اُس روز دنیا صحیح معنوں میں جہانگیر خان کے نام سے آشنا
ہوئی تھی جب وہ ٹورنٹو میں کھیلی گئی ورلڈ اوپن کے فائنل میں آسٹریلیا کے
جیف ہنٹ کو شکست دے کر دنیا کے سب سے کم عمر ورلڈ چیمپین بنے تھے۔ دوسرے
لفظوں میں یہ ایک فاتح عالم کی طویل حکمرانی کا آغاز تھا۔
|
|
جہانگیر خان کے لیے ورلڈ چیمپین بننا دراصل ایک خواب کی تعبیر تھا جسے کسی
اور نے نہیں بلکہ ان کے اپنے بڑے بھائی طورسم خان نے دیکھا تھا لیکن زندگی
نے وفا نہیں کی اور جب جہانگیر خان ورلڈ چیمپین بنے تو وہ اس دنیا میں نہیں
تھے۔
اسے اتفاق کہیے کہ جس روز جہانگیر خان ورلڈ چیمپین بنے اس سے ٹھیک دو سال
پہلے یعنی 28 نومبر 1979 کو طورسم خان کا انتقال ہوا تھا۔ وہ ایڈیلیڈ میں
آسٹریلین اوپن کا میچ کھیلتے ہوئے سکواش کورٹ میں گر پڑے اور پھر بے ہوشی
میں ہی ان کا انتقال ہوگیا تھا۔
کریئر پر بھائی کا گہرا اثر
جہانگیر خان کہتے ہیں کہ ان کے کریئر پر بڑے بھائی طور سم خان کا بہت گہرا
اثر تھا۔ وہ انہی کے کہنے پر انگلینڈ میں ان کے پاس رہنے لگے تھے۔ طورسم
خان کا خیال تھا کہ وہ انگلینڈ میں تعلیم کے ساتھ ساتھ سکواش بھی بہتر طور
پر کھیل سکیں گے۔
جہانگیر خان کو یہ بات اچھی طرح یاد ہے کہ جب انہوں نے صرف پندرہ سال کی
عمر میں ورلڈ امیچر سکواش چیمپین شپ جیتی تو طورسم خان ان کے ساتھ آسٹریلیا
میں نہیں تھے لیکن ہر میچ سے قبل انگلینڈ سے فون کر کے وہ ان سے بات کرتے
تھے اور حریف کھلاڑی کے بارے میں معلومات ہونے کی وجہ سے وہ انہیں گائیڈ
کرتے تھے کہ اس کے خلاف کس طرح کھیلنا ہے۔
جہانگیر خان کا کہنا ہے کہ طورسم خان ان کے لیے سب کچھ تھے یہی وجہ ہے کہ
ان کی موت نے انھیں صدمے سے دوچار کر دیا تھا اور انھوں نے فیصلہ کر لیا
تھا کہ وہ اب دوبارہ اسکواش نہیں کھیلیں گے۔
|
|
’باپ نے کہا میں دوسرا بیٹا کھونا نہیں
چاہتا‘
طورسم خان کے انتقال کے بعد جہانگیر خان کی تربیت کی ذمہ داری ان کے چچا
زاد بھائی رحمت خان نے سنبھال لی تھی جو خود بھی پروفیشنل سکواش کھیل رہے
تھے لیکن جہانگیر خان کے لیے انہیں اپنا کریئر ختم کرنا پڑا۔
رحمت خان کا کہنا ہے کہ انہیں اچھی طرح یاد ہے جب روشن خان نے ان سے کہا
تھا کہ ایک بیٹا چلا گیا اب وہ دوسرا بیٹا کھونا نہیں چاہتے جس پر انہوں نے
روشن خان سے کہا تھا کہ یہ طورسم خان کی خواہش تھی کہ جہانگیر ورلڈ چیمپین
بنے اور ہمیں یہ خواہش پوری کرنی ہے۔
رحمت خان کا کہنا ہے کہ وہ جہانگیر خان کو ٹریننگ کے لیے اپنے ساتھ انگلینڈ
لے جانا چاہتے تھے لیکن ائیرمارشل ( ریٹائرڈ ) نور خان کا خیال تھا کہ
جہانگیر کو پاکستان میں ہی ٹریننگ کرنی چاہیے تاہم بعد میں انہوں نے انہیں
اس بات کی اجازت دے دی کہ جہانگیر خان کو وہ اپنے ساتھ لے جائیں لیکن اس
شرط پر کہ جہانگیر خان کو تین سال کے عرصے میں ورلڈ چیمپین بنانے کی ذمہ
داری قبول کریں بصورت دیگر وہ قوم کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔
|
|
برٹش اوپن سے جذباتی وابستگی
عالمی چیمپین بننے کے پانچ ماہ بعد ہی جہانگیر خان نے برٹش اوپن کا ٹائٹل
بھی پہلی بار ہدایت جہاں کو ہرا کر اپنے نام کرلیا۔ آنے والے برسوں میں یہ
برٹش اوپن صرف اور صرف جہانگیر خان کے نام سے یاد رکھی جانے لگی جنہوں نے
لگاتار دس سال یہ ٹائٹل جیت کر ایک نئی تاریخ رقم کی۔
جہانگیر خان سے قبل سب سے زیادہ آٹھ مرتبہ برٹش اوپن جیتنے کا ریکارڈ
آسٹریلیا کے جیف ہنٹ کا قائم کردہ تھا۔
جیف ہنٹ کہتے ہیں کہ انہوں نے کبھی یہ نہیں سوچا تھا کہ جہانگیر خان مسلسل
دس سال برٹش اوپن جیتیں گے یقیناً یہ ایک کارنامہ ہے۔
جہانگیر خان کا کہنا ہے کہ جب وہ جیف ہنٹ کے ریکارڈ کے قریب آرہے تھے تو
پوری قوم کی توقعات میں بھی اضافہ ہوگیا تھا اور وہ بہت زیادہ دباؤ محسوس
کررہے تھے لیکن چونکہ برٹش اوپن سے ان کی جذباتی وابستگی ہوچکی تھی اس لیے
وہ اس ٹورنامنٹ کے لیے سخت ٹریننگ کرتے تھے اور یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ آخری
چار برسوں میں انہوں نے راڈنی مارٹن اور جان شیر خان کو خود پر حاوی نہیں
ہونے دیا۔
|