استقبال گلی
کے نکڑ والے ہوٹل پر بیٹھے مردوں کی آوارہ نگاہوں نے کیا ۔ ان کی چبھتی
ہوئی نظروں نے مجھے بے آرام کر ڈالا مگر میں بے بسی کے ساتھ ان کے سامنے سے
گزرتے ہوئے بس اسٹاپ کی جانب روانہ ہو گئی-
|
|
یکایک ایک موٹر سائیکل سوار نے میرے قریب سے گزرتے ہوئے تیز آواز میں
ہندوستانی فلم کا گانا گنگنانا شروع کردیا- اس سے قبل کے میں کچھ کہہ سکتی
وہ تیزی سے میرے قریب سے بائیک لہراتے ہوئے گزر گیا ۔ میرے منہ سے بے ساختہ
اس کے لیے صلواتیں نکل پڑیں-
مگر ان سب کو بے سود جانتے ہوئے میں ایک بار پھر خود کو سنبھال کر بس اسٹاپ
کی جانب روانہ ہو گئی کیوں کہ مجھے لگا کہ اگر میں نے مزید یہاں وقت ضائع
کیا تو شائد دفتر میں باس کی باتیں بھی سننے کو ملیں گی -
بس کے انتظار میں صبر آزما لمحے گزارتے ہوئے مردوں کی نظریں مجھے اور مجھ
جیسی کام پر جانے والی عورتوں کا ایسے پوسٹ مارٹم کرتی رہیں جیسے ہم کام پر
نہیں بلکہ کوئی گناہ کرنے جا رہے ہیں -
|
|
کھچا کھچ بھری ہوئی بس جب میرے سامنے آکر رکی تو مجھے اس کی آخری سیڑھی پر
صرف پیر دھرنے کی جگہ ہی مل پائی جسے غنیمت جانتے ہوئے میں نے اپنا پرس
سنبھالا اور ڈنڈا پکڑ کر لٹک گئی کیوں کہ اس بس کو مس کرنے کا مطلب آفس سے
آدھا گھنٹہ لیٹ ہونا تھا جو میں افورڈ نہیں کر سکتی تھی -
چلتی بس میں میرے کاندھے کو دبا کر کنڈیکٹر نے جب کرایہ مانگا تو میں چلا
اٹھی کہ ہاتھ مت لگاؤ میں تھوڑا رش کم ہو تو کرایہ دیتی ہوں اتنے میں بس کے
اندر سے کسی خاتون کے چیخ و پکار کی آوازیں آنے لگیں جس کے جسم کو بار بار
کوئی مرد مسافر پیچھے سے چھو رہا تھا-
کرایہ دے کر اپنے اسٹاپ پر اترتے ہوئے میں اب تک ہونے والے سارے واقعات کو
ذہن سے جھٹکنے کی کوشش کرتے ہوئے یہ سوچ رہی تھی کہ آج باس سے ہر حالت میں
ایڈوانس کی بات کرنی ہے تاکہ بیٹے کی اسکول کی فیس جمع کروا سکوں اس کے
ساتھ سردی کی آمد کے ساتھ بچوں کے لیۓ سوئٹر بھی لینے ہیں -
شوہر کی تنخواہ تو صرف گھر کے کرائے اور بلوں میں ہی ختم ہو چکی تھی اور
میں اپنی تنخواہ سے راشن وغیرہ لا چکی تھی ان اخراجات کے لیے ایڈوانس لینا
لازمی ہو گیا تھا دفتر میں قدم رکھتے ہی میری نظر گھڑی کی جانب اٹھی پوری
کوشش کے باوجود آج بھی پندرہ منٹ لیٹ تھی یعنی تنخواہ میں کٹوتی کے ساتھ
ساتھ باس کی جھاڑ آج بھی سننی پڑے گی-
|
|
دن بھر کام کرنے کے بعد ایڈوانس کی درخواست پر جب میرا بلاوا باس کے دفتر
سے آیا تو میں نے بہت مشکل سے اپنی ہمت کو جمع کیا اور اجازت لے کر جب دفتر
میں داخل ہوئی تو باس سگریٹ پی رہے تھے جسے مجھے دیکھ کر انہوں نے بجھانے
کی کوشش نہ کی اور لمبا سا کش لے کر انہوں نے پوچھا کہ مجھے ایڈوانس کیوں
چاہیے ہے ؟ میرا جواب سن کر وہ زور سے ہنسے اور بولے کہ یہ تو عورتوں کے
بہانے ہوتے ہیں اصل میں تو انہوں نے ںئے سوٹ بنوانے ہوتے ہیں تبھی ایسے
چونچلے کرتی ہیں -
ان کی بات مجھے سر سے پاؤں تک پانی پانی کر گئی مگر ضرورت کے ہاتھوں مجبور
ہو کر میں صرف اتنا ہی کہہ سکی کہ سر مجھے واقعی ضرورت ہے میری بات سن کر
انہوں نے میری ایڈوانس کی درخواست پر سائن کر دیے اور مجھے لگا کہ آج سارے
دن کا پہلا اچھا کام ہوا ہے-
دفتر سے واپسی پر ایک بار بسوں کے دھکے کھاتے ہوئے میں صرف یہ سوچ رہی تھی
کہ گھر جاتے ہی مجھے کل کے لیے کھانا بنانا ہوگا اور بچوں کے سوئٹر خریدنے
کے لیے چھٹی والے دن ہی مارکیٹ جاؤں گی اس کے ساتھ ساتھ فیس کے پیسے بھی
الگ کرنے ہیں-
سب کام ختم کرنے کے بعد جب میں نے تکیے پر سر رکھا تو بے ساختہ پورے دن کے
مناظر میری آنکھوں کے سامنے سے گزرنے لگے اور میں بے ساختہ یہ سوچنے پر
مجبور ہو گئی کہ کیا گھر سے باہر کام کرنے والی عورت عزت کی حق دار نہیں
ہوتی؟؟
|