پاکستان میں کچھ تحریکیں تو وقت کے ساتھ پلتی ہیں اور کچھ
اچانک اٹھ کھڑی ہوتی ہیں ایسی اچانک کہ سب کو حیران و پریشان کر دیتی
ہیں،ایسی ہی ایک اچانک اٹھ کر پھیل جانے والی تحریک جو کسی وبائی مرض کی
طرح پھیلی طلباء تنظیموں کی بحالی کی تحریک ہے۔سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو
وائرل ہوئی جس میں یو نیورسٹی کی ایک طالبہ جو بعد میں عروج اورنگزیب کے
نام سے سامنے آئی نے تقسیم ہند سے پہلے لکھی گئی بسمل عظیم آبادی کی ایک
نظم سرفروشی کی تمناء اب ہمارے دل میں ہے کو لہک لہک کر پڑھا۔نظم کو کچھ اس
انداز سے پڑھا گیا کہ سوشل میڈیا پر اس کو پھیلنے میں دیر نہ لگی اور وہاں
سے اٹھا کر الیکٹرانک میڈیا نے بھی اس کی خوب تشہیر کی۔اس وقت یہ نہیں کہا
گیا کہ ان طلباء وطالبات کا مقصد کیا ہے لیکن جب بات کھلی تو پتہ چلا کہ یہ
طلباء تنظیموں کی بحالی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔پاکستان میں طلباء تنظیمیں
قیام پاکستان کے فوراََ بعد سے ہی مکمل طور پر فعال رہیں لیکن کبھی بھی
مکمل طور پر آزاد یا خود مختار نہیں رہیں بلکہ کسی نہ کسی سیاسی جماعت کا
سٹوڈنٹس ونگ ہی رہیں۔پرانی سیاسی جماعتوں نے تو ان کو اپنے قیام کے بعد
بطور اپنی نرسریوں یا نو جوان فورس کے بنایا اور یوں یو نیورسٹیوں میں پڑ
ھنے والے اٹھارہ سال سے زیادہ عمر کے یعنی ووٹ ڈالنے کے حق دار نو جوانوں
کو اپنے ووٹ بینک میں بھی شامل کیا اوراپنے مستقبل کے لیڈر بھی تیار کیے جو
اب بھی قومی سطح کی سیاست میں خوب متحرک ہیں۔قیام پاکستان کے بعد بننے والی
جماعتوں نے بھی اس پہلو پر خوب کام کیا اور قومی سطح پر مرکزی جماعت کے
ساتھ ساتھ انہوں نے یہ طلباء تنظیمیں بھی بنائیں اور اس طرح یو نیورسٹی کی
سطح سے اپنی جماعت کی بنیاد کو مضبوط کیا گیا۔پاکستان کی سب سے قدیم طلباء
تنظیم مسلم سٹوڈنٹس فیڈریشن تھی جو مسلم لیگ کی ذیلی تنظیم تھی اور یہ بات
تاریخ کا حصہ ہے کہ ان طلباء نے تحریک پاکستان میں بہت مثبت کردار ادا
کیااور پُر زور طریقے سے مسلمانوں کے لیے الگ ملک کے مطالبے میں شریک رہے
اور قائد اعظم نے بجا طور پر انہیں اپنا ہراول دستہ کہا۔اسی طرح جماعت
اسلامی کی تنظیم اسلامی جمیعت طلبہ اور جمیعت علمائے اسلام اور جمیعت
علمائے پاکستان کی ذیلی تنظیمیں اور پھر پاکستان پیپلز پارٹی کی پیپلز
سٹوڈنٹس فیڈریشن اسی طرح صوبائی سطح کی خود کو قوم پرست کہلانے والی سیاسی
جماعتوں کی تنظیمیں وجود میں آتی گئیں غرض یہ کہ طلباء یو نیورسٹیوں میں
کسی نہ کسی سیاسی جماعت کے مقاصد کا حصہ بنتے رہے اور بنائے جاتے رہے۔اگر
چہ پینتیس سال سے عائد پابندی کی وجہ سے میں بذات خود یو نیورسٹی کے سالوں
میں اس تجربے سے نہیں گزری تاہم سکول کے زمانے کی اپنی یاداشت اور تاریخ
میں محفوظ وہ سیاسی دشمنیاں، ہنگامے، جھگڑے اور فساد مجھے یاد ہیں جو ان
تنظیموں کے بیچ میں ہوتے تھے۔ان تنظیموں نے جہاں کئی بار ملکی معاملات میں
مثبت کردار ادا کیا وہیں تعلیمی اداروں میں تعلیم و تعلم کو بُری طرح
متاثربھی کیا اور ان کے آپس کے جھگڑوں میں ہی کئی بار گو لیاں بھی چلتی
رہیں، تعلیمی اداروں اور ہاسٹلوں تک اسلحہ بھی پہنچتا رہا امتحانی عمل میں
بھی آن دی ریکارڈ خلل پڑتا رہا۔اس لیے اب جو یہ طلباء یہ کہہ رہے ہیں کہ
تنظیموں پر پابندی سے تعلیمی معیار متاثر ہوا ہے اس بات میں کوئی حقیقت
نہیں۔بات یہ بھی ہے کہ تعلیمی اداروں کا کام صرف تعلیمی سر گرمیاں ہیں اور
ساتھ ساتھ ان طلباء کو عملی زندگی کے لیے تر بیت بھی دینا ہے جو غیر نصابی
اور ہم نصابی سر گرمیوں کے ذریعے اب بھی ہو رہا ہے۔اس حقیقت سے بھی انکار
نہیں کہ انہی طلباء میں سے قومی قیادت بھی تیار ہوتی ہے لہٰذا لیڈر شپ تیار
کرنے پر بھی توجہ ضروری ہے اور ابھی بھی سکولوں اور کالجوں میں انتخابی عمل
کے ذریعے ہی سٹوڈنٹس کونسل بن رہی ہیں لیکن یہ سب کچھ غیر سیاسی طور پر ہو
رہا ہے نہ اس کے لیے جلسے جلوس ہوتے ہیں نہ مار کٹائی ہوتی ہے اورنہ مار
دھاڑ ہاں یو نیورسٹیوں سے ایسی خبریں اب بھی گاہے بگاہے آتی رہتی ہیں
کیونکہ عملی طور پر یہ تنظیمیں وہاں موجود ہیں صرف انتخابی عمل نہیں ہو رہا
ورنہ تو سماجی کا موں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جارہا ہے جو کہ ایک اچھا
اور مثبت عمل ہے۔پھر ان سب کاموں کو سیاسی میدان تک پہنچانے کی تحریک کیوں
اٹھی اس کے پیچھے کون ہے اس بات کا پتہ چلانا ضروری ہے۔مجھے ان تنظیموں کی
بحالی سے اختلاف نہیں لیکن سیاسی جماعتوں کے طلباء کو اپنے مقاصد کے لیے
استعمال کرنے سے ضرور ہے جو ان کے مستقبل کی فکر کیے بغیر ان کی جذباتیت کا
فائدہ اٹھاتے ہیں کیونکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ طلباء سیاست کے سارے کارکن
ملک کی عملی سیاست میں بھی جگہ نہیں بنا پاتے اور سیاسی سرگرمیوں میں ملوث
ہو کر کسی اور میدان کے لیے بھی اپنی موزونیت ثابت نہیں کر پاتے اور کسی
اچھے ادارے کے میرٹ پر آنے سے بھی رہ جاتے ہیں۔لہٰذا اگر طلباء تنظیموں پر
سے پابندی اٹھا بھی لی جائے تو اس سے پہلے اس کے لیے سخت اصول و ضوابط وضع
کرنے ہوں گے اور سیاسی جماعتوں اور ان سے وابستہ طلباء تنظیموں سے بھی
گارنٹی لینا ہو گی کہ وہ تعلیمی اداروں کو اصل مقصد سے ہٹ کر سیاسی اکھاڑے
نہیں بنائیں گے۔اس وقت سیاسی جماعتیں اس پابندی کو اٹھانے کے حق میں بڑھ
چڑھ کر بیانات دے رہی ہیں ظاہر ہے انہیں اپنی سیاسی قوت میں ہر طرح سے
اضافہ کرنا ہے حکومت کی طرف سے بھی کچھ محتاط اور کچھ وزراء کی طرف سے کھلے
عام بیانات آرہے ہیں چلیے سیاسی خلاء کو پُر کرنے کے لیے اسے ضروری بھی
سمجھا جائے تو ضرورت ملک کو مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ماہرین کی بھی ہے
لہٰذا اس اجازت کو بہت شرائط کے ساتھ مشروط کیا جانا بھی انتہائی ضروری ہے
اور ایک اہم ترین نکتہ جس کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا وہ یہ کہ یہ معلوم
کیا جائے کہ ان طلباء کو کس نے ڈھول تاشے اورسرخ پرچم ہاتھ میں دے کر میدان
میں نکالا ہے، کون اُنہیں غیر معقول حرکتیں کروارہا ہے اورطلباء تنظیموں کے
معاملے میں آزادی مانگی جارہی ہے آخر کس چیز کی آزادی۔ عورت کی آزادی
کانعرہ بھی سنا گیا اس بات کا طلباء تحریکوں سے کیا تعلق ہے۔ اس بات کو
ضرور زیر غور لا یا جائے کہ غیر متعلق قسم کے مطالبات کیوں سامنے آرہے ہیں
اصل مقصد کچھ اور تو نہیں جس کے لیے ان نوجوانوں کو استعمال کیا جا رہا ہے
کیونکہ جس طرح میں نے شروع میں لکھا تحریکیں آہستہ آہستہ پلتی ہیں لیکن
سازش اچانک سامنے آتی ہے۔ ہاں ان معصوم طلباء کو یہ بھی یاد دلانا ضروری ہے
کہ سرخ پرچم کو تواس کے بنانے والے بھی نہ سنبھال سکے تو یہ کیوں ان کے آلہ
کار بن رہے ہیں کیا یہ جانتے بھی ہیں یہ غلط جگہ پر استعمال ہو رہے ہیں۔ ان
طلباء کو بھی یہ یاد دلانے کی ضرورت ہے اور صاحبان اختیار کو بھی کہ
مقبولیت حاصل کرنے کے شوق میں کوئی ایسا فیصلہ صادر نہ کردیں جو ملک کے لیے
نقصان کا باعث بنے۔ایک انتہائی ضروری بات! والدین کو بھی اس عمل میں شامل
کرنا پڑے گا کیونکہ بے روز گار اولاد کو سنبھالنا پھر انہی کا کام ہوتا ہے
اور انہیں دوسرے مسائل سے نکالنا اور ان کو بھگتنا بھی انہی کی ذمہ داری
اور ساتھ ہی اساتذہ کی رائے لینا بھی ضروری ہے کہ ان کے طلباء اپنا مستقبل
کس طرح بنا سکتے ہیں۔ یہاں سٹیک ہولڈر صرف سیاسی جماعتیں اور طلباء نہیں
کئی ایک ہیں اور اُن سب کی رائے ضروری بھی ہے اور اہم بھی لہٰذا ہر ہر قدم
پر احتیاط، سوچ بچار اور تفتیش انتہائی ضروری ہے۔
|