ملک میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں روز بروز تیزی سے
ہوتے اضافے اور عوام کی قوت خرید میں فقیری کی صورتحال ملک میں بھوک ،
غذائی قلت کے نظارے پیش کر رہی ہے۔ شہری تین سو روپے کلو ٹماٹر ، سبزیوں کی
ہوشربا قیمتوں پر شور مچاتے ہیں تو انہیں متوقع مدینہ ریاست کے 17روپے کلو
ٹماٹر کا سرکاری ریٹ بتا یا جاتا ہے- حکومت کے شعبہ '' شور و غوغا '' میں
متعین فردوس عاشق اعوان کا کہنا ہے کہ کاشتکار اور فروخت کنندہ کے درمیان
کئی مڈل مین مال بناتے ہیں جس سے ملک میں مہنگائی ہوتی ہے۔
شہری بیچارے کہتے ہیں کہ '' حضور ، یہ کیا'' ، حکومت کہتی ہے '' گستاخ ،
پھر بولا کیا ؟ '' اور ساتھ ہی عوام کو مزید ڈرانے ، دھمکانے کے لئے بار
بار کی طرح ایک بار پھرکہا جاتا ہے کہ '' فوج حکومت کے پیچھے ہے ، فوج اور
حکومت ایک پیج پہ ہیں''۔ دلربا صحبت کا یہ ساتھ باقی رہے، لیکن عوام کو بھی
اس '' ایک پیج'' کی نیچے کی آخری لائین میں رہنے کی عنایت فرما ئیں، اپنے
قدموں ، اپنے بوٹوں میں بیٹھنے دیں، اپنے قدموں،اپنے بوٹوں سے عوام کو
کچلیں نہیں۔
بھوک بہت ظالم ہوتی ہے ، جو انسان کو ہر وہ کام کرنے کو مجبور کر دیتی ہے
جس کا تصور وہ کسی صورت نہیں کر سکتا۔ لیکن جب بھوک کا عالم بہت ہی بڑھ
جائے، اس کا دورانیہ طویل ہوتا جائے تو بھوکے ننگے لوگ صدیوں پہ محیط
سلطنتوں کے تختے بھی پلٹ دیتے ہیں۔
علائوالدین مرحوم کی بہت پرانی فلم یاد آئی کہ جس میں شہر میں نوکری کی
تلاش میں آئے علائوالدین کی جیب میں صرف دس پیسے ہوتے ہیں، سخت بھوک کے
عالم میں ایک دکان کے بورڈ پہ نظر پڑتی ہے جس پہ لکھا ہوتا ہے کہ '' دس
پیسے کی روٹی مرغا مفت'' ، بورڈ کے نیچے ایک بڑا چمکدار ڈھکن لگا دیگچہ پڑا
ہوتا ہے۔ علائو الدین دکاندار کو دس پیسے دیتا ہے ، دکاندار ایک روٹی نکال
کر اس کے پھیلے ہوئے دونوں ہاتھوںپہ رکھ دیتا ہے، علائو الدین بہت اشتیاق
سے کہتا ہے '' اور مرغا'' ، دکاندار جواب دیتا ہے کہ '' ہاں ہاں کیوں نہیں
'' ، اور بڑی احتیاط سے دیگچے کا ڈکھن تھوڑا سا کھول کر مرغ کی ایک چھوٹی
سے تصویر اس کے پھیلے ہاتھوں میں پڑی روٹی پہ رکھ دیتا ہے، علائوالدین حیرت
اور حسرت سے کہتا ہے کہ آپ نے لکھا ہوا ہے کہ '' دس پیسے کی روٹی ، مرغا
مفت'' ، دکاندار تلخ لہجے میں جواب دیتا ہے کہ '' بیوقوف دس پیسے میں روٹی
کے ساتھ مرغے کی تصویر ہی مل سکتی ہے، تو پکے ہوئے مرغے کی تمنا کرتا ہے''۔
|