نئی محبت

احتشام آج اتنا پریشان تھا کہ زندگی بھر وہ اتنا پریشان نہ ہوا تھا ۔ دنیا کے سارے غم ایک بارات یا ایک جنازے کی طرح اس کے دل کے آنگن میں براجمان ہو گئے تھے اور جانے کا نام بھی نہیں لے رہے تھے۔ اس کی زندگی کا ایک ایک لمحہ عیش وعشرت اوررنگ رلیوں میں بسر ہوا تھا۔ اور پھر اس کے گرد نوخیزحسیناؤں کا سحاب تو ایک معمول کی بات تھی۔اس کے پاس دولت کی کمی نہ تھی اس لئے اس کی زندگی کسی محرومی سے آشنا نہیں ہوئی تھی۔اس کا ہر دن ایک نئی صبح کے ساتھ طلوع اور ایک نئی شام کی شفق اپنی بانہیں پھیلائے اس کی منتظر ہوا کرتی۔ اس کی راتیں اس کے دنوں سے زیادہ حسین و رنگین تھیں۔ اس کی زندگی مغل شہزادوں سے بھی زیادہ پُرکشش اور دلفریب تھی۔ فکر مندی سے لدی ہواؤں کو اس کی وسیع وعریض حویلی میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی۔
اس کی مست جوانی کئی دل ربا نرجسوں کے دامنِ دلکشا کی اسیر رہ چکی تھی ، عیش تو جیسے اس کی زندگی کی ضرورت نہیں بلکہ زندگی تھی۔ اس نے جب سے جوانی کی سرسبز زمین پر قدم رکھا تھا ، اس کا دل کسی نہ کسی حسینہ کا پرستار رہا تھا اور اس کی نگاہِ انتخاب جس پر پڑ جاتی وہ اس کے پاس ہو کرتی۔ لیکن اس کا ہر جائی پن تھا کہ اس کا دل کسی پر ٹِک نہیں رہا تھا اور اس کے دل کی گاڑی کئی بستیوں کا سفر کرتے ہوئے کسی نا معلوم منزل کی طرف بڑھتی چلی جا رہی تھی۔
کالج اوراکیڈمی کی کو۔ایجوکیشن نے اس کا موبائل بہت سی لڑکیوں کی تصاویر سے بھر دیا تھا۔ اس کی تعلیم میں کئی لڑکیوں کے نصاب بھی شامل ہو چکے تھے۔ اس کے اس طرح کے تعلقات سب پر عیاں تھے اور لڑکیاں بھی اس تعلق کو چھپانا ضروری نہ سمجھتی تھیں۔ اس کی اٹھتی جوانی ، کئی دلوں کا ارمان بن چکی تھی اور وہ بھی کسی موجِ مضطرب کی طرح کسی ایک پر اکتفا نہیں کر پا رہا تھا۔ اسے لڑکیوں سے بات کرنے، ان کے دل جیت لینے کا سلیقہ اتنا زیادہ آ چکا تھا جیسے کوئی ماہرمصور تصویر میں رنگ بھرنا سیکھ لیتا ہے۔ جذباتی باتیں ، جذبات کی تسکین ، تحائف ، ہنسی مذاق کی باتیں کرنا ۔ ساری ساری رات باتیں کرتے رہنا۔ دوسروں کو بیلنس ڈلوا کر دیتا۔ جانے کیا کیا اس کی زندگی کا معمول سا بن گیا تھا۔عیش اور دولت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ بِن کیش، عیش نہیں ہو سکتی۔
کالج کے بعد یونیورسٹی کی تعلیم نے تو اسے ایک فلمی ہیرو ہی بنا دیا تھا۔ لڑکیوں کے معاملات میں اسے پہلے ہی سے بہت ساتجربہ حاصل تھا۔ اب تو اور بھی کمال ہی ہو گئی تھی کہ لڑکیوں کی ہچکچاہٹ بھی ختم ہو چکی تھی۔ اب اس کے گرد ایسی حسیناؤں کے ڈیرے اور پھیرے تھے جن کو اپنی زندگی کا فیصلہ کرنے کا اختیار بھی حاصل تھا اور ان کے ذاتی معاملات میں کسی اور کو دخل اندازی کی اجازت نہ تھی اور نہ ہی ان کوکسی کا ڈر خوف تھا۔ ان کے گھر والے بھی ایسے روشن خیال اور ترقی پسند تھے کہ مشرق میں مغرب کا ماحول فراہم کر رکھا تھا۔ شخصی آزادی کا بھوت مغرب کے بعد اب مشرق میں بھی جادو جگا رہا تھا اور اوپر والے گھرانے بڑی تیزی سے اس جادو کو آبِ حیات سمجھ کر پیئے جا رہے تھے۔یونیورسٹی میں تنگ نظری کی گنجائش نہیں ہوتی۔ اس ماحول کی آزادی انسان کو بہت بلندی پے لے جاتی ہے جہاں سے اس زمین کی پستی پر واپسی اکثر مشکل ہو جاتی ہے اور بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات انسان فضا ہی میں معلق ہو جاتا ہے کہ وہ اس قدر اعلیٰ خیالات و نظریات کا مالک بن جاتا ہے جو اسے زمین پر اترنے نہیں دیتے اور بلندی اسے قبول نہیں کرتی کہ وہ زمین کا باشندہ ہوتا ہے۔ اس لئے اسے زمین پر واپس بھیجا جانا ضروری سمجھا جاتاہے اس طرح یونیورسٹی ذہن کے فضا میں معلق رہنے کا مسئلہ بن جاتا ہے۔
خیر احتشام کو نظریات و خیالات کا کوئی مسئلہ نہ تھا اس کی زندگی تو عیش و عشرت کا محل تھی وہ دنیا کے کسی شہزادے سے کم حیثیت نہیں رکھتا تھا۔ نواب مراد علی خاں کی اکلوتی اولاد ہوتے ہوئے اسے تو جیسے دنیا میں ہی جنت ملی ہوئی تھی لیکن افسوس کہ اسے جنت والا سکون ساری زندگی میسر نہیں آ سکا تھا کیوں کہ وہ خود بھی سکون کا دشمن تھا۔ اس کی طبیعت میں کچھ ایسا اضطراب تھا جیسا پارے کے نصیب میں لکھا گیا تھا وہ کسی آن سکون نہ کر پاتا ۔ اس کی زندگی جذبات کی اکھاڑ پچھاڑ بن چکی تھی۔
یونیورسٹی میں اس کی ایک کلاس فیلو اس کے ہم پلہ مل گئی اور پھر میچ شروع ہو گیا۔
اس کا نام بھی سحر تھا اور وہ کسی ساحرہ سے کم بھی نہیں تھی۔ زمردی آنکھیں، یاقوتی ہونٹ، گلابی رخسار، چمکتا ماتھا، دھمکتا چہرہ، اسودی زلفیں، سرو قد، نشیلی جوانی، لباس میں بجلی، رفتار میں ناگن، گفتار میں جادو : جانے فطرت نے اسے اورٹرائے کی ہیلن کو اکٹھے ہی بنایا تھا۔ اس کی ذہانت کے گُن تو یونیورسٹی کا سارا ڈیپارٹمنٹ ہی گا رہا تھا ۔ وہ یونیورسٹی میں اپنی ادا کی ایک انوکھی لڑکی تھی۔ ویسے تو یونیورسٹی کا ہر طالب علم ہی لاکھوں میں ایک ہوتا ہے لیکن سحر یقینی طور پر کروڑوں میں ایک تھی۔ اس کا ثانی یونیورسٹی پروفیسروں نے بھی کبھی نہ دیکھا تھا۔ ویسے ہوتا یوں ہے کہ ہر سال یا ہر سیشن میں ایک دو سٹوڈنٹس ایسے آ جاتے ہیں جو واقعی نگینے ہوتے ہیں۔ ان کی مثال پوری کلاس میں نہیں ہوتی، لیکن پچھلے سارے ریکارڈ توڑنے والی سحر سے زیادہ بے مثال کوئی طالبہ ابھی تک یونیورسٹی کے درو دیوار نے نہ دیکھی تھی۔ اس لئے سحر کی شہرت احتشام سے بھی کچھ زیادہ تھی۔ احتشام اتنا ذہین نہ تھا اگرچہ اپنی جاذبیت میں وہ بہت ساروں سے پہلے نمبر پر تھا لیکن سحر چوں کہ لڑکی تھی اور عورت کی کشش تو فطرت کی ہر چیزکو اپنی طرف کھینچ لے جاتی ہے۔لیکن وہ واقعی ذہین بھی تھی۔
ہوا وہ جو ہاتا ہے ، کیا ہوتا ، وہی جو تقریباًہر نوجوان کو ہو جاتا ہے۔ احتشام ، سحر کی زلفوں کاا سیر ہو گیا ، اور کیا ہونا تھا۔ عادی مجرم اپنی پرانی حرکت پر آگیا تھا ۔ اس بار اس کا واسطہ کسی عام لڑکی سے نہیں بلکہ سحر جیسی حسینہ سے تھا جس پر اگر کوئی شاعر فریفتہ ہو جاتا تو اپنا پورا دیوان ہی اس کی خوبصورتی کے گیتوں اور غزلوں سے بھر دیتا اور پھر بھی اس کا من نہ بھرتا ۔ اور اگر اس پر کوئی کھلاڑی فریفتہ ہوتا تو ضرور اناڑی ثابت ہو جاتا ۔ اس کو’ فطرت کی انوکھی تخلیق‘ کہتے ہوئے اکثر نوجوان اپنی گفتگو کا اختتام کیا کرتے۔ اس سے آنکھ ملانا، تو اپنے دل پر خود ہی خنجر سے وار کرنے کے مترادف تھا۔ اس لئے کمزور دل والے اس کے راستے سے خود ہی پیچھے ہٹ جاتے اور دل کو اس کے قدموں کی دھول میں برباد ہو جانے سے بچا لیتے۔
لیکن احتشام بھی پیشہ ور عشق باز تھا۔ عاشقی اور عشق بازی میں فرق تو ہمیشہ ہی رہا ہے یعنی جب تک دل قابو نہ آئے عشق بازی ہے اور جب دل قابو آ جائے تو عشق ہے ۔جو انسان کے جسم کو ہی نہیں،دل اور روح کو بھی نچوڑ کر صاف ستھرا اور ہلکا پھلکا کر دیاتا ہے۔احتشام کی عشق بازی بھی اب عشق میں ڈھل چکی تھی۔ اس کی جوانی کو شاید ایسی ہی مستانی کی ضرورت تھی جسے پا کر انسان کو مذید کسی شے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔ جیسے ایک انسان میں سارا حسن مرتکز ہو چکا ہوتا ہے جیسے گلاب، جیسے تاج محل، جیسے قوسِ قزح، جیسے سحراور پھر جیسے ’سحر‘۔
سحر ایک ارب پتی باپ کی اکلوتی بیٹی تھی اس کے باپ کا اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک چمڑے کا وسیع و عریض کاروبار تھا۔ وہ تعلیم سے بہت زیادہ دلچسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ کچھ کھیلوں اور مزیدار کھانوں کی بھی شوقین تھی۔ اس کے پاس بیک وقت چار سے پانچ کاریں مختلف رنگوں اور کمپنیوں کی رہا کرتی تھیں۔ وہ مسلسل دو دن ایک ہی کار میں یونیورسٹی نہیں آیا کرتی تھی، اسے ورائٹی بہت پسند تھی۔ اس کی محبت میں کئی کزن اور دوسرے نوجوان رہ چکے تھے لیکن کسی کی اس کی جذبات کی دہلیز تک رسائی نہ ہو سکی تھی۔ اس کا انتخاب کوئی عام شخص تو ہو ہی نہیں سکتا تھا۔ ہر انسان اپنے سے بہتر کاانتخاب کرنے کی خواہش رکھتا ہے اور مجبوری میں اپنے سے کمتر پر اکتفا کر لیتا ہے۔ لیکن اسے ابھی ایسی کوئی مجبوری نہ تھی۔ وہ ابھی بہار کے آغاز میں تھی۔ اس لئے پریشانیوں کو اس سے ملنے کی قطعاً اجازت نہ تھی۔
احشام ، اور سحر کی دوستی آہستہ آہستہ موسم کی شدت کی طرح زور پکڑ رہی تھی۔ احتشام تو مکمل طور پر اس کی طرف مائل تھا لیکن ابھی وہ سحر کو اپنی محبت کے سحر میں پکڑ لینے میں ناکام ہی چلا جا رہاتھا۔ اس نے اپنے طور پر بہت کوشش کی کہ کسی طرح وہ اس کو اپنی محبت پر قائل کر سکے۔ لیکن سحر کی آنکھیں ایک تتلی کی سی پھرتی کے ساتھ اس کی چکنی چپڑی عاشقانہ باتوں پر سے یوں اڑ جاتی جیسے بادلوں کے آنے سے دھوپ اڑ جاتی ہے۔ وہ احتشام کی ذہنی قابلیت سے مطمئن نہ تھی جب کہ احتشام اسے اپنی نوابی، زمین ، اور رعب و دبدبہ کی کہانیوں کے ذریعے قابو کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ خیر ، ایک کلاس میں پڑھتے ہوئے اور کلاس کے فنکشنوں میں حصہ لیتے ہوئے ، یونیورسٹی کی آزاد فضاؤں میں دو لوگوں کا کسی حد تک قریب آ جانا ایک معمول کی بات بن جاتا ہے۔
سحر اور احتشام کے مابین دوستی کا بندھن کچھ آگے بڑھا اور کچھ تحائف کے تبادلے ، کچھ میسجنگ اور کچھ کالیں جن سے ان کا تعلق آپس میں باقی کلاس فیلوز سے کسی حد تک زیادہ ہو گیا تھا۔ ان کو کلاس میں ایک دوسرے کے پاس پاس بیٹھے دیکھا جانے لگا۔ ان کی کاریں اکٹھی یونیورسٹی کے گیٹ میں سے گزرنے لگیں۔ ان کو بعض دوستوں نے بڑے بڑے ہوٹلوں میں اکٹھے آتے جاتے بھی دیکھا ۔ اور اکثر کو یہ گمان ہونے لگا کہ وہ جلد ہی شادی بھی کر لیں گے کیوں کہ دونوں ہی ان کی نظر میں ہم پلہ تھے اور ان کی شادی کے رستے میں کوئی رکاوٹ بھی کسی کو نظر نہیں آ رہی تھی۔
چلتے چلتے دو سال کا دورانیہ ایسے گزر گیا جیسے دو دن گزرے۔ سمسٹر وں کے اختتام کی باتیں ہونے لگیں۔ طالب علم ایک دوسرے کو حسرت بھری نگاہوں سے دیکھنے لگے کہ کاش یہ مہینے کچھ زیادہ طویل ہو جائیں تا کہ وہ کچھ اور وقت اکٹھے گزار لیں۔ لیکن وقت سب کے ساتھ ایک جیسا برتاؤ کرتا ہے جب ختم ہونے پہ آتا ہے تو کسی کو مہلت نہیں دیتا چاہے کوئی امیر ہو یا غریب۔ کلاس کا وقت بھی ختم ہو رہا تھا۔ اور جن لوگوں کی آپس میں انڈر سٹینڈنگ تھی وہ اسے مزید طوالت دینے کے منصوبے سوچ رہے تھے کہ اپنی دوستی یا محبت کو کسی طرح ہمیشہ کے لئے حاصل کر لیا جائے۔ تعلیم تو حاصل ہو گئی تھی اب زندگی کی شاہراہ کا ساتھ بھی حاصل ہو جائے تو کتنا ہی اچھا ہو۔ کیوں کہ دو سال کے دوران انہیں ایک دوسرے کی نفسیات اور میلانات سمجھنے کا مکمل موقع مل چکا تھا جو ہماری سوسائٹی میں کہیں اور ملنا مشکل ہوتا ہے۔ یا ان کیا ان دوسالوں میں ذہنی قربت اور ہم آہنگی فروغ پا گئی تھی اور ان کی سوچوں کو زندگی کے سمندر کا دوسرا کنارہ نظر آ رہا تھا۔
احتشام کے دل میں بھی یہی امنگیں پنپ اور تڑپ رہی تھیں۔ وہ چاہتا تھا کہ کلاسیں ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ سحر سے شادی کی رضامندی لے لے۔ کیوں کہ دوستی اور محبت کے چاہے جتنے بھی اظہار ہو جائیں ، جو ٹو دی پوائنٹ بات کی سچائی ہے اس میں کسی دوسری بات کو دخل حاصل نہیں ہے۔ لیکن سحر اس سے اس ٹاپک پے بات کرنے سے اوائڈ کرتی محسوس ہوتی ۔ کبھی کبھی موقع پا کر اگر احتشام گفتگو کی سمت شادی کی طرف موڑتا تو گفتگو کے فٹ بال کو کسی اورسمت میں ہٹ لگا دیتی اور یوں گول ٹل جاتا ۔ لیکن جیسے جیسے کلاسوں کے اختتام کی تاریخ نزدیک آ رہی تھی احتشام کی بے چینی ، اضطراب میں ڈھلتی جا رہی تھی۔ اسے یوں لگ رہا تھا کہ سحر اس کی زندگی میں آنے والی تمام لڑکیوں کی طرف سے اس سے بدلہ لے رہی ہو۔
لیکن وہ اس سے زبردستی بھی تو کچھ منوا نہیں سکتا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ جتنی اسے سحر سے محبت ہے اتنی سحر کو اس سے نہیں ۔ لیکن وہ یہ نہیں جانتا تھا کہ سحر کو اس سے محبت ہے ہی نہیں یا یہ صرف دوستی ہی ہے جسے اس نے محبت سمجھ لیا ہے۔ وہ خیالات کے اسی شش وپنج میں کھویا رہتا لیکن اسے کسی کنارے پر پہنچنا تھا کیوں کہ منجدھار میں تو انسان ڈوب جاتا ہے اور سوچیں اور جذبات بھی باقی نہیں بچتے۔ وہ کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتا تھا۔ اس کی آنکھیں جو اس وقت تک آنسوؤں سے ناواقف چلی آ رہی تھیں اب اشک آشنا ہو رہی تھیں۔ اس کی نوابی ، حسن کے آگے تو شاید ہیچ نہ ہوتی لیکن محبت کے آگے سرنگوں ہو چکی تھی۔ وہ اب اپنے عام کو محبت کا اسیر اور فقیر سمجھ رہا تھا جو سحر کے دروازے پر دستک دے کر اپنی محبت کی بھیک مانگ رہا ہو۔ لیکن سحر اس کو کوئی واضح جواب نہیں دے رہی تھی اور محبت واضح جواب کے باوجود بھی اپنا گلا نہیں گھونٹتی اور امیدکے گرداب سے باہر بھی نہیں نکل پاتی۔ سحر ، شادی کی طرف آنے کو تیار نہ تھی۔ لیکن وہ احتشام کی جذباتی کیفیت کو شدید مشکل میں دیکھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ اس نے موقع ٹالنے کے لئے احتشام کو اگلے مہینے کی وہ تاریخ بتائی جب کلاسوں کا کام ختم ہو چکا ہو گا ۔ ان کو نتائج بھی مل چکے ہوں گے اور ان کے ملنے کی کوئی روٹین بھی نہ رہی ہو گی۔
احتشام نے اس بات کو بھی مان لیا کہ اگلے مہینے وہ شہر سے باہر واقع عظیم الشان ہوٹل ’دی بلیو نائیٹس‘ میں شام کے سات بجے کھانا کھائیں گے۔ اس ملاقات میں وہ شادی کا معاملہ بھی ڈسکس کریں گے اور وہ بھی اپنے گھر والوں سے اس معاملے پر بات کر لے گی۔ یہ ایک چال تھی، دلاسہ تھا ، دھوکہ تھا یا شاید ایک سچائی تھی۔
احتشام نے اس تاریخ تک اپنے آ بائی علاقے ،جہاں کا وہ نواب تھا نہ جانے کا فیصلہ کیا کیوں کہ وہاں جا کر وہ سحر سے کچھ اوردور ہو جاتا۔ وہ سحر کے سحر میں اس قدر بے خود ہو چکا تھا کہ وہ اس سے جسمانی یا میکانی طور پر بھی دور نہیں جا سکتا تھا۔ اس کی زندگی کی ساری عیاشی اور بد معاشی اب دلخراشی میں بدل چکی تھی۔اس کی شیو بڑھ جاتی اور وہ اس کی پرواہ نہ کرتا، اس کے کپڑے بھی پہلے جیسی ٹھاٹھ باٹھ نہیں رکھ رہے تھے۔ وہ ایک عاشق ِ زار بن چکا تھا۔ اس سے اپنا عشق چھپایا نہیں جا رہا تھا۔ویسے عشق چھپایا جائے تو اسے عشق کہا بھی نہیں جا سکتا۔ عشق انسان پر حاوی ہو تو تبھی تو عشق کہلاتا ہے۔
آخر کئی ہفتوں کے لمبے انتظار کے بعد وہ لرزتی اور دل کو لرزاتی شام آن پہنچی۔ احتشام کا دل صبح ہی سے وسوسوں کی اماج گاہ بنا ہوا تھا۔ ادھر اس ہندوزن سحر کا پچھلے دس دن سے نمبر بند جا رہا تھا ۔ آج بھی احتشام نے کئی بار اس کا نمبر ملایا تھا لیکن آگے سے یہی جواب ملتا کہ’ آپ کا مطلوبہ نمبر فی الحال بند ہے۔تھوڑی دیع بعد کوشش کریں‘۔ لیکن یہ آواز سن سن کر احتشام کے کان بور ہو چکے تھے۔ وہ کئی بار دعا مانگ کر بھی کال کرتاا لیکن سحر پتہ نہیں کہاں مر گئی تھی اس کا نمبر اٹھا ہی نہیں رہی تھی۔ کبھی وہ پہلی سے دوسری کال نہیں ہونے دیا کرتی تھی کہ فون اٹنڈ کر لیتی تھی۔ اور اکثر یہ بھی کہا کرتی تھی کہ ’میں بھی ابھی آپ کو فون کرنے ہی والی تھی‘، کبھی کبھی کہتی کہ’ میں نے ابھی آپ کے متعلق سوچا ہی تھا کہ آپ کی کال آگئی‘۔ اس طرح کی اور بہت سی باتوں نے احتشام کو بہت گہرے اندھیرے میں ڈالا ہوا تھا کہ شاید سحر بھی اسے دل سے چاہتی ہے۔ خوبصورتی کی کشش کی تو بات کی ضرورت ہی نہیں ہوتی۔ لیکن اس طرح کی ہمدردانہ باتیں بھی بہت سے لوگوں کو اپنائیت کی غلط فہمی کا شکار بنا دیتی ہیں جن میں سے ایک احتشام بھی تھا۔ آج کا دن تھا کہ گزرنے کا نام ہی نہ لے رہا تھا ۔ احتشام کا ایک ایک لمحہ پریشان اور بیتاب ہو رہا تھا اور اسے آج کی شام کی اندوہناکی کا بھی خدشہ تھا کہ شاید آج سحر اس کی زندگی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے نکل جائے ۔ اسے بہت کم امید تھی کہ سحر سے اس کی دوستی اور محبت نئی زندگی میں بھی جاری رہے گی جس کا پہلا منظر پچھلے دس دن کی لا تعلقی سے ظاہر ہو رہا تھا۔ اس نے سحر کے سارے نمبروں پر کال کر کے دیکھا تھا لیکن کسی نمبر سے بھی اسے رسپانس نہیں مل رہا تھا۔
شاید سحر نے ساری سمیں ہی بدل لی ہیں ، تاکہ یونیورسٹی کی تما م رشتہ داری ختم ہو جائے اور کوئی اسے اس کی مرضی کے بغیر فون یا میسج بھی نہ کر سکے۔ یا شاید اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آ گیا ہو جس کا امکان بہت کم تھا کیوں کہ اس صورت میں اس کی خبر کلاس فیلوز میں شیئر ہونے کا امکان زیادہ تھا لیکن کسی کلاس فیلو کی طرف سے ایسی کوئی خبر نہ آ سکی تھی۔ کلاس فیلوز سے بھی پتہ کرنے پر یہی معلوم ہو رہا تھا کہ اس کا نمبر بند جا رہا ہے۔شاید وہ کہیں مصروف ہے۔
سہ پہر سے شام تک کا سفر احتشام کے دل کی دھڑکنوں میں بتدریج اضافے کا سبب بن چکا تھا اسے ڈر بھی محسوس ہو رہا تھا کہ کہیں اس کا دل فیل نہ ہو جائے۔ اس نے زندگی میں بہت زیادہ عیش کی تھی لیکن آج اس ساری عیش ایک پتنگے کی شکل میں ڈھل کر عشق کی شمع پر فدا ہونے جا رہی تھی۔ وہ آج عشق کی اصل لذت سے آشنا ہو رہا تھا جس کے آگے عیش کی لذت بے معنی محسوس ہو رہی تھی اس کے دل کی دھڑکن میں اضافہ اس کی سانسوں کی تیزی اور اس کی آنکھوں کی اشک باری اس کے عشق کی گواہی دے رہی تھیں۔ اور وہ سحر کو پانے کی تما م کوششوں کے بعد اپنی ناکامی کے قریب ہو رہا تھا۔
سہ پہر آہستہ آہستہ گہری ہونے لگی، دھوپ کی چمک میں کمی واقع ہوتی گئی یہ دھوپ آج اس کی آس اور امید کی نشاندہی کر رہی تھی۔ اس کے پاس دل کے دریا میں ڈوب جانے کی سوا کوئی رستہ نہیں رہ گیا تھا ۔ اس کی سوچیں اس کا دل کاٹ رہی تھیں اوروہ سوچوں کے نشتر اپنے دل پر چلنے کے باوجود ان سوچوں کے خلاف سوچنے کی بھرپور کوشش کر رہا تھا ۔ ایک زمانہ تھا کہ اس کی من پسند سوچوں کی حکمرانی تھی وہ جس کو سوچتا اس کے پاس آ جاتی۔ لیکن ایک زمانہ یہ کہ وقت اس کی سوچوں کا دشمن ہو چکاہے ۔ اس نے جو سوچا ، وقت اس کے خلاف جا رہا ہے۔ اور وقت کے ساتھ کون لڑ سکتا ہے: مہربان ہو جائے تو اس کی مرضی اور بے رحم ہو جائے تو اس کی مرضی ۔ وقت انسان کی مرضی نہیں پوچھا کرتا۔ انسان کو وقت کی مرضی ماننی پڑتی ہے۔
شام کے سات بج گئے۔ احتشام کچھ دیر پہلے ہی اس شاندار ہوٹل ،دی بلیو نائٹس، میں آ چکا تھا جہاں وہ اکثر آیا کرتے تھے۔ اور وہی کمرہ اس نے بک کروایا ہوا تھا جو وہ ہمیشہ بک کروایا کرتے، یعنی گیٹ کے پاس جہاں سے باہر کے مناظر تو نظر آتے لیکن باہر سے اندر کچھ نظر نہ آتا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ آج وہ سحر سے کس بات سے گفتگو کا آغاز کرے۔ کیوں کہ اکثر گفتگو کا آغاز و ہی کیا کرتا تھا اور فائینل ریماکس سحر کے ہوا کرتے تھے۔ بس اسے سمجھ آ گیا ۔’ وہ اس سے اتنے دن فون بند رکھنے پر بات کرے گا۔ مستقبل کے بارے میں بات کرے گا۔ اور پھر جب کچھ باتوں سے اس کے ذہن کی کیفیت کا اندازا ہو جائے گا تو وہ اپنی اصل بات یعنی شادی کی بات کرے گا‘۔
وہ بار بار ہوٹل کے مین گیٹ سے اندر آنے والی گاڑیوں کو گھورتا، ان کے کلر پر غور کرتا ۔ اور ان کے گیٹ میں داخل ہونے کا انداز دیکھتا کیوں کہ وہ سحر کے گیٹ سے گاڑی اندر لانے کے انداز سے بخوبی واقف ہو چکا تھا، لیکن کوئی گاڑی سحر کے سے انداز سے اندر نہیں آ ٓرہی تھی۔ اس کا نمبر بھی تا حال بند ہی جا رہا تھا ۔ کبھی کبھی اس کی طبیعت میں جھنجھلاہٹ بھی آ جاتی ۔ اس کا دل کرتا کہ’ یہاں سے اٹھ کر چلا جائے ، وہ آ کر اکیلی بیٹھے گی تو اسے احساس ہو گا کہ کسی کے انتظار میں بیٹھنا کتنا اذیت ناک ہے‘۔ لیکن اس کا دل اس کی اس طرح کی سوچوں کو جلد ہی ردکر دیتا۔
ٰٓ ٰٓایک گھنٹہ اوپر ہو گیا ۔ وہ تو کبھی پانچ منٹ کی تا خیر بھی نہ کیا کرتی تھی۔ احتشام کا دل ڈوبنے لگا ۔ اس نے پانی کا تیسرا گلاس اٹھا اور پینا شروع کیا۔ وہ بار بار گیٹ کی طرف دیکھ رہا تھا ۔ کہ اچانک اس کے فون پر وٹس اپ کال سے فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ اس نے چونکتے ہوئے فون پر نمبر دیکھا۔ یہ کوئی بیرونی ملک سے آنے والی کال تھی۔ اس نے کال رسیو کرتے ہوئے ’ہیلو ‘ کہا ۔ تو آگے سے ایک نسوانی آواز نے اس کے حواس پر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ ’میں سحر بو ل رہی ہوں۔ میں اس وقت لندن میں ہوں ۔ میں نے یہاں آکسفوڑ یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا ہے۔ میں نے آپ کو بتانا تھا کہ میں اب یہیں رہوں گی۔ میرے والد کا یہاں بھی بزنس ہے۔ میرے کئی عزیز، رشتہ دار بھی یہیں ہیں۔ میں تعلیم مکمل کر کے یہیں اپنی بقیہ زندگی گزارنا چاہوں گی‘۔ احتشام سُن ہو چکا تھا اور خاموشی سے بات سننے کے سوا کچھ نہ کر سکتا تھا۔ ’آپ کے ساتھ اچھا وقت گزرا، جس کے لئے آپ کا بہت بہت شکریہ۔اب آپ کو مجھ سے رابطہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔میں نے یہ فون اس لئے کیا ہے کہ تم باقی زندگی سکون سے گزار سکو۔ اﷲ حافظ‘ ! ’سحر! سحر !۔۔۔ سحر۔۔۔ بات تو سنو! سحر!۔۔۔!‘
احتشام بولنے کی کوشش کرتا رہ گیا۔لیکنبات سنے بغیر ہی سحر نے کال منقطع کر دی اور ساتھ ہی فون بھی بند کر دیا ۔ احتشام کے ہاتھ سے فون گر گیا اور اس کی سکرین پر لائینیں بن گئیں جو کہ دراصل اس کی روح کی سکرین پر بننے والی لائنوں کی ترجمانی کر رہی تھیں۔
ایک خوبصورت ویٹر کمرے میں داخل ہو ا: آج کیا لیں گے ؟
’نہیں کچھ نہیں ، آج کھانا کھانے کا موڈ نہیں‘۔
اس نے ویٹر کو پانچ سو کا نوٹ تھماتے ہوئے ،آنکھ میں آنسو بھرے مسکراتے چہرے سے دیکھا اور کمرے سے باہر آگیا۔
وہ افسردہ دل لئے آہستہ سے کار موو کرتے ہوئے ہوٹل کے گیٹ سے باہرنکل ہی رہا تھا کہ ایک خوبصورت دوشیزہ ،جس کے بال بکھرے، کپڑے بوسیدہ، چہرہ جپسی لیکن آنکھیں چمکدار تھیں،نے اس کی طرف کچھ مانگنے کے انداز میں ہاتھ بڑھایا۔ یہ ہاتھ بڑھا تو اس کے ہاتھ کی طرف تھا لیکن پہنچ اس کے دل تک گیا۔ اس کی زندگی کا فیصلہ، جسے کرتے ہوئے اس کے کئی ماہ و سال گزر گئے تھے، یکدم خود بخود ہو گیا۔
اس نے اس لڑکی کو کار میں بیٹھنے کو کہا ۔ وہ آسانی سے مان گئی۔ اس نے اسے کار کی اگلی سیٹ پر اپنے ساتھ بٹھا لیا۔ اسے زندگی کا ساتھ مل چکا تھا اس کی محبت ایک نئے انداز میں ڈھل چکی تھی۔ یہ نئی محبت اس کی ماضی کی سب محبتوں کا کفارہ بن چکی تھی۔
 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 312934 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More