جب کبھی اخبار اُٹھاؤں تو ڈر لگتا ہے کہ آج پھر کسی شہہ
سرخی میں میرا ذکر تو نہی۔
گھر سے باہر نکلنے کا سوچتی ہوں تو ڈر لگتا ہے کہ کہیں باہر کوئی جانور
گھات لگائے میرا منتظر تو نہیں۔
تعلیم حاصل کرکے مرد کے شانہ بشانہ کھڑنے ہونے کا خواب سجاتی ہوں تو ڈر
لگتا ہے کہ کیا مجھے اس کا حق حاصل ہے یا نہیں۔
کسی بھی غرض سے باہر نکلوں چاہے سیر و تفریح ہو یا کوئی گھریلو مجبوری ڈر
لگتا ہے میرا یہ قدم کہیں ہمارے معاشرے کے تقدس کو ٹھیس تو نہیں پہنچا رہا
۔
وجہ کہ میں ایک عورت ہوں۔ ایک ایسا وجو جو اس معاشرے میں کوئی خاص مقام
نہیں رکھتی۔
میری زنگی کی جنگ تو تب سے ہی شروع ہو گئی تھی جب میں نے بیٹی بن کر اس
معاشرے میں جنم لیا۔ لڑکا بن کے پیدا ہوئی ہوتی تو خوشیوں سے مٹھائیاں
بانٹی جانتی۔ طعام بنائے جاتے دسترخوان سجتے، دعوتیں ہوتی پر میں تو بیٹی
تھی خدا کی طرف سے بھیجی گئی رحمت پھر بھی اس معاشرے نے مجھے میرے والدین
کے لئے ایک بوجھ بنا دیا۔
بچپن سے ہی ہر چیز کے لئے مجھے روک ٹوک کا سامنا کرنا پڑا۔ ہر بار یہی سننے
کو ملا کہ "ایسا مت کرو" یہ مت پہنو"۔ "لوگ کیا کہیں گے"۔ ہر موڑ پر ہر بار
مجھے باور کروایا گیا کہ میں اس معاشرے میں کیا مقام رکھتی ہوں اور میری ہر
خواہش کو آزادی کا نام دے کر دبا دیا گیا۔
زمانے کی اس تنگ نظر نے کبھی میرا ڈر کم نہیں ہونے دیا اور مجھے یہ سوچنے
پر مجبور کیا کہ آخر میرا قصور کیا ہے، صرف یہ کہ میں ایک لڑکی ایک عورت
ہوں؟
پر اس کا احساس مجھے تب ہوا جب میں نے جوانی میں قدم رکھا، جب لوگوں کے
رویے مجھے محسوس ہونے لگے، باہر نکلی تو ہر جگہ مرد کی وحشی نظروں نے میرا
تعاقب کیا تب مجھے احساس ہوا کہ کیوں والدین بیٹی کے پیدا ہونےسے ڈرتے ہیں
کیوں آج بھی اسے باپردہ ہو کر نکلنے کا حکم دیا جاتا ہے؟
آج جب خبر دیکھتی ہوں تو خوفزدہ ہو جاتی ہوں کہ کس طرح معصوم پھول چھیسی
زینب کو کسی نے اپنی حوس کا نشانہ بنا ڈالا، کس طرح آنکھوں میں ڈاکٹر بننے
کا خواب سجائی نمرتا کماری کوبے دردی سے قتل کردیاگیا۔ کس طرح نائلہ رند کو
کسی نے اپنے جبر کا نشانہ بنا ڈالا۔ ہر بار ہر جگہ صرف عورت کی حرمت کو ہی
پامال کیا گیا۔ ایسی ہی بہت ساری مثالیں آج بھی ہمارے درمیان موجود ہیں اور
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ظالم بھی وہی جیسے قدرت نے طاقت دی تاکہ وہ عورت
کی حفاظت کر سکے۔ ظلم کی انتہا ہمیشہ یہی رہی ہے کہ مظلوم کو ہمارا معاشرے
باتیں سنا کر خاموش کروا دیتا ہے، ظالم مرد ہونے کی وجہ سے ہمیشہ طاقتور
نکلتا ہے اور قانون تو ہمیشہ سے ہی اندھا بنا بیٹھا رہتا ہے۔
ہم آج بھی ایسے معاشرے کا حصہ ہیں جہاں مرد کچھ بھی کرلے قصور وار عورت ہی
ٹھہرائی جاتی ہے۔
کیا عورت کی عزت اتنی سستی ہے؟
کیا زینب کا قاتل سزائے موت کا مستحق نہیں تھا؟
کیا نمرتا کا قاتل بہت طاقت رکھتا تھا؟
کیا دعا منگی صرف اس لئے انصاف کی امید نہیں رکھ سکتی کیوں کہ اس نے زمانے
کے ساتھ قدم بڑھائے؟
سوالات آج بھی بہت ہیں پر جواب صرف ایک کہ یہ عورت تھی۔
جو کرتے ہیں فخر سے عورت کی کردار کشی
وہی ہر موڑ پر اپنا ضمیر بیچے ہوئے ہیں
|