ناول :- درد زندگی قسط نمبر :- 7
(Aiman Shah Bangash, Islamabad)
ہادی نے اپنی اسٹڈی جاری رکھی ۔۔۔۔۔ہادی کے
بابا مالک حامد شاہ کا اپنا بسنسس تھا ۔۔۔۔
ہادی نے اپنے فرینڈ انس کی وجہ سے صرف تھوڑے عرصے کے لئے ٹیچنگ کی جو کے اس
اسکول میں ٹیچر تھا۔۔۔۔حیا کے جانے کے بعد ہادی دوبارہ اس اسکول نہیں گیا
۔۔۔۔۔۔
اور اس نے اپنی اسٹڈی اگے جاری رکھی ۔۔۔۔۔
لیکن حیا کی یاد اب بھی اسے ہر پل آتی ۔۔۔۔
جب بھی اس کو حیا کی یاد آتی وہ اپنی ڈائری پے کچھ نہ کچھ لکھتا ۔۔۔۔۔
ہادی نے قلم اٹھایا ۔۔۔اور غزل لکھنا شروع کی ۔۔۔شاید اسی طرح وہ اپنے دل
کا غم کم کرتا ۔۔۔
( رکوں تو اپنے گھر تیری کمی محسوس ہوتی ہے
چلوں تو دربدر تیری کمی محسوس ہوتی ہے
ابھی تو اس قدر تیری کمی محسوس ہوتی ہے
کہیں بھی ہو نظر تیری کمی محسوس ہوتی ہے
کسی غم سے گزرنا ہو کے دریا پار جانا ہو
کوئی بھی ہو سفر تیری کمی محسوس ہوتی ہے
ہوا کو بات کرنے کی اجازت بھی نہیں اب تو
کھڑے ہیں چپ شجر تیری کمی محسوس ہوتی ہے
تجھے تو مل گئے ہونگے کئی ساتھی لیکن
مجھے ہر موڑ پر تیری کمی محسوس ہوتی ہے )
ہادی نے اب لمبی سانس لی آنکھیں بند کر کے اپنی یادوں کی دنیا میں دور تک
چلا گیا ۔۔۔
لکین جب اسے اپنی انسلٹ یاد آتی تو غصہ اسکی آنکھوں میں آجاتا ۔۔۔۔
حیا کینٹین آیی تو جیا نے حیا کو پریشان دیکھ کے سوال کیا کیا ہوا ؟۔۔۔۔حیا
کی طرف پانی کا گلاس بڑھاتے ہوئے ۔۔۔۔۔
نینا نے بھی پوچھا حیا کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔
لیکن حیا صرف خاموش رہی ۔۔۔
سمیر کو احساس ہوا کے اس نے حیا کے ساتھ غلط کیا ۔۔۔
اس کا مقصد صرف حیا کو ڈرانا تھا ۔۔۔اسکو ہرٹ کرنا نہیں تھا ۔۔۔
سمیر حیا سے معافی مانگنے آیا ۔۔۔۔
حیا سوری ۔۔۔۔!! وہ حیا کی طرف شرمندہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔
میرا مقصد ۔۔۔تمھیں ہرٹ کرنا نہیں تھا ۔۔۔۔
سمیر کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی تھی کے اخیر وہ کیوں ایک لڑکی کے سامنے
اتنا کمزور پڑھ سکتا ہے ۔۔۔۔۔
مسٹر سمیر جسٹ شٹ اپ۔۔۔ تمھارا مقصد کیا تھا وہ مجھے بہت اچھے سے سمجھ آ
چکی ہے ۔۔۔۔۔
حیا غصے سے سمیر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔
دیکھو حیا تم غلط سوچ رہی ہو۔۔۔۔وہ حیا کا ہاتھ پکڑتے ہوئے بولا ۔۔۔۔
سمیر کو خود بھی سمجھ نہیں آرہی تھی ۔۔۔۔کے اس نے یہ لا پرواہی کیسے کی
۔۔۔۔
حیا نے اسے اپنا ہاتھ چھڑا کر ۔۔۔۔اسکے سینے پے دونوں ہاتھ رکھ کے اسکو
پیچھے کی طرف دھکا دیا ۔۔۔۔
جس کی وجہ سے وہ حیا سے تھوڑا دور ہوگیا ۔۔۔۔
حیا نے اپنے ہاتھ سے چھوڑیا نکل کے اسکے ہاتھ میں رکھی۔۔۔
اور غصے سے سمیر کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کے کہنے لگی۔۔۔۔
مسٹر سمیر تم یہ چوڑیا پہنو اسی کے کابل ہو تم ۔۔۔۔۔۔
لڑکی کو اکیلا دیکھ کے اس کو ڈرانا تم جیسے ہی مردو کا کام ہوتا ہے ۔۔۔۔
اب مجھ سے 10 قدم دور رہنا ورنہ تم میرے بابا کو نہیں جانتے ۔۔۔۔۔
کیا حال کر سکتے ہے وہ تمھارا ۔۔۔
سمیر اب بلکل چپ کڑھا تھا ۔۔۔
حیا ٹیبل سے اپنا موبائل اٹھا کے وہاں سے چلی گئی ۔۔۔۔
لکین سمیر ابھی بھی وہی کڑھا تھا ۔۔۔۔
سمیر نے چھوڑیو والا ہاتھ بند کیا غصے سے ۔۔۔۔
تو اس کے ہاتھ سے خون بہنے لگا ۔۔۔۔
اتنے میں اویس اور سعدی بھی وہاں آگئے ۔۔۔جو سمیر کے دوست تھے ۔۔۔
ایےیار ۔۔۔یہ کیا ہوا تیرے ہاتھ کو اویس سمیر کے ہاتھ کی طرف دیکھتے ہوئے
بولا ۔۔۔۔
یار بہت خون جا رہا ہے ۔۔۔۔آجا ڈاکٹر کا کلینک کریب ہی ہے ۔۔۔
اب کی بار سعدی سمیر کا ہاتھ پکڑ تے ہوئے بولا ۔۔۔۔
سمیر سعدی سے اپنا ہاتھ چھڑا کر گاڑی میں بیٹھا ۔۔۔اور غصے سے گاڑی سٹارٹ
کر کے وہاں سے چلا گیا ۔۔۔۔۔!!
حیا نے گھر انے کے بعد کچھ بھی نہیں کھایا ۔۔۔۔
بس اپنے روم میں اکیلے بیٹھی رہی ۔۔۔۔
پھلے پڑی اپی ہوتی تھی جو اسے زبرداستی کھانا كیلاتی آج تو وہ بھی نہیں تھی
حیا کے پاس ۔۔۔۔
حیا پڑی اپی کے بارے میں ہی سوچ رہی تھی کے انعم کا فون آیا ۔۔۔
جس سے حیا اپنے خیالوں کی دنیا سے باہر آ گئی ۔۔۔۔
السلام عليكم جانی ۔۔۔!!انعم نے بہت ہی پیار سے حیا کو سلام کیا ۔۔۔۔
وعلیکم اسّلام ۔۔۔۔حیا نے پھیکا سا جواب دیا ۔۔۔
کیا ہوا میری جان پریشان ہو حیا کے خاموشی سے اسکو اندازہ ہو گیا تھا کے وہ
پریشان ہے ۔۔۔۔۔
حیا صرف انعم سے ہی اپنی ساری باتیں شیر کرتی ۔۔۔
اس نے اپنے بہن، بھائی سے لیکے یونی کے سمیر تک کا سارا قصہ سنایا روتے
ہوئے ۔۔۔۔
انعم کو تو پھلے خود بھی یکین نہ آیا ۔۔۔۔تھوڑی دیر خاموشی کے بعد انعم حیا
کو تسلی دینے لگی ۔۔۔
حیا میری جان رونا بند کرو دیکھو جو بھی ہوتا ہے اس میں کوئی نہ کوئی راز
ہوتا ہے یہ اللہ کی طرف سے تم پر ایک امتحان ہے اور اللہ اپنے اچھے بندوں
کو ہی ازماتا ہے ۔۔۔۔تم تو بہت بہادر ہو نہ ۔۔۔۔
حیا تم ٹھیک ہو نہ اسے خاموش تو مت رہو پلز ۔۔۔۔
ہاں میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔
مجھے اب رات کو نیند نہیں آتی، مجھے دن کو سکون نہیں ملتا، میرے اندر کوئی
مجھے سے لڑھ رہا ہے جو مجھے مرنے بھی نہیں دیتا، میں ایک ایسی اذیت میں ہوں
جس کے بارے میں، میں خود بھی نہیں جانتی!!
ہاں میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔
مجھے اندھیروں سے خوف آتا ہے، سنسان سڑکیں، گلیاں، پرانے گھر جیسے اپنے پاس
بلاتے ہیں۔۔۔
میں آنکھیں بند کرو تو خود کو ویران جگہ پر پاتی ہوں، میری سرخ آنکھیں وہ
سب کچھ بیان نہیں کرتی جو میرے الفاظ کرتے ہیں۔۔۔
آنکھوں میں جمے آنسو تڑپتے ہیں اکثر مگر میں اس خوف سے انہیں بہنے نہیں
دیتی کہیں کوئی اس کی وجہ نہ پوچھ لے، میں کس دنیا میں رہ رہی ہوں مجھے اس
بات کا اندازہ نہیں۔۔۔
میرے دل و دماغ پہ جو سوار ہے وہ میں نہیں، ڈر ہیں کہیں مجھے سب پاگل نہ
سمجھے، کہیں سب مجھے چھوڑ نہ جائیں،
میں خود کو کتنا مضبوط بناؤ، میں لوگوں کو کتنی دفع یہ جھوٹ بولوں؟
ہاں میں بلکل ٹھیک ہوں۔۔۔۔
حیا نے روتے ہوئے اپنا درد بتایا ۔۔۔
انعم بھی چپ کر کے اسکی باتیں سنتی رہی اسے منا نہیں کیا تاکے وہ اپنا دل
ہلکا کر سکے ۔۔۔۔۔
حیا اب تم ریسٹ کرو انشاءلله صبح بات ہوگی ۔۔۔
انعم کو لگا اس وقت حیا کو آرام کی ضرورت ہے ۔۔۔۔۔
( جاری ہے ) |
|