میرے ایک عزیز دوست نے اپنی بیٹی کی شادی امریکہ میں مقیم
ایک پاکستانی خاندان میں طے کی،میرے دوست کی بیٹی کے سسرال والے چودہ دن کے
لئے پاکستان تشریف لائے اور ایک ہفتے میں نکاح کرنے کا عندیہ دیا جس میں یہ
بھی طے ہوا کہ ولیمے کی تقریب بچی کے امریکہ منتقل ہوجانے کے بعد ہو گی جس
میں لڑکی کے والدین کو بھی شرکت کرنا ہوگی والدین کے ویزہ پروسس کا مرحلہ
بچی کا امیگریشن ویزہ کی منظوری کے بعد سے شروع کیا جائے۔ الحمدللہ تمام
مراحل بخیر و خوبی انجام پا گئے بچی کا نکاح ہوا، بچی امریکہ منتقل
ہوگئی،ولیمہ کی تاریخ بھی سامنے آ گئی اور والدین کا ویزہ پروسس کا مرحلہ
بھی شروع ہوگیا والدین کا انٹر ویو اور میڈیکل بھی ہوگیا تمام مراحل
باآسانی طے ہوتے چلے گئے لیکن میرے دوست یعنی بچی کے والد کوپاکستانی قونصل
خانے کی جانب سے ایک خط موصول ہوا جس میں واضح لکھا تھا کہ آپ بیرون ملک
نہیں جا سکتے کیونکہ آپ پاکستان کے مختلف بنکوں کے مقروض ہیں، جب تک آپ
بنکوں کو قرض کی ادائیگی نہیں کردیتے اُس وقت تک آپ بیرون ملک نہیں جا
سکتے۔ساری شادمانی کافور ہوگئی اپنی ہی بچی کی شادی میں شرکت کا خواب چکنا
چور ہوگیا،یہ بات درست تھی کہ اُس کے شناختی کارڈ نمبر کو بنک ڈیفالٹر کی
فہرست میں شامل کردیا گیا تھا جبکہ وہ مختلف بنکوں کاصرف چند لاکھ کا
نادہندہ تھا۔
متوسط و غریب طبقے کو بنک کب قرض دیتے ہیں بنک تو قرض اُنہیں فراہم کرتے
ہیں جو قرض کی حصولی کے طور طریقوں سے واقف ہوں جوقرض لے کر معاف کرانے کی
طاقت رکھتے ہوں اور طاقت کا سر چشمہ طبقہ اشرافیہ ہے یہ پاکستانی عوام
بخوبی جانتے ہیں۔وہ تو بھلا ہو زمانہ مشرف کا جب بنکوں نے کار لیزنگ اور
کریڈٹ کارڈ کے ذریعے متوسط اور غریب طبقے کو معمولی قرض عطا کیا بالکل اس
طرح جیسے بھرے پیالے سے تھوڑا سے چھلکا دیا گیا ہو۔
میرا عزیز دوست اپنے آپ کو نادہندگان کی فہرست سے نکلوانے کے لئے کوشاں
ہوگیا، بنکوں سے Settlement تصفیہ کیا،تصفیہ کے بعد اُس کے پاس اتنی رقم
نہیں بچی کہ وہ ولیمے میں شامل ہو سکے کیونکہ خوددار ی کا تقاضا تھا کہ بچی
کے سسرال جاکر اُس کے ولیمے میں شرکت ہی نہیں کرنا تھی بلکہ ولیمے کی تقریب
کا حصہ بھی بننا تھا بیٹی کے سسرال کا معاملہ تھا خالی ہاتھ جانے سے رہا۔اس
واقعہ میں سب سے افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ بیٹی کے سسرال والوں کے سامنے جب
یہ واقعہ آیا ہوگا تو سوچیں بیٹی کے سسرال میں میرے دوست کی کیا عزت رہ گئی
ہوگی۔
لیکن آج یہ دیکھ کر انتہائی افسوس ہوا کہ ایک شہنشاہ کوقانون کی گرفت سے
نکالنے کے لئے پوری طبقہ اشرافیہ ایک نظر آئی، طبقہ اشرافیہ بشمول حکومت
غریب و متوسط طبقے کو یہ پیغام دیتے نظر آئے کہ" غریبوں تم کیڑے مکوڑے ہو
سارے قانون تم پر ہی لاگو ہونگے " میرے عزیز دوست کا اپنی ہی بیٹی کے ولیمہ
میں شرکت نہ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ انصاف کا معیار بھی دوہرا ہے۔
آئین پاکستان }آرٹیکل25 (1){کے مطابق تمام افراد قانون کے مساویانہ حیثیت
کے مالک ہیں اور مساویانہ تحفظ کے حق دار ہیں۔ آئین پاکستان کی سبز کتا ب
میں جلی حروف میں یہ الفاظ درج ہیں لیکن جب میں د وست اور ایک شہنشاہ کا
موازنہ کرتا ہوں تو مجھے کوئی شے مساوی نظر نہیں آتی،ہو سکتا قانون میں
بیمار ملزم کے لئے کوئی لچک ہو اس لئے معزز عدالت نے چھوٹ دیتے ہوئے ایک
ملزم کو بیرون ملک علاج کرانے کی اجازت دی ہو،لیکن جنا ب میرا بھی وہی سوال
ہے جو میرے عزیز دوست اور رینگتے کیڑے مکوڑوں کے ذہنوں میں کلبلا رہا ہے
کہ"معزز جج صاحبان نے میرے شہنشاہ سے یہ سوال کیوں نہیں پوچھاکہ آپ کی
شہنشاہیت کئی سالوں پر محیط رہی تب آپ نے اس ملک کو اس قابل کیوں نہیں
بنایا کہ آپ یہاں علاج کرا سکتے،صحت کے وفاقی بجٹ کو نظر انداز کرنے اور
صحت کے شعبے میں کٹوتی کرنے پر کیوں نہ آپ کے خلاف قانونی کاروائی کی جائے؟
"
چھوٹی منہ بڑی بات تو میں نے کر دی لیکن یہ بات اُن ہی چھوٹے چھوٹے منہ
والوں کی زبان زد خاص و عام ہے جن سے یہ ووٹ لیتے ہیں اور پامالِ آئین کے
منصب پر فائز ہو جاتے ہیں، آئین پاکستان کو طبقہ اشرافیہ نے اس مقام تک
پہنچا دیا کہ سبز کتاب میں لکھا ہر لفظ نقش برآب کی مانند ہو چکا ہے پانی
کی ایک بوند اس کے نقش کو مٹانے کے لئے کافی ہے پاکستانی شہنشاہوں نے صحت
کے معاملات کو بھی طبقات میں تقسیم کردیا ہے۔ہسپتالوں میں غربت کی
تذلیل،دوران زچگی بچوں اور خواتین کی اموات کابڑھتا تناسب،کتے کے کاٹے پر
ویکسین کا مسئلہ اور کراچی میں کتوں کی بڑھتی تعداد،ڈینگی کے باعث اموات کا
بڑھتا تناسب،لاہور میں اسموگ کے باعث صحت کی بگڑتی صورتحال، دوسری جانب
شہنشاہ کی بحالی صحت کے لئے برطانیہ روانگی،شہنشاہ کے لئے(شاہی ہسپتال)
ائیر ایمبولینس کی فراہمی آئین پاکستان کی سبز کتاب کے آرٹیکل 38(AD)کو منہ
چڑا رہے ہیں اور غریبوں کو پیغام دے رہے ہیں کہ ہم نے پاکستان میں مذکورہ
آرٹیکل کے تحت طبی سہولیات کے لئے کوئی اقدامات نہیں کئے اس لئے غریبوں
تمھارا مر جانا ہی بہتر ہے میں تو چلا۔
میں نے اپنے عزیز دوست سے اس موقع پر سوال کیا یار اس صورتحال پر آپ کیا
کہو گے؟ کڑوے اور کسیلے انداز میں فرمایا میرے دوست نے کہ دعا ہی کرونگا
کہ"اگلے جنم موہے غریب نہ کیجو اور اگر غریب کیجو تو پاکستانی نہ کیجو"
|