میں نے اپنی زندگی میں ایک ہی ایسالفظ سنا ہے جس نے ایک
شخص نہیں دونہیں بلکہ کئی خاندانوں کوتوڑکے رکھ دیتاہے اوروہ ہے طلاق ۔طلاق
کے لغوی معنی ہیں نکاح کی گرہ کوکھول دینا ترک کرنا۔میری ایک دوست کو طلاق
ہوئی تب سے میں نے سوچ کی اورکئی رپورٹیں، علماء،فقراء بڑے ،بزرگ اورجنہیں
طلاق ہوچکی ہے ان کے ساتھ بیٹھ کے یہ تحریرتیارکی۔پچھلے کچھ سالوں سے
60فیصداضافہ ہواہے اورطلاق ہماراسماجی مسئلہ بن چکاہے اب شادی کرنے والے
اگر100جوڑے ہوتے ہیں توان میں سے 60جوڑے ایک دوسرے سے طلاق کے ذریعے
علیحدگی اختیارکرلیتے ہیں اس کے مقابلے اگر50سال پہلے یعنی 1970کی رپورٹ
چیک کریں توپتہ چلتاہے کہ تب 13فیصدلوگ طلاق دیتے تھے ۔طلا ق کی سب سے بڑی
وجہ گھریلوناچاقی ،عدم برداشت،جوائنٹ فیملی،تعدادازواج سنت کی خلاف ورزی
اورشریعت پرعمل کرنے پرعدالت کی چارہ جوئی سے گریز نہ کرنا،سوتن کوبرداشت
نہ کرنا،ساس سسرکوماں باپ نہ سمجھنا،الگ گھرچولہے کی مانگ،دیورکابھائی
کادرجہ نہ دینا،خاوندکی خواہشات کاخیال نہ رکھنا،شوہرکی حکم عدولی کرنا،یہ
وہ مسئلے ہیں جن کی وجہ سے طلاقیں ہوتی ہیں مگرانگریزوں نے ہمیں ایک
ایساتحفہ دیاجس نے ہماری زندگیوں میں زہرگھول کررکھ دیاہے اوروہ ہے
موبائل’’موبائل‘‘اگرہم کہیں کہ ہمارے معاشرے میں 100میں سے 60شادیاں ناکام
ہورہی ہیں تواس کی وجہ سے صرف موبائل ہیں ۔اگرکوئی مرداٹھ کے جائے فون سننے
لگے توبیوی کولگتاہے یہ کسی دوسری سے بات کررہاہے اگربیوی سو رہی ہے
تومردآہستہ سے فون کرے تووہ یہ نہیں سوچے گی کہ میں ڈسٹرب نہ ہوں اسی وجہ
سے آہستہ بات کی لیکن وہ اسکاالٹ سوچے گی کہ میں نہ باتیں سن لوں اسی وجہ
سے آہستہ بات کی مرداگرفون کررہاہ وبیوی آجائے تو کال بھی ختم ہوجائے تووہ
سوچتی ہے کہ میری وجہ سے کال کاٹی ہے اگرہم دیکھیں توآج کئی عورتوں نے
موبائل کوپرس کی طرح موبائل کوبھی فیشن کابھی حصہ بنالیاہے جہاں بھی جاتی
ہیں ہاتھ میں موبائل نظرآتاہے مگرجب بیوی کسی سے چھپ چھپ کے بات کرے
تومردیہی سوچے گاکہ اس کاکوئی چکرہے یہ آج بھی میری نہیں ہوئی وہ اپنے کسی
کزن سے بات کرے تومردیہی سوچتاہے کہ مرد سگی بہن کے علاوہ کسی کانہیں
ہوتاوہ اپنی بیوی کوروکے توبیوی کہتی ہے کہ تم شکی ہوتمہیں مجھ پربھروسہ
نہیں فلاں فلاں جس کی وجہ سے بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے اسی لیے آج کی طلاق
میں سب سے بڑاہاتھ موبائل کا ہے ۔
اگرہم نکاح کوآسان سمجھتے ہیں توہمیں طلاق کوبھی اسی طرح آسان نہیں
لیناچاہیے جیسے نکاح سے ہم قبول ہے قبول ہے قبول ہے سے مردوعورت ایک دوسرے
سے پیار،صحبت،جماع،کرناجائزہوجاتاہے اسی طرح طلاق کے بھی تین الفاظ ہیں جسے
مذاق،غصہ ،شراب پی کر،ہوش میں فون پر،لکھ کر،مذاق یاپیارسے یاکہ دے میری
طرف سے تم فارغ ہواورنیت طلاق والی ہوتوطلاق ہوجائے گی چاہے عورت حاملہ
ہو۔پہلے ہرمسلمان یہ یادرکھے کہ میرے نبی کریم ﷺ کے نزدیک سب سے ناپسندیدہ
عمل طلاق ہے اس کے باوجو د سمجھتے ہیں کہ طلاق کے بناچارہ نہیں تو عورت
کوجب حیض سے فارغ ہوتواسے کہ دے کہ میں نے تجھے ایک طلاق دی پھراس ایک ماہ
اس کے قریب نہ جائے جب تک پتہ چل جائے گا کہ بات اتنی زیادہ بڑی ہے کہ ایک
ساتھ گزارانہیں ہوسکتاتواگلے دن ماہ پھرطلاق دے پھربھی اگرنہ دل مانے
توپھربہت زیادہ غورکرے اگرصلح نہ ہوتوپھر کہہ دے کہ میں تمہیں تیسری طلاق
دیتاہوں ۔مگرجب یہ غلطی انسان کربیٹھتاہے توپھرایک ایک مولوی کے پاس بھاگتے
ہیں کہ ہم نے غلطی کرلی تواہلسنت و جماعت اوراہلحدیث کاطلاق پراختلاف ہے
آئمہ اربعہ اہلسنت وجماعت کاموقف ہے کہ اگرلڑکی کوتین طلاقیں ایک ساتھ دی
جائین تو طلاق ہوجائے گی لیکن اہلحدث والے کہتے ہیں کہ ان کے نزدیک تین
طلاقیں کہنے سے ایک ہی طلاق ہوگی اورپھردودفعہ مزیدطلاق دی جائے گی ۔اگرہم
اپنے ڈراموں کی بات کریں تواس میں نکاح کوکامیاب دکھانے کے بجائے طلاق
کیلئے ماحول سازگاربنانے کیلئے تراکیب متعارف کرائی جاری ہیں پاکستان میں
فیملی کورٹس ایکٹ2015میں منظورہواجس کے سیکشن 10کی دفعہ 6کے تحت قانون
طورپرطلاق وخلع کاعمل آسان ترکردیاگیاتھاجوکہ طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح میں
اضافہ کررہاہے سال 2018میں پڑھی لکھی خواتین وملازمت یافتہ خواتین میں طلاق
خلع لینے کارجحان 97فیصدرہاہے جوکہ صرف خودکمانے،خودپرستی،انااورخودکفیل
ہونے کاگھمنڈنے خانگی نظام کوتباہ کرکے رکھ دیاہے اگرخلع کی بات کریں
توگزشتہ برس 16000کے قریب دعوے دائرہوئے اور مشہورپڑھے لکھے ستارے بھی خلع
کے ذریعے جداہوئے لاہورمیں گھریلوجھگڑوں کے باعث خلع کے 15800دعوے دائرہوئے
اورفیملی عدالتوں نے 7707خواتین کوخلع کی ڈگریاں جاری کیں ہمارے معاشرے میں
مصالحتی کونسلیں نہ ہونے کی وجہ سے طلاق میں تیزی سے اضافہ ہورہاہے اوربچوں
کی زندگیاں تباہ ہورہی ہیں بچوں سے یاد آیاکہ بچے حوالگی کے مقدمات میں
23فیصدسے 37فیصدتک اضافہ ہورہاہے ۔ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو
کہتے ہیں کہ ہماراکیاجاتاہے کہ اگرکسی نے اپنی زندگی خراب کرنے ہے توکرے
حالانکہ ہمارے معاشرے اورفیملی کے بڑوں کوبیٹھ کراس خطرناک دشمن(طلاق)کوختم
کرناہوگا۔ہمیں اس بات کوذہن نشین کرلیناچاہیے کہ ہم نے کتنی چاہت سے نکاح
کیاتھا اورکوشش کرنی چاہیے کہ بات طلاق تک نہ جائے اوراس میں لوگوں
کوانوالوکرناچاہیے تاکہ معاملہ صلح کی طرف بڑھے ۔اگرہم اپنے قانون کی بات
کریں تواس معاملے میں بہت بہترہے کہ طلاق کانوٹس لڑکی کے گھرکے پاس جویونین
کونسل ہے اس میں جمع کرایاجائے اوروہ لڑکی اورلڑکے کے رشتے داروں کوبلائیں
تاکہ صلح کاکوئی طریقہ نکل سکے مگراب دوست اور رشتے دار مشورہ دیتے ہیں کہ
ڈائریکٹ عدالت میں جاکرکورٹ کیس کرادیتے ہیں جس کے بعدعرصہ ایک دوسری کی
حرمت کی قسمیں کھانے والے میاں بیوی ایک دوسرے پربہتان لگارہے ہوتے ہیں
عورت کہتی ہے کہ میرامیاں نامردہے ،نشئی ہے،مجھے مارتاپیٹتاہے ، خرچہ نہیں
دیتافلاں فلاں اورمردایک ہی الزام لگاتاہے جوان تمام بہتانوں سے بڑابہتان
ہے کہ میری بیوی کاغیرمرد سے تعلق تھاجس کیوجہ سے میں نے اسے طلاق دیدی
حالانکہ میرے آقاﷺ نے طلاق کوناپسندیدہ عمل قراردیاہے اوراﷲ پاک نے جھوٹ
بولنے والے پرلعنت بھیجی ہے۔
|