9 دسمبر عالمی سطح پر کرپشن کے خاتمے کے علامتی دن کے طور
پر منایا جاتا ہے۔ اس دن کی نسبت سے مختلف تقریبات منعقد کی جاتی ہیں،
کرپشن کے خاتمے سے متعلق سیمینارز اور پروگرامات کا انعقاد کیا جاتا ہے اور
کرپشن سے نمٹنے کے لیے لائحہ عمل تشکیل دیا جاتا ہے۔ اقوام عالم کی طرح
پاکستان میں بھی یہ دن کرپشن سے نجات کے علامتی دن کی حیثیت رکھتا ہے۔ اور
اس متعلق پروگرامات اور سیمینارز کا اہتمام کیا جاتا ہے تاکہ کرپشن جیسے
ناسور سے چھٹکارا حاصل کیا جاسکے۔
کرپشن کسی بھی معاشرے اور ملک کے لیے ناسور ہے۔ کیونکہ کرپٹ معاشرہ کسی
صورت بھی تا دیر قائم و دائم نہیں رہ سکتا ہے۔ کرپٹ معاشرہ بے پناہ خرابیوں
میں گھر جاتا ہے، اور یہ خرابیاں معاشرے کو اندرونی طور پر کھوکھلا کرنا
شروع کر دیتی ہیں، اور پھر آہستہ آہستہ یہ معاشرہ تباہی کی جانب بڑھتا ہے۔
کرپشن ایسی بیماری ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں لاقانونیت پھیلتی ہے،
برائیوں کی بھرمار ہوتی ہے اور اہل معاشرہ کا جینا دوبھر ہوجاتا ہے۔ اس وجہ
سے کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات اور ٹھوس لائحہ عمل ناگزیر ہے، اسی بنا
پر عالمی سطح پر یہ طے پایا کہ 9 دسمبر کرپشن کے خاتمے کے دن کے طور پر
منایا جائے گا۔
ہمارے ملک پاکستان کو خدائے بزرگ و برتر نے لامحدود وسائل سے نواز رکھا ہے،
جس قدر یہاں پر وسائل ہیں اتنی ہی تعداد میں مسائل کی بھرمار ہے۔ انہی
مسائل میں کرپشن بھی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ پاکستان کے نظام میں کرپشن نیچے
سے لے کر بڑی سطح تک اپنے پنجے گاڑے ہوئے ہے، ہر سال کرپشن کی شرح میں کمی
آنے کی بجائے اس کی شرح میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اور کرپشن کے بدولت بے
پناہ دیگر مسائل بھی جنم لے چکے ہیں ہیں۔ اس وقت پاکستان کا ہر فرد قرض میں
ڈوبا ہوا ہے، بلکہ ہر پیدا ہونے والا بچہ بھی اپنے سر پر قرض لے کر ہی جنم
لیتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اتنے خراب ملکی حالات میں ایسا مضبوط
لائحہ عمل بنتا جس کی بدولت یہاں کرپشن جیسی لعنت بلکل ختم ہوجاتی، مگر
یہاں پر الٹی گنگا بہتی ہے۔ نظام تو بن گیا بلکہ ایک پورا محکمہ بھی بن گیا
جس کے ذمہ کرپشن جیسے ناسور سے جان چھڑوانا ہی لگا مگر اس کے باوجود کرپشن
کم ہونے کی بجائے اور بڑھ گئی۔ اور صرف بڑھ ہی نہیں کی بلکہ خطرناک حد تک
تقریبا تمام سرکاری و غیر سرکاری اداروں تک پھیل گئی۔
یہاں پر ہر جائز و ناجائز کام میں کرپشن کا دور دورہ ہے، جسکا جتنا جی میں
آتا ہے اتنی لوٹ مار مچاتا ہے۔ کوئی فکر نہیں کسی دوسرے کی، کوئی فکر نہیں
معاشرے کی اور کوئی ہرگز بھی فکر نہیں ملکی معیشت اور نقصان کی۔ بس ہر ایک
اپنی اپنی جیب بھرنے میں لگا ہوا ہے۔ ایک کسی دوست کی کی ہوئی بات یاد
آجاتی ہے کہ ہمارے معاشرے میں کرپشن کے شکنجے اس قدر گہرے ہیں کہ جس کو
موقع نہیں ملا بس صرف وہی اس کرپشن سے بچا ہوا ہے مگر جس کو موقع مل گیا اس
نے پھر دونوں ہاتھوں سے لوٹ مار مچائی اور خوب جی بھر کر کرپشن کی۔ یہ
معاشرہ کس طرح دیرپا قائم رہ سکتا ہے؟ یہ معاشرہ دن بدن تباہی کی جانب
بڑھتا جارہا ہے۔ مگر ہر کوئی اس چیز سے بے نیاز اپنے اپنے کار خیر و شر میں
تمیز کیے بنا مصروف عمل ہے۔
پاکستان میں کرپشن کے نام سے تو اب بچہ بچہ واقف ہے جب نے سابق حکمرانوں کے
خلاف کرپشن کے کیسز چل رہے ہیں، اور پھر جس طرح سے اخبارات اور ٹی وی شوز
میں اس بابت بات کی جاتی ہے۔ سابقہ حکمرانوں اور بڑے بڑے ناموں کو کرپشن کے
الزامات کی بنا پر قیدوبند تو کیا گیا اور ان کے ٹرائلز بھی کیے گئے مگر اس
کے باوجود بھی کوئی عملی کام ابھی تک نہیں ہوا۔ اقوام عالم میں بھی کرپشن
کی گونج ہے مگر ان کی ملکی سطح پر اس قدر شور نہیں مچتا جتنا کہ ہمارے ملک
پاکستان میں مچا ہوا ہے۔ مگر اس سب کے باوجود بھی عملی اقدامات سے ہم لوگ
کوسوں دور ہیں، اور عملی اقدامات کئے بغیر ہرگز بھی کرپشن سے چھٹکارا ممکن
نہیں ہے۔ مگر البتہ اس سے ہم کرپشن میں اضافہ ضرور کر سکتے ہیں۔
اب ملکی سطح پر ایک نئی حکومتی ٹیم بھی ہے جس سے عوام کو بہت ساری توقعات
بھی تھیں کرپشن کے خاتمے سے متعلق۔ مگر فی الحال تک یہ حکومت بھی اس متعلق
عملی اقدامات نہیں کر پا رہی ہے سوائے زبانی دعووں اور باتوں کے۔ ضرورت ہے
عملی اقدامات کی اور کرپشن کی روک تھام کی تاکہ ملک مضبوط ہو اور ملکی
معیشت کا پہیہ بھی مضبوطی پکڑے۔ مگر ابھی فی الحال تک تو اس متعلق کچھ بھی
اقدامات نہ ہیں اور مستقبل قریب میں بھی اس کے امکانات معدوم ہیں۔ بلکہ
جہاں تک حالات و واقعات کا جائزہ لیں تو اس دورحکومت میں شاید کرپشن میں
اضافہ ہی ہوا ہے۔ مگر اس کے باوجود اسے حکومت سے توقعات ہیں کہ یہ حکومت
کرپشن کے خاتمے کے لیے اقدامات ضرور کرے گی,اور یہ وقت کی ضرورت بھی
ہیں۔وگرنہ ہم دن بدن تباہی کی جانب بڑھتے جارہے ہیں جس کے اثرات زیادہ برے
بھی ہو سکتے ہیں۔
|