|
انتہائی خاص قسم کے کاغذ پر لکھا گیا تھا۔
یہ وہی کاغذ تھا جسے 1590 کے ٹیوڈر دربار میں ’خاص درجہ‘ حاصل تھا۔
اور اس خاص کاغذ پر لکھی گئی تحریریں ایک ایسی کتاب کا ترجمہ تھیں جس میں
ٹیسیٹس نے شہنشاہیت کے فوائد کے بارے میں لکھا تھا۔
ملکہ الزبتھ اول کے ہاتھ سے لکھا گیا یہ مسودہ تقریباً ایک صدی بعد دریافت
ہوا ہے۔ یہ چونکا دینے والا انکشاف ڈاکٹر جان مارک فیلو نے لندن کی لیمبیتھ
پیلس لائبریری میں کیا۔
ان تحریروں کی مصنفہ ملکہ الزبتھ اول ہی ہیں، یہ ثابت کرنے کے لیے ڈاکٹر
فیلو نے ایک جاسوس کا روپ دھار لیا اور سراغوں کی کڑیوں سے کڑیاں جوڑتے چلے
گئے۔
|
|
ملکہ کی بدخطی
ڈاکٹر فیلو کہ مطابق ’ٹیوڈر دربار میں صرف ایک ہی ایسا مترجم تھا جن کے
بارے میں یہ معلوم ہے کہ انھوں نے ٹیسیٹس کا کوئی ترجمہ کیا تھا اور وہی
شخصیت ترجمہ قلم بند کرنے یا ذاتی خط و کتابت میں اُس خاص کاغذ کو استعمال
کرتی تھیں۔۔۔ اور وہ ملکہ خود تھیں۔‘
تین خاص نشانات: سکاٹ لینڈ کے کوٹ آف آرمز پر موجود غصیلا شیر (ریمپنٹ لائن)
اور تیر کمان کے ساتھ برطانیہ کا مخفف۔۔۔ الزبتھ اول کی ذاتی خط و کتابت
میں یہ سب نشانیاں ملتیں ہیں۔
اس بارے میں سب سے مستحکم دلیل ان کی لکھائی ہے۔ اگرچہ ترجمہ ملکہ کے ایک
سیکرٹری نے نقل کیا تھا لیکن اس میں اضافے اور تصحیح ملکہ کی مخصوص بدخطی
میں نظر آتی ہے۔
ڈاکٹر فیلو کے مطابق ’ترجمے میں کی گئی تصحیح الزبتھ کی لکھائی سے ملتی ہے
جس سے ان کا مزاج جھلکتا ہے۔‘
’ٹیوڈر دور کے معاشرے میں آپ کا مقام جتنا اعلیٰ ہو گا، آپ کی لکھائی اتنی
ہی بُری ہو گی۔ ملکہ کے نزدیک اسے سمجھنا دوسروں کا دردِ سر تھا۔‘
یہ ترجمہ ٹیسیٹس کی لکھی ہوئی قدیم روم کی تاریخ کا ایک اقتباس ہے جو
شہنشاہ آگسٹس کی موت سے لے کر ٹائبیریئس کے عروج اور تمام اختیارات کے ایک
ہی شخصیت میں منتقل کرنے سے متعلق ہے۔
ڈاکٹر فیلو کے مطابق ملکہ شاید طرزِ حکمرانی سے متعلق رہنمائی کے لیے اس کا
مطالعہ کر رہی تھیں۔
وہ کہتے ہیں’ ٹیسیٹس کو ہمیشہ سے ہی تخریبی مورخ سمجھا جاتا رہا ہے اور بعد
میں چارلس اول کے دور میں انھیں بادشاہت مخالف بھی قرار دیا گیا تھا۔‘
اس انکشاف سے سوال سے اٹھتا ہے کہ الزبتھ کو آخر ان میں دلچسپی کیوں ہوگی؟
کیا وہ اسے طرزِ حکمرانی کے متعلق رہنمائی کے لیے انھیں پڑھ رہیں تھیں یا
خراب حکمرانی کی مثالوں سے بچنے کے لیے؟
یا شاید ترجمہ کرنا ملکہ کے مشاغل میں شامل تھا؟ ان کے بارے میں مشہور ہے
کہ وہ کلاسیکی تاریخ سے کافی لطف اندوز ہوتی تھیں۔
یہ مسودہ 17ویں صدی سے لیمبیتھ میں ہی موجود تھا لیکن اس کے مصنف کی شناخت
پہلی بار ہوئی ہے۔
|