ہر اچھے اور برے کام کا پورا پورا بدلہ دینا عدل کہلاتا
ہے اور اس میں کمی بیشی کرنا ظلم ہے۔ عدل وانصاف کے بغیر ایک مثالی معاشرہ
قائم نہیں کیا جا سکتا۔ یوں تو ہمارے مسائل ان گنت ہیں، مگر بنیادی مسائل
جہالت ،خود غرضی اور مفاد پرستی ہیں۔ جہالت عام طور پر تو علم کا فقدان
ہوتا ہے، مگر حقیقی معنوں میں جہالت ایک ہٹ دھرمی کا نام ہے۔خودغرضی ،مفاد
پرستی جیسے رویے برسراقتدار لوگوں کے کردار کو دیکھ کر معاشرہ اپناتا ہے۔
عدل جہل کا متضاد ہے۔عدل کو بھی عام طور پر انصاف سے تعبیر کیا جاتا ہے،
جبکہ انصاف کچھ اور چیز ہے، عدل کچھ اور۔انصاف نصف سے ہے،جس کے معنی آدھے
کے ہیں اور انصاف کا مطلب برابری یا برابر کی تقسیم کا عمل، جبکہ عدل کا
مطلب ہے حق کو تسلیم کیا جانا یا کسی بھی شے کو اس کے اصل مقام پر رکھنا۔
گویا جہاں عدل ہوگا، وہاں جہالت کا وجود بعید القیاس ہے۔ ظلم جہاں فساد،
بدامنی اور بے چینی پیداکرتا ہے وہاں عدل امن و سلامتی ، سکون و اطمینان
اور ترقی کا ضامن ہے۔عدل ہی پر دنیا کی زندگی اور ترقی و خوشحالی کا
دارومدار ہے اور دنیا کی کوئی قوم بھی اس کی ضرورت اوراہمیت سے انکار نہیں
کرسکتی۔ مختلف گروہوں اور طبقات کے حقوق و فرائض کا تعین عدل وانصاف کے
ساتھ کیا جاتا۔ پھر وقتاً فوقتاً ان پر نظر ثانی کا سلسلہ جاری رہتا ، مگر
ہم اس میدان میں بھی مکمل طور پر ناکام رہے۔ جس کا ایک نتیجہ ہم نے مشرقی
پاکستان کی علیحدگی کی صورت میں بھگت لیا۔ اب اگر ہم نے اپنے اطوار نہ بدلے
تو نجانے مزید کیا کیا سامنے آئے گا۔ دور حاضر کے اکثر مسائل کے پس منظر
میں عدل کا فقدان، ناانصافی اور ظلم و تجاوز کا عمل دخل نظر آتا ہے چونکہ
عدل وانصاف کا قیام سب سے مشکل اور سنگین کام ہے اس لیے مسلم ممالک عدل و
انصاف پر مبنی پالیسیاں بنانے اور اقدامات اٹھانے سے گریزاں نظر آتے ہیں
اور اس کے لیے مختلف بہانے تراشتے ہیں۔
”جس کی لاٹھی اس کی بھینس“ والا محاورہ ہر طرح معاشرہ میں لاگو ہے۔عدل و
انصاف کے ادارے کسی معاشرے کے اخلاقی، معاشی، معاشرتی اقتدار اور اس کے
نظام کو انصاف اور اعتدال پر قائم رکھنے کے بنیادی عنصر یا جز ہوتے
ہیں۔عدلیہ کا ادارہ ظلم، زیادتی، ناانصافی اور معاشرتی زندگی کے ہر شعبے
میں تمام جرائم کو ختم کرنے اور ہر قسم کے استحصال کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے
کا اہم فریضہ ادا کرتا ہے۔ منصف معاشرے میں ہر قسم کی برائی اور جرائم کو
قانون کی طاقت سے نیست و نابود کرکے ملک کو امن کا گہوارہ بناتے ہیں۔جو
قومیں عدل و انصاف پر قائم رہتی ہیں، وہ ترقی کی منزلیں طے کرکے دنیا کے
ملکوں میں اعلیٰ مقام حاصل کرتی ہیں جو قومیں اس کو چھوڑ دیتی ہیں، تباہ و
برباد ہو جاتی ہیں۔ جو قومیں یا حکمران عدل و انصاف کو ترک کر دیتی
ہیں،تباہی اور بربادی ان کا مقدر ہوتا ہے۔ دنیا میں امن و امان کا قیام اور
ظلم و جبر کا خاتمہ عدل و انصاف کے بغیر ممکن نہیں ہے
عدل و انصاف کسی بھی مہذب معاشرے کا حسن اور اسکی اساس ہے۔دنیائے عالم کی
مختلف اقوام اپنی تہذیب و ثقافت کی رو سے کسی نہ کسی انداز میں معاشرے میں
مساوات اور عدل و انصاف کی قائل اور دعویداردکھائی دیتی ہیں۔دین اسلام کو
یہ خصوصی امتیاز حاصل ہے کہ اس کی بنیادی اور اولین تعلیمات میں سے معاشرے
میں عدل و قسط کا قیام اور ظلم و جور کا خاتمہ ہے اور اس کی روشن و بے نظیر
مثالیں چاروں خلفائے راشدین کے ادوار میں ملتی ہے۔
اسلامی تعلیمات میں عدل کو نمایاںمقام حاصل ہے اور یہ اسلام کے اولین مقاصد
میں سے ایک ہے ۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ انسانی معاشرے میں افراد کی
باہمی کش مکش ، لڑائی جھگڑے کو ایک عادل حاکم اور انصاف پسند عدلیہ کے
ذریعے ہی ختم کیا جا سکتا ہے۔ایسی عدلیہ کا وجود جو مظلوم کی داد رسی کرے
اور انصاف کے ساتھ فیصلہ کرے ،امن کے قیام کےلئے بے حد ضروری ہے کیونکہ
مقدمات کے صحیح فیصلے سچی شہادت کے بغیر نہیں ہو سکتے اس لیے اسلام جہاں
عدل وانصاف کا حکم دیتا ہے وہاں صحیح شہادت دینے کو بھی لازمی اور ایمان کا
حصہ قرار دیتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوْا قَوَّامِيْنَ
بِالْقِسْطِ شُهَدَآءَ لِلّـٰهِ وَلَوْ عَلٰى اَنْفُسِكُمْ اَوِ
الْوَالِـدَيْنِ وَالْاَقْرَبِيْنَ اِنْ يَّكُنْ غَنِيًّا اَوْ فَقِيْـرًا
فَاللّـٰهُ اَوْلٰى بِـهِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْـهَوٰى اَنْ تَعْدِلُوْا
وَاِنْ تَلْوُوا اَوْ تُعْـرِضُوْا فَاِنَّ اللّـٰهَ كَانَ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ خَبِيْـرًا (135)
”اے ایمان والو!انصاف پر خوب قائم ہوجاﺅاور اللہ کے لئے سچی گواہی دو اگرچہ
وہ تمہارے اپنے خلاف یا تمہارے والدین یا رشتہ داروں کے خلاف ہی کیوں نہ
ہو۔چاہے وہ شخص (جس کےلئے یا جس پر تم گواہی دو) امیر ہو یا غریب (تم اس
بات کا ذرا خیال نہ کرو ) کیونکہ اللہ تمہاری نسبت ان کے زیادہ قریب ہے تو
تم اپنی خواہشوں کی پیروی نہ کرنا ، ایسا نہ ہو کہ تم حق سے دور جا پڑو۔
اور اگر تم لگی لپٹی بات کروگے (ہیر پھیر یا گول مول گواہی دے کر ) حق بات
(سچائی)سے پہلو تہی کرو گے تو جان لو کہ تم جو کچھ کرتے ہو اللہ اس سے خوب
واقف ہے۔“
عام طور پر عدالتوںمیں بے انصافی اورغلط بیانی کے دو اسباب ہیں ایک تو یہ
ہے کہ کسی کی رشتہ داری ، دوستی ، تعلق یا واقفیت کی بنا پر سچی گواہی دینے
اورحق کا فیصلہ کرنے سے پہلو تہی کی جائے، دوسرا یہ کہ کسی کی عداوت،
مخالفت ، دشمنی بھی غلط بیانی اور ناانصافی پر مجبور کرتی ہے ۔ اسلام نے ان
دونوںصورتوں میں غلط بیانی اور نا انصافی سے منع فرمایا اور عدل وانصاف کا
حکم دیا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
يَآ اَيُّـهَا الَّـذِيْنَ اٰمَنُـوْا كُـوْنُـوْا قَوَّامِيْنَ لِلّـٰهِ
شُهَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلَا يَجْرِمَنَّكُمْ شَنَـاٰنُ قَوْمٍ عَلٰى
اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا هُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰى وَاتَّقُوا
اللّـٰهَ اِنَّ اللّـٰهَ خَبِيْـرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ (8)
”اے ایمان والو! اللہ کے حکم پر خوب قائم ہو جاﺅ اورانصاف کے ساتھ سچی
گواہی دو، اورکسی قوم کی عداوت تمہیں اس بات پر نہ ابھارے کہ انصاف نہ کرو،
انصاف کرو، انصاف کرنا ہی پر ہیزگاری کے زیادہ قریب ہے ، اور اللہ سے ڈرو ،
بیشک اللہ کو تمہارے سب کاموں کی خبر ہے۔“
ان آیات مقدسہ میں شہادت ( گواہی) کے آٹھ زریں اصول بیان کئے گئے۔
1۔ شہادت انصاف ، حق وصداقت پر مبنی ہو ۔
2۔ شہادت محض اللہ رب العزت کی خوشنودی اور عدل و انصاف کے قیام کےلئے خاص
ہو۔
3۔ گواہی دیتے وقت اپنے پرائے یا کسی فریق کی مالی حیثیت (امیری یا غریبی)
کا کوئی لحاظ نہ رکھا جائے۔
4۔ شہادت میں کسی کے نفع یا نقصان کا بھی کوئی لحاظ نہ رکھا جائے۔
5۔ کسی فریق کی عداوت یا دشمنی بھی تمہیںحق بات بیان کرنے اور حق کا فیصلہ
کرنے سے نہ روکے۔
6۔ اپنی خواہش ،رائے یا مرضی کو شہادت میں حائل نہ ہونے دیا جائے۔
7۔ گواہی کے الفاظ نہایت واضح اور صورت حال پر روشنی ڈالنے کےلئے کافی ہوں،
گول مول بات کرنے یا حقیقت کو چھپانے سے پرہیز کیاجائے۔
8۔ جب گواہی کےلئے بلایا جائے تو حیلے بہانے سے جان چھڑانے اور پہلو تہی
کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
شہادت دیتے وقت یا فیصلہ کرتے وقت ہمارے سامنے حضور نبی کریم ﷺ کا اسوہ
حسنہ ہونا چاہیے کہ آپﷺ نے اپنے بدترین دشمنوں کفار مشرکین کے ساتھ بھی
انصاف کیا۔ کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ آپﷺ نے کسی کے کفر و شرک یا مخالفانہ
رویے کی وجہ سے ناانصافی کی ہو۔ آپ ﷺ کے عہد مبارک میں یہودی اور نصرانی
بھی اپنے مقدمات فیصل کروانے کےلئے آپ ﷺ کی بارگاہ میں آیا کرتے تھے اور
انہیں آپ ﷺ کے عدل وانصاف پر پورا پورا اعتماد تھا ۔ ایک دفعہ ایک یہودی
اور ایک انصاری مسلمان کا تنازعہ آپ ﷺ کی خدمت میں پیش ہوا ۔ آپ ﷺ نے فیصلہ
یہودی کے حق میں دے دیا اور یہ نہ دیکھا کہ دوسری طرف ایک مسلمان ہے بلکہ
حق اور انصاف کے ساتھ فیصلہ فرمایا۔ کسی بڑے سے بڑے صحابی کو بھی آپ ﷺ کے
ہاں سفارش یا کسی فریق کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی جرات نہیں ہوتی تھی۔
حضور اکرم ﷺ نے قاضیوں اور ججوں کےلئے ایک ضابطہ اخلاق مقرر کیا۔ جس کے چند
اہم نکات یہ ہیں
1۔ مدعی اور مدعا علیہ کے بیانات سن کر فیصلہ دیا جائے۔ کسی ایک فریق کے
بیان پر اعتماد کرکے یک طرفہ کاروائی نہ کی جائے۔ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کو یمن بھیجتے وقت یہ نصیحت فرمائی
فاذا جلس بین یدیک الخصمان فلاتقض حتیٰ تسمع کلام الاخر کما سمعت کلام
الاولo
”جب تیرے سامنے دو فریق بیٹھ جائیں تو اس وقت تک کوئی فیصلہ نہ کرنا جب تک
دوسرے فریق کا بیان اسی طرح نہ سن لو جس طرح پہلے کا سنا ۔“
2۔ قانون لوگوں کی نیتوں اور اند رونی باتوں پر مواخذہ نہیں کرتا ۔ اس لیے
قاضی کو چاہیے کہ ظاہری شہادت اور ثبوت کے مطابق فیصلہ کرے ۔آپ ﷺ کا فرمان
ہے
امرت ان احکم بالظاہر واللہ یتولی السرایرo
”مجھے حکم دیا گیا ہے کہ ظاہر کے مطابق فیصلہ کروں اور اللہ تعالیٰ دلوں کے
بھیدوں کا مالک ہے۔“
3۔ عدالتی کاروائی کے کسی مرحلہ پر قاضی کو کسی ایک طرف جھکاﺅ کی قطعا
ًاجازت نہیں۔ قاضی کو چاہیے کہ دیکھنے اور بات کرنے میں بھی فریقین کے
درمیان مساوات برتے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے
سوبین الخصمین فی لحظک و لفظکo
”نگاہ اوربات کرنے میں بھی فریقین کے مابین مساوات قائم کرو۔“
4۔مقدمہ میں منصفانہ فیصلے پر پہنچنے کےلئے ضروری ہے کہ قاضی ہر قسم کے
ذہنی کھچاﺅ، غیظ وغضب سے آزاد ہو ، بصورت دیگر قاضی ذاتی جذبات سے مغلوب
ہوکر مجرم کو اس کے جرم کی مقدار سے زیادہ یا کم سزا دے بیٹھے گا اور انصاف
نہ کر سکے گا ۔ حدیث مبارکہ ہے
لایقض القاضی بین الاثنین وہو غضبان o
”غصہ کی حالت میں قاضی فریقین کے درمیان فیصلہ نہ کرے۔“
5۔ مجرم کو ثبوت جرم پر سزا دی جائے ۔ اگر اس کے خلاف شہادتیں کمزور ہوں جس
سے اس کا جرم مشتبہ ہوتا ہو تو اسے شک کا فاہدہ دیا جائے۔ اس سلسلہ میں
اسلام کا اصول یہ ہے
ان الامام ان یخطی فی العفو خیر من ان یخطی فی العقوبةo
”بیشک امام یا قا ضی کا کسی کو معاف کرنے میں غلطی کرنا بہتر ہے بجائے اس
کے کہ وہ کسی کو سزا دینے میں غلطی کرے۔“
6۔ ثبوت مدعی کے ذمے ہے اور بصورت ِ عدم شہادت مدعا علیہ سے اس کی بے گناہی
کی قسم لی جائے ۔ حدیث مبارکہ ہے
البینة علی المدعی والیمین علیٰ من انکرo
”شہادت اور ثبوت مدعی کے ذمے ہیں اور قسم مدعا علیہ پر ہوگی۔“
7۔ فیصلہ کرنے سے پہلے دیکھ لیا جائے کہ اگر مقدمے کا حل قرآن و سنت
میںموجود ہے تو اس کے عین مطابق فیصلہ کیا جائے ورنہ قرآن و سنت میں اس کے
مشابہ فیصلے سامنے رکھ کر قیاس آرائی سے کام لیا جائے ایسی صورت میں جبکہ
کسی مقدمے کا صریح فیصلہ قرآن وسنت سے نہ ملتا ہو تو قاضی کو قیاس کرکے
اپنی رائے پر انصاف کرنے کی اجازت ہے ۔
نظام عدل کو قائم کرنے کے سلسلے میں حضور ﷺ نے جو ارشادات و ہدایات جاری
فرمائی وہ یہ کہ
1۔ اللہ کے مقرر کردہ قوانین کو دور یا قریب کے رشتہ دار، غیر رشتہ دار،
قوی و ضعیف سب پر یکساں جاری کرو اور اللہ کے معاملے میں کسی ملامت کرنے
والے کی ملامت کی پروا نہ کرو۔
2۔ اے لوگو! تم سے پہلی قومیں اسی لئے ہلاک کر دی گئیں کہ ان میں جب کوئی
بڑا آدمی جرم کرتا تو لوگ اس کو چھوڑ دیتے اور جب کوئی معمولی آدمی جرم
کرتا تو اسے سزا دیتے۔
3۔ آپ نے سفارش کی مذمت کی اور فرمایا کہ جو شخص اللہ کی مقرر کردہ سزاو ¿ں
میں نرمی برتنے کی سفارش کرتا ہے وہ گویا اللہ کی مخالفت کرتا ہے۔
4۔ ایک منصف کیلئے بہتر ہے کہ وہ غلطی سے مجرم کو بری کر دے بہ نسبت اس کے
کہ وہ غلطی سے کسی کو سزا دے۔
5۔ آپ نے ان لوگوں کی گواہی ناقابل اعتماد قرار دے دی جو کسی فریق کے ماتحت
یا رشتہ دار ہوں یا کسی فریق سے عداوت رکھتے ہوں۔
6۔ آپ نے قاضیوں کے تقرر میں ایک خاص معیار علم، معیار تقویٰ اور معیار
کردار مقرر کر دیا۔
7 ۔ قاضی کو فیصلہ دینے سے منع کر دیا جب وہ غصہ یا اپنے آپے میں نہ ہو۔
8۔ آنحضرت نے قاضیوں کو تاکید کی کہ ہر مقدمہ کے دونوں فریقوں کے ساتھ
یکساں سلوک کیا جائے اور دونوں کا بیان سننے کے بعد فیصلہ دیا کریں۔
9 ۔ رشوت لینے والا اور رشوت دینے والا دونوں مجرم اور جہنمی قرار دیئے
گئے۔
10۔ انصاف آسان اور فوری ہو، بلاخرچ اور بے لاگ ہو۔ ایسا کہ سزا پانے والا
بھی پکارے کہ بے شک یہی انصاف ہے۔ (چنانچہ تاریخ شاہد ہے کہ نبی کریمﷺ ،
خلفائے راشدین اور قاضی بسا اوقات سستا اور دہلیز پر انصاف فراہم کرنے
کیلئے خود فریقین کی دہلیز پر جایا کرتے تھے)۔
11۔ مرتبے کے لحاظ سے سب سے بہتر بندہ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن وہ امیرِ
سلطنت ہے جو عادل ہو اور رحم دل بھی ہو اور بدترین انسان وہ امیر ہے جو
ظالم ہو اور بے رحم ہو۔ اللہ جل شانہ جس شخص کو مسلمانوں کے کسی حصے کا
نگراں بنائے اور وہ ان کی ضروریات، افلاس اور فقر سے چشم پوشی کرے تو قیامت
کے دن اس کی ضرورتوں سے اللہ چشم پوشی کرے گا۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسلام کے مسئلہ انصاف
کو نہایت شاندار طریقے سے واضح کیا۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے قاضی حضرت
ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام ایک خط لکھا کہ ” جب کوئی
مقدمہ تمہارے سامنے پیش ہو تو اس کے تمام پہلوﺅں کو اچھی طرح سمجھواور جب
صحیح نتیجہ پر پہنچ جاﺅ تو اسے نافذ کردو۔ زبانی فیصلہ بے سود ہے اسے عملا
ًنافذ نہ کرو۔ مدعی اور مدعاعلیہ کے ساتھ ایک سا برتاﺅ کرو ، کسی فریق سے
بات کرنے یا عدالت میں بیٹھانے یا فیصلہ کرنے میں کوئی امتیاز نہ برتو،
تاکہ زور آور یہ توقع نہ کرے کہ تم اس سے رعائت برتو گے یا نرمی سے پیش
آﺅگے اور کمزور کو یہ اندیشہ نہ ہو کہ تم اس کے ساتھ زیادتی یا ناانصافی سے
پیش آﺅ گے۔ جو شخص دعویٰ کرے تو اس سے گواہ طلب کیے جائیں اور جو دعویٰ نہ
مانے اس سے قسم لی جائے۔ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانا جائز ہے بشرطیکہ اس
سے حرام حلال یا حلال حرام نہ ہو جائے۔ اگر تم نے کوئی فیصلہ کیا اور پھر
اس سے بہتر فیصلہ تمہاری عقل نے تمہیں سمجھا دیا تو اپنے پہلے فیصلے کو رد
کر سکتے ہو ۔جس مسئلے میں شبہ ہو اور وہ تمہیں قرآن وسنت میں نہ ملے تو اس
پر غور کرو اور اس کے امثال و نظائر کو اچھی طرح ذہن نشین کرکے قیا س آرائی
سے کام لو ۔ اگر کوئی شخص اپنا دعویٰ ثابت کرنے کےلئے مہلت مانگے تو اسے
مہلت دواور اگر وہ گواہ پیش کرے تو اسے اس کا حق دلوا دوورنہ مقدمہ خارج
کردوتا کہ اس کا شک مٹ جائے ، اس سے نہ صرف ظلم کی سےاہی دور ہو گی بلکہ
عدل وانصاف کو بھی فروغ ملے گا۔ تمہاری چھپی ہوئی بد اعمالیوں کا معاملہ
اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ دنیا میںقانونی سزا سے بچنے کےلئے اس نے گواہی
اور حلف داری کو ضروری قرار دیا ہے۔ خبردار !تمہارے دل میں اہل مقدمہ سے
خفگی، اکتاہٹ ےا چڑچڑا پن پیدا نہ ہو۔ جس کسی نے اپنی نیت درست رکھی اس کے
اورلوگوں کے درمیان اللہ گواہ کافی ہے اور جو ان سے بناوٹی اخلاق سے پیش
آیا اس کےلئے اللہ تعالیٰ سے رزق و رحمت کی امید نہ رکھو۔“
خلیفہ دوم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا عہدِ خلافت ایک مثالی، قابل
فخر اور قابلِ تقلید دورِ حکومت تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے اس وقت ایک بہترین
نظامِ حکومت دیا جب عرب حکومت کے بنیادی قواعد سے ناآشنا تھے۔ وسیع سلطنت
کے باوجود امورِ حکمرانی پر مکمل کنٹرول، امن و امان، بنیادی ضروریات کی
فراہمی، تعلیم و تربیت، عدل و انصاف اور مختلف انواع کے ترقیاتی کاموں کے
اعتبار سے یہ ایک مثالی دور تھا۔ آج کے حکمرانوں کے لیے یہ دورِ حکومت
مینارہِ نور ہے، اس کی روشنی میں آج اندازِ حکمرانی کو بہتر بنایا جا سکتا
ہے۔
حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالی عنہ کے عدل کی یہ حالت تھی کہ جب آپ رضی
اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہوا تو آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی سلطنت کے دور
دراز علاقے کا ایک چرواہا بھاگتا ہوا آیا اور چیخ کر بولا۔ لوگو! کیا حضرت
عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا انتقال ہو گیا ہے۔ لوگوں نے حیرت سے پوچھا کہ تم
مدینہ سے کوسوں میل دور جنگل میں ہو، تمہیں اس سانحے کی اطلاع کس نے دی؟
چرواہا بولا! اللہ کی قسم! جب تک حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ زندہ تھے تو
میری بھیڑیں جنگل میں بے خوف پھرتی تھیں اور کوئی درندہ ان کی طرف آنکھ
اٹھا کر نہیں دیکھتا تھا لیکن آج پہلی بار بھیڑیا میری بھیڑ کا بچہ اٹھا کر
لے گیا۔ میں نے بھیڑیئے کی جرات سے جان لیا کہ آج دنیا میں حضرت عمر رضی
اللہ تعالی عنہ موجود نہیں ہیں۔
مغربی طاقتیں اور دنیائے عالم بھی ان حقائق کو تسلیم کرتی ہیں کہ جو ضابطہ
حیات حضور نبی کریم کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو قرآن پاک کی
شکل میں عطا کیا ہے،وہ عدل و انصاف کا سرچشمہ اور راہ ہدایت کا منبع
ہے۔اقوام عالم ان سچائیوں اور حقائق کے کچھ حصوں کو اپنی ضرورت کے مطابق
اپنا کر فلاحی معاشرہ قائم کرنے اور ترقی کی راہ اختیار کرنے میں کامیاب ہو
گئیں۔ مغرب نے حکومت اور معاشرے کا نظام چلانے کے لئے جمہوریت کے طریقہءکار
کو اپنا کر عوام کی رائے کی روشنی میں قوانین اور ضوابط تیار کئے، جبکہ
پاکستان میں ہر الیکشن میں تقریباً عوام کی رائے کو دھاندلی کے ذریعے تبدیل
کر دیا جاتا ہے۔ہمیں جمہوریت کے نام پر دھوکہ دے کر شرعی قوانین سے بھی دور
کر دیا اور ملک میں ہر بار معذور جمہوریت عوام پر مسلط کردی گئی۔ پھر مخصوص
سیٹوں کے ذریعے غیر مقبول لوگوں اور اپنی پسند کی تصویروں کو ایوان بالا
میں سجا دیا گیا۔غیر مستحق لوگوں کو وزارتیں دی گئیں، مستحق لوگوں کے حقوق
غصب کرکے بندربانٹ کی گئی۔امیر سے امیر تر ہونے کی ریس شروع کی گئی اور
تمام کام میرٹ کے بجائے خصوصی اختیار کے تحت ہوئے۔اعلیٰ سطح پر عدل پر عمل
کا یہ حال دیکھ کر نچلی سطح پر جہالت کو فروغ حاصل ہوا اور ہر کوئی اپنے
دائرہ کار سے باہر نکلنے لگا، جہاں مفاد نظر آیا، حلال کر دیا۔جدھر سے
نقصان نظر آیا، اس کو حرام کر دیا، جو اچھا لگے، وہ جائز جو برالگے، وہ
حرام ،ناجائز۔
بدقسمتی ہے کہ پاکستان میں کئی سال سے عدل اور انصاف دینے والے بھی مختلف
پارٹیوں اور گروپوں میں شامل ہو چکے ہیں اور جو لوگ صحیح فیصلے کرنے کے
خواہش مند ہیں یا تھے، ان کو طاقت سے محروم کر دیا جاتا ہے۔پاکستانی معاشرہ
بہت سی خرابیوں میں بری طرح جکڑا جا چکا ہے کہ اب اس کو ٹھیک کرنے کے لئے
عادل حکمران ، غیر جانبدار عدلیہ اور سخت عدل و انصاف کا رائج ہونا وقت کی
اہم ضرورت ہے۔
پاکستان اور اسلامیان عالم کے مسائل کا حل بھی شفاف ، منصفانہ، عادلانہ اور
غیر متنازعہ نظام حکومت میں مضمر ہے ، خلفائے راشدین کے مثالی دور کے
اصولوں سے استفادہ کرتے ہوئے ظلم و ستم کا نام ونشان مٹایا جائے، ناانصافی
اور تجاوز کا خاتمہ کیا جائے۔تمام شہریوں کو ان کے بنیادی، انسانی،مذہبی
اور شہری و آئینی حقوق دستیاب ہوں۔ طبقاتی تقسیم اور تفریق کی بجائے مساوات
کا نظام رائج ہو۔ اتحادووحدت اور اخوت ورواداری کا عملی مظاہرہ ہو۔دہشت
گردی، انتہا پسندی، فرقہ پرستی، جنونیت اور فرقہ وارانہ منافرت کا وجودہی
باقی نہ ہو۔امن ،خوشحالی کا دور دورہ ہو۔ معاشی نظام قابل تقلید ہو اور
معاشرتی سطح امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ذریعے اتنی بلند ہوجائے کہ
دنیا کے دوسرے معاشرے اس کی پیروی کرنے کو اپنے لئے اعزاز سمجھیں۔
|