ریت: جس کے لیے لوگ جان بھی لینے کو تیار ہیں

image


رواں سال ستمبر میں جنوبی افریقہ میں ایک کاروباری شخص کو گولی مار دی گئی۔ اس سے ایک ماہ قبل انڈیا میں ایک جھڑپ میں دو افراد ہلاک ہوگئے۔میکسیکو میں ایک ماحولیاتی کارکن کو ہلاک کردیا گیا۔

ایک دوسرے سے ہزاروں میل کے فاصلے پر موجود ان مقامات پر ہونے والے ان تمام واقعات کی وجہ ایک غیر متوقع چیز تھی۔

ان ہلاکتوں کی وجہ 21 ویں صدی کی سب سے مفید چیز کے لیے جاری جدوجہد ہے جس کی اہمیت تو دن بدن بڑھتی جارہی ہے مگر اس کی اہمیت سے کم ہی لوگ واقف ہیں۔

اس اہم چیز کا نام ریت ہے۔ اگر چہ آپ کو یہ بات مضحکہ خیز نظر آتی ہو لیکن آج کے دور میں ہمارے لیے ریت انتہائی اہم ہے۔
 

image


آج یہ ہر شہر کی تعمیر کا بنیادی سامان ہے۔ شاپنگ مالز، دفاتر اور بلند و بالا رہائشی عمارتیں بنانے میں استعمال ہونے والا کنکریٹ اور سڑک کی تعمیر میں استعمال ہونے والا اسفالٹ دراصل ریت اور کنکر کا ہی مرکب ہوتا ہے۔

خواہ وہ گھروں کی کھڑکیوں کا شیشہ ہو یا گاڑیوں کی ونڈشیلڈ یا سمارٹ فون کی سکرین یہ سب کے سب ریت پگھلا کر بنائے جاتے ہیں۔

یہاں تک کہ ہمارے فونز اور کمپیوٹرز کی سلیکون چپس اور گھر میں موجود کم و بیش ہر الیکٹرونک ڈیوائس بنانے کے لیے ریت کا استعمال کیا جاتا ہے۔

شاید آپ سوچیں کہ آخر اس میں پریشانی کی کیا بات ہے؟ ہماری زمین پر بے حساب ریت بکھری ہوئی ہے۔

صحارا اور ایریزونا کے وسیع صحرا ہوں یا صحرائے تھر، یہاں بڑی مقدار میں ریت موجود ہے۔

دنیا بھر کے ساحلوں پر ریت ہی ریت موجود ہے۔ ہم تھوڑی سی رقم کے بدلے ہارڈ ویئر سٹورز سے باآسانی ریت کی بوریاں خرید لیتے ہیں۔
 

image


صحرا کی ریت
لیکن آپ مانیں یا نہ مانیں، آج دنیا میں ریت کی بہت قلت محسوس کی جا رہی ہے۔

پر آخر ایسی کسی چیز کی قلت کیسے پیدا ہوسکتی ہے جو بظاہر لامحدود مقدار میں دنیا کے تقریباً ہر ملک میں پائی جاتی ہے؟

آج پانی کے بعد ریت وہ دوسرا قدرتی وسیلہ ہے جو انسان سب سے زیادہ استعمال کرتا ہے۔ ہر سال دنیا بھر میں 50 ارب ٹن ریت اور بجری استعمال ہورہی ہے جس کے مرکب کو صنعتی زبان میں ایگریگیٹ کہا جاتا ہے۔

یہ اتنی مقدار ہے جس سے پورے برطانیہ کو ڈھانپا جا سکتا ہے۔ مسئلہ ریت کی اس قسم کی قلت ہے جسے ہم استعمال کرتے ہیں۔

صحرا کی ریت ہمارے کسی کام کی نہیں۔ اس کے ذرات پانی کے بجائے ہوا سے گھسنے کی وجہ سے اس قدر ملائم ہوجاتے ہیں کہ ان کی مدد سے مضبوط کنکریٹ نہیں بنایا جاسکتا۔
 

image


ریت مافیا
ہمیں جو ریت درکار ہے وہ دریاؤں کی تہوں، کناروں اور کچے کے علاقوں میں پائے جانے والے نوکیلے ذرات ہیں۔ اس کے علاوہ ایسی ریت سمندروں اور جھیلوں کے کناروں پر بھی پائی جاتی ہے۔

آج اس ریت کی اتنی طلب ہے کہ پوری دنیا میں ہر دریا کی تہہ کو کھنگالا جا رہا ہے اور ساحلوں کو کھودا جا رہا ہے۔ کھیتوں اور جنگلات کی زمینوں کو ان قیمتی ذرات کے حصول کے لیے تہس نہس کیا جا رہا ہے۔

آج صورتحال یہ ہے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں جرائم پیشہ افراد نے بھی اس کاروبار میں اپنے قدم جما لیے ہیں جس کے نتیجے میں یہاں ایک تصادم جاری ہے اور ہر روز قتل و خون ہو رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے ماحولیاتی پروگرام سے منسلک محقق پاسکل پیڈوزی کا کہنا ہے کہ ’بہت سے لوگ ریت سے متعلق حقائق کو جان کر حیرت زدہ ہو سکتے ہیں لیکن ایسا ہونا نہیں چاہیے۔ ہماری زمین پر اتنی ریت نہیں ہے کہ ہم ہر سال 50 ارب ٹن ریت نکال بھی لیں اور ماحولیات اور عام لوگوں کی زندگیوں پر کوئی اثر بھی نہ پڑے۔‘
 

image


شہری آبادی
ریت کی روز افزوں بڑھتی طلب کے پیچھے شہروں کا تیزی سے پھیلاؤ ہے۔ ہر سال کروڑوں لوگ دیہاتوں سے شہر کا رخ کرتے ہیں خاص طور پر ترقی پذیر ممالک میں۔ پورے ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے شہر اس قدر تیز رفتاری سے ترقی کر رہے ہیں جو انسانی تاریخ میں پہلے کبھی نہیں دیکھا گیا۔

سنہ 1950 کے بعد سے شہروں کی آبادی چار گنا بڑھ چکی ہے اور آج دنیا بھر کے شہروں میں 4.2 ارب لوگ رہ رہے ہیں۔

اقوام متحدہ کے تخمینے کے مطابق اگلی تین دہائیوں میں ڈھائی ارب مزید لوگ شہروں میں آئیں گے جو کہ پوری دنیا میں ہر سال نیو یارک جیسے آٹھ شہر بڑھانے کے برابر ہے۔

ان سب لوگوں کو رہنے کے لیے مکانات اور آنے جانے کے لیے سڑکوں کی ضرورت ہوگی جس کے لیے بے تحاشہ ریت درکار ہوگی۔
 

image

ساحل سمندر کا دائرہ
سنہ 2000 کے بعد سے انڈیا میں تعمیرات میں ریت کے استعمال میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور اس میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔

چین نے پچھلی دہائی میں جس قدر ریت کا استعمال کیا ہے، امریکہ نے ممکنہ طور پر ایک صدی میں بھی اتنا استعمال نہیں کیا۔

آج ایک خاص قسم کی ریت کی اتنی شدید طلب ہے کہ ایک وسیع و عریض صحرا کے کنارے واقع شہر دبئی آسٹریلیا سے ریت درآمد کرتا ہے۔

ذرا غور کریں کہ آسٹریلین تاجر عربوں کو ریت فروخت کر رہے ہیں۔

ایسا بھی نہیں کہ آج ریت صرف تعمیر میں استعمال ہو رہی ہے بلکہ اس کی مدد سے نئی زمین بھی تیار کی جارہی ہے۔

کیلیفورنیا سے لے کر ہانگ کانگ تک بڑے بڑے جہاز سمندر سے ریت نکال کر ساحلی پٹی کو وسیع کرتے ہوئے وہاں زمین بنا رہے ہیں جہاں پہلے پانی تھا۔
 
image


سمندر پر قبضہ
اس کے لیے سمندر کی تہہ سے لاکھوں ٹن ریت نکالی جارہی ہے۔ دبئی کے پام ٹری کی شکل کے جزیرے دنیا کے مصنوعی جزیروں میں سب سے زیادہ مشہور ہیں۔

لیکن انسانوں کی جانب سے سمندر پر قبضہ کر کے رہائش گاہیں تعمیر کرنے کی اور بھی مثالیں موجود ہیں۔

افریقی ملک نائیجیریا کے سب سے بڑے شہر لاگوس میں تقریباً 2400 ایکڑ یا 9.7 مربع کلومیٹر اراضی سمندر سے چھینی جارہی ہے تاکہ بڑھتی آبادی کو آباد کیا جاسکے۔

چین نے سینکڑوں میل کے نئے ساحل تیار کیے ہیں۔ اور پورے پورے نئے جزیرے تعمیر کر کے انھیں پرتعیش ریزورٹ بنا دیا ہے۔

یہ نئی زمینیں بلا شبہ قابل قدر ہیں لیکن ان کو بنانے میں بے پناہ دولت کی ضرورت ہے۔

سمندر کی کھدائی سے کینیا، خلیج فارس اور فلوریڈا میں مرجان کی چٹانوں (کورل) کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اس سے پانی اس قدر گدلا ہوجاتا ہے کہ کھدائی کی اصل جگہ سے کہیں دور آبی حیات پر منفی اثرات پڑتے ہیں۔
 

image


ریت کی برآمد پر پابندی
ریت کی کھدائی کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ملائیشیا اور کمبوڈیا میں ماہی گیروں کی روزی روٹی کا وسیلہ چھن گیا ہے۔

چین میں سمندر میں نئی زمینوں کی تخلیق کی وجہ سے ہزاروں میل پر پھیلے ساحلی دلدلی علاقے ضائع ہوگئے ہی، پرندوں، مچھلیوں اور ہزاروں دیگر مخلوقات کے قدرتی علاقے برباد ہوگئے ہیں اور سمندری آلودگی میں اضافہ ہوا ہے۔

سنگاپور کی مثال اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز ہے۔

پچھلے 40 سالوں میں سنگاپور نے اپنی 60 لاکھ سے زیادہ آبادی کی رہائش کے لیے سمندر سے 50 مربع میل زمین چھین لی ہے اور یہ تقریباً اس سب کے لیے دیگر ممالک سے ریت درآمد کی گئی ہے۔

لیکن ماحولیات کو اس کی اس قدر خوفناک قیمت ادا کرنی پڑی ہے کہ انڈونیشیا، ملائیشیا، ویتنام اور کمبوڈیا جیسے پڑوسی ممالک نے سنگاپور کو ریت کی برآمد پر پابندی عائد کردی ہے۔
 

image


تباہی کی وجہ
نیدرلینڈز کے ایک ریسرچ گروپ کے مطابق سنہ 1985 کے بعد سے انسانوں نے سمندر میں 5237 مربع میل (13 ہزار 563 مربع کلومیٹر) مصنوعی زمین کی توسیع کی ہے جو کہ جمیکا جیسے ایک ملک کے برابر ہے۔

اس میں سے زیادہ تر بڑی مقدار میں ریت کے استعمال سے بنایا گیا ہے۔

کنکریٹ اور دیگر صنعتی استعمال کے لیے ریت کی کھدائی نے مزید تباہی مچائی ہے۔

تعمیراتی کام کے لیے اکثر دریاؤں سے ریت نکالی جاتی ہے۔ دریاؤں سے ریت نکالنا آسان ہے۔ اسے پمپس سے نکال لیں یا بالٹیوں کے ذریعے کشتیوں میں بھر کر ساحل پر لے آئیں۔

تاہم دریا کی تہہ کی کھدائی کی وجہ سے پانی گدلا ہو جاتا ہے جس سے مچھلیوں کا دم گھٹنے لگتا ہے اور زیرِ آب گھاس پھوس کو سورج کی روشنی نہیں مل پاتی۔

دریا سے ریت نکالنے کی وجہ سے ویتنام میں دریائے میکانگ کا ڈیلٹا سکڑتا جا رہا ہے۔
 

image


ریت کی کھدائی
اس ڈیلٹا میں تقریباً دو کروڑ لوگ بستے ہیں اور یہاں ملک کی خوراک کی ضروریات کا نصف پیدا ہوتا ہے۔ اس ڈیلٹا میں پیدا ہونے والا چاول جنوب مشرقی ایشیا کی ایک بڑی آبادی کا پیٹ بھرتا ہے۔

موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے سمندری سطح کی بلندی اور بڑھتے ہوئے سمندری ساحل کی وجہ سے یہ ڈیلٹا پہلے ہی روزانہ ڈیڑھ فٹبال کے میدان کے برابر رقبہ غائب ہو رہا ہے۔

مگر محققین کا ماننا ہے کہ اس کی ایک اور وجہ ڈیلٹا سے اس کی ریت چھیننا ہے۔

صدیوں سے دریائے میکانگ چین اور وسطی ایشیا کے پہاڑوں سے ریت اس ڈیلٹا میں لاتا ہے۔

لیکن حالیہ برسوں میں جن ممالک سے یہ دریا گزرتا ہے وہ سبھی اس میں سے بڑی مقدار میں ریت کی کھدائی کر رہے ہیں۔

سنہ 2013 میں تین فرینچ محققین کی ایک تحقیق کے مطابق صرف سنہ 2011 میں دریائے میکانگ سے پانچ کروڑ ٹن ریت نکالی گئی تھی جس سے امریکہ کے ڈینور شہر کو دو انچ تک ریت سے ڈھکا جا سکتا ہے۔

دریں اثنا اس دریا پر حالیہ سالوں میں پانچ بڑے ڈیم بنائے گئے ہیں جبکہ چین، کمبوڈیا اور لاؤس میں آئندہ چند سالوں میں دریائے میکانگ پر12 ڈیم مزید تعمیر کیے جانے ہیں۔
 

image


بحری آمدورفت کے لیے
ڈیم کی تعمیر سے میکانگ ڈیلٹا کی طرف ریت کے ذرات کا بہاؤ کم ہوگا۔

یعنی میکانگ سے جس مقدار میں ریت نکالی جارہی ہے اتنی ہی مقدار میں ریت قدرتی طور پر یہاں بہہ کر پہنچنے کے قابل نہیں ہے۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے گریٹر میکانگ پروگرام کے محققین کے مطابق اس شرح سے کھدائی جاری رہی تو اس صدی کے آخر تک میکانگ ڈیلٹا کا آدھا حصہ صاف ہوچکا ہوگا۔

کمبوڈیا اور لاؤس میں میکانگ اور دیگر دریاؤں میں کھدائی سے دریاؤں کے کنارے ٹوٹ رہے ہیں اور بستیاں اور کھیت تباہ ہو رہے ہیں۔ یہی صورتحال میانمار کے دریائے اراوڈی کی ہے۔

ریت نکالنے کی وجہ سے ہر سال کروڑوں ڈالر مالیت کا انفراسٹرکچر بھی تباہ ہورہا ہے۔ کھدائی کی وجہ سے جو ریت اٹھتی ہے، اس سے پانی کی فراہمی کے پائپ بند ہو رہے ہیں۔

اور دریاؤں سے ریت نکالنے کی وجہ سے پلوں کی بنیادوں کو مضبوطی فراہم کرنے والی ریت اپنی جگہ چھوڑ دیتی ہے۔
 

image


قیمتی ریت
گھانا میں ریت کے لیے اس قدر کھدائی کی گئی ہے کہ پہاڑی علاقوں میں عمارتوں کی بنیادیں خطرناک حد تک خالی ہوچکی ہیں۔

تائیوان میں سنہ 2000 میں اسی وجہ سے ایک پل گر گیا اور اسی طرح پرتگال میں ایک پل اچانک ریت کی کھدائی کی وجہ سے گر گیا جس کی وجہ سے وہاں سے گزرنے والی بس دریا میں گر گئی اور اس میں سوار 70 افراد ہلاک ہوگئے۔

کانچ بنانے میں استعمال ہونے والی سلیکا ریت کا استعمال شمسی پینل اور کمپیوٹر چپ بنانے میں بھی ہوتا ہے۔ اس کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

امریکہ میں فریکنگ سے تیل نکالنے کے کاروبار میں بھی سلیکا ریت کی طلب بڑھ رہی ہے۔

نتیجہ یہ نکلا ہے کہ امریکی ریاست وسکونسن کے دیہی علاقوں میں زرعی زمین اور جنگلات کو تباہ کیا جارہا ہے تاکہ اس قیمتی ریت کو نکالا جاسکے۔

ریت کان کنی کے کاروبار میں مقابلہ اتنا شدید ہوچکا ہے کہ اب اس میں مجرم گروہوں کی سرگرمی بڑھ گئی ہے جو ہر سال بلیک مارکیٹ میں لاکھوں ٹن ریت بیچ رہے ہیں۔
 

image


غیر قانونی ریت کی کان کنی
انسانی حقوق کے گروہوں کے مطابق لاطینی امریکہ اور افریقہ میں بچوں کو بھی اس کاروبار میں ڈال کر غلاموں کی طرح ان کا استحصال کیا جارہا ہے۔

ریت مافیا حکومتی عہدیداروں اور پولیس کو رشوت دے کر اپنا غیر قانونی کاروبار چلا رہی ہے۔

جو افسران ان کی مخالفت کرتے ہیں یا آنکھیں پھیرنے کے لیے راضی نہیں ہوتے انھیں قتل تک کر دیا جاتا ہے۔

میکسیکو میں ہوزے لوئس الواریز فلورس نامی ایک ماحولیاتی کارکن نے جب ایک مقامی دریا میں ریت کی غیر قانونی کان کنی کی مخالفت کی تو انھیں جون میں گولی مار دی گئی۔ مبینہ طور پر ان کی لاش کے ساتھ ان کے اہل خانہ کے لیے ایک دھمکی آمیز خط بھی پایا گیا تھا۔

اس واقعے کے دو ماہ بعد انڈیا کی ریاست راجستھان پولیس پر اس وقت فائرنگ کی گئی جب انھوں نے ریت سے لدے ٹریکٹرز کے قافلے کو روکنے کی کوشش کی۔

فائرنگ کے نتیجے میں ریت کے دو کان کن ہلاک ہوئے جبکہ دو پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔

اسی سال ریت نکالنے والے ایک مزدور پر سات گولیاں فائر کی گئيں کیونکہ ریت کی کھدائی کرنے والے ایک دوسرے گروہ سے ان کی لڑائی ہو گئی تھی۔

اور یہ سب صرف حالیہ واقعات ہیں۔

ریت کی کان کنی کے معاملے پر کینیا، گیمبیا اور انڈونیشیا میں گذشتہ کچھ سالوں سے پُرتشدد تنازعات بھی ہوئے ہیں۔ ان میں درجنوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
 

image


ریت کا متبادل
انڈیا میں اس ’ریت مافیا‘ نے درجنوں افراد کو ہلاک اور سینکڑوں کو زخمی کیا ہے۔ ہلاک شدگان میں 81 سال کے استاد سے لے کر 22 سال کے ماحولیاتی کارکن شام ہیں جنھیں الگ الگ قتل کیا گیا۔

اس کے علاوہ ایک صحافی کو زندہ جلایا گیا جبکہ تین پولیس افسران کو ریت سے لدے ٹرکوں کے نیچے کچل دیا گیا۔

جنگی پیمانے پر ریت کی کھدائی سے ہونے والے نقصان کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے۔ بہت سارے سائنس دان ریت کا متبادل تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

اور اس کے لیے کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی راکھ، کٹے چھنٹے پلاسٹک یا کھجور اور تاڑ کے چھلکے اور دھان کی بھوسی وغیرہ کے متعلق غور کر رہے ہیں۔

اسی طرح کئی سائنس دان ایسا کنکریٹ تیار کرنے میں مصروف ہیں جس میں ریت کم استعمال ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ کنکریٹ کی ری سائیکلنگ کے امکانات بھی ڈھونڈ رہے ہیں۔
 

image


تعمیر کے شعبے میں نئی سوچ
بہت سے مغربی ممالک نے دریاؤں سے ریت نکالنے کا عمل تقریباً ختم کردیا ہے۔ تاہم اس وقت باقی دنیا کے لیے ایسا کرنا مشکل ہے۔

ڈبلیو ڈبلیو ایف کی جانب سے ایک حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ دریاؤں کو ممکنہ نقصان سے بچانے کے لیے تعمیراتی صنعت کو دریاؤں سے حاصل شدہ ریتی بجری کے استعمال سے ہٹانا ہوگا۔ اس طرح کی معاشرتی تبدیلی ویسی ہی ہے جس کی ضرورت ہمیں موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے ہے، اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم ریت اور دریاؤں کے بارے میں اپنے نظریات، اور شہروں کی ڈیزائننگ اور ان کی تعمیر کے طریقوں کو بدلیں۔‘

بہت سارے سائنس دان ریت کی کان کنی سے ہونے والے نقصان کو روکنے کے لیے ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن اور اقوام متحدہ سے مداخلت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

امریکہ کی کولوراڈو یونیورسٹی کے میٹ بینڈیکسین ایک ایسے ہی سائنس دان ہیں۔

وہ کہتے ہیں: ’ہمیں نگرانی کا منصوبہ بنانا چاہیے کیونکہ اس وقت اس کی بالکل بھی نگرانی نہیں کی جا رہی۔‘

اس وقت کسی کو معلوم نہیں کہ دنیا میں دریاؤں سے کتنی ریت نکالی جارہی ہے۔ یہ کام کن حالات میں کیے جارہے ہیں؟ اس میں سے زیادہ تر کا کوئی حساب نہیں ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ’ہم صرف یہ جانتے ہیں کہ یہ کام ہو رہا ہے۔ جتنے زیادہ لوگ ہیں اتنی ہی زیادہ ریت کی ضرورت ہے اور اتنی ہی ریت دریاؤں سے نکالی جارہی ہے۔‘


Partner Content: BBC
YOU MAY ALSO LIKE: