نواب محمد صادق خان عباسی کا اصول تھا کے آپ کا یہ خیال
کرتے تھے کہ حاکم اورمحکوم کے لئے ایک دوسرے کی خدمت اور اعانت ملک کی ترقی
اورخوشحالی کاباعث ہوتی ہے بے شک ایسا ہی ہے نواب خاندان کے بہاولپور کی
تاریخ بنانے میں پاکستان کے باشندوں پہ بہت احسان ہیں ایک تویل جنگ لڑی ہے
نواب خاندان نے بہاولپور کے باشندوں کے لیے بہاولپور جو خود ایک ریاست کا
عہدہ رکھتی تھی اور پاکستان کے دلچسپ اور ثقافتی شہروں میں گنا جانا چاہیے
جس طرح اس طرح نہیں گنا جاتا لیکن اب بھی اعوام کی بھرپور کوشش ہے کے
بہاولپور اپنی الگ پہچان بن کے ابھرے بہاولپور کے شہر میں اردو ادب ایسے
رچا بسا ہے کے اس شہر کی ہوائیں ایک عزم میں بہتی ہیں بہاولپور کی سرزمین
نے ہمیں ادب کے ایسے ایسے ہیرے دیے ہیں کے ہم جتنا اس پہ شکر کریں خوش ہوں
کم ہے اگر ادیبوں پہ بات کریں اور دلشاد کلانچوی کا زکر نا کریں تو بہت
زیادتی کی بات ہوگی یہ دلشاد کلانچوی کا اصل نام عطا محمد تھا لیکن وہ ادب
کی دنیا میں دلشاد نام سے مشہور ہوئے بہاولپور سے انکی محبت قابل ستائش ہے
23 مارچ 1971ء کو انہوں نے سرائیکی لائبریری بہاولپور قائم کی جہاں سے
سرائیکی زبان و ادب پر کام کرنے والے محققین نے بہت فیض پایا۔ انہوں نے
سرائیکی زبان و ادب کی ترقی کے لیے جنوری 1986ء میں چار صفحات پر مشتمل ایک
ماہانہ خبرنامہ سرائیکی زبان جاری کیا جو 1989ء تک جاری رہا۔ ان کی سرائیکی
زبان سے محبت کے بارے میں ان کی بیٹی نامور افسانہ نگار و ڈراما نویس مسرت
کلانچوی کہتی ہیں۔
’’سرائیکی اُن کا اوڑھنا بچھونا ہے، اُن کی زندگی کا مقصد ہے، اُن کی عزیز
ترین شے ہے۔ انہوں نے خود کو اس کے لیے وقف کر دیا۔ وہ ایک دن اداس بیٹھے
تھے کہ چچا نظام الدین آئے، پوچھا بھائی صاحب آپ نے سب بچوں کو پڑھا لکھا
کر برسرِ روزگار کر دیا۔ ان کی شادیاں کردیں، سب بچے خوش اور آباد ہیں، پھر
بھی آپ پریشان ہیں۔ آخر کیوں؟ انہوں نے جواب دیا مجھے سرائیکی کی فکر کھائے
جا رہی ہے۔ میں اپنے بچوں کے فرض سے تو سبکدوش ہو گیا ہوں لیکن سرائیکی کا
فرض ابھی ادا کرنا ہے۔
بہاولپور کی دھرتی نے ایسے ایسے ہیرے پیدا کیے ہیں چند دن کے سکینڈل اور
چند لوگوں کی وجہ سے بہاولپور اس کی قوم اور نواب خاندان کا نام اچھالنا
ایک بہت ہی بے رحمانہ بات ہے ہم لوگ اسلیے دوسرے ممالکوں کی نسبت زیادہ
زلیل ہیں کے ہم اپنے شہروں کا نام اچھال اچھال کے ہیڈلائنز بناتے ہیں اگر
کسی کی خطا ہے کسی ایک کی تو اسکا اسکی زات پات کا خاندان کا پورا نام بغیر
بھی رپورٹ بنائی جا سکتی ہے میں جانتی ہوں سایست کے سیاستدانوں کے نیوز
چینلز کے کچھ اپنے طریقے کار ہوتے ہیں کچھ مجبوریاں لاحق ہوتی ہیں پر اسکا
مطلب یہ تو نہیں ہے کے نظام میں کوئی تبدیلی ممکن نا ہو تبدیلی تو کائنات
کا اصول ہے چند دنو سے بہاولپور اور نواب خاندان کے چشمو چراغ شکیل صاحب کو
بڑا اچھالا جا رہا ہے لیکن میں دیکھ رہی ہوں تو بس اتنا انکے نام اتنا
اہمیت کا حامل نہیں ہے چینل والوں کے لیے جتنا وہ اس بات پہ زور دے رہے ہیں
نواب شکیل نواب ہے نا بہت تعجب کی بات نواب خاندان کی حکومت انکے ادب کے
لیے خدمات اخلاق کے قصے کیا اتنے زنگ لگ گئے ہیں کے ہم. بس ایک سکینڈل کے
منتظر تھے افسوس ہوا اور دلی دکھ بھی پہنچا ریاست بہاولپور کے دوسرے نواب
محمد بہاول خان اول نے 1162ھ بمطابق 1748ء میں محمد پناہ خان گھمرانی کی
قیام گاہ کر گرد ایک دیوار تعمیر کروائی اور اس کے اندر ایک قصبہ تعمیر
کروایا جس کا نام اپنی نسبت سے بہاولپور رکھا۔ اس کی آب پاشی کے لیے نواب
نے ایک نہر کھدوائء جو پیر ہالا گاؤں تک جاتی ہے۔ جس کا نام خان واہ رکھا
گیا لیکن بل کھاتی ہوئی گزر گاہوں کی وجہ سے نانگنی مشہور ہے۔ میاں محمد
نواز شریف نے پل کیا بنا دیے آپ ان کے اندھے مداح ہیں لیکن انکا کیا وہ جو
ہمیں پاکستان اور اس میں موجود خوبصورت شہر اور ایک آزاد زندگی دے کے مٹی
کے نیچے چلے گئے انکے لئے کبھی ہم نے کچھ کیا خراج تحسین پیش کرنا بس یہی
تک ہوتا ہے ہم سے ہم خود کو تو ان اعلیٰ ہستیوں کے سانچے میں کبھی نا ڈھال
سکے لیکن ہم نے کام انکی روحوں کو تڑپا دینے والے کیے ہیں مجھے اس بات سے
کوئی اعتراض نہیں ہے کے نواب شکیل کے متعلق کیا رائے ہیں عوام کی ویسے وہ
غیر شادی شدہ ہیں اور یہ انکا نجی معاملہ ہے تو اسے ایسے غلط رخ دے کر پیش
کرنا غیر اخلاقی سیاست میں زاتیات پہ وہ اترتے ہیں جو اپنے آپ کو کسی شے کا
اہل نا سمجھتے ہوں میں ابھی بلاگ پڑھ کے ہٹی ہوں اور جس بات نے میرا دل
دکھایا وہ یہاں آپ سے شئیر کرنے لگی ہوں ذرائع کے مطابق نواب صادق محمد خان
عباسی کے خاندان کے چشم و چراغ 60 سالہ شکیل عباسی نے معروف ڈرامہ عہد وفا
میں کام کرنے والی 19 سالہ اداکارہ(دعا) علیزے شاہ سے شادی کی خواہش کا
اظہارکردیا۔دیکھا آپ نے نواب صادق کے خاندان کے چشم و چراغ ہے نا اچنبھے کی
بات کھڑے کھڑے ہم لوگوں کے دماغوں سے کسی کے لیے عزت منٹوں میں منجمند کر
دیتے ہیں کیا ہمارے میڈیا کو ایسا حق پہنچتا ہے خیر معاشرے میں پہلے بہت
زہر گھلا ہے خود پسندی کا اسلیے اسے ہلکا کرنے کے لیے اپنے کالم کا اختتام
تھوڑا کھٹے میٹھے انداز میں کرنا چاہوں گی نواب صاحب شادی ایک نیک خیال ہے
سنت نبوی ہے پر دھیان کریے گا کہیں آپ کو یہ نا کہنا پڑ جائے
تیڈے پچہے شاکر رل گئے ہاں
ہاسے سوہنڑے
بال نواباں دے |