بعثت رسولﷺ کی معاشی اصلاحات !

نبوت محمدیہؐ جلیلہ مبارکہ سے تاریخ انسانی کا ایک نیا دور شروع ہوتا ہے اور نہ صرف مذہب، معاشرت اور سیاست وحکومت بلکہ معاشیات کی دنیا بھی بدل جاتی ہے۔ یہ معاشی انقلاب پہلے سرزمین عرب میں ظاہر ہوتا ہے اور اس کے بعد دیگر اقوام اور ملک اس انقلاب کی معاشی برکات سے مستفید ہوتے ہیں۔ واقعہ یہ ہے کہ بعثت رسولؐ سے پہلے دنیا میں معاشی پسماندگی اقتصادی جمود اور استحصالی نظام کا دوردورہ تھا اور سب سے برا حال عربوں کا تھا۔ تجارت پر قریش سرمایہ دارکی اجارہ داری تھی اور قریش سرمایہ دارہی تمام عرب قبائل پر معاشی خدائی بھی کرتے تھے، اس کا سبب عربوں کا اپنا ہی واضع کردہ مشرکانہ نظام تھا۔ ہر قبیلے کا بت جدا تھا۔ اس طرح عرب کوئی قومی وجود نہیں رکھتے تھے۔لیکن جب درمیان سے بت ہٹ گئے اور قبائل دین حنیف پر متحد ہوگئے تو عربوں کی متحدہ قومیت اور وطنیت کا بھی اظہار ہوا، اور یہ عقیدہ توحید کی برکت تھی۔اگر عرب قبیلوں میں تقسیم اپنے اپنے بتوں کی پرستش میں لگے رہتے اور ان کے درمیان قبائلی عصبیتوں اور جنگوں کا سلسلہ چلتا رہتا تو وہ نہ کبھی ایک قوت بنتے اور نہ قیصروکسریٰ کے خزانوں کے مالک بنتے داعئی اسلامؐ نے ان میں جو ایمان اور اتحاد پیدا کیا وہ ایک نئے سیااسی اور معاشی نظام پر منتج ہوا جس میں انصاف تھا ، مساوات تھی، یعنی ایک دودھ پیتے بچے تک کا بھی وظیفہ مقرر تھا۔ مجموعی خوشحالی ایسی تھی کہ زکوٰۃ لینے والے مشکل سے میسر آتے تھے۔

قرآن کریم نے نبی اکرم ؐ کی بعثت کا مقصد یہ بتایا ہے ــ’’و یضع عنھم اصرھم والاغلال التی کانت علیھم ‘‘ ۱۵۷۔۷ مفہوم’’ وہ ان تمام بوجھوں کو اتار دے گا جن کے نیچے انسانیت دبی چلی آرہی تھی اور ان تمام زنجیروں کو توڑ کر پھینک دے گا جن میں افراد انسانیہ جکڑے ہوئے تھے‘‘ سوال یہ ہے کہ وہ کونسے بوجھ تھے جن کے نیچے انسانیت دبی ہوئی تھی؟ اور وہ کونسی زنجیریں تھیں جن میں انسانیت کا بند بند جکڑا ہوا تھا؟ گوکہ اس کی تفصیل طویل ہے لیکن اگر اسے مختصراً دو لفظوں میں بیان کرنا چاہیں تو کہا جا سکتا ہے کہ وہ بوجھ اور زنجیریں ارباب قوت و اقتدار کاا ستبداد تھا جس نے انسانیت کو کچل کر رکھ دیا تھا۔ اس استبداد کی شکلیں مختلف تھیں لیکن قرآن نے اسے تین بڑی بڑی شقوں میں تقسیم کر کے اس حقیقت کو واضح کر دیا ہے کہ استبداد کی نوعیت کچھ بھی کیوں نہ ہو وہ اصل کے اعتبار سے ان تین شقوں میں سے کسی ایک سے متعلق ہوگا۔ ان شقوں کو اس نے داستان بنی اسرائیل میں یکجا بیان کردیا ہے۔ یعنی ملوکیت، بادشاہت کا استبداد جس کا نمائندہ فرعون تھا۔ پیشوائیت کا استبداد جس کی زنجیریں جسم کو نہیں بلکہ انسان کے قلب و دماغ کو جکڑ دیتی ہے اس کا ترجمان ہامانؔ تھا۔اور سرمایہ پرستی کا استبداد جو شیروں کو لومڑی بنا دیتا ہے۔ اس کا مجسمہ قارون تھا۔ آپ تاریخ انسانیت پر غور کریں گے تو ہر جگہ یہی نظر آئے گا کہ ملوکیت، پیشوائیت اور سرمایہ داری نے اپنے مکروہ گٹھ جوڑ سے انسانیت کا گلا گھونٹ رکھا ہے،ملوکیت، انسان کی طبعی آزادی کو سلب کرتی ہے۔ پیشوائیت اس کی فکری صلاحیتوں کو تباہ کرتی اور سرمایہ داری اسکی محنت، اخلاقی جرئاتوں کو پامال کرتی چلی آئی ہے۔ یہی تھیں وہ استبداد کی زنجیریں آپؐ نے اس نظام استحصال کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا جسے قرآنی اصولوں کی روشنی میں نبی اکرمؐ نے قائم کیا تھا۔ یہی نظام وہ رحمت ہے جس کے اندر نوع انسان کی دبی ہوئی صلاحیتیں نشونما پاتی ہیں۔ نبوت محمدیہؐ جلیلہ سے پہلے عرب میں بھی یہی قانون جس کی لاٹھی اسی کی بھینس کا تھا قریش سرمایہ دار طبقہ نے اپنے تجارتی قافلوں کو لوٹ مار سے بچانے کے لئے مسلح دستے رکھنے شروع کیے اور اس طرح تجارتی قوت کے پہلو بہ پہلو وہ فوجی قوت کے بھی مالک بن گئے۔ اس فوجی قوت کے زور پر انہوں نے تمام عرب قبائل کو باری باری زیرکیا اور ان کے بت لا لا کر خانہ کعبہ میں رکھتے گئے اور ان بتوں کی پوجا کرنے والے قریش کو اپنے بتوں کا متولی تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس حیثیت میں نذرانہ دینا اور قریش کی تمام شرائط کو ماننا بھی ان کے لئے ضروری تھا۔ قریش نے ہر قبیلے کے لئے ایک دن مقرر کیا تھا کہ وہ خانہ کعبہ میں آکر اپنے بت کی زیارت کر سکتا تھا اور رسومات ادا کر سکتا تھا۔اس کے عوض قریش ان سے طرح طرح کے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ کسی بھی قبیلے کو اپنے ساتھ کھانے پینے کی کوئی چیز لانے کی اجازت نہیں تھی۔ ضروت کی ہر چیز قریش سے خریدنا پڑتی تھی۔ اس استحصالی نظام کے سبب قریش کو مذہبی مجاورت، سیاسی اقتدار اور معاشی فوائد حاصل تھے۔ اس لیے جب حضو اکرمؐ نے اس استحصالی نظام کے خلاف آواز بلند کی تو سرداران قریش چیخ اٹھے کہ یہ تو ہماری بنیادوں پر ہی ضرب ہے۔ ہم آپ کی ہر بات ماننے کے لیئے تیار ہیں لیکن ہمارے اجداد کے نظام کے خاتمے اور توحید کے رواج پانے کا مطلب ہماری موت ہے۔ اس طرح قبائل پر جو اقتدار اور استحصال ہے وہ ختم ہو جائے گا۔ پھر چشم فلک نے دیکھا بھی کہ ملوکیت بادشاہت کو یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ کسی انسان کو اس کا حق حاصل نہیں کہ وہ دوسرے انسان سے اپنا حکم منوائے۔ محکومی یا اطاعت قانون کی ہوگی نہ کی اشخاص کی، ہاں انسانوں کے معاملات (کمیون) یعنی باہمی مشاورت سے طے ہوں گے۔ اس مشاورت میں ساری امت اپنے نمائندگان کی وساطت سے شریک ہوگی، ان نمائندگان کے انتخاب میں معیار قلب ودماغ کی فکری صلاحیت پر ہوگا۔ نہ کہ حسب، نسب یا دولت و حشمت۔ پیشوائیت کے استبداد کا خاتمہ یہ کہہ کر کر دیا کہ خدا اور بندے کے درمیان کوئی دربان نہیں۔ اطاعت خدا کے اس قانون قرآن کی ہوگی جو اس نے اپنے رسولؐ کی وساطت سے نوع انسانی کو دیا۔ اس قانون و نظام کی طرف دعوت علیٰ وجہ البصیرت دی جائے گی اور کسی سے کوئی عقیدہ یا نظریہ زبردستی نہیں منایا جائے گا۔ اس نے حرف پیشوائیت ہی کو ختم نہیں کیا بلکہ خود سلسلۂ نبوت کو بھی یہ کہہ کر ختم کردیا کہ انسان کی راہ نمائی کے لئے جس قدر اصول تعلیم کی ضرورت تھی اسے مکمل قرآن کی شکل میں دے کر ہمیشہ ہمیشہ کے لے محفوظ کر دیاگیا ہے اور اس کے نفاد کے لئے آخری بارساری دنیا کے لئے بشیرونذیر بن کر آگیا۔ اس نے غلامی کا یہ کہہ کر خاتمہ کر دیا کہ خدانے ہر انسان کو محض انسان ہونے کی جہت سے واجب التکریم بنایا ہے۔اس لیے کسی انسان کو اس کا حق نہیں کہ وہ کسی دوسرے انسان کو اپنا غلام بنائے۔ باقی رہے مدارج سو ان کے معیار سیرت و کردار کی بلندی اور فرائض شناسی و حسن کارکردگی ہے اور یہ میدان تمام افراد انسانیہ کے لئے یکساں طور پر کھلا ہے۔

سرمایہ پرستی کے قارونی استبداد کو اس نے یہ کہہ کر ختم کر دیا کہ ذرائع رزق اور وسائل پیداوار (ارض) یعنی زمین کو تمام نوع انسانی کی پرورش کے لئے یکساں طور پر کھلا رہنا چاہیئے۔ کسی انسان کو حق حاصل نہیں کہ انہیں ذاتی قبضہ ملکیت سمجھ کر ان پر سانپ بن کر بیٹھ جائے۔ جہاں تک دولت کا تعلق ہے ضروت سے زائد دولت کسی فرد کے پاس نہیں رہنی چاہئیے تمام افراد معاشرہ کی بنیادی ضروریات زندگی کی ذمہ داری معاشرہ (نظام) پر ہونی چاہئیے،انسانی آزادی کا بنیادی نقطہ یہ ہے کہ کوئی فرد اپنی کسی ضرورت کے لئے کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو یہ تھیں انسانی استبداد کی وہ زنجیریں جنہیں ایک ایک کرکے توڑا گیا۔

یہ سب واضح کر دینے کے بعد قرآن کریم نے وہ فیصلہ سنا دیا جس سے یہ مسئلہ ہمیشہ کے لئے طے ہوگیا۔ اے رسولؐ! یہ لوگ آپؐ سے پوچھتے ہیں کہ انہیں حتمی طور پر بتا دیا جائے کہ ان کی کمائی میں ان کا اپنا حق کس قدر ہے اور دوسروں کاکس قدر فرمایا گیا کہ’’ قل العفو‘‘ ان سے فرما دیجئے کہ اس میں تمہارا حق صرف اتنا ہے جس سے تمہاری ضروریات پوری ہو جائیں۔ باقی سب کا سب دوسروں کی ضروریات پوری کرنے کے لئے ہے۔ اســ’’ قل العفو‘‘ کے فیصلہ نے ہمیشہ کے لئے طے کر دیا کہ اس سے کسی کے پاس فاضلہ دولت یعنی قدر زائد نہ رہے اور جب کسی کے پاس فاضلہ دولت ہی نہ رہے تومعاشی ناہمواریوں کی وجہ سے پیدا ہونے والی تمام خرابیوں اور تباہیوں کا خاتمہ ہو گیا۔ قرض خواہ اور مقروض ، مالک مکان اور کرایہ دار، زمیندار اور کاشتکار، کارخانہ دار اور مزدور، غریب اور امیر کا فرق ختم ہو گیا اور یوں ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود وایاز نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز۔ بندہ ،صاحب ، محتاج وو غنی ایک ہوئے تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے ۔۔۔
 

Idrees Jaami
About the Author: Idrees Jaami Read More Articles by Idrees Jaami: 26 Articles with 22165 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.