یہ بات ہرشخص جانتاہے کہ میرے حقوق کیاہیں۔ ساراجھگڑاحقوق
کاہے۔ ایک عام آدمی سے لیکرحکمران وقت تک ہرشخص اپنے حقوق کے لئے لڑرہاہے۔
عدالتوں میں مقدمات کی بھرمارصرف اس لئے ہے کہ ہرشخص اپناحق مانگتاہے ۔کیاکبھی
ہم نے سوچاہے کہ ہمارے ملک نے ہمیں کیادیاہے۔ کیاکبھی ہم نے کبھی اپنے
گریبان میں جھانک کر اﷲ تعالیٰ کی ان نعمتوں کاشمارکیاہے،جس سے ہم مالامال
ہیں۔ کیاکبھی ہم نے وطن عزیز کی شکل میں ایک بیش بہاعطیہ خداوندی کاشکریہ
اداکیاہے۔ نہیں ، ہرگزنہیں ، کیونکہ ہمیں فرصت ہی نہیں ہے، اپنے حقوق کے
راگ الاپنے کے سوا۔ہم نے کبھی یہ بھی نہیں سوچاہے کہ پاکستان نے ہمیں
کیادیاہے۔ ہم آزادی کی نعمت سے ناواقف ہیں ۔ اگر ہم ذرادیرکے لئے دنیاکی ان
اقوام کی حالت زارپر سوچے، جن پر عرصہ درازسے زندگی تنگ کردی گئی ہے۔
کشمیرمیں کیاہورہاہے، کیونکہ کشمیری قوم آزادنہیں ہے۔ افغانستان میں گذشتہ
کئی دہائیوں سے کیاصورتحال ہے۔ شام اورعراق کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔
میانمار میں روہنگیاقوم کے ساتھ کیاسلوک کیاجاتاہے ۔ یہ سب کچھ ہماری دیدہ
عبرت کو کھولنے کے لئے کیاناکافی ہیں۔اسکے باوجود ہم اﷲ تعالیٰ کے اس نعمت
عظمیٰ کو پس پشت ڈال کر، صرف اورصرف اپنے حقوق کے لئے اپنوں اورغیروں سے
برسرپیکارہیں۔ ہمارے سفلہ پن کی انتہاہے کہ ہم اس سلسلے میں وطن عزیزسے بھی
نالاں ہیں اورکبھی کبھی نعوذبﷲ ہم اﷲ تعالیٰ سے لڑائی بھی مول لیتے ہیں
اورشکوہ وشکایات کے دفترکھول دیتے ہیں ۔ اﷲ تعالیٰ کابہت بڑااحسان ہے کہ
ہمیں پاکستان کی شکل میں ایک آزادوطن سے نوازاگیاہے۔ پاکستان نے ہمیں بہت
کچھ دیاہے۔ سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اس ملک نے ہمیں شناخت دی ہے۔ہم دنیاکے
کسی بھی کونے میں سراٹھاکرفخرکے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ ہم پاکستانی ہیں۔ اس
پاکستان نے ہمیں پوری مذہبی آزادی دی ہے ، جہاں نے ہم مکمل طورپر اسلام کے
مطابق زندگی گزارسکتے ہیں ۔ پاکستان نے ہماری زرعی ضرورتوں کوپوراکرنے کے
لئے ایسی زرخیزدھرتی دی ، جہاں ہرقسم کے پھل، پھول ، سبزیاں اورفصلیں
پیداہوتی ہیں۔ اس ملک کے اندرہمیں دینی اوردنیوی علوم کے اچھے اچھے مواقع
ہاتھ آئے۔اس ملک کی آب وہواانسانی صحت کے لئے انتہائی موزوں ہے۔ یہاں صحت
بخش پانی کے چشمے اوردریابہتے ہیں۔یہاں چارموسم آتے ہیں، جن کااپنااپنامزہ
ہے اوربے شمارزرعی فائدے ہیں۔ اس ملک نے ہمیں دنیاکی سامراجی طاقتوں سے
تحفظ دیا۔ہمیں یہاں اظہاررائے کی آزادی ملی اورہمیں ترقی کے سفرمیں ٓآگے
بڑھنے کے پورے وسائل دئے ہیں۔ لیکن بدلے میں ہم نے اس ملک کو کیادیا۔کچھ
بھی نہیں۔ بقول شاعر
خاطرسے یالحاظ سے میں مان توگیا
الٹی شکایتیں ہوئیں احسان توگیا۔
آئے روزوطن عزیز کاچہراداغدارکرنے والے ہم خودہی توہیں۔غیروں میں وطن
عزیزکانام روشن کرنے کے لئے ہم نے کیاکیاہے۔ کیاہم نے اس ملک کو
سرسبزوشاداب بنانے کے لئے اپنے حصے کاایک درخت لگایاہے۔کیاہم نے اس ملک کو
صاف ستھربنانے کے لئے کوئی اقدام کیاہے ، کم ازکم اپنے محلے اورگلی کواس
نیت سے صاف کیاہے کہ یہی ہماراپیاراملک ہے۔ہم میں ہرشخص کی بہت ساری ذمہ
داریاں ہیں، اب سوچنے کی بات ہے کہ اس ملک کے اندرجوفرائض منصبی ہمیں تفویض
کئے گئے ہیں، کیااسکوہم نے پوری دیانت داری سے نبھایاہے۔ کیاہم نے کبھی
اپنے فرائض منصبی کے دورانیہ سے دس منٹ زیادہ کام کیاہے، تاکہ ہماراملک
تعمیروترقی کی راہ پرگامزن ہو۔ ان تمام سوالات کے جوابات ہمیں نفی میں ملیں
گے، کیونکہ ہمیں صرف اپنے حقوق کی فکرہوتی ہے ، اپنے فرائض کی نہیں۔ ہم صرف
مانگنے والوں میں سے ہیں ، دینے والوں میں نہیں۔یہی وجہ ہے کہ ہم نے لیتے
لیتے وطن عزیز کاوہ حال کردیاہے، کہ آج ہم کشکول لئے غیروں کے در پر کھڑے
ہیں ۔ ہمارے وسائل ہمارے لئے ناکافی ہورہے ہیں۔ ہم اپنی ہی سڑکیں بند کرتے
ہیں۔ اپنے ہی ملک کے وسائل کو آگ لگاکر حکومت کے خلاف احتجاج کرتے ہیں۔
سیاسی لیڈران کے پیچھے بھاگتے بھاگتے ، انکے لئے اپنے ملک کو تباہ کرنے سے
دریغ نہیں کرتے ۔ ملک کے ہرادارے کے اندربدعنوانی کابازارہم نے گرم
کررکھاہے ۔ اقرباپروری، وطن دشمنی، قتل وغارت، چوری ڈاکے، فرقہ وارانہ
فسادات اورایک دوسرے پر کفرکے فتوے لگاتے ہیں۔ کیایہی حب الوطنی ہے
اورہمارایہی طرزعمل ہمارے ملک کو آگے لے جائے گا۔ کبھی نہیں بلکہ اگرہمار
اطرزعمل نہ بدلا، توہم تاریخ کے چوراہے پر نشان عبرت بنیں گے۔ ابھی وقت ہے
کہ ہم سب اپنے حقوق کے ساتھ ساتھ اپنے فرائض کی تکمیل کے لئے کوشاں رہیں
اوراس عظیم ملک نے جوکچھ ہمیں دیاہے، اسکے بل بوتے پر اتفاق ، اتحاد اورنظم
سے اس ملک کو وہ سب کچھ دیں، جس کی اس ملک کوضرورت ہے۔
|