ھماری سماجی روایات کو زنگ لگ چکا ہے اور اس زہر کا تریاق
نہیں ملتا۔اچھا زمانہ تھا جب انسان سماجی رشتوں اور بندھن میں بندھے ہوئے
تھے اس لئے معاشرے میں دکھ کم اور خوشیاں زیادہ ھوتی تھیں معاشی بندشوں اور
بے حسی نے انسانوں کا جنگل اگ آیا ہے جہاں لامتناہی مایوسی اور تنہائی ھے۔"
بھیڑ ھے قیامت کی اور ھم اکیلے ہیں"کے مصداق والدین بچوں کے ساتھ سے
محروم،غریب امیر کی بے رغبتی کا شکار ھیں مریض اور دکھی لوگ اپنا غم کسی کو
بتانے سے قاصر ہیں اسی بوجھ تلے آکر وہ موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔اس
جنگل میں اتنا سناٹا ھے کہ زندگی کی رمق باقی نہیں رہی ۔ایسے میں کوئی شخص
وقت نکال کر مریض پریشان حال لوگوں کے لئے وقت اور صلاحیت دے تو ایسے لوگ
مسیحا سے کم نہیں ہوتے۔ان کی وجہ سے ھی معاشرتی زندگی قائم رہتی ہے۔خرم
بابر بھی ایک ایسا ہی زندہ دل اور با حوصلہ نوجوان ھے جس نے تین مرتبہ موت
سے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مقابلہ کیا۔خرم بچپن میں ہی کینسر جیسی موذی
مرض کا شکار ہو گیا تشیخص کے بعد شوکت خانم ہسپتال میں داخل ھوا اور طویل
علاج اور بے مثال برداشت نے اسے پاؤں پر کھڑا کر دیا اس بیماری میں اس کی
والدہ نے خرم کی قوت برداشت کو جلا بخشی جو ھمارے مریضوں سے رویے کے لئے
مشعل راہ ہیں۔خرم کی علاج کے دوران ھی کینسر کا شکار بچوں دیگر مریضوں اور
ڈاکٹرز کے ساتھ دوستی ھو گئی۔یہ دوستی طویل تعلق اور مریضوں کی فلاح میں
بدل گئی۔دوسری قیامت خرم بابر پر انتہائی خطرناک ٹریفک حادثے کی صورت میں
نمودار ھوئی جس نے خرم کے اعضاء کو بری طرح کچل دیا مگر خرم موت کے سامنے
دیوار بن کر کھڑا ہوگیا۔اخر کار طویل عرصے بعد خرم پھر کھڑا ہو کر مریضوں
اور کینسر کے خلاف جنگ میں مصروف ھوگیا کہ ایک اور درد اوپن ھاٹ سرجری کی
صورت میں خرم کے مد مقابل آگیا جس کو خرم نے اپنی بہادری سے شکست دی۔خرم
بابر آج لاھور میں ڈاکٹروں مریضوں اور پریشان حال لوگوں کا وسیلہ اور
آنکھوں کا تارا ہے۔وہ کسی ڈاکٹر۔لیب یا بڑے سرمایہ دار اور کسی ھسپتال میں
چلا جائے تو کامیابی کے کر نکلتا ہے۔اج کل وہ "کینسر فائٹنگ فرینڈز سوسائٹی"
چلا رہا ہے جس کا وہ صدر جبکہ دوسرے عہدیداروں میں طاہر ساقی،عمران
باجوہ،غزالہ،رانا نوید،عامر عباس اور چوھدری محمد نصیر ایڈووکیٹ شامل ہیں
جو دن رات کینسر کے مریضوں کے علاج آور نفسیاتی تربیت میں مصروف رہتے ہیں
یہی ان کا مشن اور کام ھے۔گذشتہ دنوں سوسائٹی نے لاھور علی ایجوکیشن کے
ایڈوٹوریم میں پہلی چمپینز ایوارڈ کے نام سے تقریب کا اہتمام کیا۔جس میں
شرکت کا رقم کو بھی موقع ملا۔تقریب میں ڈاکٹروں،نوجوانوں اور کینسر
سروایورز کی بڑی تعداد نے شرکت کی اور اپنی زندگی اور بیماری کے خلاف لڑی
جانے والی لڑائی کی کارگزاری سنائی نم ناک اور حوصلے بلند رکھنے والی
داستانیں بے مثال تھیں۔خرم ان میں سب کی گفتگو کا محور تھا۔ڈاکٹروں جن میں
میوھسپتال،شوکت خانم اور انمول کے ڈاکٹرز شامل تھے جن میں ڈاکٹر شاہد اے
ضیا،ڈاکٹر اظہار ھاشمی،ڈاکٹر ثمینہ کھو کھر ڈاکٹر سجاد باقر،ڈاکٹر سلیم اور
ڈاکٹر ابوبکر شاید شامل تھے ان سب نے خرم بابر کی خدمات کو خراج تحسین پیش
کیا۔اور کینسر جیسی موذی مرض سے مقابلہ کرنے اور بچنے کی طبی،نفسیاتی اور
مالی آسانیوں اور قوت برداشت سے آگاہ کیا۔ان کا کہنا تھا کہ کینسر کی تشخیص
خبر سنانا اور مریض کے ساتھ اچھے رویے سے کس طرح مقابلہ کیا جا سکتا
ہے۔تقریب میں مہمانوں میں ایوارڈ تقسیم کیے گئے۔تقریب کیا ایک سبق تھا
زندگی کا جس کا حصول خرم بابر جیسے با حوصلہ نوجوان کر سکتے ہیں۔اللہ کرے
یہ شمع روشن رہے تو معاشرتی روایات کا احیاء ھو سکے۔
|