وہ تنگ آچکی تھی، آج پھر ہر روز کی طرح چند آوارہ لڑکے اس
کا پیچھا کرتے کرتے اس کے گھر تک آ چکے تھے۔ تمام راستے اس نے ان لڑکوں کے
نازیبا الفاظ کا سامنا کیا تھا، مگر رستہ میں کسی نے بھی ان آوارہ لڑکوں کو
روکا نہیں تھا یا روکنے کی کوشش بھی نہ کی تھی۔ وہ آج گھر پہنچتے ہی اپنی
والدہ کے سامنے روپڑی اور بولنے لگی امی جان میں کل سے کالج نہیں جاؤں گی۔
اس کی والدہ نے تسلی دیتے ہوئے پوچھا کیوں بیٹا ایسی کیا بات ہوئی ہے جو تم
کل سے کالج نہیں جاؤں گی؟ وہ روتے جا رہی تھی اور روتے روتے بولی امی جان
وہ لڑکے روز میرا پیچھا کرتے ہیں۔ طرح طرح کے نازیبا الفاظ بولتے ہیں، مجھے
چھیڑتے ہیں۔ کسی خالی جگہ سے گزر ہو تو اور نہایت گھٹیا الفاظ استعمال کرتے
ہیں۔ والدہ کی پریشانی بھی بڑھی کہ بیچاری اکیلی لڑکی ہے کہیں وہ آوارہ
لڑکے اسے کوئی نقصان نہ پہنچا دیں۔ مارے پریشانی کے والدہ ساری رات نہ سو
سکیں۔ لڑکی کے والد کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوچکا تھا، اور باقی بہن بھائی
بھی ابھی چھوٹے تھے اس بنا پر کوئی ایسا سہارا نہیں تھا جو ان کی دادرسی
کرتا۔ اگلی صبح بیٹی نے جب کالج کی تیاری نہ کی تو والدہ نے خود ساتھ جانے
کا فیصلہ کیا اور وہ بولی بیٹی آج سے میں خود تمہیں چھوڑنے جایا کروں گی۔
عمر کے اس بڑے حصے کے باوجود ماں کی مامتا نے یہ فیصلہ مناسب سمجھا اور
بیٹی کو کالج چھوڑ آئیں۔ کالج سے چھٹی کے وقت بھی خود ہی اپنی بیٹی کو لینے
گئیں۔ واپسی پر دوبارہ وہ آوارہ لڑکے وہاں پر لڑکی کو تنگ کرنے کے لئے
موجود تھے، انہوں نے لڑکی کی والدہ کو دیکھ کر بھی کوئی پروا یا شرم نہ کی۔
والدہ نے انہیں آواز دے کر سمجھانے کی کوشش کی مگر انہوں نے ایک نہ سنی اور
اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے۔ باقی اردگرد کے لوگ بھی تماشا دیکھتے رہے اور
کسی نے بھی ان آوارہ لڑکوں کو نہ روکا۔ والدہ نے کچھ محلے داروں سے بات
کرکے معاملے کے حل کی کوشش کی مگر لوگوں نے سوائے تسلی دینے کے کچھ نہ کیا۔
یہ تو ایک معاملہ ہے جو کسی چھوٹے سے شہر میں اور اس چھوٹے شہر کے کسی
چھوٹے موٹے کالج کی ایک طالبہ کے ساتھ پیش آیا اور آرہا ہے۔ مگر اور پتہ
نہیں کتنے بے شمار ایسے واقعات ہیں جو اس بے حس اور بے جان معاشرے میں
روزانہ کی بنیاد پر پیش آرہے ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی لوگ اس وقت پریشانی کی
اس گھٹیا دلدل میں موجود ہیں، نہ جانے کتنی طالبات اور طلباء اس معاشرے کی
بے حسی کا شکار ہیں اور وہ سب لوگ چاہ کر بھی کچھ نہیں کر پا رہے ہیں۔ اور
کوئی ان کی دادرسی کے لیے یا ان کی مدد کے لیے بھی موجود نہیں ہے۔
اس معاشرے سے احساس ذمہ داری ختم ہوتی جارہی ہے، ہم سب لوگ ہر روز اپنے
اردگرد کتنے ہی ایسے واقعات رونما ہوتے دیکھتے ہیں جس میں کچھ نہ کچھ غلط
ہو رہا ہوتا ہے۔ مگر ہم اسے دیکھ کر یا تو آنکھیں چرا لیتے ہیں یا اپنا
رستہ ہی بدل لیتے ہیں کہ کہیں ہمیں کچھ کرنا ہی نہ پڑ جائے۔ ہم کسی مظلوم
کی یا کسی بے آسرا کی مدد کرنا ہی نہیں چاہتے ہیں۔ ہم سب اسی سوچ میں پڑے
ہیں کہ اگر کسی غلط کو اس کی غلط کاری پر روکا تو کہیں وہ ہمارے ساتھ ہی
غلط نہ کرنے لگ جائے، اس واسطے ہم اس سے نہ ہی الجھیں تو ہمارے لیے بہتر
ہے۔ ہم اپنے نفس کو، اپنی جان کو اور اپنے آپ کو ہر آفت سے بچانا چاہتے
ہیں۔ مگر کسی بھی آفت ذدہ یا مصیبت میں گھرے ہوئے انسان کی مدد نہیں کرنا
چاہتے ہیں۔ حالانکہ یہ ہمارا اولین فریضہ ہے کہ اپنے پریشان بھائی کی یا
کسی عزیز کی مدد کریں، اس کی پریشانی میں اس کے ساتھ کھڑے ہوں، ہر مشکل میں
ان کا سہارا بننے کی کوشش کریں۔ مگر ہم یہ سب نہیں کرنا چاہتے، کیونکہ
ہمارے اندر سے احساس نام کی چیز بالکل ختم ہو چکی ہے۔
ہم کسی کی خوشی یا غمی میں شرکت کرتے ہیں تو یقین مانیے اکثریت لوگ اسی
خیال سے شریک ہوتے ہیں کہ کوئی بات نہ کر دے کہ فلاں نہیں آیا تھا۔ ورنہ
کسی کی بھی خوشی میں ہم خوش نہیں ہوتے یا کسی کی بھی پریشانی میں ہم غم زدہ
نہیں ہوتے یا ہمیں ان کی موجودہ کیفیت سے کوئی سروکار ہی نہیں ہوتا ہے۔ ہم
تو بس اپنے نفس پر اور اپنی ذات پر کوئی حرف آنے سے بچنے کے لیے کسی کی
خوشی یا غمی میں شریک ہو جاتے ہیں، ورنہ ہمارا دور دور تک احساس سے کوئی
تعلق نہیں ہے۔ اور پھر جب کوئی مصیبت یا پریشانی خود پر آن پڑتی ہے تو ہم
یہ چاہتے ہیں کہ سب اس پریشانی اور دکھ کے عالم میں ہمارے ساتھ کھڑے ہوں،
ہمارا سہارا بنیں۔ اور ہم مل کر اس مصیبت کا سامنا کریں، لیکن یہ تب خود کے
ساتھ بھی ممکن نہیں ہوتا ہے۔ کیونکہ جس طرح ہم بے حس ہیں اسی طرح باقی
معاشرہ بھی بے حسی کا ہی شکار ہے۔
ہم اپنے سامنے کسی بھی غیر اخلاقی یا غیر قانونی عمل کو دیکھ کر ایسے بن
جاتے ہیں جیسے کوئی تراشا ہوا بت ہوتا ہے، جو کچھ نہ دیکھ سکتا ہے اور نہ
سمجھ سکتا ہے۔ اس کے اردگرد جو مرضی ہوتا رہے مگر اسے کچھ پرواہ نہیں ہوتی۔
اور ایسا بے حس معاشرہ کسی بھی طرح پر امن اور پائیدار نہیں رہ سکتا۔ اس
معاشرے میں پھر بڑی بڑی برائیاں جنم لیتی ہیں، لاقانونیت کا بازار گرم ہوتا
ہے اور جس کے جی میں جو آئے کرتا ہے۔ یوں یہ معاشرہ تباہی کی جانب بڑھنے
لگتا ہے، اور اس بات کی تاریخ گواہ ہے کہ کوئی بھی معاشرہ بنا احساس کے
قائم نہیں رہا اور نہ ہی رہ سکتا ہے۔
|