|
’بدھ کو میرا آپریشن ڈے ہوتا ہے اور جس وقت حملہ ہوا میں آپریشن تھیٹر میں
ہی تھا۔ میں سرجیکل لباس میں ہی باہر آیا اور لوگوں کو وکلا کو مارنے سے
روکا۔‘ یہ الفاظ ایک ڈاکٹر کے ہیں جو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں
سرجن کے طور پر کام کرتے ہیں تاہم ان کا نام ان کی حفاظت کے پیش نظر ظاہر
نہیں کیا جا رہا۔ انھوں نے صحافی محمد زبیر سے گفتگو میں پی آئی سی میں بدھ
کو وکلا کی جانب سے ہونے والی ہنگامہ آرائی سے پیدا شدہ صورتحال کے بارے
میں بتایا۔
بدھ کو ان کے ہسپتال میں جب وکلا اور ڈاکٹروں کے درمیان تصادم ہوا تو وہ
ساہیوال سے آئے ایک 45 سال شخص کی اینجیوگرافی میں مصروف تھے۔’ اس وقت تک
ایک گھنٹہ صرف ہو چکا تھا اور کچھ ہی دیر کا کام باقی تھا۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ اچانک وہ چونک گئے۔ عموماً باہر کی آوازیں آپریشن تھیٹر کے
اندر نہیں سنائی دیتیں، لیکن اس دن باہر سے شور شرابے کی آوازیں واضح طور
پر سنائی دے رہی تھیں۔
انھوں نے اپنے سٹاف سے کہا کہ پتا کریں کیا ہو رہا ہے اور پیرامیڈیکل سٹاف
کا ایک اہلکار صورتحال کا جائزہ لینے باہر بھی گیا۔ لیکن جب کافی دیر گزر
گئی اور اس کا کوئی اتا پتا نہیں تھا تو ڈاکٹر پریشان ہوگئے۔
’میں خود صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے آپریشن تھیٹر کے دروازے پر پہنچا تو
مجھے اندازہ ہو گیا کہ باہر حالات انتہائی کشیدہ ہیں۔‘
پی آئی سی کے ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ جونہی آپریشن تھیٹر کے دروازے پر پہنچے
تو ہسپتال سٹاف کے کچھ اہلکار ان کی طرف دوڑے دوڑے آئے اور انھیں بتایا کہ
وکلا نے ہسپتال پر حملہ کر دیا ہے۔
’انھوں نے کہا کہ آپ آپریشن تھیٹر کا دروازہ بند رکھیں۔ اس موقع پر سٹاف کے
کئی لوگ اور مریضوں کے لواحقین بھی آپریشن تھیٹر کے اندر گھس آئے۔۔۔ ہم
انھیں نہیں روک سکتے تھے۔‘
ڈاکٹر کے مطابق انھیں سمجھ میں آ گیا تھا کہ ہنگامہ آرائی شدید ہے۔
’وکلا کے ہاتھوں کوئی بھی محفوظ نہیں تھا، کسی وقت کچھ بھی ہوسکتا تھا۔ مگر
میرا مسئلہ یہ تھا کہ میں نے ایک مریض کو زندگی اور موت کی حالت میں آپریشن
ٹبیل پر چھوڑا ہوا تھا۔ اس کی انجیوگرافی آخری مراحل میں تھی۔ میں نے چند
لمحوں میں فیصلہ کیا اور فی الفور آپریشن ٹیبل کی طرف بڑھ گیا۔‘
’آپریشن ٹیبل پر پہنچ کر میں نے اپنے سٹاف اور اپنے اسسٹنٹ ڈاکٹر سے کہا کہ
اس وقت بھول جاؤ کہ باہر کیا ہو رہا ہے اور آپریشن تھیٹرمیں کتنے لوگ موجود
ہیں۔ اس وقت ہمیں صرف اس مریض کی جان بچانی ہے اور اس کو محفوظ کرنا ہے۔‘
اگلے آدھے گھنٹے میں انھوں نے اپنے سٹاف کے ساتھ انجیوگرافی مکمل کر لی جس
کے بعد آپریشن ٹیبل ہی پر بعد از سرجری سہولیات مہیا کرنا شروع کر دیں۔‘
|
|
’اس کے بعد ایک اوپن ہارٹ سرجری کیس تھا۔ وہ مریض گذشتہ پانچ ہفتوں سے اپنے
نمبر کا انتظار کر رہا تھا۔ میں نے سٹاف سے پوچھا اور وارڈ میں فون کرنے کی
کوشش کی مگر کوئی بھی کال اٹینڈ نہیں کررہا تھا۔ جس کا واضح مطلب تھاکہ یہ
سرجری ممکن نہیں تھی۔‘
انھوں نے بتایا کہ وکلا نعرے لگا رہے تھے۔ ’جو بھی ان کے ہتھے چڑھتا اس کو
مار رہے تھے۔ وہ یہ نہیں دیکھ رہے تھے کہ یہ کوئی عورت ہے یا مرد۔ یہاں تک
کہ انھوں نے مریضوں اور ان کے لواحقین کو بھی معاف نہیں کیا۔‘
|
|
’وکلا نے ہسپتال میں داخل ہو کر ڈاکٹر، لیڈی ڈاکٹر، پیرامیڈیکل سٹاف،
مریضوں کے لواحقین اور یہاں تک کہ ایک 70 سالہ بوڑھی خاتون کو بھی تشدد کا
نشانہ بنایا۔ اس پر ہسپتال میں موجود لوگ مشتعل ہوگئے اور انھوں نے وکلا کو
مارنا شروع کر دیا۔ ہسپتال کے اندر اس وقت مکمل طور پر افراتفری کا عالم
تھا۔‘
حملے کے موقع پر موجود ڈاکٹر نے بتایا کہ اس وقت تک زیادہ تر وکلا جو
ہسپتال کے اندر توڑ پھوڑ کر رہے تھے، غائب ہو چکے تھے۔ جو کچھ بچ گئے انھیں
لوگوں نے دھر لیا اور انھیں مار مار کر زخمی کر دیا گیا۔
’میں اپنے سرجیکل لباس میں ہی انھیں بچانے آگے آ گیا۔ اگر میں ایسا نہ کرتا
تو شاید لوگ ان کو مار ہی دیتے۔ کچھ نے بھاگ کر آپریشن تھیٹر میں بھی پناہ
لی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ہنگامہ آرائی، مار کٹائی کے دوران عام لوگ بھی زخمی ہوئے۔
’اب ہم ان کو طبی امداد دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں کرسکتے تھے۔ ان میں
وکلا بھی شامل تھے۔ ہم نے عام لوگوں کی طرح ان کو بھی علاج معالجہ فراہم
کیا تھا۔ ‘
|
|
جب ہم ان کا علاج کر رہے تھے تو ہمیں معلوم تھا کہ وہ وکلا ہیں۔ انھوں نے
ہم پر حملہ کیا تھا۔ مگر اس وقت وہ زخمی تھے،مریض تھے۔ بحیثیت داکٹر ہمارا
فرض تھا کہ ان کی جان بچاتے۔ دنیا کا ہر ڈاکٹر ایسا ہی کرتا، نہ صرف میں نے
اپنے ہاتھوں سے کئی وکلا کو طبی امداد فراہم کی بلکہ میرے بہت سے ساتھیوں
نے بھی وکلاء کو مدد فراہم کی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ جب ہم وکلا کو طبی امداد فراہم کر رہے تھے تو اس موقع پر ان
کے ساتھ بات چیت بھی ہوئی تھی۔ وہ شرمندہ تھے۔ اس موقع پر انھوں نے مجھ سے
درخواست کی تھی کہ ان کی شناخت کو ظاہر نہ کیا جائے۔ ظاہر ہے جذبات بہت
زیادہ تھے۔ جس پر میں ان کی شناخت کو کسی بھی صورت میں ظاہر نہیں کر سکتا۔
ابتدائی طبی امداد کے بعد ان وکلا کو محفوظ راستہ فراہم کرنا تھا۔ یہ ایک
مشکل کام تھا۔ اس کے لیے میں نے اور میرے دوسرے ساتھیوں نے ان کو
ایمبولینسز کے ذریعے سے دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کروایا۔
اپنی گفتگو کے اختتام پر انھوں نے کہا اس دوران ہسپتال میں ہنگامے کی
اطلاعات گھر تک پہنچ چکی تھیں۔ میں فون کال اٹینڈ نہیں کرسکا تو گھر والے
ہسپتال پہنچ گے تھے۔ کتنی پریشانی تھی بتا نہیں سکتا۔
|