مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ امیر المومنین حضرت علیؑ کا مشہو
ر سنہری قول مبارک ہے کے ظلم کیساتھ توریاست چل سکتی ہے لیکن جس ملک یا
معاشرے میں ناانصافی ہووہاں ملک کا چلنا بہت مشکل ہوتا ہے کسی بھی ملک کی
ترقی،خوشحالی اور استحکام میں عدلیہ کا کردار بہت ہی زیادہ اہم ہے مجموعی
طور پر پاکستان میں عدلیہ کا کردار اچھا رہا ہے ماضی میں کسی تک عدلیہ کے
امور میں مداخلت کی شکایات پائی جاتی ہیں لیکن اب ملک کی عدالتیں آزاد ہیں۔
اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان بھی بہت اچھی کارگردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں
ماضی کے مقابلے میں اعلیٰ عدالتیں آزادانہ فیصلے کرتی نظر آتی ہیں اور
مجموعی طور پر کارگردگی بہتر ہونے کیساتھ بڑھی ہے۔یہ ایک علیحدہ بات ہے کہ
ایک عام اور غریب آدمی کا اعلیٰ عدالتوں سے انصاف لینا ابھی ایک
پیچیدہ،مشکل اور مہنگا کام ہے یعنی ہائیکورٹ یا سپریم کورٹ تک رسائی وکلا
کی بھاری فیسیں اور اخراجات برداشت کرنا غریب آدمی کے بس میں نہیں یہ بات
کوئی راز نہیں عام آدمی کے بھی علم میں ہے وطن عزیز میں ایک چھوٹی سے چھوٹی
عدالت میں بھی کیس لڑنے کے اخراجات کم از کم ہزاروں روپے میں ہوتے ہیں اور
سب سے بڑی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں لوئر کورٹس میں ایک کیس کا فیصلہ ہونے
میں کئی کئی سال تاخیر ہونا عام بات ہے یہی وجہ ہے کہ نچلی سطح پر عدلیہ کے
بارے میں بہت زیادہ شکایات پائی جاتی ہیں اس کی سب سے ایک بڑی وجہ عدلیہ
میں جج صاحبان اور عملہ کی کمی ہے دوسرے ایک عرصہ سے عدلیہ میں بہتری کے
لیے اصلاحات کی ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جس کا اظہار وزیراعظم عمران خان
نے گذشتہ دنوں میانوالی کے ایک جلسہ میں خطاب کرتے ہوئے کیا تھا انھوں نے
موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ او ر آنے والے چیف جسٹس جناب گلزار ملک کو
تجاویز دی تھی کہ عدلیہ میں اصلاحات لائی جائیں اس کے لیے حکومت عدلیہ
کیساتھ ہر طرح کا تعاون کرتے ہوئے فنڈفراہم کرے گی اس وقت اعلیٰ عدلیہ
کیساتھ ماتحت عدالتوں کے اندر لاکھوں کی تعداد کے کیسز فیصلوں میں تاخیر کا
شکار ہیں جس کیوجہ سے کروڑوں کی تعداد میں سائلین مشکلات اور مسائل سے
دوچار ہیں اس کے لیے عدالتوں میں مقدامات کے جلد فیصلوں کے لیے عدلیہ میں
جج صاحبان اور عملہ کی تعداد بڑھانے کے اتھ ساتھ عدلیہ میں موجودہ حالات
کیمطابق اصلاحات لانے کی اشد ضرورت ہے ۔اسلام آباد،پنجاب سمیت اسی طرح کی
صورتحال ملک کی دوسرے صوبوں کی تمام ماتحت عدالتوں میں درپیش ہے جہاں ماتحت
عدالتوں میں زیرسماعت مقدمات کی تعداد ججز کے مقابلے میں بہت ہی کم ہے جس
کے نتیجے میں مقدمات کے فیصلے تاخیر کا شکار ہوتے ہیں اس بارے میں ہمارے
ہاں ایک بڑی مشہور کہاوت تھی کہ اگر دادا کیس کرے گا تو اس کا فیصلہ پوتے
کو ملے گااس وقت ملک بھر میں ججز صاحبان کی کل تعداد 2,325 بتائی جاتی ہے
جو ملک کی بائیس کروڑ آبادی کو انصاف کی فراہمی کے لیے بہت کم ہے
حکومت،متعلقہ اداروں اور چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان کو اس اہم مسئلے
کی جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے اس کے لیے عدلیہ میں جج صاحباناور عملہ کی
تعداد بڑھانے کیساتھ عدلیہ میں اصلاحات لائی جائیں اس سے جہاں عدالتوں کی
کارگردگی بڑھے گی وہاں لوگوں کو بروقت انصاف ملے گااور ملک کے معاملات میں
بھی بہتری آئے گی۔ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں عوام
خاص طور پر غریب لوگوں کو انصاف کی بروقت فراہمی ممکن بنائی جائے اس کے لیے
عدلیہ میں اصلاحات لانے کے لیے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے اس میں یہ ترجیح
ہونی چاہیے کہ انصاف کا حصول آسان اور تیز ترین بنایا جائے اصلاحات کے لیے
قران و حدیث کیساتھ اصحابہ کرام کے ادوار حکومت کے عدالتی نظام سے استفادہ
کیا جائے کیونکہ اسلام مساوات کا درس دیتا ہے عدلیہ کو انصاف کے حصول میں
مساوات کے سنہری اصول کو مشعل راہ بنانے کی ضرورت ہے امیر اور غریب آدمی کے
لیے قانون ایک جیسا سلوک کرے تو انصاف کا علم بلند ہوتا ہے جو کسی بھی
ریاست کی کامیابی اور استحکام کی ضمانت بن سکتا ہے اﷲ کرے ہمارے حکمران اور
عدلیہ اس اہم مسئلے پر توجہ دے کر عدلیہ میں ٹھوس انقلابی اصلاحات لائیں
تاکہ پاکستان کامیابیوں اور کامرانیوں کی جانب آگے بڑھ سکے
|