جرمنی کے میوزیم سے چور 18 ویں صدی کے انمول زیورات اور
4000 دیگر قیمتی و نایاب اشیا لے اُڑے۔ سونے اور چاندی سے بنے زیورات میں
انتہائی مہنگا ہاتھی دانت بھی جڑا تھا۔
بظاہر چوری شدہ ان زیورات کی قیمت کروڑوں میں بتائی جارہی ہے لیکن ماہرین
کا کہنا ہے کہ ان کی تاریخی و ثقافتی اہمیت انمول ہے۔
|
|
واقعہ جرمنی کے شہر ڈریسڈن کے سرکاری میوزیم میں منگل کی صبح پیش آیا۔ چور
شاہی محل کے گرین والٹ میں بنے میوزیم کا تالا توڑ کر اندر داخل ہوئے۔
چوروں نے واردات سے قبل میوزیم کی بجلی کاٹ دی اور سیکیورٹی الارم کو
ناکارہ بنا دیا۔
اسٹریٹ لائٹس کی بندش اور بجلی معطل ہونے کے باوجود ایک کیمرہ واقعے کی
نگرانی کرتا رہا جس سے دو افراد کی نشاندہی ہوئی ہے۔
پولیس نے اس واقعے سے متعلق ایک ویڈیو بھی جاری کی ہے جس میں دکھایا گیا ہے
کہ ایک شخص نے روشنی کی غرض سے مشعل ہاتھ میں لی ہوئی ہے۔ اس نے ڈسپلے کیس
کو توڑنے کے لیے کلہاڑی استعمال کی۔
پولیس کا کہنا ہے کہ چوروں نے چند منٹ میں یہ واردات کی اور کار میں بیٹھ
کر فرار ہوگئے جن کی تلاش جاری ہے۔
پولیس اور میوزیم کے ڈائریکٹرز کا کہنا ہے کہ چوری کے اس واقعے نے سب کو
حیران کر دیا ہے۔ اُن کے مطابق چوری کے سامان میں کچھ قیمتی فن پارے بھی
شامل ہیں۔
چوری ہونے والی اشیا میں 18 ویں صدی کے سکسیونی حکمران آگسٹس دی اسٹرونگ
کے خزانے میں جمع ہیرے بھی شامل تھے۔
|
|
ڈریسڈن کے آرٹ کلیکشن کی ڈائریکٹر مارئین ایکرمین کے مطابق چوری کی اشیا
تاریخی اور ثقافتی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان کا موازنہ قیمت سے نہیں کیا
جاسکتا کیوں کہ وہ انمول ہیں۔
جرمنی کے ایک اخبار 'بلڈ' نے اپنی ایک رپورٹ میں اسے جنگ عظیم دوم کے بعد
ہونے والی ملکی تاریخ کی سب سے بڑی چوری کی واردات قرار دیا ہے۔
گرین والٹ کے ڈائریکٹر ڈریک سنڈرام نے کہا کہ زیورات ایک قسم کا عالمی ورثہ
تھے۔ گرین والٹ جرمنی کے مشہور ترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ یہ دو حصوں
پر مشتمل ہے۔ ایک حصے میں قدیم قیمتی اشیا اور دوسرے میں نئے دور کی اشیا
اور فن پارے رکھے گئے ہیں۔
اس میوزیم کے نو کمروں میں نمائشی سامان موجود ہے جس میں ہاتھی دانٹ، چاندی
کے زیورات، سبز رنگ کا نہایت قیمتی ہیرا اور دیگر اشیا شامل ہیں۔
جرمنی کی وزیرِ ثقافت مونیکا گریویٹرز کا کہنا ہے کہ عجائب گھروں اور
ثقافتی اداروں کا تحفظ ہماری اولین ترجیح ہے۔
|
Partner Content: VOA |