پرانی دیوار جس پر شکستہ سیمنٹ کے ٹکڑے کہیں کہیں باقی رہ
گئے تھے اور چونے کا لیپ سیمنٹ کے ٹکڑوں پر خال خال جما ہوا تھا۔ یہ لیپ
جھڑتا اور دیوار کے نیچے لگےپیڑوں کے پتوں کو سفید کرتا۔
اور دیوار کے پیچھے لگے بوہڑ کے درخت کی اوٹ میں ڈوبتا لال انگار سورج بھی
سہی سے پہچانا نہیں جارہا تھا۔ اس قدر دھند اور آسمان گرد آلود تھا۔
بھینسوں کے گلے میں بندھی گھنٹیاں عجیب دکھی راگ سنارہی تھیں۔
اماں کے برآمدے سے نماز ادا کرنے کے بعد جائے نماز لپیٹتے ہوئے آسمان کو
دیکھا اور لمبا سانس بھر کر کچھ اور الفاظ ادا کیے۔
تو میں نے امی سے پوچھا یہ کیا بولا آپ نے ! بیٹا میں خدا سے دعا مانگ رہی
تھی یہ خدا آج خیر ہی کرے ۔ امی جان خیر کیسی!
بیٹا آسمان سرخ آلود ہے اور جب بھی آسمان ایسا ہو تو ضرور کسی کا ناحق
قتل ہوتا ہے۔
اورآج بھی دیکھ کہ کیسی سرخ آندھی ہے کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ پتہ نہیں کوئی
قتل ہوتا ہے یا نہیں پر جب بھی ایسی گردوغبار اور ایسا خونی آب وہوا ہو تو
میں سہم سی جاتی ہوں اور سراسیمہ ہوجاتی ہوں۔ اور چونکہ ایسا انہوں نے اپنے
بڑوں سے سن رکھا تھا تو یقین پختہ رکھتی تھیں۔
اور آج کل جب گلیوں میں نکلتاہوں تو ایک عجیب سی دھند ہے جو آنکھوں کو
چبھتی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ سورج جیسے بجھ سا گیا ہو۔ کہیں ہے جو جو بے
گناہ قتل ہورہا ہے کوئی ہے جو بے موت مارا جارہا ہے۔ موت کا گھناؤنا کھیل
کھیلا جارہا ہے۔ اور ہم سب مل کر اس مٹی کو خون آلود کررہے ہیں۔
آج ہمارے اردگرد ہزاروں بے گناہ مارہے جارہے ہیں بے قصور لوگ اور ان میں
تو کچھ ایسے ہوتے ہیں جنہوں نے ابھی پوری طرح دنیا کے رنگ بھی نہیں دیکھے
ہوئے۔
اور ہاں اگر کوئی کہتا ہے کہ وہ قاتل نہیں توغلط کہتا ہے کیونکہ آج ہر شخص
کسی انسان کا قاتل نہیں تو خود سے جڑی خواہشات کا قاتل ضرور ہے۔
اور اگر دیکھا جائے تو ہم تو ان قاتلوں میں شامل ہیں۔اور ہاں اگر کوئی اپنی
خواہشات کا قاتل نہیں تو اس زمین کا قاتل ضرور ہے کیونکہ جب ہم اس زمین سے
کوئی درخت کاٹتے ہیں تو اس زمین پر گہرا گھاؤ لگاتے ہم کوئی نئی ہاؤسنگ
سکیم کھولتے ہیں تو سرسبزباغات کو غرق کردیتے ہیں۔
درحقیقت ہم اسی سرخ آندھی کے ذمہ دار خود ہیں خواہ وہ کسی بھی صورت میں
ہو۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ہم نے اپنے منہ پر ماسک اور ہاتھوں پر دستانے
بھی پہن رکھے ہیں۔
|