رب کا بھی امتحان لیتی یہ قوم

اس تنگ سڑک پر جہاں یک طرفہ ٹریفک کا چلنا بھی محال تھا وہاں دو طرفہ ٹریفک میں وہ گاڑی اپنی معمول کی رفتارسے رواں تھی۔ یکایک ایک سائیڈ سے تیز رفتار موٹر سائیکل والا نکلا اور گاڑی کو کٹ مار کر نکل گیا۔ موٹر سائیکل والے کی اس حرکت پر گاڑی والا منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا مگر گاڑی میں موجود خواتین کا لحاظ کر کے کچھ غلط الفاظ منہ سے نہ ادا کیے۔ ابھی کچھ ہی سفر طے ہوا تھا کہ وہ موٹر سائیکل سوار بیچ سڑک میں زخمی پڑا تھا، اور سڑک کے دوسرے کنارے سواریوں سے بھرا رکشہ الٹا پڑا تھا۔ خوش قسمتی سے موٹر سائیکل والا معجزاتی طور پر محفوظ رہا، اور سواریوں کو بھی کوئی زیادہ چوٹ نہ لگی۔ فوری طور پر وہاں موجود لوگوں نے ابتدائی طبی امداد کے لیے زخمیوں کو اسپتال پہنچایا۔ یہ منظر دیکھ کر گاڑی کا ڈرائیور بولا کہ یہ لوگ رب کا بھی امتحان لیتے ہیں، کہ کیا واقعی اپنی آئی سے پہلے ہم نہیں مرینگے۔ حالانکہ یہ سب لوگ روز اپنی آنکھوں کے سامنے سینکڑوں ایسے دل چیر دینے والے حادثات اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں مگر پھر بھی نصیحت حاصل نہیں کرتے۔ اور جب کوئی ایسا سانحہ رونما ہوجاتا ہے تو پھر سارا ملبہ تقدیر پر ڈال دیتے ہیں کہ تقدیر میں ہی ایسا لکھا تھا۔ غلطی خود کرکے اور پھر مورد الزام تقدیر کو ٹھہراتے ہیں۔

اس ڈرائیور کی یہ بات سن کر میں نے اندازہ کیا کے واقعی پاکستانی قوم تو رب کا بھی امتحان لیتی ہے۔ چاہے کوئی بھی مرحلہ ہو اس قوم نے اپنے قول و فعل سے ہمیشہ رب کا امتحان لینے کی کوشش کی ہے۔ کچھ واقعات سے اس کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یہ بات صرف بات تک محدود نہیں بلکہ حقیقت ہے۔

ایک بچہ جب جنم لیتا ہے تو اس کی ہر چیز کی ذمہ داری اس کے والدین پر ہوتی ہے، اس کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری بھی اسی میں شامل ہے۔ ہمارے معاشرے میں اکثر والدین اس اہم پہلو پر غفلت برتتے ہیں، اور آپ یقین مانیں ہے کہ ان کی سوچ یہی ہوتی ہے کہ جیسا رب نے چاہا ویسا ہی ہوگا۔ یعنی رب کا امتحان لیا جاتا ہے کہ رب اس بچے کو کیسا بناتا ہے۔ اور جب یہ بچہ بڑا ہوتا ہے تو سب کچھ اس میں وہی پایا جاتا ہے جو اس نے سیکھا ہوتا ہے یا جو اسے تربیت ملی ہوتی ہے، اب اگر رب کا کوئی خصوصی کرم ہو جائے کہ وہ بچا اچھا بن جائے تو ٹھیک ہے ورنہ وہ اچھا بچہ نہ بنے تو والدین کے الفاظ یہی ہوتے ہیں کہ یہی تقدیر میں لکھا تھا۔ اب تقدیر کا لکھا ہم کیسے بدل سکتے ہیں، یو تقدیر قصوروار ٹھہرتی ہے اور اصلی قصوروار بری الذمہ ہوجاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں طالب علموں کی بھی ایک بہت بڑی تعداد سارا سال پڑھائی پر بالکل توجہ نہیں دیتی اور جب پیپر نزدیک آ جاتے ہیں تب نماز پنجگانہ کی ادائیگی شروع ہوجاتی ہے، اور لمبی دعاؤں کا سلسلہ چل نکلتا ہے۔ آخر کار نتیجہ تو وہی آنا ہوتا ہے جس کی کوشش کی جاتی ہے تو پھر وہی تاریخی الفاظ کہ یہی تقدیر میں لکھا تھا اور اگر خوش قسمتی سے پاس ہو جائے نقل وغیرہ کر کے تو پھر رب کا کہیں عمل دخل نہیں ہوتا بلکہ جی یہ تو میں نے بڑی محنت کی تب جاکر مشکل سے پاس ہوا۔ اور پھر اگلے سال کی پڑھائی میں دوبارہ رب کا امتحان لینا، یوں یہ سلسلہ لگاتار چلتا رہتا ہے۔

کچھ تو اس قوم کے ایسے سپوت ہیں جن کی ساری زندگی حرام کی کمائی کرنے میں گزر جاتی ہے، اور پھر ایک دن ان ہی حرام پیسوں کے بل بوتے پر جو کسی غریب کا حق مار کر یا چھین کر کمائے ہوتے ہیں رب کے گھر کا حج عمرہ کرنے پہنچ جاتے ہیں۔ اور رب کا امتحان لیتا ہے کہ رب اس کام سے مجھ پر راضی ہوگا یا خوش، یا رب مجھے اس کے بدلے ثواب دے گا یا گناہ۔ اور جب واپس لوٹتے ہیں تو ان میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہوتی بلکہ پہلے سے بھی بڑھ کر لوٹ مار مچاتے ہیں اور اس مال و دولت کو رب کی رحمت قرار دیتے ہیں۔

اور بڑی بات یہ کہ رب کی نافرمانی ہر ایک موڑ پر کرتی ہے یہ قوم۔ عدالتوں میں رب کے کلام پر ہاتھ رکھ کر جھوٹ بولنے کی بات ہو، یا حلف لے کر بھی غلط فیصلے کرنے والا جج ہو۔ دکان سے سودا سلف لینے والا گاہک ہو یا بیچنے والا دوکاندار، کسی سے مزدوری کروانے والا مالک ہو یا کام کرنے والا مزدور۔ امام کے پیچھے نماز پڑھنے والا مقتدی ہو، یا مقتدیوں کا امام ہو۔ کوئی سرکاری ملازم ہو یا خود سرکار سب ہی رب کا امتحان لینے لگے ہوئے ہیں یا رب کو آزما رہے ہیں۔

کوئی رب کا بندہ کسی کو اچھے کام کرنے کا یا نیکی کرنے کا مشورہ دے کہ اپنی آخرت سنوار لو، تو یہ ایسی قوم ہے کہ فوراً سے جواب دیتے ہیں کہ وہ رب تو غفور الرحیم ہے وہ چاہے تو کسی فاحشہ کو پیاسے کتے کو پانی پلانے کی وجہ سے بخش دے۔ پتہ نہیں ہماری زندگی کا کونسا ایسا کام ہوگا جو رب کو پسند آ جائے اور رب ہماری بخشش کے پروانے جاری کر دے۔ اور سب سے بڑا امتحان تب لیتے ہیں جب حکمرانوں کے انتخاب کا وقت آتا ہے تب تک کسی بھی نااہل کو منتخب کر لیتے ہیں، اس کی بریانی کھا کر یا اس سے پیسے لے کر کچھ بھی کرکے اپنے مستقبل کا سودا کر لیتے ہیں۔ اور اس سے بہتر مستقبل کی امید لگاتے ہیں، اور پھر جب وہ اپنا رنگ دکھاتا ہے تو پھر تقدیر ہی اس کی قصوروار ٹھہرتی ہے۔ کے یہ سب تقدیر میں ہی لکھا تھا، ہمارے اوپر کوئی اچھا حکمران نہیں آسکتا۔

ہم سب بھی اسی قوم کا حصہ ہیں جو ہر موڑ پر رب کی نافرمانی کرکے اپنے قول و فعل سے اور اپنے تمام محرکات سے رب کا امتحان لیتے ہیں۔ اور کوئی ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے جس موقع پر اپنے سر کا بھر اتار کر تقدیر کے کھاتے نہ ڈال دیا جائے۔ اور رب کی رحمت کا امتحان بھی لیا جاتا ہے کہ ہم خود تو وہ کوئی بھی کام نہیں کریں گے جس بنا پر اس کا رب کی رحمت ہم پر سایہ فگن ہو۔ مگر ہاں ہمیں رب کی رحمت ضرور ملے گی اور رب ہمیں ہماری زندگی میں سے کوئی بھی نیکی ڈھونڈ کر اپنی رحمت کا نزول ہم پر کردے گا۔
 

Musab Ghaznavi
About the Author: Musab Ghaznavi Read More Articles by Musab Ghaznavi: 16 Articles with 12137 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.