آمنہ بیگم ایک ملنسار خاتون رہیں ۔لہذا آج بھی
اگر کسی انجان نمبر سے کال آجائے تو وہ فوراًفون اُٹھا لیتی ہیں اور اُنکے
چہرے پر خوشی کی لہر دورڑجاتی ہے جب دوسری طرف سے فون کرنے والا اپنا تعارف
کرواتا ہے۔جواب میں پہلی بات یہی پوچھتی ہیں میرا نمبر کہاں سے ملا؟پھر وہی
ماضی کی باتیں یا کہہ سکتے ہیں یادیں۔
ایک خوبصورت شام کہاں گئی؟ صدیوں پرانی نہیں صرف دودہائیوں پرانی بات ہو گی۔
جنہوں نے وہ شام دیکھی ہوگی۔ والدین نے اپنے بچوں سے دِل کی بات کر کے،
دوستوں نے چند گھنٹوں کی گپ شپ لگا کر، کھلاڑیوں نے میدان مار نے کی خوشی
کے وقت، بچوں نے اسکول کا کام ختم کرنے کرنے کے بعد کھیلنے کے موقع پر،
ملازمین نے دفتر سے گھر پہنچ کر۔
چند لمحوں کیلئے کوئی اپنے آپ کو فریش کرنے کیلئے بستر پر گر پڑتا،کوئی
کُرسی پر بیٹھ کر ٹانگیں پھیلا کر آرام کرنے کی کوشش کرتا، کوئی واش روم
میں جاکر نلکے کے نیچے بیٹھ کر نہانے لگ جاتا۔لیکن سب کے کان اُسطرف ہی
ہوتے اے جی یا بیٹا آجاﺅ چائے بن گئی ہے ۔گھر میں بہو ہو۲ یا بیٹیاں پہلے
ہی تیار ہوتی تھیں ۔ایک دِن کسی کے ذمے شامی کباب چائے کے ساتھ ،ایک دن کسی
کے ذمے پکوڑے بنانا۔کبھی کبھی چارٹ یا دہی بھلے۔کسی مرد کو شوق ہو یا گھر
میںسے کسی نے فرمائش کی ہو سموسوں کی تو کیسے ہو سکتا تھا کہ اُس دِن سموسے
نہ آئیں۔
پی ٹی وی پر پہلے شام کی مختصر خبریں اور پھر بچوں کا پروگرام اور اس دوران
سب مِل بیٹھ کر شام کی چائے سے لُطف اندوز ہو تے نظر آتے تھے۔والدین کیلئے
اولاد سامنے ،بہنوں کیلئے بھائی اور بیویوں کیلئے خاوند۔جنکے دادا دادی یا
نانا نانی حیات ہوتے وہ پرہیز کے طور پر کچھ موافق آنے والی چیز کھا لیتے
مگر چائے ضرور پیتے۔سب اُنکا بیٹھنا باعث برکت سمجھتے اور وہ بھی اتنی
دُعائیں دیتے کہ اگر آج بھی یاد کیا جائے تو لوگوں کی زندگیاں بدلتی
دیکھیں۔ایسی زندگیاں جن میں سب کچھ تھا محبت و خلوص کے ساتھ ۔
گھریلو مسائل و جھگڑے صدیوں سے ہیں ۔ بحث زندہ رہنے کی وجہ ہے ۔ سوال
سیکھنے کیلئے پوچھے جاتے ہیں۔ ضرورت ایجاد کی ماں ہے۔ان حالات میں بھی وہ
شام خوبصورت ہوتی ۔اپناپن ہو تا۔عزت و احترام کی جھلک ہو تی۔
سب کچھ پاس ہونے کے بعد بھی گھریلو مسائل مزید بڑھ رہے ہیں۔ جھگڑوں کی
نوعیت کُھلاپن بن گیا ہے۔بحث فضول سی ضد بن گئی ہے اور سوال پوچھنے والوں
کے ہاتھ میں موبائل ہیں۔ہر نئی ایجاد مقناطیسی قوت کی طرح فرد واحد کو اپنی
طرف ایسے کھینچ رہی ہے کے انسانی تعلقات کی نئی گھتیاں سُلجھ نہیں پا رہیں۔
آمنہ بیگم کی باتیں ماضی کی ہوتیں، فکر حال کی اور مستقبل سے بے پراوہ نئی
نسل اپنی دُھن میں اُنکو یہ جواب دے کر کہ دُنیا "سیلفی" کی ہے اپنے آپ کو
پسند کرو ، سوشل میڈیا پر مجھے فولو کرو، لائق کرو اور جب وقت آئے گا دیکھا
جائے گا۔پھر ساتھ ہی موبائل کو سامنے رکھ کر " سیلفی" ۔ |