شخصیت

یہ بھی ایک ایسا ہی واقعہ اور ایسی داستان ہے جو ہمیں ہر طرف دیکھنے کو ملتی ہیں۔ والدین جانے انجانے میں اپنے بچوں میں کہیں نہ کہیں کوئی نا کوئی فرق رکھتے ہیں۔ والدین اکثر ایسا کرتے ہیں۔ کبھی بڑے بچے کو آگے رکھتے ہیں اور بڑے بچے کو گھر میں زیادہ عزت ملتی ہے۔تو کبھی بڑے کی بجائے چھوٹے بچے کو عزت دی جا رہی ہوتی ہے اُسکو زیادہ مقام دیا جا رہا ہوتا ہے۔یکساں سلوک نہیں یوتا یہ چیز زیادہ تکلیف دہ ہوتی ہے دراصل یہ چیز بچوں کے اندر چڑچڑا پن، بدتمیزی پیدا کرتی ہے بچے اپنے والدین سے بدسلوکی۔ اونچی آواز میں بات کرنا انکی بات نہ ماننا جیسی ضد میں پڑ جاتے ہیں اور والدین کےدشمن بن جاتے ہیں۔

یہی سے شروع ہوتی ہے بغاوت کی ایک ایسی جنگ جو والدین اور بچوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین کو چاہیے وہ اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ رویہ اخیتار کریں ایک ایسا میانہ رویہ رکھیں۔ جس سے ان کے درمیان اعتماد پیدا ہو اگر آپ اپنے بڑے بچوں کے ساتھ بات شیئر کرتے ہیں تو چھوٹے بچوں کو بھی ہرگز پیچھے نہ رکھیں۔ جب آپ کو پتا کہ وہ میچور نہیں ہیں پھر بھی لازمی انکو تھوڑی سی بات اعتماد میں لیتے ہوئے آگاہ کریں تاکہ انکے اندر بھی وہ اعتماد پیدا ہو۔ کیونکہ کل کو وہ بھی بڑے ہوں گے ان کے اندر اعتماد کی کمی نہیں رہے گی ایسے میں وہ محرومی کا شکار نہیں رہیں گے۔ آپ اپنے چھوٹےاور بڑے بچے کو اپنی اپنی جگہ پر رکھیں پرانکو اعتماد میں لازمی لیں۔۔

اگر آپ ان کے درمیان میں خود ہی فرق کریں گے تو یہ آنے والے وقت میں یہی بچے آپ کے لیے نقصان دہ اور پریشانی کا باعث بنیں گے۔۔ جب آپ کے چھوٹے بچے کوئی کام کر رہے ہوتے ہیں۔ تو ان کا حوصلہ بڑھائیں انکو اعتماد میں لیں کہ وہ کر سکتے ہیں۔ پر جب آپ انکو اعتماد میں ہی نہیں لیں گے ان میں سو سو کیڑے نکالیں گے تو ان پر کچھ اثر نہیں ہو گا۔ اس طرح سے وہ اندر سے احساس کمتری کا شکار ہونے لگتے ہیں۔ عمومآ اکثر ایسا ہوتا کہ آپ بڑے بچے کو زیادہ لاڈ پیار دے رہے ہوتے ہیں انکی پرواہ کر رہے ہوتے ہیں۔ وہیں آپکے چھوٹے بچے کے دل میں پھر یہ سب باتیں آتی ہیں کہ نجانے ہمارا کیا قصور ہے ہم سے پیار نہیں کیا جاتا ہمیں کوئی بات نہیں بتائی جاتی۔

باتیں کرتے جب چھوٹے بچے پاس جاتے ہیں تو اکثر ایسا دیکھا جاتا ہے کہ والدین اور رشتے دار چپ ہو جاتے ہیں۔ یوں جیسے کہ انہیں کوئی بات پتا نہ چلے۔ اس طرح آپ اپنے بچے کی شخصیت کو خود تباہ کر رہے ہوتے ہیں۔ انہیں ہر چیز سے لاتعلق کرکے۔ ان پر منفی اثرات پیدا ہونے لگتے ہیں۔ جب آپ کے بڑے بچے کوئی کام کرتے ہیں تو آپ انہیں سراہتے ہیں انکی تعریف کرتے ہیں اسی طرح سے اگر تھوڑی سی تعریف آپ اپنے چھوٹے بچے کی بھی کریں تو ایسا ہرگز ہرگز نہ ہو۔ پر والدین کہتے ہیں کہ نہیں یہ ابھی چھوٹا ہے۔ اس سے کوئی کام نا ہوگا۔ یہ ابھی چھوٹی بچی ہے اسے کاموں کا پتا نہیں ہے۔ تو یہ زیادتی آپ خود اپنے بچوں پر کر رہے ہوتے ہیں۔ جب انہیں اسی طرح سے آپ گائیڈ کریں گے اور آگے جاتے وہ کچھ کام وغیرہ پھر نہ کر رہے ہوں تو یہ والدین خود ہی ہوتے ہیں۔ جو کہتے ہیں۔ اس سے کوئی کام نہ ہوگا۔ بس بیٹھنا ہے اِدھر اُدھر کی باتیں کروا لو۔ لاڈ ہی اٹھایا ہے اور کیا ہی کیا ہے۔ آج تک کوئی ڈھنگ کا ایک کام نہیں کر سکتے یہ جب آپ خود ہی شروع شروع میں انہیں کوئی کام نہیں کرنے دیتے تو پھر والدین وقت کے ساتھ ساتھ کیوں یہ امید لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ جوں ہی وہ آپکے چھوٹے بچے فٹ سے کام سیکھ لیں اور کرنے لگ جائیں۔

دیکھیں ایسا ہرگز نہیں ہوتا۔ جب شروع میں ہی آپ اپنے بچے کو گائیڈ کریں گے انکا اعتماد بحال رکھیں گے دیکھئیے گا وہ ایک دن ضرور وہ سب بھی کر جاتے ہیں جنکی والدین نے ان سے امید وابستہ کر کے رکھی ہوئی ہوتی ہیں۔ معاشرے کا نظام یہ سب والدین خود کبھی انجانے میں تو کبھی جانے میں کر دیتے ہیں. ایسے میں اپنے بچوں سے امیدیں لگانا کہاں کی عقلمندی ہے کہ آپ کے بچے پھر آپکی امیدوں پر پورا اتر سکیں۔ اپنے بچوں کو سنواریں نا کہ ان کی شخصیت کو تباہ کریں۔ ان سے بھی پیار محبت سے پیش آئیں تاکہ وہ بھی کل کو اعتماد سے جی سکیں ناکہ وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر رہ جائیں۔۔۔“
 

ماہ گل
About the Author: ماہ گل Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.