پاکستان میں اولڈ ایج ہومز کا بڑھتا رجحان

والدین دنیا کا سب سے عظیم تحفہ ہے۔ یہ وہ رشتہ ہے جس کی محبت اور قربانیوں پر کوئی شک نہیں۔ یہ رشتہ اللہ کی اپنے بندوں سے بے پناہ محبت کی نشانی ہے کہ وہ اپنی مخلوق کی خیرخواہی چاہتا ہے اور انہیں کبھی تنہا نہیں چھوڑتا۔ جب بچہ پیدا ہوتا ہےتو وہ نہایت بے بس ہوتا ہے۔ اس وقت صرف والدین ہی ہوتے ہیں جو اس کی بھوک مٹاتے ہیں، سردی گرمی سے اسے بچاتے ہیں اور ان کا ہر طرح سے خیال رکھتے ہیں اور انہیں کبھی تنہا نہیں چھورتے لیکن جیسے جیسے وقت گزر تا جاتا ہے ماں باپ بوڑھے اور اولاد جوان ہوتی جاتی ہے تو والدین کا وجود کچھ بچوں پر نہ گوار گزرتا ہے۔

ماں باپ جو وقت کے ساتھ ساتھ بوڑھے ہوجاتے ہیں جسمانی اور مالی طور پر بھی کمزور ہوجاتے ہیں اور انہیں اب کسی سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔ مگر ان کی اولاد ان سے منہ موڑ لیتی ہیں ان سے بے زار آ جاتی ہے، ان کی تکلیفوں اور پریشانیوں سے اکتا جاتی ہے، وہ اپنے کاموں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں جبکہ والدین کے ساتھ وقت گزارنا ان کو وقت کا ضیاع لگتا ہے۔۔ ایک اکیلے والدین تو اپنے چار بچوں کی پرورش کر لیتے ہیں پر افسوس چار بچے مل کر بھی اپنے والدین کی خدمت اور ان کے بوڑھاپے کا سہارہ نہیں بن سکتے اور جب والدین بیمار پڑ جا تے ہیں اور ان کے پاس اپنے علاج کیلےرقم نہ ہو اور نہ ہی کوئی ان کی تیمارداری کرنے والا ہو۔ تو پھر اولاد انہیں علاج کے بہانے اولڈ ہومز میں چھوڑ کر بھاگ جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج کل اولڈ ایج ہومز کا رواج بڑھتا چلا جارہا ہے اور لوگ اپنے والدین اور عزیزوں کو اولڈ ایج ہومز میں داخل کروانے کو ترجیح دے رہے ہیں یہ سوچے بغیر کہ اپنے رشتے ہوتے ہوئے بھی وہ غیروں کے ساتھ زندگی کس طرح گزاریں گے

آجکل جگہ جگہ کھلنے والے اولڈ ایج ہومز اس بات کی نشانی ہیں کہ اب رشتوں میں بہت دوریاں آچکی ہیں۔ ماں باپ، بہن بھائی جیسے رشتے بھی بوجھ بن گئے ہیں۔ اور لوگوں میں رشتوں کے احترام اور برداشت کا مادہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے اولڈ ایج ہومز میں موجود لوگوں کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ نافرمان اولاد اپنے والدین یا عزیزوں کو جب اولڈ ایج ہوم میں پہنچا دیتی ہے تو اننہں احساس تک نہیں ہوتا کہ ان کے پیارے وہاں کتنی تنہائی، بے بسی اور دکھوں کے ساتھ زندگی گزاریں گے اورجو اپنی آخری سانسوں تک اپنے عزیزوں کا انتظار کرتے رہتے ہے مگر کوئ ان کو واپس لے جانے کیلۓ نہیں آتا یہاں تک کہ وہ اسی آس میں دنیا سے چلے جاتے ہیں۔ بعض اوقات لوگ اپنے پیاروں کی تدفین کا انتظام کرکے سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اپنا حق ادا کر دیا مگر بعض ایسے بھی بدقسمت ہوتے ہیں جو اپنے عزیز واللدین کے مرنے کا سن کر بھی ان کی آخری رسومات میں شریک نہیں ہوتے۔ اگر ان اداروں میں جاکر ان لوگوں کے ساتھ وقت گزارا جائے تو ان کے دکھوں کا کچھ مداوا ہو سکتا ہے۔

آج ہم اچھے مسلمان ہونے کا تو دعویٰ کرتے ہیں لیکن عمل بالکل بھی نہیں کرتے۔ جبکہ اسلام ہمیں بزرگوں کے ساتھ شفقت سے پیش آنے کا حکم دیتا ہے اور قرآن پاک میں بھی والدین کو" اف" تک کرنے کو منع کیا گیا ہے۔ پر افسوس ہمم نے اسلام اور اپنے کلچر کو چھوڑ کر یورپ والوں کو فالو کرنا شروع کر دیا ہے۔ جہاں پر جب والدین بوڑھے ہو جاتے ہیں تو انکو اولڈ ہومز میں داخل کرادیا جاتا ہے جس کا خرچہ کبھی وہ خود دیتے ہیں ورنہ حکومت یا پھر این جی اوز برداشت کرتی ہیں۔ اگر ہم اللہ کے احکامات پر عمل کریں تو وہ دن دور نہیں جب یہ اولڈ ایج ہومز ویران ہوجائیں گے اور ہمارے گھر ان بزرگوں کی وجہ سے پھر سے آباد ہو جائیں گے۔ ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ آج ہم اپنے والدین کے ساتھ ایسا کر رہے ہیں تو کل ہماری اولاد ہمارے ساتھ بھی یہی سلوک کرے گی کیونکہ ہم نے جو بویا ہے وہی کاٹنا بھی پڑے گا۔ چنانچہ انگریزوں کی اندھی تقلید میں یہ نہ بھول جائیں کہ یہ اولڈ ایج ہومز مغرب کا بد ترین تحفہ ہے جسے ہم مشرقی قوم نے بغیر سوچے سمجھے قبول کر لیا ہے۔
شکریہ
 

NIMRAH KHAN
About the Author: NIMRAH KHAN Read More Articles by NIMRAH KHAN: 5 Articles with 6147 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.