بھارت میں انتہا پسندی، بنیادی انسانی حقوق اور اقلیتوں
کی حق تلفی ہورہی ہے دوسری جانب پاکستان اپنی اقلیتوں کے ساتھ اچھا برتاؤ
کرتا ہے۔ کرتار پور راہداری کھولنے سے پوری دنیا نے پاکستان کا امن پسند،
صلح جو چہرہ دیکھ لیا ہے جبکہ بھارت نفرتوں پر مبنی سیاست کرتا ہے، مودی
اور آر ایس ایس کی سوچ پوری دنیا کے سامنے بے نقاب ہو گئی ہے۔کرتار پور
راہداری کھولنا پاکستان کا زبردست اقدام ہے جس سے پوری دنیا میں پاکستان کو
پزیدائی ملی ہے خاص طور پر سکھ برادری کی جانب سے جو پوری دنیا میں پاکستان
کے سفیر بن چکے ہیں اور پاکستان کے امن کے پیغام کو فروغ دے رہے ہیں۔ انھوں
نے کہا کے مودی کی انتہا پسندی کے خلاف بھارت میں پہلے بھی آوازیں اْٹھ رہی
تھی اور اب جو وفد پاکستان آئے ہیں وہ یہاں پر لوگوں سے بھی مل رہے ہیں اور
اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ کس طرح کا
برتاؤ کیا جاتا ہے اور اس کے برعکس بھارت میں بابری مسجد پر شب خون مارتے
ہوئے وہاں مندر تعمیر کرنے کی تیاریاں جاری ہیں ۔ بھارتی سپریم کورٹ نے
انصاف کا قتل کیا ہے ۔ مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچا ئی ہے ۔
سکھوں کے جذبات کا احترام کرتے ہوئے ان کے مقدس ترین مقام کی زیارت میں
حائل رکاوٹیں دور کر دی ہیں اب پاکستانی مسلما نوں کا یہ حق بنتا ہے انہیں
بھی ہندوستان میں موجود درگاہوں اور اولیائے کرام و بزرگان دین کے مزاروں
کی زیارت کے لئے بھارت وسیع قلبی کا مظاہرہ کرے اور ویزہ سمیت دیگر سہولیات
فراہم کی جائے۔سکھوں کے ساتھ کیا ہوا وعدہ وزیر اعظم عمران خان نے پورا کر
دیا ہے ۔ اس طویل سفر کو سمیٹ دیا ہے۔ کرتارپور میں واقع دربار صاحب
گرودوارہ کا انڈین سرحد سے فاصلہ چند کلومیٹر کا ہی ہے اور نارووال ضلع کی
حدود میں واقع اس گرودوارہ تک پہنچنے میں لاہور سے 130 کلومیٹر اور تقریباً
تین گھنٹے لگتے ہیں ۔کرتار پور میں سکھوں کے پہلے گرونانک دیو جی نے اپنی
زندگی کے آخری ایام گزارے۔ یہیں ان کی ایک سمادھی اور قبر بھی ہے جو سکھوں
اور مسلمانوں کے لیے ایک مقدس مقام کی حیثیت رکھتی ہیں۔گورودوارہ تحصیل شکر
گڑھ ایک چھوٹے سے گاؤں کوٹھے پنڈ میں دریائے راوی کے مغربی جانب واقع ہے،
راوی کے مشرقی جانب بھارتی سرحد ہے۔ گرودوارہ دربار صاحب کرتار پور اپنی
نوعیت کا ایک منفرد مقام ہے۔ پاکستان میں واقع سکھوں کے دیگر مقدس مقامات
ڈیرہ صاحب لاہور، پنجہ صاحب حسن ابدال اور جنم استھان ننکانہ صاحب کے برعکس
یہ سرحد کے قریب ایک دور دراز گاؤں میں ہے۔پکی سڑک یعنی شکر گڑھ روڈ سے
نیچے اْترتے ہی ایک دلفریب منظر آپ کا منتظر ہوتا ہے۔ سرسبز کھیت آپ کو خوش
آمدید کہتے ہیں، پگڈنڈیوں پر بھاگتے دوڑتے بچے اور ریگتی بیل گاڑیاں، دور
درختوں کی چھاؤں میں چلتے ٹیوب ویلز اور کھیتوں کے بیچوں بیچ ایک سفید
عمارت۔ دھان کی فصل اور پرسکون دیہی ماحول میں گردوارے کی سنگِ مرمر کی
عمارت دور سے نیلے آسمان تلے لہلاتے کھیتوں میں بیٹھے کسی سفید پرندے کی
مانند دکھائی دیتی ہے۔یہاں سے کھیتوں میں سے گزرتے ہوئے گردوارے تک کا سفر
ایک خوشگوار تازگی کا احساس دلاتی ہے۔ گرودوارے کی عمارت کے باہر ایک کنواں
ہے، جسے گرو نانک دیو سے منسوب کیا جاتا ہے، اس کے بارے میں سکھوں کا عقیدہ
ہے کہ یہ گرو نانک کے زیر استعمال رہا، اسی مناسبت سے اسے 'سری کْھو صاحب'
کہا جاتا ہے۔گورودوارے کے داخلی دروازے کے باہر سر ڈھانپنے کے بارے میں
ہدایت درج ہے اور ملک کے دیگر گوردواروں کی طرح یہاں داخل ہونے کے لیے آپ
کی مذہبی شناخت نہیں پوچھی جاتی۔ گوردوارے کے خدمت گاروں میں سکھ اور
مسلمان دونوں شامل ہیں اور ہر آنے والے کے لیے یہاں لنگر کا بھی اہتمام ہے۔
مقامی افراد کے مطابق یہاں مسلمان باقاعدگی سے فاتحہ خوانی کے لیے آتے ہیں۔
بابا گرو نانک کو مقامی مسلمان افراد ایک برگزیدہ ہستی کا درجہ دیتے ہیں
جبکہ سکھ انھیں سکھ مذہب کا بانی سمجھتے ہیں۔انتقال کے وقت ہندوؤں اور
مسلمانوں میں بابا گرو نانک کے لیے عقیدت اور محبت کے جو جذبات تھے اس کی
پیشن گوئی ان کی پیدائش کے وقت ایک پروہت ہر دیال مشرا نے کر دی تھی۔ سکھ
مذہب کی روایات کے مطابق جب بابا گورو نانک کی پیدائش کے پانچویں روز پروہت
ان کے گھر آئے تو انہوں نے نومولود کا نام نانک نرنکاری تجویز کیا۔ بابا
گرو نانک کے والد نے پروہت سے کہا کہ یہ نام تو آدھا مسلمانوں اور آدھا
ہندوؤں جیسا ہے۔ پروہت نے جواب دیا کہ یہی نام مناسب ہے کیونکہ یہ بچہ
مذہبی تعصب اور گروہ بندی سے بالا تر ہو گا اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں اس
کے عقیدت مند ہوں گے۔یہ پیشن گوئی حقیقت میں کی گئی یا یہ بھی ان ہزاروں
روایات کی طرح فقط ایک قصہ کہانی ہے جو ہر مذہب کے اکابرین کے معتقدین ان
کے بارے بیان کرتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بابا گورو نانک اپنے
انتقال کے وقت مسلمانوں اور ہندوؤں میں اپنی تعلیمات کی وجہ سے یکساں مقبول
تھے۔ بابا گرو نانک کے انتقال کے وقت بے شمار ہندو اور مسلمان کرتار پور
میں موجود تھے۔گرو نانک کرتار پور کیسے پہنچے اور یہ بستی کیسے آباد ہوئی
اس کے بارے میں بھی سکھ مذہب کی تاریخ کی کتابوں میں روایات موجود ہیں۔ اس
سلسلے میں پروفیسر حمید اﷲ ہاشمی نے اپنی تصنیف ’بابا گورنانک‘ میں ان کی
موجودہ کرتارپور کے مقام پر آمد کا واقعہ بیان کیا ہے۔ گرونانک جب لاہور سے
اس علاقے میں پہنچے تو اس وقت یہاں ایک جنگل تھا اور لاہور کے نواب کی طرف
سے کروڑی مل نامی شخص یہاں کا کوتوال تھا۔ گورونانک کی آمد کے بعد جب
اردگرد کی بستیوں میں ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بڑھنے لگی تو یہ بات
کروڑی مل کو کھلنے لگی۔ وہ گھوڑے پر سوار گرو نانک کو گرفتار کرنے نکلا
لیکن رستے میں گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے اپنی ہڈیاں تڑوا بیٹھا۔کچھ مہینے
بعد روبصحت ہوا تو پھر گرفتاری کے ارادے سے نکلا لیکن راستے میں اندھا ہو
گیا۔ ان حادثوں نے کروڑی مل کی آنکھیں کھول دیں اور وہ گرو نانک سے معافی
مانگ کر ان کا مرید ہو گیا۔کروڑی مل نے گرو نانک سے التجا کی کہ وہ مستقل
طور پر اس علاقے میں قیام کریں اور دھرم شالہ بنانے کے لیے اراضی بھی فراہم
کرنے کا اعلان کیا۔ گرو نانک نے اس کی استدعا کو قبول کیا اور اس علاقے میں
ایک قصبہ آباد کرنے کا ارادہ کیا۔ تھوڑے دن بعد دھرم شالہ تیار ہو گیا۔ گرو
نانک نے اپنے خاندان کو بھی وہاں بلوا لیا۔کچھ عرصہ بعد ان کے مریدوں نے
بھی وہاں کا رخ اختیار کر لیا اور اس علاقے میں سکونت اختیار کر لی۔ تھوڑے
عرصے بعد ایک پوری بستی آباد ہو گئی اور گرو نانک نے اس کا نام کرتار پور
رکھا۔ کرتار مقامی زبان میں خدا کے لیے بولا جاتا تھا اس لیے یہ خدا کی
بستی یعنی کرتار پور کہلائی۔ |