قطب الاقطاب، غوث اعظم، محبوب سبحانی، محی الدین سید
عبدالقادر جیلانی قدس سرہ النورانی (پ ۴۷۰ھ، ۱۰۷۷ئ/م ۵۶۱ھ،۱۱۶۶ئ) حسنی و
حسینی سید اور مادر زاد ولی تھے۔ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ
اخبار الاخیار میں فرماتے ہیں، اﷲ تعالیٰ نے آپ کو قطبیت کبریٰ اور ولایت
عظیمہ کا مرتبہ عطا فرمایا، یہاں تک کہ تمام عالم کے فقہاء علماء طلباء اور
فقراء کی توجہ آپ کے آستانہ مبارک کی طرف ہوگئی، حکمت و دانائی کے چشمے
آپ کی زبان سے جاری ہوگئے اور عالم ملکوت سے عالم دنیاتک آپ کے کمال و
جلال کا شہرہ ہوگیا، اور اﷲ تعالیٰ نے آپ کے ذریعے علاماتِ قدرت و امارت
اور دلائل و براہین کرامت آفتابِ نصف النہار سے زیادہ واضح فرمائے اور
جودو عطا کے خزانوں کی کنجیاں اور قدرت و تصرفات کی لگامیں آپ کے قبضہ
اقتدار اور دست اختیار کے سپرد فرمائیں تمام مخلوق کے قلوب کو آپ کی عظمت
کے سامنے سرنگوں کردیا اور تمام اولیاء کو آپ کے قدم مبارک کے سائے میں دے
دیا کیونکہ آپ اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر فائز کیے گئے تھے جیسا کہ
آپ کا ارشاد ہے، ’’میرا یہ قدم تمام اولیاء کی گردنوں پر ہے‘‘۔ اعلیٰ حضرت
فاضل بریلوی قدس سرہ فرماتے ہیں ؎
واہ کیا مرتبہ اے غوث ہے بالا تیرا
اونچے اونچوں کے سروں سے قدم اعلیٰ تیرا
سربھلا کیا کوئی جانے کہ ہے کیسا تیرا
اولیاء ملتے ہیں آنکھیں وہ ہے تلوا تیرا
حضور غوث پاک علیہ رحۃی کا نام مبارک: عبدالقادر ہے
حضرت مولانا عبدالرحمان نورالدین جامی نے اپنی کتاب ’’نفخات الانس من حضرات
القدس‘‘ میں لکھا ہے:
حضرت سیّدنا عبد القادر جیلا نی ؒ ثابت النسب سیّد ہیں۔ جامع حسب ولقب ہیں۔
والد بزرگوار کی نسبت سے حسنی علوی اور والدہ محترمہ کی نسبت سے جو سیّد
عبداﷲ صومعی زاہدکی بیٹی ہیں ،حسینی سیّد ہیں۔ آپ کے والد گرامی کا اِسم
گرامی حضرت سیّدابو صالح موسیٰ جنگی دوستؒ ہے۔ حضرت غوث اعظمؒ حضرت عبد اﷲ
صومعی زاہدؒ کے نواسے ہیں۔ غوث اعظم کی والدہ محترمہ کا نام اُم الخیراُمتہ
الجبارحضرت فاطمہ ؒ ہے‘ آپ بڑی پاک طینت اور صالحہ خاتون تھیں۔ آپ نجیب
الطرفین اور شریف الجانبین ہیں۔ آپ کے اِس سلسلہ عالیہ کی اِبتداء متواتر
صحیح ثابت اور ایسی روشن ہے جیسا آفتاب عالم تاب ہوتا ہے۔ محققین اُمّت کا
اِسی پر اتفاق ہے۔ آپ کی کنیت ابو محمدؒ ہے
ولادت
آپ کی پیدائش یکم رمضان 470 ھ بمطابق 17 مارچ 1078عیسوی میں ایران کے صوبہ
کرمانشاہ کے مغربی شہر گیلان میں ہوئی، جس کو کیلان بھی کہا جاتاہے اور اسی
لئے آپ کا ایک اورنام شیخ عبدالقادر کیلانی بھی ماخوذ ہے۔
حلیہ مبارک
جسم نحیف، قد متوسط، رنگ گندمی، آواز بلند، سینہ کشادہ، ڈاڑھی لمبی چوڑی،
چہرہ خوبصورت، سر بڑا، بھنوئیں ملی ہوئی تھیں
سلسلہ
شیخ عبدالقادر جیلانی کاتعلق حضرت جنید بغدادی رضی اللہ عنہ کے روحانی
سلسلے سے ملتا ہے۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کی خدمات و افکارکی وجہ سے شیخ
عبدالقادر جیلانی کو مسلم دنیا میں غوثِ اعظم دستگیر کاخطاب دیا گیا ہے۔
اکابرینِ اسلام کی عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کے بارے پیشین گوئی
1. شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ کی ولادت سے چھ سال قبل حضرت شیخ
ابواحمد عبداللہ بن علی بن موسیٰ نے فرمایا کہ میں گواہی دیتاہوں کہ عنقریب
ایک ایسی ہستی آنے والی ہے کہ جس کا فرمان ہوگا کہ
قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله.
کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔
2. حضرت شیخ عقیل سنجی سے پوچھا گیا کہ اس زمانے کے قطب کون ہیں؟ فرمایا،
اس زمانے کا قطب مدینہ منورہ میں پوشیدہ ہے۔ سوائے اولیاء اللہ کے اْسے
کوئی نہیں جانتا۔ پھر عراق کی طرف اشارہ کر کے فرمایا کہ اس طرف سے ایک
عجمی نوجوان ظاہر ہوگا۔ وہ بغداد میں وعظ کرے گا۔ اس کی کرامتوں کو ہر خاص
و عام جان لے گا اور وہ فرمائے گا کہ قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله. میرا
قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن پر ہے۔
سالک السالکین میں ہے کہ جب سیدنا عبدالقادر جیلانی کو مرتبہء غوثیت و مقام
محبوبیت سے نوازا گیا تو ایک دن جمعہ کی نماز میں خطبہ دیتے وقت اچانک آپ
پر استغراقی کیفیت طاری ہو گئی اور اسی وقت زبانِ فیض سے یہ کلمات جاری
ہوئے: قدمی هذا علی رقبة کل ولی الله کہ میرا قدم تمام اولیاء اللہ کی گردن
پر ہے۔
منادئ غیب نے تمام عالم میں ندا کردی کہ جمیع اولیاء اللہ اطاعتِ غوثِ پاک
کریں۔ یہ سنتے ہی جملہ اولیاء اللہ جو زندہ تھے یا پردہ کر چکے تھے سب نے
گردنیں جھکا دیں۔
(تلخيص بهجة الاسرار
آپ رحمۃ اللہ علیہ کی ولادت باسعادت پر اللہ کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے بمع صحابہ کرام ، آئمہ کرام و اولیاء عظام آپ کے والد محترم کو
بشارت دی کہ
اے ابو صالح !اللہ عزوجل نے تم کو ایسا فرزند عطا فرمایا ہے جو ولی ہے
اوروہ میرا اور اللہ عزوجل کا محبوب ہے اور اس کی اولیاء اور اَقطاب میں
ویسی شان ہوگی جیسی انبیاء اور مرسلین علیہم السلام میں میری شان ہے۔
(سیرت غوث الثقلین،ص۵۵بحوالہ تفریح الخاطر)
اس کے علاوہ دیگر انبیاء کرام علیھم السلام نے بھی خواب میں آپ کے والد
محترم کو بشارت دی کہ
تمام اولیاء اللہ تمہارے فرزند ارجمند کے مطیع ہوں گے اور ان کی گردنوں پر
ان کا قدم مبارک ہوگا۔
(سیرت غوث الثقلین،ص۵۵بحوالہ تفریح الخاطر)
(اخبار الاخيار، شمائم امدادية، سفينة اوليا، قلائدالجواهرِ، نزهته الخاطر،
فتاویٰ افريقه کرامات غوثية اعلی حضرت)
جس کی منبر بنی گردن اولیاء
اس قدم کی کرامت پہ لاکھوں سلام
بوقت ولادت کرامت:
آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں ہوئی اور پہلے دن
ہی سے روزہ رکھا۔ سحری سے لے کر افطاری تک آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنی
والدہ محترمہ کا دودھ نہ پیتے تھے،
چنانچہ سیدنا غوث الثقلین شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی
والدہ ماجدہ فرماتی ہیں کہ
جب میرا فرزند ارجمند عبدالقادر پیدا ہوا تو رمضان شریف میں دن بھر دودھ نہ
پیتا تھا۔
(بہجۃالاسرارومعدن الانوار،ذکر نسبہ وصفتہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ،ص۱۷۲)
حضرت شیخ سیّدنا عبدالقادر جیلانی ؒ فرماتے ہیں کہ بچپن میں ایک دفعہ مجھے
جنگل میں جانے کا اتفاق ہوا اور میں ایک بیل کے پیچھے کھڑا ہو کر عام
کسانوں کی طرح ہل چلانے لگا‘ میری حیرانگی کی اِنتہا نہ رہی جب اُس بیل نے
مجھ سے کلام کیاکہ تم کاشتکاری کے لئے پیدا نہیں ہوئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ
نے تمہیں اِس کا حکم بھی نہیں دیا۔ فرماتے ہیں ‘میں خوف کی حالت میں گھر
آیا اور گھر کی چھت پر چڑھ گیا تو میں نے حاجیوں کو میدانِ عرفات میں
دیکھا۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کی آنکھوں کے آگے سے تمام حجابات ہٹا دئیے۔
فرماتے ہیں‘ میں اپنی والدہ کے پاس آیا اور عرض کیا کہ مجھے اِجازت دیجئے
تاکہ میں بغداد شریف جا کر علماء کرام سے علم‘ مشائخ طریقت سے طریقت کا فیض
حاصل کروں۔
ایک ماں کے لئے ایسے ہونہار‘ اِطاعت شعار اور پیدائشی ولی بیٹے کو اپنے سے
جدائی کی اجازت دینا کوئی آسان کام نہ تھا۔ مگر والدہ نے اپنے بیٹے کے
اشتیاق کو دیکھتے ہوئے بغداد شریف جانے کی اِجازت مرحمت فرمادی اور ساتھ ہی
نصیحت فرمائی کہ بیٹا ہمیشہ سچ بولنا اور الوداع فرماتے ہوئے فرمایا۔ ’’میں
تمہیں اللہ تبارک و تعالیٰ کے حوالے کرتی ہوں شاید میں تمہیں زندگی میں نہ
دیکھ سکوں‘‘۔
پرورش وتحصیلِ علم
آپ کے والد کے انتقال کے بعد ،آپ کی پرورش آپ کی والدہ اور آپ کے نانا نے
کی۔ شیخ عبدالقادر جیلانی کا شجرہء نسب والد کی طرف سے حضرت امام حسن اور
والدہ کی طرف سے حضرت امام حسین سے ملتا ہے اور یوں آپ کا شجرہء نسب حضرت
محمدصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے جا ملتا ہے۔ اٹھارہ ( 18) سال کی عمر میں
شیخ عبدالقادر جیلانی تحصیل ِ علم کے لئے بغداد (1095ء) تشریف لے گئے۔ جہاں
آپ کو فقہ کے علم میں ابوسید علی مخرمی، علم حدیث میں ابوبکر بن مظفر اور
تفسیرکے لئے ابومحمد جعفر جیسے اساتذہ میسر آئے۔
ولایت کا علم
ایک مرتبہ بعض لوگوں نے سید عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ
کو ولایت کا علم کب ہوا؟ تو آپ نے جواب دیا کہ دس برس کی عمر میں جب میں
مکتب میں پڑھنے کے لئے جاتا تو ایک غیبی آواز آیا کرتی تھی جس کو تمام اہلِ
مکتب بھی سْنا کرتے تھے کہ ’’اللہ کے ولی کے لئے جگہ کشادہ کر دو‘‘۔
ریاضت و مجاہدات
تحصیل ِ علم کے بعد شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے بغدادشہر کو
چھوڑا اور عراق کے صحراؤں اور جنگلوں میں 25 سال تک سخت عبادت و ریاضت کی۔
1127ء میں آپ نے دوبارہ بغداد میں سکونت اختیار کی اور درس و تدریس کا
سلسلہ شروع کیا۔ جلد ہی آپ کی شہرت و نیک نامی بغداد اور پھر دور دور تک
پھیل گئی۔ 40 سال تک آپ نے اسلا م کی تبلیغی سرگرمیوں میں بھرپورحصہ لیا۔
نتیجتاً ہزاروں لوگ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ اس سلسلہ تبلیغ کو مزید وسیع کرنے
کے لئے دور دراز وفود کو بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا۔ خود سیدنا شیخ
عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہ نے تبلیغِ اسلام کے لئے دور دراز کے سفر کئے
مقام غوث اعظم:
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:آپ کی مبارک ذات پورے عالم اسلام میں بڑی عقیدت و محبت
اور احترام کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ پوری دنیا میں آپ کی عظمت وشان کے
ترانے گائے جاتے ہیں اور آپ کے علم وفضل کا خطبہ پڑھا جاتا ہے۔ آپ کا مقام
اولیا کی جماعت میں بہت اونچا ہے جیسا کہ مولانا رحمت اﷲ صدیقی لکھتے ہیں
کہــ’’ خود آپ کے زمانے کے دو جلیل القدر اور عظیم المرتبت ولی حضرت سیدی
ابوالمسعود احمد بن ابوبکر حریمی اور حضرت سید ابو عمر عثمانی صریفنی قدس
سرھما فرماتے ہیں: خدا کی قسم اﷲ تعالیٰ نے نہ کوئی ولی ظاہر کیا نہ ظاہر
کرے مثل شیخ عبد القادر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے۔(اہل سنت کی آواز، مارہرہ
شریف کا غوث اعظم نمبر:ص:۱۶۰؍ ۲۰۰۷ ھ )اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام احمد
رضا قادری برکاتی قدس سرہ نے حضرت سیدنا خضر علیہ السلام کا یہ قول مبارک
نقل کیا ہے امام موصوف لکھتے ہیں کہ’’ حضرت سیدنا خضر علیہ السلام نے
فرمایا :اﷲ رب العزت نے جس ولی کو کسی مقام تک پہنچایا شیخ عبد القادر اس
سے اعلیٰ رہے اور جس مقرب کو کوئی حال عطا کیا شیخ عبد القادر اس سے بالا
رہے، اﷲ تعالیٰ کے جتنے اولیا ہوئے اور جتنے ہوں گے قیامت تک سب عبد القادر
کا ادب کرتے ہیں۔(فتاویٰ رضویہ :ج؍۱۲،ص؍۲۳۳ )کیا خوب فرمایا ہے عاشق غوث
الوری سرکار اعلیٰ حضرت نے
جو ولی قبل تھے یا بعد ہوئے یا ہوں گے
سب ادب رکھتے ہیں دل میں میرے آقا تیرا
حضور سیدنا غوث اعظم الشیخ عبدالقادر جیلانی حسنی و حسینی رحمۃ اللہ علیہ
کا ولایت و روحانیت میں مرتبہ و مقام اس قدر بلند ہے کہ آپ مرکز دائرہ
قطبیت اور محور مرتبہ غوثیت ہیں۔ آپ کو اللہ تعالیٰ نے مظہر شان نبوت اور
مصدر فیضان ولایت بنایا ہے۔ ہر سلسلہ تصوف کے مشائخ نے آپ سے روحانی فیض
حاصل کیا اور آپ کے مقام و مرتبہ کی عظمت تسلیم کی۔ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے
قطبیت اور مجددیت دونوں میں نقطہ کمال پایا۔
تمام اولیاء کرام اور اہل کشف و وجدان کا اس امر پر اتفاق ہے کہ حضور نبی
اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت میں صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم
اجمعین اور آئمہ اہل بیت کے بعد آپ کا مقام و مرتبہ مسلمہ ہے۔ گویا امت کے
اولیاء و عرفاء میں آپ کا وہی مقام و مرتبہ ہے جو سیدالمرسلین خاتم النبیین
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا انبیاء و رسل میں ہے۔
غوث اعظم درمیانِ اولیاء
چوں محمد درمیان انبیاء
یعنی
محمد کا رسولوں میں ہے جیسے مرتبہ اعلیٰ
ہے افضل اولیاء میں یونہی رتبہ غوث اعظم کا
حضور سیدنا غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ فیضان محمدیہ اور فیضان علویہ دونوں کے
امین و قسیم ہیں۔ آپ کے منہ میں سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور
حضرت علی شیر خدا رضی اللہ عنہ دونوں کے لعاب دہن ڈالنے کا واقعہ معروف ہے
جسے علامہ محمود آلوسی نے اپنی تفسیر روح المعانی میں بھی رقم کیا ہے۔
آپ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
میرے پاس عالم روحانیت میں تشریف لائے اور فرمایا: بیٹا وعظ کیا کرو اور
لوگوں کو رشد و ہدایت کا سامان مہیا کرو۔ میں نے عرض کی کہ آقا میں عجمی
ہوں میری زبان میں وہ فصاحت و بلاغت نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
نے ارشاد فرمای: بیٹا منہ کھولو میں نے منہ کھولا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ
وسلم نے سات مرتبہ لعاب مبارک میرے دہن میں ڈالا۔ لعاب دہن سے میرا سینہ
منور ہوگیا اور اسرار و رموز سے میرا سینہ گنجینہ بن گیا۔ بعد میں حضرت علی
المرتضیٰ رضی اللہ عنہ تشریف لائے۔ آپ نے فرمایا! بیٹا منہ کھولو۔ میں نے
منہ کھولا تو آپ رحمۃ اللہ علیہ نے 6 مرتبہ لعاب دہن ڈالا۔ میں نے پوچھا
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سات مرتبہ لعاب دہن ڈالا آپ نے 6
مرتبہ کم کیوں ڈالا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: سرکارِ دو عالم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ادب کی وجہ سے۔
فضائل غوث اعظم:
رضی اﷲ تعالیٰ عنہ:جس وقت آپ پیدا ہوئے اس وقت آپ کے شانۂ اقدس پر حضور سید
عالم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم کے قدم پاک کا نقش موجود تھا جو آپ کی افضلیت
و کاملیت کی روشن دلیل ہے۔ آپ کے والدین کریمین کو خدا ئے پاک نے خواب میں
بشارت دی کہ جو بچہ تمہارے گھر میں پیدا ہو ا ہے وہ بڑی شان و شوکت کا مالک
ہے وہ اولیا کا سردار ہوگا اور اس سے بغض وعناد رکھنے والا گمراہ وبد دین
ہوگا۔ جس رات میں آپ کی ولادت ہوئی اس رات شہر گیلان میں گیارہ سو لڑکے
پیدا ہوئے ایک بھی لڑکی پیدا نہ ہوئی اور آپ کی برکت سے سب کو ولایت کی
اعلیٰ منزلوں پر فائز کردیا گیا۔ ولادت کے وقت ذکر الٰہی سے آپ کے لبہائے
مبارک جنبش میں تھے۔ ولادت کے وقت آپ کا چہرۂ مبارک اس قدر روشن وتابندہ
تھا کہ جو بھی عورت آپ کو دیکھتی تو دیکھتی ہی رہ جاتی۔(اہل سنت کی آواز
مارہرہ شریف کا غوث اعظم نمبر:ص؍۱۶۲؍۱۶۳)
دریاؤں پر آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کی حکومت : ایک دفعہ دریائے دجلہ میں
زور دار سیلاب آگیا، دریا کی طغیانی کی شدت کی وجہ سے لوگ ہراساں اور
پریشان ہوگئے اور حضرت سیدنا شیخ عبدالقادر جیلانی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ
کی خدمت میں حاضر ہوئے اورآپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے مدد طلب کرنے لگے
حضرت نے اپنا عصاء مبارک پکڑا اور دریا کی طرف چل پڑے اور دریا کے کنارے پر
پہنچ کر آپ نے عصاء مبارک کو دریا کی اصلی حد پر نصب کر دیا اور دریا کو
فرمایا کہ ’’بس یہیں تک۔‘‘ آپ کا فرمانا ہی تھا کہ اسی وقت پانی کم ہونا
شروع ہوگیا اور آپ کے عصاء مبارک تک آگیا۔‘‘(بهجة الاسرار، ذکر فصول من
کلامه مرصعابشی من عجائب، ص۱۵۳)
حضور غوث الاعظم، آئمہ محدثین و فقہاء کی نظر میں
حضور غوث الاعظم رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ کا ایک عظیم اظہار ’’علم‘‘
کے باب میں بھی ہمیں نظر آتا ہے۔ عِلمِ شریعت کے باب میں ان سے متعلقہ بہت
سے اقوال صوفیاء و اولیاء کی کتابوں میں ہیں اور ہم لوگ بیان کرتے رہتے ہیں
مگر اس موقع پر میں سیدنا غوث الاعظم ص کا مقامِ علم صرف آئمہ محدثین اور
فقہاء کی زبان سے بیان کروں گا کہ آئمہ علم حدیث و فقہ نے ان کے بارے کیا
فرمایا ہے، تاکہ کوئی رد نہ کر سکے۔ اس سے یہ امر واضح ہوجائے گا کہ کیا
صرف عقیدت مندوں نے ہی آپ کا یہ مقام بنا رکھا ہے یا جلیل القدر آئمہ علم،
آئمہ تفسیر، آئمہ حدیث نے بھی ان کے حوالے سے یہ سب بیان کیا ہے؟
یہ بات ذہن نشین رہے کہ حضور غوث الاعظم ص نہ صرف ولایت میں غوث الاعظم تھے
بلکہ آپ علم میں بھی غوث الاعظم تھے۔ اگر آپ کے علمی مقام کے پیش نظر آپ کو
لقب دینا چاہیں تو آپ امام اکبر تھے۔ آپ جلیل القدر مفسر اور امامِ فقہ بھی
تھے۔ اپنے دور کے جلیل القدر آئمہ آپ کے تلامذہ تھے جنہوں نے آپ سے علم
الحدیث، علم التفسیر، علم العقیدہ، علم الفقہ، تصوف، معرفت، فنی علوم،
فتویٰ اور دیگر علوم پڑھے۔ حضور غوث الاعظم ص ہر روز اپنے درس میں تیرہ
علوم کا درس دیتے تھے اور 90 سال کی عمر تک یعنی زندگی کے آخری لمحہ تک
طلبہ کو پڑھاتے رہے۔ قرآن مجید کی مذکورہ آیتِ مبارکہ (الکہف:18) میں بیان
کردہ علم لدنی کا اظہار آپ کی ذات مبارکہ میں بدرجہ اتم نظر آتا ہے۔ بغداد
میں موجود آپ کا دارالعلوم حضرت شیخ حماد کا قائم کردہ تھا، جو انہوں نے آپ
کو منتقل کیا۔ آپ کے مدرسہ میں سے ہر سال 3000 طلبہ جید عالم اور محدث بن
کر فارغ التحصیل ہوتے تھے۔ میں آج آپ کے متعلقہ وہ باتیں اور میادین بیان
کروں گا جو آپ نے پہلے نہیں سنے اور جو بیان بھی نہیں کئے جاتے۔
حضور سیّدنا غوث اعظمؒ کے صاحبزادے سیّد عبد الوہاب ؒ فرماتے ہیں کہ آپ نے
۸۲۵ھ سے ۱۶۵ تک(تینتیس سال) درس وتدریس اور فتاویٰ نویسی کے فرائض
سرانجام دئیے۔ آپ کی مجلس مبارکہ میں باوجودیکہ ہجوم بہت زیادہ ہوتا تھا
لیکن آپ کی آواز مبارک جتنی نزدیک والوں کو سنائی دیتی تھی اتنی ہی دور
والوں کو سنائی دیتی تھی اور آپ اہل مجلس کے خطرات قلبی کے موافق کلام
فرماتے تھے۔
قول وفعل میں مطابقت:
حضرت احمد بن صالح بن شافعیؒ فرماتے ہیں ‘ میں مدرسہ نظامیہ میں حضرت شیخ
عبدالقادر جیلانی ؒ کی مجلس میں بیٹھا تھا۔ اِس مجلس میں وقت کے اکثر علماء
و فقہا موجود تھے اور آپ کاموضوع گفتگو قضا و قدر تھا۔ اتنے میں ایک بہت
بڑا سانپ چھت سے آپ کی گود میں آ گرااور پھر سینہ سے نکل کر گلے کے گرد
لپٹ گیا۔ اِس واقعہ کے باوجود نہ تو آپ اپنی جگہ سے ہلے اور نہ ہی سلسلہ
کلام منقطع کیا۔ چند لمحوں کے بعد سانپ اُترا اور زمین پرآپ کے سامنے کھڑا
ہو کر کچھ کہنے لگا جسے ہم نہ سمجھ سکے اور پھر وہ چلا گیا۔ لوگ واپس آگئے
اور آپ کی خیریت پوچھی اور معلوم کرنا چاہا کہ اِس سانپ نے آپ سے کیا
کہا۔ آپ نے فرمایا‘ وہ کہتا تھا کہ میں نے اپنی لمبی زندگی میں بہت سے
اولیاء اللہ کو دیکھا ہے مگر آپ جیسا ثابت قدم نہیں دیکھا۔
روایت میں آیا ہے کہ حضرت غوث اعظم ؒ بہت زیادہ رویا کرتے تھے۔ اور اللہ
تبارک وتعالیٰ کا خوف دِل میں رکھتے تھے اور مستجاب الدعاء تھے اور سخاوت
کرنے میں مشہور تھے۔ اچھے اخلا ق کے مالک اور بہترین خوشبو استعمال کرتے
تھے۔ اگر کوئی آپ کے جسم پر پہنے ہوئے لباس کا سوال کرتا تو اُتار کر اُسے
عطا فرما دیتے تھے۔ آپ حاکموں کے پیسے کی طرف تکتے نہیں تھے۔
سیدناغوثِ پاک رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرنے میں
بڑے دریا دل تھے، اگر کسی ضرورت مند کو دیکھتے تو جو کچھ میسر آتا اسے
عنایت کر دیتے۔
ایک مرتبہ سیدنا غوثِ اعظم کی نظر ایک پریشان حال، کبیدہ خاطر فقیر کے اوپر
پڑی، ایک انسان کو اس عالم میں دیکھ کر آپ کا دل تڑپ اٹھا اور بلا تاخیر
دریافت کیا تمہارا کیا حال ہے؟ اظہارِ مجبوری کے ساتھ فقیر نے جواب دیا
مجھے دریا کے اس پار جانے کی حاجت ہے لیکن پیسہ نہ ہونے کے سبب بسیار عاجزی
کے باوجود ملاح نے اپنی کشتی میں بٹھانے سے انکار کر دیا جس سے میرا دل ٹوٹ
گیا ہے۔
اگر میرے پاس ہوتا تو آج یہ محرومی مجھے کیوں کر ہوتی حسنِ اتفاق سے
سیدناغوثِ پاک کے پاس بھی کچھ نہ تھا مگر اس کی پریشانی آپ کو برداشت نہ
ہو سکی اور خدائے قادر کی بارگاہ میں دست بدعا ہوئے، معاً ایک شخص اشرفیوں
کی ایک تھیلی آپ کی خدمت میں پیش کی، آپ بہت خوش ہوئے اور فوراً فقیر کو
بلا کر فرمایا لو یہ تھیلی لے جائو، ملاح کو دے دو اور کہہ دینا کہ اب کبھی
بھی کسی فقیر اور نادار کو کشتی میں بٹھانے سے انکار نہ کرنا۔
(بہجۃ الاسرار)
سیدناغوثِ پاک کے پاس جس وقت کوئی شخص سونا لاتا تو آپ اسے ہاتھ نہ لگاتے
اور لانے والے سے فرماتے کہ اسے مصلے کے نیچے رکھ دو۔ جب خادم آتا اسے حکم
دیتے کہ مصلے کے نیچے جو کچھ پڑا ہے اسے اٹھا لو اور طباخ و سبزی فروش کو
دے دو۔
(بہجۃ الاسرار)
سیدناغوثِ پاک کا رویہ بڑا ہمدردانہ اور مشفقانہ تھا، مجلس میں آنے والوں
کے لئے ہر وقت ہمدردی کا اظہار فرماتے، اگر کوئی ملنے والا چند روز نہ آئے
تو دوسرے سے اس کی خیر و عافیت دریافت فرماتے اور بعض اوقات یوں بھی کرتے
کہ خادم سے کہتے کہ جا کر معلوم کرو کہ فلاں شخص کہیں کوئی پریشانی میں تو
مبتلا نہیں ہو گیا؟ طبیعت تو نہیں خراب ہو گئی ہے؟ جب تک اس کی خیریت نہ
معلوم کر لیتے مطمئن نہ ہوتے، اگر وہ شخص بیمار ہوتا اور اس کی علالت کی
خبر آپ کو ملتی تو اس کی عیادت کے لئے تشریف لے جاتے اور اس کے بہت قریب
جا کر بیٹھتے دیر تک اطمینان و تسلی بخش باتیں کرتے اور ہمدردی کا اظہار
فرماتے تھے، احباب میں سے ایک شخص بغداد مقدس سے کافی فاصلے پر ایک گائوں
میں رہتے تھے، ایک مرتبہ بیمار پڑ گئے، آپ کو ان کی علالت کی خبر ملی تو
آپ سفر کی تمام دشواریاں برداشت کر کے اس گائوں میں ان کی عیادت فرمانے
تشریف لے گئے۔
(بہجۃ الاسرار)
الغرض! حضور غوث الثقلین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی مقدس زندگی خلقِ خدا کی
مدد، پریشان و مجبور لوگوں کے تعاون اور ان کی فریاد رسی کے سلسلے میں
ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔
آپ کاوصال 11 ربیع الثانی 561 ہجری بمطابق فروری 1166 ء میں ہوا اور آپ کا
مزار اقدس بغداد شریف میں ہے جہاں روزانہ لاکھوں عقیدت مند سلام عقیدت پیش
کرتے ہیں اللہ پاک ہمیں غوث اعظم کے نقش قدم پر چلنے اور ان کی تعلیمات سے
مستفید ہوکر دین دنیا اور آخرت بہتر کرنے کی توفیق عطا فرمائے-
|