زندگی کا سارا حسن
’’حسنِ اختیار‘‘ کا رہین منت ہے۔
حسن کو اختیار کرنے سے جو ’’باآسانی‘‘ہاتھ آ سکتا ہے۔
اس کا سب سے حسین پہلو یہ ہے کہ فرد کی آزادی اسکی باج گزار ہے۔اس نفسی
آزادی کا باطنی حسن، سماج کے سر کا تاج ہے۔کہتے ہیں انفرادی مفاد سے
اجتماعی مفاد کو ٹھیس پہنچنے کا خطرہ ہوتا ہے۔حسنِ اختیار اس خرابی سے منزہ
ہی نہیں اجتماعی مفاد کا حامل بھی ہے جبھی تو اسے حسن سے تعبیر کیا جاتا
ہے۔
’’حسنِ اختیار ‘‘کی اصطلاح بجائے خود حسین بھی ہے اور مستحسن بھی۔
اس خوبصورت بندھن کا استقرار اس تعلق کے برقرار رہنے تک محدود ہے۔حسن اور
اختیار کے درمیان پھوٹ پڑ جائے تو ٹوٹ اس پر ٹوٹ پڑتی ہے اور یوں ٹوٹ پھوٹ
کے عمل کا آغاز ہو جاتا ہے ۔
پھر رفتہ رفتہ’’اپنے اپنے مقام پر تم نہیں یا ہم نہیں ‘‘ کی سی کیفیت پیدا
ہو جاتی ہے۔ٹوٹی چیز جڑ بھی جائے تو درمیان میں گرہ سدِراہ بن جاتی ہے۔یہ
تلخ یاد گلے کی پھانس بن جائے تو نوبت گلے شکوے سے آگے بڑھنے لگتی ہے۔
بات ہو رہی تھی حسن اور اختیار کی تو عرض ہے کہ یہ دونوں یوں ’’رل مل‘‘گئے
ہیں کہ ترتیب الٹ بھی دی جائے تو بھی مفہوم نہیں الٹتا۔۔۔الٹا اس کی معنویت
اور بڑھ جاتی ہے کہ پیار کسی پروٹوکول کو نہیں مانتا کہ یہ خودی سے عبارت
ہوتا ہے اور انا سے یکسر عاری۔حسنِ اختیار دراصل اختیارِ حسن کا دوسرا نام
ہے۔یہاں یہ بھی واضح رہے کہ ہمیں حسن پر اختیار کا نہیں حسن کو اختیار کرنے
کااختیار ملا ہے۔۔ حسن اختیار میں نہ رہے تو کراہت کی بھینٹ چڑھ جاتا ہے
جبکہ اختیار کو حسن سے الگ کر دیا جائے تو اس سے دہشت گردی اور دہشت پسندی
کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔یہ بات تو سبھی مانیں گے کہ انسان فطری طور پر
حسن کا رسیا ہے(اگرچہ حسن کے پیمانے کسے ایک کے دوسرے سے کبھی نہیں
ملتے)۔وہ ہر حسین چیز اپنی دیکھنا چاہتا ہے (ہاں مگر اصلاح دوسرے کی)۔بگاڑ
تب پیدا ہوتا ہے جب وہ بچوں کی سی ہٹ دھرمی سے کہہ اٹھتا ہے’’یا تو سب کچھ
مجھے چاہئے یا کچھ بھی نہیں‘‘۔حسن پر اختیار کی یہ ہوس کسی طور ٹھیک نہیں
کہ ’’صرف میری ہو‘‘ کی چاہ سے دوسرے کی آزادی سلب ہوتی ہے اور یہی وہ مقام
ہے کہ جہاں اختیار پر جبر کی بدصورتی کا رنگ غالب آجاتا ہے اور یہیں سے حسن
اور اختیار کی راہیں جدا جدا ہونے لگتی ہیں۔ظاہر ہے حسن کو بھی تو اپنا
اختیار عزیز ہے ۔کسی فرد کا یہ فطری حق چھن جائے تو صبر کا یارا رہتا ہے نہ
کسی پہلو قرار آتا ہے۔۔۔یہ اضطرار و اضطراب اسے بغاوت پر اکساتا ہے کہ جبر
کے مقابل صبر اسے ہرگز روا نہیں ہوتا ۔اور یوں سماج پر نقص امن وامان کا
عزاب اترتا ہے
ظلم رہے اورامن بھی ہو۔
کیا ممکن ہے تم ہی کہو۔۔
یہ امر بھی مسلمہ ہے کہ حسن کا یہ سالک بدصورتی کا خالق بھی خود ہے(جو اسے
صرف دوسروں میں دکھائی دیتی ہے)۔جبھی تو اسکی اپنی خامیاں چھپی بھی رہتی
ہیں اور وجود پر چھائی بھی ۔ ۔فرمان نبوی کی رو سے انسان پیار کے لئے ہوتے
ہیں اور چیزیں استعمال کیلئے۔اور جب یہ حسنِ ترتیب الٹتی ہے تو ایسی ابتری
پیدا ہوتی ہے کہ کچھ بھی ترتیب میں نہیں رہتا۔ رضائے الہی کی عدم تفہیم میں
یہ علمی ٹھوکر انسان کی جلد بازی کا پرتو ہے ۔دور سے یا غرور سے دیکھنے اور
صرف علم و عقل پر بھروسے کی روش اسے لے ڈوبتی ہے۔(اسے چیزوں کے علم کی نہیں
عرفان کی ضرورت تھی ،جس کے لئے فقط دل کی آنکھوں کو کام میں لانے کی اجازت
ہوتی ہے۔) یہ تخمین و زن اس سے حسنِ زن چھین لیتا ہے اور پھر بدگمانی کی
حکمرانی سماج پر اپنا تسلط جما لیتی ہے۔ اگر وہ جاننے کی بجائے ماننے کو
چراغِ گردانتا تو قدم قدم پر ٹھوکریں اس کا مقدر نہ ہوتیں۔ جانتے جانتے اور
سمجھتے سمجھاتے اس نے قبریں جا دیکھیں لیکن راز راز ہی رہا سو وہ ہمراز بن
ہی نہ پایا۔ رازداں تک رسائی ہوتی تو رہائی ملتی۔اسے جانا تھا وہ سمجھا اسے
جاننا ہے۔سو اس مقام تک پہنچ نہیں پایا جہاں اسے پہنچنا تھا۔
دائروں کے راہی تھے منزلیں کہاں ملتیں ؟
بے مراد ہیں پاؤں گردِ راہ سے اٹ کر بھی
یہ جاننا اور سمجھنا اگر ماننے پر منتج ہوتا (جو اکثر صورتوں میں نہیں
ہوتا)تو بھی بات تسلی کے دائرے میں رہتی ۔لیکن ہوا یہ کہ زیادہ سے زیادہ
جاننے اور کم سے کم ماننے کی روش راہ کی دیوار بن گئی اور یوں انسان کی
انسان سے ٹھن گئی(جبھی تو آج بشر کو بشر سے خطرہ ہے۔۔مسلسل خطرہ)۔یہیں یہ
بھید کھلا کہ ماننے والے کیوں کہہ گئے ہیں ’’علموں بس کریں او یار‘‘ ۔ایسوں
نے ہم ایسوں کے لئے علم کو ’’حجابِ اکبر ‘‘قرار دیکر کوئی خطائے اجتہادی
نہیں کی۔علمی سائنس کو عملی سائنس میں ڈھالنے کا کارنامہ صرف ہمارے بزرگوں
کا ہے ۔اس مقام پر ایک عارف اور سائنس دان ایک سے ہو جاتے ہیں (کاش ایک ہی
رہتے)دونوں عملی پہلوؤں کے قائل ہی نہیں اسکے عامل بھی ہیں ۔ایک سائنسدان
بھی تو یہی کہتا ہے کہ جب تک دیکھ نہ لوں نہیں مانوں گا ۔مسبب نہ سہی کوئی
سبب ہی دکھائی دے، کوئی معقولیت ہی نظر آ جائے ۔نادان اسے دخل در معقولات
سمجھتے ہیں۔حالانکہ جو وعدے کے خلاف نہیں کرتا اسکا وعدہ ہے کہ وہ اپنے
سالک کے لئے ’’راستے‘‘ کھول دے گا۔کوئی مائل بہ کرم دکھائی تو دے کہ اسے
نیا جہان دان کیا جاسکے ۔عارف اور سائنسدان میں فرق فقط طرزِفکر کا ہے۔جس
نے ذات کا عرفان چاہا وہ ذاتِ حق تک پہنچا۔۔جس نے شئے کا عرفان چاہا اس کی
پرواز کا آخری اسٹیشن’’ مادہ‘‘ ٹھہرا۔عارف کو ہر حرکت کے پیچھے محبوب حقیقی
نظر آیا تو سائنس دان کو مادے کی جلوہ آرائی۔۔۔ |