عبرتناک اور شرمناک

کیاکہنے،کیابات تھی…..منہ سے پھول جھڑتے تھے۔خوشبوکی برسات تھی اورمحبتوں کی بارش۔میں بہت نہایا…لطف،کرم اور عنائت۔ہاں انسان تھے،کبھی کبھارلہجہ بدل جاتاتھا،چہرہ سرخ ہوجاتااوربات کرتے کرتے آوازرندھ جاتی،آنکھیں برسنے لگتیں، بہت دیرتک سب روتے اورپھرسکینت اترتی اورسکون چھاجاتا۔ایسے تھے وہ،محبت کاپیکر،جسے چھولیامحبت بن گیا۔ چہارسو مسکراہٹ ،امید کاجھونکا،نسیم صبح۔ہرحال میں دیکھا….ہنستے ہوئے بھی،روتے ہوئے بھی،گاتے ہوئے بھی،بے خود ناچتے ہوئے بھی۔اذان کی آوازآتے ہی ان کی آوازگونجتی”چلوجی بلاواآیا،تیری آوازمکے مدینے،ہا ں ہاں آرہاہوں،تیری محفل سے گیاہی کب تھا کہ بلارہاہے! صدقے جاؤں قربان جاؤں،چلوجی بلاواآیا۔”
بارش کاموسم ہمیشہ میرے لئے…چلئے چھوڑئیے۔کالی گھٹاچھاجاتی اورآسمان کی آنکھیں برسنے لگتیں،تب میں پکارتا”بہت بھرگیا ہے ناں وہ….اب خالی ہوگااورہمیں بھرے گا۔اب ہم کہاں جائیں گے برسنے کیلئے،خالی ہونے کیلئے!”پہلے بہت ہنستے اورپھرمیرا ہاتھ پکڑکرکہتے چل!میں پوچھتا،کہاں؟وہ کہتے”رب کی شان دیکھیں گے،پودے دیکھیں گے،درخت دیکھیں گے ” ہم کھیتوں کی راہ لیتے۔راستے بھرمیں گنگناتے جاتے”پیلوپکیاں نے،پکیاں نیں وے،آچنوں رل یار”
“یہ تو بتائیے برسات رک جا تی ہے لیکن یہ درخت اتنی دیر تک کیوں برستے رہتے ہیں؟”
“کیاہوگیاہے تجھے”؟
“یہ تومیرے سوال کاجواب نہیں ہے”توکہتے”وہ دیکھ سارے درخت دھل کرکیسے نکھرگئے ہیں”جی ہاں،ایک دن میں نے پوچھا تھا”درخت تونکھرگئے ہیں مگرہم کب نکھریں گے؟”بہت دیرروئے لیکن جواب بالکل نہ دیااورمجھے بھی اصرارکی ہمت نہ ہوئی۔
وہ توبارش کی طرح آیا،برس کرچل دیا
اس نے کب دیکھاکہ کتنی دیرتک رویاشجر
میں کہیں اورنکل رہاہوں،مجھے آپ سے کوئی اوربات کرنی تھی اورنجانے میں کیاکیاکہہ رہاہوں۔بس میرے پاس باتیں ہی باتیں ہیں اورآپ کودیکھ کر بیشمارسوالات جمع ہوجاتے ہیں۔تھوڑے سے وقت میں بہت سے سوالات کاجواب لینے کی آرزو میں ڈھنگ کا تسلسل بھی قا ئم نہیں رہتا۔بے ربط گفتگو سے بھی خوف آتاہے کہ وقت کاضیاع ان کوبالکل پسندنہیں۔ایک دن کہنے لگے”اللہ جی جیسادوست،محبت کرنے والا،شفقت کرنے والاتوکوئی ہے ہی نہیں”
“اچھاجی وہ کیسے”میں نے پوچھاتھاان سے،اورپھردریابہنے لگا!
دیکھ وہ پکارتاہے آؤناں میرے گھر،توکہاں جارہاہے؟میں تجھے بلارہاہوں پیارسے،آناں میرے گھر۔کوئی اس طرح پیارسے بلائے اورمیں نہ جاؤں اس کے گھر،تووہ کتنارنجیدہ ہوتاہے!اورجب بلابلاکرتھک جائے توکہتاہے:چل تیری مرضی،مت آ۔تھک جاتا ہے ،مایوس ہوجاتاہے،گھرنہیں بلاتا،رابطہ ختم ……لیکن اللہ نہیں چھوڑتابلانا۔دن میں پانچ بارآوازدیتاہے۔آؤناں،آؤناں میرے گھر…..اور جب بندہ نہیں جاتااس کے پاس،تووہ کہتاہے .. .. چل تونہیں آرہا،تجھے فرصت نہیں،تجھے بہت کام ہیں،توچل مجھے بلالے اپنے گھر …..اورپھربھی ہم نہیں سنتے،تب وہ کہتاہے:تومجھے چھوڑبیٹھاہے، بھول بیٹھاہے،توہے ہی ایسا،لیکن میں نے تجھے پیداکیاہے،میں توتجھے کبھی نہیں چھوڑسکتا….تووہ پھراس کے ساتھ ساتھ رہتاہے،خاموش۔
ہم نجا نے کہاں کہاں منہ مارتے پھرتے ہیں،نجانے کس کس جگہ اپناسرجھکاتے ہیں،خوشامدکرتے ہیں،سفارش کرتے ہیں، جائز ونا جائزکرتے ہیں،حق تلفی کرتے ہیں،خیانت کرتے ہیں،منافقت کرتے ہیں،جھوٹ بولتے ہیں،کہتے کچھ ہیں کرتے کچھ ہیں۔ مکاری اور ریاکاری کرتے ہیں،دھوکادیتے ہیں، اعتبارتوڑتے ہیں،معصومیت سے کھیلتے ہیں،لوگوں کوزندہ درگورکردیتے ہیں ،ان کی مجبوریوں سے ناجائزفائدہ اٹھاتے ہیں،محبت کے نام پرہوس میں مبتلا ہیں،دوسروں کے مال پرنظررکھتے ہیں،اسے ہتھیانے کے ڈھونگ رچاتے ہیں۔دن رات جھوٹی قسمیں کھاکردوسروں کامال غصب کرتے ہیں،اپنی مجالس میں اجتماعی طور پرغیبت اورچغلی مشغلہ کے طورپرا ختیارکئے ہوئے ہیں،لوگوں کے دلوں کوجوڑنے کی بجائے توڑنے میں فخرمحسوس کرتے ہیں
نجا نے کیاکیاکرتے ہم،اوراتنابھی نہیں جانتے کہ وہ جسے ہم بھلابیٹھے ہیں،ہمارے ساتھ ساتھ ہے،سب کچھ دیکھ رہاہے،سب کچھ سن رہاہے اورہمارے دلوں کے بھید وں سے بھی باخبرہے۔ہماری ہرمنافقت سے آگاہ ہے،لیکن ہم بازہی نہیں آتے چاہے کچھ کرلو …کہیں نہیں چھپ سکتے اس سے،چھپ ہی نہیں سکتے…..ہم بہت بے شرم ہیں۔ جناب خواجہ اجمیرنے کیاخوب کہا “رب سے اتنی حیاتوکرجتنی تواپنے پڑوسی سے کرتاہے”لیکن نہیں،ہمیں توکچھ سمجھ ہی نہیں آتی،تب آتی ہے جب مہلت عمل ختم ہوجاتی ہے،بلا نے والااپناقاصدبھیج دیتاہے کہ چل ختم ہوئی کہانی….بس بس،بہت جمع کرلیا سامان،اب اسے چھوڑناہے،ساتھ توکوئی بھی لے کر نہیں گیا۔بہت ہلکان ہوگیاتھاناں،اسے جمع کرتے کرتے!توچل اب یہی ہے انجام۔دوگزکفن کا ٹکڑالے اورچل۔بہت پسند کرتاتھااپنے لئے کپڑے،خوشبوکوچھوڑکافورمیں بس،اورچل۔مجھے کب سمجھ آئے گی،مجھے کب سمجھ آئے گی۔بہت دیرہوگئی ناں”
ہاں میں نے انہیں ہرحال میں دیکھاہےہنستے ہوئے بھی اورروتے ہوئے بھی،گاتے ہوئے بھی اورناچتے ہوئے بھی،ان سب نے میرے لئے راستے آسان کئے،ہرفلسفہ پانی کردیا،وہ سب میرے اندرمیرے ساتھ رہتے ہیں،میرے یاربیلی،جن سے میں آج بھی ہر بات پوچھ لیتااورمسکراتے ہوئے جواب پاتاہوں۔
جاناہے،چلے جاناہے،کسی کوبقاءنہیں….ہاں ایک ہی گُرہے،اس کے بن جاؤ،وہ تمہیں امرکردےگا۔اسی کوسجدہ کر،ہزارسجدوں سے نجات دلادے گا،اسی کاخوف دل میں رکھو،اغیارکے تمام خوف سے تمہیں آزادکردے گا۔اس کے سا منے جھکناسیکھو جو ساری دنیا کوتمہارے لئے مسخرکردے گا۔بے گناہ اوربے قصورافراد کورہا ئی دلاؤوہ تمہیں حزن وملال سے رہاکردے گا۔جن کے گھروں کو بربادکیاہے ان گھروں کوآبادکرووہ تمہیں دنیااورآخرت میں آبادکرے گا۔جن کی کردارکشی کی ہے،اس گناہ عظیم کی برملا معافی ما نگواوراتنی دیرتک اس عمل کوجاری رکھوجب تک ان کے اقربامعاف نہ کردیں ۔ مہلت کاوقت ختم ہورہاہے۔اگراب بھی خالق کائنات کی طرف رجوع نہیں کیا….توپھرعبرتناک اورشرمناک انجام کیلئے تیارہوجاؤ!
گلیوں میں میری لاش کوکھینچے پھروکہ میں
جاندادہ ہوائےراہگزرتھامیں

 

Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 491 Articles with 317574 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.