ستاروں پر کمند

انتخاب: ناصر محمود بیگ
وہ چاند پر دفن ہونا چاہتا ہے۔وہ زمین کے لوگوں کو مریخ پر لے جانے کا خواہش مند ہے۔وہ چاہتا ہے کہ لوگ ایسی گاڑیوں میں سفر کریں جو پٹرول اور گیس کی محتاج نہ ہوں،بلکہ بجلی کے ذریعے خود کار طریقے سے چلیں۔وہ اس بات کا بھی ارمان رکھتا ہے کہ لوگ اپنے گھروں میں ملازمین کی جگہ روبوٹ کی خدمات لیں۔دنیا کے ذہین ترین دماغ کا مالک ایک ایسا انسان جس کے مشکل ترین عزائم اور ناممکن منصوبوں کی وجہ سے دنیا اس کو پاگل کہتی ہے۔ان عزائم کی وجہ سے اس کے ساتھ کام کرنے والوں نے اس کو چھوڑدیاتھامگر اس نے ہمت نہ ہاری،لگن اور جد وجہد کے ساتھ لگارہااور بالآخر اپنے آپ کو منوالیا۔ آج یہ دنیا کا پچیسواں بااثرترین اور چالیسواں مالدار ترین آدمی ہے۔ اس شخص کودنیا ’’ایلون مسک‘‘ کے نام سے جانتی ہے۔

1971 ء میں جنوبی افریقہ میں پیدا ہونے والا یہ بچہ شروع ہی سے دنیا کے لیے عجیب رہا۔تنہائی پسند،پڑھائی سے بے زار اورجسمانی طورپر اتناکمزورکہ کئی باراسکول میں اپنے ہم جماعت لڑکوں سے مارکھائی۔بچپن کے کچھ ناخوش گوار حالات نے اس کو کتاب کے قریب کیا ، اس کا کوئی دوست نہیں تھا ، کتاب کی صورت میں اس کوبہترین دوست مل گیااور پھر جہاں بھی اس کوموقع ملتا وہ کتاب پڑھنے میں مصروف ہوجاتا۔وہ مطالعہ میں اس قدرکھو جاتا کہ لوگوں کی باتوں کو سنتا ضرور ، مگر جواب نہ دیتا۔والدین کو شک ہوا کہ شاید ان کا بچہ بہرہ ہے۔وہ ڈاکٹر کے پاس لے کر گئے لیکن ٹیسٹ اور چیک اپ کے بعد معلوم ہوا کہ وہ بالکل تندرست ہے۔

’’ایلون مسک‘‘ نے جو کچھ کتابوں میں پڑھا اس کی بنیاد پر ایک تصوراتی دنیا بناڈالی ، جس میں وہ ہمیشہ کھویا رہتا۔کمپیوٹر کے ساتھ بھی اس کا بے حد لگاؤ تھا۔کتاب اور ٹیکنالوجی کے امتزاج نے اس کی صلاحیتوں میں بے تحاشہ اضافہ کیا۔کمپیوٹر پروگرامنگ میں اس کو اس قدر کمال حاصل ہوا کہ فقط بارہ سال کی عمر میں اس نے ایک سافٹ وئیر بناڈالا۔1992 ء میں اس نے فزکس اور اکنامکس میں ڈگری حاصل کی۔فزکس کہ جس کو دنیا کا مشکل اور دلچسپ مضمون بتلایا جاتاہے ،ایلون کو اس میں بھی خصوصی مہارت حاصل تھی۔کہتے ہیں کہ فزکس اور کمپیوٹر ٹیکنالوجی پراگر آپ کی دسترس ہو تو پھر آپ کو ترقی سے کوئی نہیں روک سکتااور یہی حال’’ ایلون مسک‘‘ کا بھی تھا۔

وہ تخلیقی ذہن کا مالک ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کاروباری سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی تھا۔اس نے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنا شروع کیا۔ چنانچہ1999میں اس نے عملی زندگی کی ابتداء کرتے ہوئے ایکس ڈاٹ کام کے نام سے ایک آن لائن بزنس کمپنی بنائی جو بہت جلد کامیاب ہوگئی۔2002 میں اس نے ایکس ڈاٹ کام کو Ebayنامی کمپنی کو بیچا ،بدلے میں اس کو 165ملین ڈالر ملے۔یہ اس وقت کی ایک خطیر رقم تھی۔اب ایلون کے پاس دو راستے تھے۔وہ چاہتا تو آرام سے بیٹھ جاتا اور اس خطیر رقم سے دنیا جہاں کے مزے لوٹتے ہوئے ایک پرتکلف زندگی گزارتا۔جبکہ دوسرا راستہ محنت ،جدوجہداورآگے بڑھنے اور کچھ کردکھانے کا تھا۔اپنی فطرت سے مجبور ’’ ایلون مسک‘‘ نے دوسرا راستہ چنااور 2002ء میں اس نے اپنے سرمائے سے Spacexنامی کمپنی کی بنیاد ڈالی، جو فضائی راکٹ بناتی اورخلائی مشن کی ضروریات کو پوراکرتی ہے۔ایلون کا عزم تھا کہ مریخ سیار ے پر انسانی آبادکاری کو ممکن بنایا جائے۔

اگلے وقتوں میں وہ اپنا پہلا میزائل مکمل طور پرتیار کرنے میں کامیاب ہوگیا جس کو اس نے خلا میں بھیجا مگر وہ زمین کی مدارسے نہ نکل سکا اور پھٹ گیا۔’’ ایلون مسک‘‘ نے کوشش جاری رکھی اور کچھ عرصے بعد دوسرا میزائل بنایا۔اس کوبھی خلا میں بھیجا مگر وہ سمند ر میں گرکر غرق ہوگیا۔اس دوسری ناکامی نے ’’ ایلون ‘‘ کو بالکل ہی کنگال کردیا،اس کی کمپنی دیوالیہ ہوگئی اوردوست احباب نے اس کو کمپنی چھوڑنے اور کوئی دوسرا کام شروع کرنے کا مشورہ دیامگر۔۔وہ ایلون ہی کیا جو ہار مان جائے۔سارا سرمایہ ڈوب گیا تھا، اس نے گھر اور گاڑی فروخت کی اورکچھ دیگر ذرائع سے سرمایے کا بندوبست کرکے پوری دلجمعی کے ساتھ تیسرا میزائل بنانا شروع کیا اور اب کی بار اس نے اپنی مکمل توانائی اس کے تیار کرنے پر لگادی اور’’فالکن 9‘‘کے نام سے ایک خلائی راکٹ بنالیا۔چونکہ محنت کا صلہ ملتا ہے، اس لیے اب کی بار اس کی کوششیں رنگ لائیں اور یہ راکٹ کامیابی سے خلا میں پہنچ گیا۔اس کامیابی کے چرچے ہر طرف پھیل گئے۔اس کے لیے ایک بڑا اعزار اس صورت میں آیا کہ NASAجیسے بین الاقوامی ادارے نے اس کے ساتھ ’’فالکن‘‘ کے طرز پر راکٹ بنانے کاایک بڑا معاہدہ کیااوریوں اس پر کامیابی کے دروازے کھلنے لگے۔NASAجو امریکہ کی سب سے بڑی خلائی کمپنی ہے ، نے اعلان کیاتھا کہ ’’مریخ پر انسانوں کی آبادی2050ء تک ممکن ہے۔جبکہ ایلون کی کمپنیSpacexنے اعلان کیا کہ ’’ہم2025 ء تک انسانوں کو مریخ پر بسالیں گے‘‘۔ اس سے اندازہ لگایاجاسکتا ہے کہ Spacexکس قدر تیزی کے ساتھ اپنے مشن کی تکمیل میں لگی ہوئی ہے۔کچھ عرصہ قبل اس نے اپنی کارایک خلائی راکٹ کے ذریعے خلا میں بھیجی تھی او اس امید پر وہاں چھوڑ دی تھی کہ کسی نہ کسی دن ’’ایلینز‘‘ وہ اس تک واپس پہنچانے آئیں گے او ر یوں مریخ کے ساتھ ہمارے رابطے شروع ہوجائیں گے۔

Spacexکے علاوہ اس نے Teslaنامی کمپنی بھی بنائی۔جو برقی گاڑیاں بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی ہے۔یہ ایسی گاڑیاں ہیں جو ایک دفعہ چارج ہونے کے بعد 450کلومیٹر تک سفر کرسکتی ہیں۔اس میں آٹو میٹک سسٹم موجود ہے۔ایلون کا دعویٰ ہے کہ’’ ان گاڑیوں کا ایکسیڈنٹ نہیں ہوتا،یہاں تک کہ اگر ڈرائیور سو بھی جائے تو گاڑی ایک مخصوص سسٹم کے تحت محفوظ سفر کررہی ہوتی ہے۔‘‘اس کمپنی کی گاڑیاں مارکیٹ میں آچکی ہیں جن کو بہت زیادہ مقبولیت ملی۔’’ ایلون مسک‘‘ اپنی اورSpacexکی ان تمام تر کامیابیوں کا کریڈٹ اپنی ٹیم کودیتا ہے۔وہ سوچ سمجھ کر ٹیم بناتاہے۔اس کے ادارے میں ملازمت کی واحد شرط فقط ٹیلنٹ ہے۔وہ کہتاہے ’’اپنا کمال دکھاؤاور Spacexمیں آکر کام کرو ،مجھے کسی کی ڈگری سے کوئی غرض نہیں ‘‘۔

مزے کی بات یہ ہے کہ اس قدر بے پناہ مصروفیا ت کے ساتھ وہ چھ بچوں کا باپ ہے اور ایک مکمل فیملی رکھتا ہے۔جب ایک صحافی نے اس سے سوال کیا کہ’’ کیا آپ اپنے بچوں کو نارمل اسکول میں تعلیم دلوائیں گے ؟‘‘ ایلون مسک نے جواب دیا :’’ نہیں !کیونکہ یہ اسکولز بچوں میں لیڈر شپ اور تخلیقی صلاحیتوں کو پروان نہیں چڑھاتے۔یہاں صرف نمبرز اور گریڈ کا کھیل ہوتاہے۔‘‘ ایلون مسک نے اپنا سکول بھی بنایا ہے۔یہ اس لحاظ سے انوکھا سکول ہے کہ اس میں بچوں کو ان کے شوق کے مطابق تعلیم دی جاتی ہے اور ان کی بھرپور حوصلہ افزائی اور رہنمائی کی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے ٹیلنٹ کے بل بوتے پر کچھ کردکھائیں۔
شاعر مشرق علامہ اقبالؒ نے کہا تھا’’محبت مجھے ان جوانوں سے ہیں ،ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند‘‘۔دراصل یہ ترغیب مسلم قوم کے لیے تھی مگر شاید ہم ابھی تک اس سوچ کے قابل نہیں ہوئے۔اقبالؒ کے خیال میں ستاروں پر کمندیں ڈالی جاسکتی ہیں،بس شرط یہ ہے کہ آپ کے اندر ’’جنون‘‘ ہو،اورآج وہ جنون ’’ ایلون مسک‘‘ نے اپنے اندرپیدا کیا اورستاروں تک پہنچ گیا۔’’ ایلون مسک‘‘ آج کی دنیا کے لیے ایک عظیم مثال ہے۔اورخاص طورپر ان لوگوں کی نظریات کی تردید کرتا ہے جو صرف ڈگری کو کامیابی کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔’’ ایلون مسک‘‘ بغیر کسی سائنسی پس منظراورڈگری کے NASAجیسی کمپنی سے بھی دو ہاتھ آگے نکل گیاہے۔ایلون مسک کے بقول’’ ناکامیوں سے گھبرانے والے لوگ کبھی بھی اونچا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔‘‘اس کی کامیابیوں میں کتاب کا بہت بڑا دخل ہے۔یہ ان لوگوں کے لیے سبق ہے جو کتاب کی اہمیت سے انکاری ہیں اورکہتے ہیں کہ جدید ٹیکنالوجی کے دور میں کتاب کی کیا ضرورت ؟۔جبکہ ایلون مسک آج بھی بے پناہ مصروفیا ت کے باجودزیادہ تر وقت کتابوں کے ساتھ گزارتاہے۔وہ مروجہ تعلیم کی بجائے انسان کی تخلیقی صلاحیتوں کو کامیابی کا زینہ سمجھتا ہے۔وہ بتاتا ہے کہ تعلیم اور شوق کے ساتھ ساتھ کاروباری سوچ کا حامل ہونا بھی بہت ضروری ہے۔کیونکہ یہ سوچ آپ کو آگے بڑھنے کا حوصلہ دیتی اورآپ کے یقین کو مضبوط بناتی ہے۔وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ’’ناکامیوں سے سبق سیکھو،چاہے وہ آپ کی اپنی ہوں یا دوسروں کی ،ان تجربات کو دوبارہ کرنے کی ضرورت نہیں جن کو دوسرے لوگ کرچکے ہیں۔‘‘
 

Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1025309 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.