کچھ ماہ بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔
حیا کے خالو اے تھے امریکا سے ۔۔۔۔
انھوں نے ایک اسی حقیقت بتایی جس سے حیا واقف نہ تھی۔۔۔۔۔۔
حیا اپنے ماما بابا کی اکلوتی بیٹی ہوتی ہے ان کی اور کوئی اولاد نہیں ہوتی
حیا جن کو اپنا بہن بھائی سمجھتی تھی ۔۔۔وہ اس کے خالہ خالو کے بچے تھے ۔۔۔حیا
بہت چھوٹی تھی جب خالہ کی ڈیتھ ہوگئی تھی ۔۔۔
خالو کو بزنیسس کے سلسلے میں امریکا جانا پڑھا ۔۔۔۔وہ اپنے بچوں کو اپنی
بہن کے پاس چھوڑ گئے ۔۔۔۔اور آج وہ اپنے بچوں کو لینے۔ آئے تھے ۔۔۔۔۔۔۔
حیا کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی تھی ۔۔۔۔۔ایک آنسو حیا کی آنکھ سے ٹوٹ کر
ہاتھ پر گرا۔۔۔۔۔
حیا نے فوراً اپنی آنکھ صاف کر دی حیا نہیں چاہتی تھی کوئی اس کو روتے ہوۓ
دیکھے ۔۔۔۔جن کے ساتھ بچپن کی حسین یادیں وابستہ تھیں ۔۔۔ وہ چھوٹی چھوٹی
شرارتیں . وہ پیاری سی بہن بھائی کی نوک جھونک ۔۔۔۔حیا کے ذہن میں گردش کر
رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔
جس سے وہ بچپن سے بہن بھائی سمجھتی رہی وہ اسکے کزن ہے اور اب اس کو چھوڑ
کے جا رہے ہے ۔۔۔۔۔
حیا بہت اداس ہوتی ہے لیکن حقیقت کو کون بدل سکتا ہے ۔۔۔۔۔
نہیں نہیں میں نے نہیں رونا حیا بہت بہادر ہے ۔۔۔۔ حیا اپنے آنسو صاف کر
رہی تھی ۔۔۔۔یہ خود کو دلاسہ دینا بھی کتنا مشکل ہوتا ہے نہ خود کے آنسو
خود صاف کرنے کا درد بہت تکلیف بہت اذیت ہوتی ہے انسان کو جب وہ بہت تکلیف
میں ہوتا ہے ۔۔۔
حقیقت کو کون بدل سکتا ہے ۔۔۔۔حیا بہادر بننے اور حالات کا مقابلہ کرنے کی
خود کو ہمّت دلانے کی کوشش کر رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔۔۔
حیا کے کزنز جا چکے تھے ۔۔۔۔ بابا بھی اسلام آباد شفٹ ہوگئے تھے جاب کی وجہ
سے ۔۔انعم بھی پاس نہیں ہوتی ۔۔۔۔۔آج حیا خود کو بہت تنہا بہت اکیلا محسوس
کر رہی تھی حیا کا دل کر رہا تھا وہ روۓ خوب سارا روۓ ۔۔۔۔۔
حیا یہاں اکے بہت اداس رہنے لگتی ہے کیوں کے وہ سب سے اچھی دوست انعم سے
بھی دور ہو جاتی ہے ۔۔۔۔
اسلام آباد میں حیا کے بابا حیا کا ایڈمشن بہت اچھی یونیورسٹی میں کر دیتے
ہیں ۔۔۔۔۔
لکین وہاں حیا کا دل نہیں لگتا ۔۔۔
شروع میں یونیورسٹی کا ماحول اسے بہت اجنبی لگتا ہے ۔۔۔۔۔
اس لئے وہ کسی سے بھی زیادہ بات نہیں کرتی ۔۔۔۔
آج یونی میں اسکا پہلا دن ہوتا ہے لکین یہ دن اس کا بہت بورنگ گزرتا ہے
۔۔۔۔
اس کو اپنی دوست انعم کی بھی بہت یاد آرہی ہوتی ہے ۔۔۔۔
حیا جب دوسرے دن یونی آتی ہے ۔۔۔
تو اس کی کچھ فرینڈز بن جاتی ہے۔۔۔ ایک کا نام جیا ہوتا ہے جو ایک خوبصورت
اور شرارتی قسم کی لڑکی ہوتی ہے۔۔۔
اور جیا کی کزن نینا بھی بہت اچھی ہوتی ہے ۔۔۔اور اسی کی طرح شرارتی ۔۔۔
اب حیا کا ان کے ساتھ اچھا وقت گزرنے لگتا ہے ۔۔۔۔
اوہ ۔۔کلاس کا ٹائم پورا ہے ۔۔۔جیا ٹائم دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔
سب نے بیگ اور بکس لئے اور کلاس کے لئے جانے لگے ۔۔۔
اچانک حیا کا پاؤں پیسلا اور
حیا کے ہاتھ میں پانی کی بوتل سے سامنے سے انے والے لڑکے سمیر پے پانی گر
جاتا ہے ۔۔۔۔
نظر نہیں آرہا آپ کو کیا ۔۔۔وہ لڑکا حیا کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے بولا
۔۔۔۔
سوری ۔۔۔!! حیا معصوم سی شکل بناتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔
سمیر حیا کی طرف غصے سے دیکھنے لگا ۔۔۔۔
اسے کیا دیکھ رہے ہو آب کیا نظروں سے ہی کھا جاؤگے ۔۔۔
حیا دانتوں میں ہونٹ چبا کے سمیر سے کہنے لگی ۔۔۔۔
مس بھگ بھگ ۔۔۔!! بہت بولتی ہے نہ آپ ۔۔۔لیکن شاید آپ جانتی نہیں آپ کے
سامنے کون کڑھا ہے اس وقت ۔۔۔۔
اوہ ۔۔۔۔میں تو ڈر گئی حیا شرارت کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
حیا جیا کو ایک آنکھ مرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔۔
اور حیا دل میں کہتی ہے ۔۔۔۔
مسٹر ۔۔۔بدلہ تو میں آپ سے لیکے رہونگی ۔۔۔۔
حیا کلاس میں جاتے ہی اس لڑکے کے کرسی پے پانی ڈال دیتی ہے ۔۔۔۔
وہ لڑکا کلاس میں اکے کرسی پے بیٹھتا ہے تو فورا اٹھ جاتا ہے ۔۔۔۔
واٹ دی ہیل ۔۔۔۔وہ غصے سے اویس سے کہنے لگا جو کے اس کا جگری یار تھا ۔۔۔۔۔
اور اس کو دیکھ کے پوری کلاس ہنسنے لگی ۔۔۔۔
اس کی نظر جب حیا پے پڑھتی ہے وہ بھی ہنس رہی ہوتی ہے۔۔
اس کو سمجھ آجاتی ہے کے یہ کام حیا کا ہی ہے۔۔۔
کیوں کے سمیر سے یونی میں سب ڈرتے ہیں اور کسی کی ہمت نہیں اس کے ساتھ کوئی
ایسا مذاق بھی کرے ۔۔۔۔
کلاس ختم ہونے کے بعد سب فرینڈز کینٹین کی طرف جا رہی ہوتی ہے ۔۔۔۔
جیا کو یاد اتا ہے کے اس نے لائبریری میں بک رکھنی ہے ۔۔۔
جیا تم لوگ کچھ لو میں بس جلدی سے لائبریری میں بک رکھ کے آتی ہوں ۔۔۔۔۔
وہ جیا کو آرڈر دیں کے وہاں سے جانے لگی ۔۔۔۔
حیا لائبریری میں بک رکھتی ہے وہاں سمیر بھی کسی کام سے آجاتا ہے ۔۔۔
جب اس کی نظر حیا پے پڑھتی ہے تو آج کلاس میں ہونے والی انسلٹ اسے یاد
آجاتی ہے ۔۔۔۔
وہ حیا کے پاس آرہا ہوتا ہے ۔۔حیا اس کو دیکھ کے ڈر جاتی ہے ۔۔۔۔
کیوں کے حیا کو معلوم ہوتا ہے کے یہ اس سے بدلہ ضرور لیگا ۔۔۔۔
وہ حیا کے جتنے قریب اتا ہے ۔۔۔۔۔حیا ایک ایک قدم پیچھے ہوکے دیوار سے جا
لگتی ہے ۔۔۔۔
مس حیا ۔۔۔کیا ہوا ۔۔؟ ویسے تو بہت بہادری دکھاتی ہوں اب کہا گئی تمہاری
بہادری ۔۔۔۔
سمیر حیا کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہنے لگا ۔۔۔۔
پلز جانے دو مجھے ۔۔۔حیا دانتوں میں ہونٹ چبا کے بولتی ہے ۔۔۔
حیا جیسے ہی وہاں سے جانے کی کوشش کرتی ہے وہ حیا کا ہاتھ پکڑ کے اسے
دوبارہ دیوار سے لگا دیتا ہے ۔۔۔۔
وہ حیا کے اور قریب ہو کے ایک ہاتھ دیوار پے رکھ دیتا ہے اور اس کے جانے کا
راستہ بند کردینا ہے ۔۔۔
حیا تم نے مجھ سے پنگا لے کے غلطی کی ہے ۔۔۔۔
سمیر حیا کا ہاتھ چھوڑ کے آب اس کے چہرے سے بال پیچھے کرتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔
اور حیا آنکھیں بند کر کے بہت مشکل سے آنکھوں میں ایں ہوئے آنسوں کو چھپا
لیتی ہے ۔۔۔۔۔
حیا جیسے ہی کچھ بولنے کی کوشش کرتی ہے ۔۔۔۔
باہر سے کسی کی آواز آتی ہے سمیر پیچھے دیکھتا ہے ۔۔۔
تو حیا اس کو دھکا دے کے وہاں سے بھاگ جاتی ہے ۔۔۔۔۔
( جاری ہے )
|