بسم اللہ الرحمٰن الرحیم۔
ریاست اور جبر لازم و ملزوم ہیں۔ زرعی انقلاب کے بعد ریاست وجود میں آئی تو
شہری اپنے بعض انفرادی حقوق سے جن میں من مانی کرنے کی آزادی بھی تھی۔ دست
بردار ہوگئے! زیادہ صحیح الفاط میں حکام نے ان شہریوں کی بے مہار آزادی خود
معاشرے کی بقا کیلئے اور ریاست کی بقا نیز اقتدارکے تحفظ کیلئے شہریوں پر
پابندیاں عائد کردیں۔ چناچہ صبح تاریخ سے ریاست خواہ وہ ملوکی رہی ہو یا
مذہبی، جمہوری رہی ہو یا اشرافیہ، آمرانہ رہی ہو یا اشتراکی اپنے نظریے اور
قانون کی حفاظت کی بنیاد پر جس کو وہ شہریوں کی بقاء اور تحفظ کیلئے ضروری
خیال کرتے ہیں انفرادی قدر و اختیار کو سلب کرتی رہی ہے اور آج بھی کررہی
ہے۔
مسئلہ تو در اصل یہ ہے کہ جس قانون اور نظریے کے تحت کوئی بھی ریاست یا
حکومت شہری آزادیوں پر پابندی لگاتی ہے وہ قانون یا بنیادی قانون کس زمین
پر استوار ہے؟ کیوں کہ کوئی بھی مضبوط بنیاد بھی کسی مضبوط زمین پر رکھی
جاتی ہے ہوا ، خلاء یا پانی پر نہیں رکھی جاتی۔ اگر یہ کہا جائے کہ تاریخِ
انسانی کے تجربات کی بنیاد پر نظریات اور اخذ شدہ قوانین پر رکھی جاتی ہے
تو یہ بھی صرف کہنے کی باتیں ہیں ۔ حقیقت حال یہ ہے کہ سیاسی تعصبات جس کی
بنیاد معاشی منافع ہوتے ہیں وہ بھی پوری قوم کے نہیں بلکہ چند جاگیرداروں
یا صنعت کاروں، ساہوکاروں اور سرمایہ داروں کے ذاتی منافع خوری کی بنیاد پر
ان قوانین کی زمین تیار کی جاتی ہے۔
کیا ان قوانین کی بنیاد ااُن زمین حقائق اور اصولوں پر نہیں ہونی چاہیے جو
آج تک کی تاریخ کے مطالعے اور تجربے سے انسان کی سماجی نفسیات کے تناظر میں
محکمات بن چکے ہیں اور جس کے ذریعے ہی اقوام ترقی کرتی ہیں۔ ایک عالمی
حکومت کے دعوے کی بنیاد اگرچند سرمایہ داروں کی اقتصادی ہوس رہے گی تو اس
صورت میں دنیا میں تو امن قائم نہیں ہوسکتا۔
کسی بھی شہ کی قدر کی حقیقت یہ ہے کہ ہم جس شے میں دلچسپی لیں اس میں ہمارے
لئے قدر پیدا ہوجاتی ہے۔ ماحول کے سماجی اور معاشی تقاضوں کےبدلنے کے ساتھ
ہماری دلچسپیاں بھی بدل جاتی ہیں اور دلچسپیوں کے بدلنے کے ساتھ قدریں بھی
بدل جاتی ہیں۔ مگر وہ قدریں جو ہم پر فطرت کی طرف سے جبراً نافذ ہیں اُن کو
تبدیل کرنا کسی کے بس میں نہیں سوائے خالق و مالک کے ۔ سماجی اور معاشرتی
فلاح اور سعادت کے قوانین و اصول بھی انہیں قدروں میں سے ہیں۔ عمومی طور پر
اخلاقی قدریں معاشرے کے معاشی تقاضوں اور فرد کی دلچسپیوں کے باہمی تاثیر و
تاثر سے وجود میں آتی ہیں اور کسی بھی صورت میں ان تقاضوں سے ماوراء نہیں
ہوتیں۔ اخلاقیات کا ایک ہم اصول یہ ہے کہ اس کی قدریں کسی نہ کسی طرح مقصد
یا نصب العین سے وابستہ ہوتی ہیں۔ ظاہراً مقصد گھٹیا ہوگا تو متعلقہ قدریں
بھی گھٹیا ہوں گی اور مقصد اعلیٰ و ارفع ہوگا تو اس سے مربوط قدریں بھی
اعلیٰ وارفع ہونگی۔
فطرت کے جبر سے گھبرانا اور خود کو قیدی یا محبوس سمجھنا درست نہیں بلکہ
ہونا یہ چاہیے کہ فطری قوانین کو اچھی سے ذہن نشین کرکے ان سے حسب منشاء
کام لیا جائے اور جبر کا یہ شعور انسان کو اختیار سے بہرہ ور کردیتا ہے۔
انسان ان قوانین کو بدل دینے سے قاصر ہے لیکن ان کے جبر کے دائرے میں رہ کر
قدر و اختیار کو پالینا دانشمندی ہے۔ اسی طرح تاریخی عمل اور انسانی معاشرے
کے قوانین کو توڑنا انسان کے بس کی بات نہیں ہے لیکن وہ ان کی حدود میں رہ
کر اور جدوجہد کرکے اپنے لئے عادلانہ معاشرہ تعمیر کرسکتا ہے۔یہ تعمیر و
تخلیق خود قانون فطرت کے تحت ہی وقوع پذیر ہوتی ہے۔ موٹے موٹے قوانین فطرت
کو جان کر اقتصادی ہوس کو فروغ دینا قوانین فطرت میں ترقی نہیں تنزلی ہے۔
اسلام کی انقلابی سیرت کی رجائیت کا راز اسی بات میں مخفی ہے کہ ایک تو
انہوں نے جبر میں اختیار کو پاکر بنی نوع انسان کو یاسیت، ناامیدی کے گھور
اندھیرے میں امید کی کرن دکھائی ہے اور دوسرے وہ ایک اعلیٰ نصب العین کے
حصول میں کوشاں ہیں اور بڑے اعتماد سے عبوری دور سے گذر کر عالمی اسلامی
معاشرے کے قیام کی جانب قدم بڑھارہے ہیں۔
اللھم عجل لولیک الفرج والعافیۃ النصر
(اقتباسات و تجدید: سید جہانزیب عابدی)
|