بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
مہنگائی مہنگائی کا شور ہر کوئی کرتا ہے مگر اس کے پیچھے موجود عوامل کو
بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ ناخواندگی اور تعلیم کی کمی اس بات کا سب سے بڑا سبب
ہے کہ یہ مختلف پریشانیوں کے باعث بھی بنتی ہے اور مہنگائی کے ساتھ ساتھ
پریشانیوں کی پیدائش کی وجوہات اور پھر اس کے حل سے بھی قاصر کردیتی ہے۔
پیسے کی قدر گرنے کی روزآنہ باتیں کی جاتی ہیں مگر کیا عام شہری جانتا ہے
کہ پیسے کی قدر کیوں گرتی ہے اور مہنگائی کیوں ہوتی ہے۔ اشیائے صرف کی
قیمتیں کیوں بڑھ جاتی ہیں اور اس چیز میں عام شہری کا کیا قصور ہوسکتا ہے۔
عام شہری ہر پریشانی کا منبع حکومت اور حکومتی مشنری کو قرار دیتا ہے اور
حکومت کو ہی قصور وار قرار دیتا ہے۔ مگر ہر دفعہ ایسا نہیں ہوتا۔
ہمارا مذہب بھی اور تجربہ کار بزرگان بھی اس بات کی تاکید کرتے رہتے ہیں کہ
محنت کرو، محنت میں عظمت ہے، جو بوؤ گے وہی کاٹو گے وغیرہ وغیرہ۔ نئی نسل
کاہل ہے، کام نہیں کرتی، آسان پیسہ (easy money) کے پیچھے بھاگتے ہیں اور
ایک رات میں کروڑ پتی بننے کے خواب دیکھتے ہیں۔ آسان کام تلاش کرتے ہیں اور
اکثر تو کام کے بجائے دوسروں کی امداد اور اعانت کو بہتر سمجھتے ہیں اور
کام کرنے کے روادار نہیں ہوتے۔ روزی و رزق کی تلاش کیلئے ہمارے مذہب نے بھی
بے انتہا تاکید کی ہے اور محنت و جدوجہد کرنے والوں کو بعض مقامات پر جہاد
کے میدانوں سے زیادہ با فضیلت قرار دیا گیا ہے۔
جدید معاشی انتظامات اور نظاموں نے فلسفی اور فکری رویوں کے مقابلے میں ایک
ایسا مشترک نظام بھی دیا ہے جو نہ صرف سرمایہ داری نظام یا سوشلسٹ نظام سے
مخلوط معیشت سے خصوصی میل نہیں کھاتا اور اگر اسلامی حکومت ہو تو ان نظاموں
کی بہت سی جدید روشوں اور طریقوں کو اپنالیا جائے۔ سوائے ان چند معاشی اور
اقتصادی شعبوں کے جہاں انسانی استحصال کی واضح مثالیں موجود ہیں، جدید
معاشی نظام انسان کی معاشی زندگی کی ارتقائی شکل ہے۔کاغذی کرنسی میں موجود
مفاسد سے قطع نظر اس کے فائدے بھی ہیں۔
مہنگائی کی ایک وجہ عوام کا محنت نہ کرنا اور کام کاج نہ کرنا بھی ہے، کام
کاج نہ کرنے کی وجوہات تعلیم کی کمی، ہنر اور skills کی کمی ہے۔ جدید دور
میں روزآنہ کی بنیاد پر نت نئے قسم کے کام وجود میں آرہے ہیں۔ البتہ تیسری
دنیا اپنی کاہلی، سستی، آرام طلبی، عیش کوشی اور غیر سنجیدگی کے باعث اپنی
اپنی معاشی نظام کی تنزلی کا باعث بنی ہوئی ہے۔
جس گھر میں کوئی کام نہ کرے اور کھانا بھر بھر کر کھائے تو بزرگوں کی چھوڑا
ہوا لاکھوں کا خزانہ بھی خالی ہوجائے گا۔ اگر بزرگوں کی چھوڑی ہوئی جائداد
کو زیرکی ، ہوشیاری اور سمجھداری کے ساتھ کہیں سرمایہ کاری نہیں کرے گا
خواہ اپنی تعلیمی اور ہنری قابلیت بڑھانے پر اور پھر اس کو کاروباری
استعمال میں، تو یہ خزانہ ختم ہوجائے گا اور یہ گھر فقیر ہوجائے گا۔ اسی
طرح کسی ملک و قوم کا بھی یہی حال ہوتا ہے۔ قرضہ لینا ابتدائی طورپر تو
درست ہے مگر اس قرضہ یا وراثتی دولت کو تعلیمی اور ہنری قابلیتوں کو بڑھانے
کیلئے سرمایہ کاری کریں۔محنت، جدوجہد کرنا تو ہر ترقی کا بہت ہی بنیادی
اصول ہے۔ کاہلی، سستی، آرام طلبی، عیش کوشی اور غیر سنجیدگی سے خود کو دور
کرنا ہی اس بات کا سبب بنتا ہے کہ فردی اور معاشرتی طور پر علمی یا معاشی
فلاح کا سبب قرار پاتا ہے۔
علمی اور معاشی ترقی کیلئے اخلاقی اصولوں میں بنیادی طور پر صداقت،
دیانتداری اور امانتڈاری کو اہمیت دیے بغیر نہ کوئی فرد اور نہ ہی کوئی قوم
ترقی کرسکتی ہے اور نہ ہی انسانی تہذیب سے آشنا کہلائی جاسکتی ہے۔
مہنگائی کی کمی کیلئے ضروری ہے کہ ہم محنت کریں اور اجتماعی طور پر ضروریات
زندگی کی پیداوار میں اضافہ کریں۔ یہ معاشی اصطلاح میں GDP کہلاتا ہے۔ GDP
کے بڑھنے کے ساتھ ہی کرنسی کی قدر میں بھی اضافہ ہوتا ہے GDPمعاشی ترقی کا
ایک سبب ہے ۔ GDPبڑھنے کے عوامل میں سے یہ ہے کہ صنعتی پیداوار بھی بڑھائی
جائے اور اس کیلئےصنعتوں کیلئے ماہرین تیار کیے جائیں جس میں صنعتی تعلیم و
ہنر وفنون کو سیکھنا شامل ہوں۔ نیز ہر شعبے میں تخلیقی اور تعمیری جذبے کے
ساتھ کام کام اور بس کام کیا جائے۔ حکومت صنعتوں کے قیام یا صنعتی تعلیم
کیلئے قرضہ فراہم کرے، ملک کے زر دار لوگ صنعتیں لگائیں ان صنعتوں کیلئے
ماہرین تیار کرنے کیلئے کالج، یونیورسٹیز وغیرہ قائم کریں وغیرہ ۔جب پیدا
وار میں ملکی ضرورت سے زیادہ اضافہ ہوگا تو یہ اشیائے صرف باہر برآمد کی
جائیں گی اور ملک میں پیسہ آئے گا۔ پیسہ بڑھے گا تو اس کی قدر میں بھی
اضافہ ہوگا اور یوں عوامی سطح پر اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ چند روپوں میں
زیادہ اشیاء خریدی جاسکیں گی۔لوگوں کی تنخواہوں اور صنعت مالکان کے منافع
میں اضافہ ہوگا۔ تو حکومتی ٹیکس بھی بڑھیں گے اور سرکاری خزانہ بھی بڑھے گا
یوں حکومت اس پوزیشن میں ہوگی کہ شہریوں کی فلاح کیلئے کام کرسکے۔ عوام کی
فلاح و بہبود کیلئے سڑکیں، پل، پارکس، تعلیمی ادارے، میڈیا، تعلیمی ادارے،
صحت کے ادارے اور ضرورت کی دوسری اشیاء کم قیمتوں میں ملنے لگیں گی۔دیانت
دار، سچی، اور امانت دار حکومتوں کے خرچ بھی کم ہوتےہیں اور یوں عوامی پیسہ
حکومتی لوٹ کھسوٹ کی نظر نہیں ہوتا۔ برآمدات میں اضافہ اور درآمدات میں کمی
کرنسی کو قوت دینے عوامل میں سے ہے اس کیلئے قوم کو قناعت کرنے کی عادت
ڈالنی ہوگی یا پھر درآمد کنندہ اشیاء کی موجودہ سطح پر تیار ی کیلئے خود کو
آمادہ کرنا ہوگا ۔بیرونی اشیائے صرف کو REVERSE ENGINEERING کے ذریعے ملکی
سطح پر تیار کیا جائے۔
عوام میں سچائی ، دیانت داری اور امانت داری کاروبار، نوکری یا خدمات وغیرہ
میں ترقی کا باعث بنتی ہے۔ اور معاشی اخلاقیات و تہذیب اس بات کا جواز
فراہم کرتی ہے کہ قدرت اس عمل پر مذکورہ معاشرے کو ترقی اور کمال عطا
کرے۔معاشرے میں صحت مند سرگرمیاں اور نوجوانوں اور جوانوں کیلئے تعلیمی اور
کام کے مواقع ، ہنر و فنون سیکھنے کے مواقع دینا حکومت کا کام ہے مگر حکومت
بھی خود اکیلئے کچھ نہیں کرسکتی جب تک معاشرے کے سرمایہ دار لوگ حکومتی
خزانے اور وسائل میں اضافہ یا مسائل میں کمی کا سبب نہیں بنیں گے۔ نیز عوام
اپنے تئیں بھی جس کے پاس وسائل ہیں اپنے اور اپنے ہم وطنوں کیلئے راستے
تیار کریں اور سب کو اور خود کو بھی محنت اور کام پر اور تعلیم وہنر کے
حصول پر راغب کریں۔ پیدا وار زیادہ ہونا، کام زیادہ کرنا، مطلوبہ شعبہ کا
علم بڑھاتے رہنا، مصرف کی خواہشات کو کم کرنا، ہم وطنوں کی کام محنت تعلیم
اور نیکیوں پر حوصلہ افزائی اور مواقع فراہم کرتے رہنا ہی معاشی، علمی،
اخلاقی ترقی کا باعث بنتا ہے۔ غیر تخلیقی، منفی باتوں ،بے حوصلہ کرنے کے
دشمن ساز پروپیگنڈوں سے بھی ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے اور یہ شعبہ بھی بہت
ضروری ہے۔ فرد یا قوم کے حاسد کبھی نہیں چاہتے کہ وہ ترقی کرے اور اس کے
احسانوں سے آزاد ہوجائے، اس ابلیسی اور شیطانی سوچ کے حامل دشمنوں سے بہت
زیادہ ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔امن و امان کیلئے ضروری ہے کہ پیسے اور
وسائل کی نمائش سے اجتناب کیا جائے تاکہ معاشرے کے کم آمدن والے حسد و کینہ
میں مبتلا نہ ہوں اور جرائم سے دور رہیں نیز اشرافی گری سے دور رہنا چاہیے
بلکہ کمزور طبقات معاشرہ کو علم و دانش ، اخلاقی حوصلہ افزائی یا پھر ان کی
مدد کرکے ان کو معاشرے کا فعال شہری بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ ایک مسلمان
معاشرے پر فرض ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائیوں کی حالت سے غافل نہ ہو اور
پورے معاشرے کیلئے کام کرے پہلے پہل اپنی ملکی حدود پھر بیرونی حدود میں
جہاں جہاں مدد کی ضرورت ہو وہاں پہنچے اور ان کی حوصلہ افزائی کرے۔ تعلیم
اور معاش دونوں ضروری ہیں انہی کی بنیاد پر شستہ تہذیب وجود میں آتی ہے اور
ان سارے پروسس کیلئے خداوند کریم نے ہمیں قران کریم جیسا دستور دیا رسول
کریم جیسی عظیم سیرت دی اور ہمارے لئے آخرت کی کھیتی کے طور پر دنیا میں
تہذیب یافتہ بننا سکھادیا۔ اب ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم اپنی دنیا کو بھی
اور آخرت کو بھی بہتر بنانے کیلئے اسی دنیا سے اپنا توشہ حاصل کریں اور خود
بھی دیانت، صداقت اور امانت دار بن کر اپنے دوست، رہبرو قائد، شریک حیات
تلاش کریں اور آئندہ نسلوں کی بھی انہی خطور پر تربیت کریں۔ مثبت ، تعمیری
اور تخلیقی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور منفی، فساد پرور، کرپشن زدہ
کاموں سے خود کو بھی دور رکھیں اور دوسروں کو بھی احسن و بہترین طریقے سے
ان اصولوں کی تعلیم دیں اور تبلیغ کریں۔ اپنی زندگی میں بھی اور دوسروں
کیلئے بھی آسانی و فلاح کا سبب بنیں نیز زندگیوں میں اعتدال BALANCE کے
قدرتی اصول کو فراموش نہ کریں۔ ترقی و فضیلت مرحلہ بہ مرحلہ حاصل ہوتی ہے
خداوند قدوس نے اس کائنات کو بھی چھ دن (چھ مراحل -6 steps ) میں خلق کیا ،
اس کائنات میں کوئی کام بھی یک دم نہیں ہوجاتا ہے بلکہ مراحل و پروسس کا
طلب گار ہے۔یہ ارتقائی عمل ہی ہے جس سے منصوبوں کاموں اور نظریوں کو ان سے
مثبت نتائج کے حصول کیلئے قدرتی ترتیب اور قدرتی مراحل سے انجام دینا ہی
فائدہ مند ہوتا ہے۔ معاشی ترقی اور دنیاوی چمک دمک میں مگن ہو کر اخلاقیات
و مذہب اور انسانی اقدار سے لاپرواہی ایسا گناہ و جرم ہے جس میں مبتلا ہوکر
ماضی کی بڑی بڑی سلطنتیں اور ایمپائر زوال و تباہی سے دوچار ہوئیں۔ معاش
انسانی اقدار و تہذیب کی شستگی کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ
وسیلہ ہے ہدف نہیں لہذا ہدف خداوند تعالیٰ کی خوشنودی جو کہ اسی دنیا میں
کیے جانے والے تعمیری، تخلیقی اور مثبت کاموں سےمربوط ہے اور وسیلے کو
وسیلہ ہی رکھیں یعنی ان دنیاوی ترقیوں اور کامیابیوں پر اکڑ و غرور میں
مبتلا ہونے سے بھی بچیں۔دنیاوی علوم کے ساتھ مذہب اور سماجی علوم پر بھی
تحقیقات و پھر اسی کے تناظر میں عمل ایک مکمل انسانی معاشرے کیلئے اشد
ضروری ہے۔
خداوند متعال سے دعا کہ ہمیں دنیا اور آخرت کے حسنات عطا فرمائے۔ آمین یا
رب العالمین
|