ضیاع الوقتی ایک ناسور

ہمارے گلی،محلے،چوک چوراہے اور تھڑّے آج بھی ویہلے،نکمے، بے کار،اور فارغ البال عیاش کوشوں کی آماجگاہ نظر آتے ہیں، جہاں فحش گوئی،جگت بازی،گالم گلوچ،ٹھرک اور لچر پن کے حیاء سوز مناظر اور اخلاق باختگی کی شرم ناک داستانیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں
قوموں کی موت و حیات اور عروج و زوال میں وقت کو انتہائی اہمیت حاصل ہے، تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں ہمیشہ وہی قومیں بلندی و اوج کمال تک پہنچ پائیں جو وقت کی قدر و منزلت اور اس کی توقیر و حرمت کے راز سے آشنا تھیں-فتح و نصرت،کامیابی و کامرانی اور عظمت و برتری کی کلیاں اور پھول بھی ہمیشہ سے پابندی وقت کی ٹہنیوں پر کھلتے آئے- اور صرف یہی نہیں یہ سارا نظام کائنات، روز مرہ کی یہ گردش لیل و نہار،چاند اور سورج کا بر وقت طلوع و غروب، موسموں کا تسلسل،اور اسی طرح کھیتیوں اور فصلوں کا پکنا، یہ سب پابندی اوقات کے مظاہر میں سے ہیں،اور یہ فطری نظام الاوقات ہی کائناتی نظام میں ثبات و توازن کا باعث بھی ہے- قدرت کا یہ فطری نظام بے قاعدگی، عدم تسلسل اور بدانتظامی سے بالکل ماوراء ہے، اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے نظم و نسق کے لئے بھی چند قواعد و ضوابط اور ایک مخصوص نظام الاوقات کا ہونا ضروری ہے-

آج بحیثیت قوم ہم ایک ایسے سماجی و معاشرتی المیے کا شکار ہو چکے ہیں جو قلت انضباط و الاوقات کی شکل میں ہمارے اجتماعی وجود کو گھن کی طرح چاٹ رہا ہے،اور دنیائے عالم میں جدید طرز زندگی، ایجادات و اختراعات، سائنس و ٹیکنالوجی سے مزّین طرز معاشرت میں دن بدن ہماری پستی و زوال اور تنزلی و انحطاط کا باعث بھی بنتا جا رہا ہے- ہمارے ہاں وقت جیسی بیش قیمت شے کی اس قدر بے توقیری،بے وقعتی اور ارزانی ہے کہ ہمارے گلی،محلے،چوک چوراہے اور تھڑّے آج بھی ویہلے،نکمے، بے کار،اور فارغ البال عیاش کوشوں کی آماجگاہ نظر آتے ہیں، جہاں فحش گوئی،جگت بازی،گالم گلوچ،ٹھرک اور لچر پن کے حیاء سوز مناظر اور اخلاق باختگی کی شرم ناک داستانیں سننے اور دیکھنے کو ملتی ہیں،نجی محافل ہوں یا شادی بیاہ کے فنکشنز،غمی،خوشی کی تقریبات ہوں یا سیرو تفریح کے مشاغل تمام اوقات فضول گوئی، راگ رنگ،موسیقی،فحش گوئی اور گھٹیا جملے بازی، بحث مباحثے، عاشقی،معشوقی کی داستانیں سنانے میں برباد کر دئیے جاتے ہیں،اسی طرح آج کل گھروں میں موبائل، کمپیوٹر، انٹرنیٹ موویز وغیرہ جیسے غلاظت آمیز بیہودہ اور بیکار مشاغل میں وقت کی بربادی کے ساتھ ساتھ عادات و خصائل کے بگاڑ شرم و حیا اور سعادات و برکات کے جنازے نکلتے نظر آتے ہیں- اسی طرح آج کی نوجوان نسل دن رات ویڈیو گیمز، تاش لڈو،ہلڑ بازی،شراب،جواء اور دوسری منشیات کے استعمال کے وقت کش رجحانات میں مبتلا ہو کر بحیثیت قوم اپنے عملی، تعمیری اور فکری سرمائے کے بخئیے ادھیڑتے نظر آتی ہے-

اور صرف یہی نہیں ہمارے ہاں کے ایجوکیٹڈ، سمجھدار اور شعوری، عقلی صفات کے حاملین بھی اسی مرض خبیثہ کا شکار ہو چکے ہیں،آپ سرکاری اداروں میں بالخصوص اور پرائیویٹ اداروں میں بالعموم ان کے نظام الاوقات کو ذرا جھانک کر دیکھ لیجئیے...پہلے تو کوئی وقت پر پہنچتا نہیں،اور اگر پہنچ بھی جائے، جیسا کہ آج کل جدید بائیو میٹرک اٹینڈنس سسٹم سے ممکن ہوا... تو اس کے باوجود بھی سستی اور تساہل رگوں میں اس قدر سرائیت کر چکا ہے کہ کئی کئی گھنٹوں کے بعد اپنے آفیشلی کاموں کو ہاتھ لگاتے ہیں، اور اگر خدا خدا کر کے کام شروع کر بھی دیں تو پھر درمیان میں گھریلو سیاست، دفتری سیاست،ملکی سیاست،بین القوامی سیاست کے فلسفیانہ مباحث کا ایک نہ تھمنے والا ایسا سلسلہ جاری رہتا ہے، کہ باہر کئی کئی میٹر لمبی لائنوں میں کھڑے عمر رسیدہ نوجوان،بوڑھے اور عورتیں ان پر،اور اس گلے سڑے نظام پر لعنتیں بھیجتے نظر آتے ہیں- اس پر مستزاد یہ کہ ساتھ ساتھ وقفے وقفے سے چائے،سگریٹ،بیڑی جیسے بے کار مشاغل، اور آج کل تو دو دو گھنٹے کی ٹیلی فون کالز کا ایسا تانتا بندھتا ہے کہ آج کا کام کل،اور کل کا پرسوں اور پرسوں کے بعد کئی کئی ہفتے تک کے التوا کا شکار ہو جاتا ہے،اور پھر درمیان میں چھٹیوں اور تبادلوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا ہے،اسی باعث بعض اوقات تو دفتری امور اور معمولی کام مہینوں اور سالوں تک لٹکے پڑے رہتے ہیں، پھر یہیں سے رشوت،بدعنوانی،سفارش اور دوسری قبیح معاشرتی بیماریاں جنم لیتی ہیں، جو ملکی اداروں کی ساکھ اور اقتصادی تنزلی کے باعث تباہی و بربادی کا باعث بھی بنتی ہیں-

بلاشبہ آج ہماری پستی اور زبوں حالی کی بڑی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ روزمرہ زندگی میں وقت جیسی انمول اور گراں بہا نعمت کی بے قدری،ناشکری اور بے توقیری ہے- انفرادی اور اجتماعی زوال کا عمل وقت کی ناقدری سے ہی شروع ہوتا ہے،یہ جانتے ہوئے بھی کہ فارغ الوقتی اور فرصتِ بے جا، زوال پذیر اقوام اور معاشروں کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے،ہم اپنے روزمرہ امور،معمولات زندگی اور فرائض منصبی کی ادائیگی میں سستی،کاہلی، تساہل، ضعف اور کسلمندی کا شکار نظر آتے ہیں،تن آسانی اور آرام طلبی ہماری رگ رگ میں سرائیت کر چکی ہے، جو لٹکتے ہوئے پیٹ اور پھولی ہوئی سانسوں کی عملی صورت میں ہمارے جسموں سے چھلکتی نظر آتی ہے- یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے ھسپتال اور لنگر خانے آباد اور میدان ویران نظر آتے ہیں-

زندہ قومیں اپنے وقت کے ایک ایک لمحے کو متاع جان سے زیادہ عزیز سمجھتی ہیں، اسی لیے لوح وقت کی جبین پر ان کانام ہمیشہ کے لئے کندہ ہوجاتا ہے،اور پھر ہمیں تو بحیثیت مسلمان اللہ تعالیٰ نے پابندی اوقات کی سخت تاکید اور وعید بھی کی ہے، اسلامی فرائض اور شعائر و آداب میں نہ صرف وقت کی قدر و منزلت پر انتہائی زور دیا گیا ہے، بلکہ اس کی اہمیت و افادیت کا بھرپور اور مفضل احاطہ بھی کیا گیا ہے، اور یہی چیز ایک مومن کے اندر کائنات کی گردش اور شب و روز کی آمد و شد کا احساس
اور شعور بھی پیدا کرتی ہے

قرآن میں اس بارے بارہا احکامات موجود ہیں-
اسی طرح سنت نبوی (صلی اللہ علیہ وسلم) سے بھی وقت کی اہمیت اور اس کی قدر و قیمت مسلّم ہے اور قیامت کے دن خدا کے حضور انسان کو وقت کے متعلق جواب دہ قرار دیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ حساب کے دن جو بنیادی سوالات ہر انسان سے پوچھے جائیں گے ان میں سے بھی دو کا تعلق وقت سے ہی ہے-
کسی کہنے والے نے کیا خوب کہا ہے:-
''وقت سونے سے بھی زیادہ قیمتی شے ہے''
ایک عربی شاعر نے بھی اس سلسلے میں کیا خوب وضاحت کی:-
ترجمہ:- ''تیری زندگی چند محدود گھڑیوں کا نام ہے، ان میں سے جو گھڑی گذرجاتی ہے، اتنا حصہ زندگی کا کم ہوجاتا ہے''

انسانی خوشیوں کا راز وقت کے بہترین مصرف میں ہی مضمر ہے، یہ خوشی نہیں تو اور کیا ہے، کہ ہم ابھی تک زندہ ہیں اور ہمارے پاس اپنے فرائض و احکامات کی بجا آوری کا وقت ہے،اس سے بڑی خوشی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس عالم فنا میں ہماری سانسیں ابھی تک بحال ہیں،اور ہمیں اپنے قول و فعل اور افعال و اعمال سے اس کائنات میں چھپے رازوں کو آشکارا کرنا ہے-

سجدہ شکر بجا لانا چاھئیے کہ دل ابھی دھڑک رہے ہیں، اور ہم نے دنیا میں انسان اور انسانیت کی ھدائت و نصرت اور اس کے لئے امن و امان،سلامتی و آشتی کا پیغام بر بننا ہے- اپنے موجودہ وقت کی قدر کیجئیے، اس سے پہلے کہ زندگی کا یہ پچاس، ساٹھ، ستر سالہ پیکج ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ایکسپائر ہو جائے.....
Malik Irfan Sanwal
About the Author: Malik Irfan Sanwal Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.