ملک ریاض سے وصول کیے گئے کروڑوں پاؤنڈ پاکستان منتقل کردیے گئے

image


برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی اور پاکستانی حکام دونوں نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ لندن میں ملک ریاض سے ایک تصفیے کے نتیجے میں ملنے والی کروڑوں پاؤنڈ کی رقم ریاستِ پاکستان کو منتقل کر دی گئی ہے۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی نے بی بی سی کی طرف سے ایک ای میل کے جواب میں اس بات کی تصدیق کی کہ تمام فنڈز منتقل کر دیے گئے ہیں۔ جبکہ وزیر اعظم پاکستان کے خصوصی معاون برائے احتساب بیرسٹر شہزاد اکبر نے ایک ایس ایم ایس پیغام میں بی بی سی کو بتایا کہ ریاستِ پاکستان کو یہ رقم منتقل ہو گئی ہے۔

برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی سے ملک ریاض کے معاملے کے حوالے سے کئی ایک دوسرے سوالات بھی کیے گئے تھے لیکن انھوں نے اور کسی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ البتہ کسی اور پاکستانی سیاستدان کے خلاف جاری تحقیقات کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال پر ان کا کہنا تھا کہ نہ وہ اس سے انکار کرتے ہیں اور نہ ہی اس بات کا اقرار کرتے ہیں۔
 

image


ملک ریاض نے این سی اے کے ساتھ جو تصفیہ کیا ہے اس کے نتیجے میں مرکزی لندن کے مشہور ہائیڈ پارک کے بالکل سامنے ایک رہائشی عمارت ون ہائیڈ پارک پلیس بھی شامل ہے۔ این سی اے کے بیان کے مطابق اس عمارت کی مالیت تقریباً پانچ کروڑ پاؤنڈ ہے۔

بی بی سی اردو سروس نے برطانیہ میں جائیداد کی خرید و فروخت کا ریکارڈ رکھنے کے مجاز ادارے لینڈ رجسٹری سے جب رابطہ کیا تو معلوم ہوا کہ یہ پراپرٹی آخری مرتبہ دو سال قبل، 30 مارچ 2016 کو برطانیہ کے ورجن آئلینڈ میں رجسٹرڈ ایک کمپنی نے چار کروڑ پچیس لاکھ پاؤنڈ میں خریدی تھی۔

ملک ریاض سے تصفیے کی جو تفصیلات این سی اے نے جاری کی تھیں ان کے تحت بارہ کروڑ پاؤنڈ کی رقم آٹھ بینک کھاتوں میں جمع تھی جن کو منجمد کرنے کے احکامات ایجنسی نے اس سال اگست میں ویسٹ منسٹر مجسٹریٹ کورٹ سے حاصل کیے تھے۔

اس سے قبل دو کروڑ پاؤنڈ کی رقم دیگر بینک کھاتوں میں جمع تھی جنھیں دسمبر 2018 میں منجمد کیا گیا تھا۔

این سی اے نے کہا تھا کہ اس نے ملک ریاض اور ان کے خاندان سے تصفیے کے نتیجے میں مجموعی طور پر 19 کروڑ پاؤنڈ یا 38 ارب روپے حاصل کیے ہیں۔

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل کی درخواست
31 جنوری 2018 کو جرائم اور انسداد بدعنوانی کے برطانوی اداروں کو ’ان ایکسپلینڈ ویلتھ‘ (ایسی دولت جس کا ذریعہ واضح نہ ہو) کے قانون کے تحت اختیارات ملے تھے اور یاد رہے کہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے اسی دن لندن کے مہنگے ترین علاقوں میں پانچ ایسی جائیدادوں کی نشاندہی کی تھی جو مبینہ طور پر اس ضمرے میں آتی تھیں۔

ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے برطانوی اداروں سے یہ درخواست کی تھی کہ ان کے بارے میں تحقیقات کی جائیں۔ ان جائیدادوں کے مالکان کا تعلق پاکستان، روس، آذربائجان، لیبیا اور نائجیریا سے تھا۔

واضح رہے کہ ٹرانسپرینسی انٹرنیشنل نے جس پراپرٹی کا تعلق پاکستان سے جوڑا تھا وہ ون ہائیڈ پارک پلیس نہیں تھی بلکہ اس کے قریب ہی واقع ایک اور پراپرٹی تھی جو ماضی میں خبروں میں رہی ہے۔
 


ملک ریاض کا ردعمل
منگل کو اس سلسلے میں ملک ریاض کی جانب سے ٹوئٹر پر شائع کیے گئے پیغام میں کہا گیا تھا کہ کچھ عادی ناقدین سی اے کی رپورٹ کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں اور ان کی کردار کشی کی جارہی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میں نے سپریم کورٹ کو کراچی بحریہ ٹاؤن مقدمے میں 19 کروڑ پاؤنڈ کے مساوی رقم دینے کے لیے برطانیہ میں قانونی طور پر حاصل کی گئی ظاہر شدہ جائیداد کو فروخت کیا۔'

دوسرے ٹویٹ میں انھوں نے لکھا کہ این سی اے کی پریس ریلیز کے مطابق یہ ایک سِول یعنی دیوانی مقدمہ ہے اور اس میں جرم تسلیم کرنے کا پہلو نہیں نکلتا۔

خیال رہے کہ برطانوی ادارے کے اعلامیے میں تصفیے میں پانچ کروڑ پاؤنڈ مالیت کا اپارٹمنٹ دینے کی بات کی گئی ہے جبکہ ملک ریاض کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ جائیداد فروخت کی ہے تاکہ اس کی رقم سے سپریم کورٹ کو رقم کی ادائیگی کا وعدہ پورا کیا جا سکے۔

بی بی سی اردو نے جب ملک ریاض کے ترجمان کرنل ریٹائرڈ خلیل الرحمان نے اس سلسلے میں رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ اس معاملے پر ملک ریاض کی جانب سے ٹوئٹر پر اپنا موقف دے دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ ملک ریاض کا شمار پاکستان کے امیر ترین افراد میں کیا جاتا ہے اور وہ بحریہ گروپ آف کمپنیز کے بانی ہیں جسے تعمیرات کے شعبے میں سب سے بڑا نجی ادارہ تصور کیا جاتا ہے۔

ملک ریاض نے رواں برس مارچ میں پاکستان کی سپریم کورٹ کو بھی 460 ارب روپے کی ادائیگی پر رضامندی ظاہر کی تھی جس کے بدلے عدالتِ عظمیٰ نے ان کے خلاف کراچی کے بحریہ ٹاؤن سے متعلق تمام مقدمات ختم کرنے کا حکم دیا تھا۔

بحریہ ٹاؤن کے وکیل علی ظفر نے بی بی سی کے نامہ نگار شہزاد ملک کو بتایا کہ 460 ارب روپے کی یہ رقم سپریم کورٹ کے اکاونٹ میں جمع کروائی جائے گی اور اس کے بعد سپریم کورٹ کوئی لائحہ عمل تیار کرے گی کہ اس رقم کا کیا جائے جو کہ تفصیلی فیصلے میں ہی واضح ہو گا۔


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: