|
پشاور کا موسم اپنی شدت کے لیے مشہور ہے اس کا اثر اس کے رہنے والوں کے
مزاج پر بھی پڑتا ہے- یہ لوگ محبتوں کے معاملے میں بھی ایسے ہی شدت پسند
ہوتے ہیں ۔ یہاں کی زرخیز مٹی جو گل پیدا کرتی ہے ان کی خوشبو سے پورا عالم
معطر ہوتا ہے ۔ بزدل دشمن کو بھی اس بات کا احساس تھا اسی لیے انہوں نے
پشاور کے آرمی پبلک اسکول پر حملہ کر کے کئی پھولوں کو کھلنے سے قبل ہی
مرجھا ڈالا -
16 دسمبر 2014 کا دن عام دنوں کی طرح کا ایک دن تھا کسے خبر تھی کہ کاتب
تقدیر اپنے ورق پر آج کیا کیا چھپائے بیٹھا ہے- صبح جب ماؤں نے اپنے لعلوں
کو اسکول جانے کے لیے جگانے کی کوشش کی تو سخت سردی کے باعث کافی بچوں نے
اسکول جانے میں ردوکد کیا- مگر ماؤں نے اپنے بچوں کو کسی نہ کسی طرح بھلا
پھسلا کر ان کو اسکول جانے کے لیے تیار کر دیا جس کا دکھ انہیں کسی صورت
چین نہیں لینے دیتا-
|
|
ایسا ہی ایک بچہ زاہد حسین بھی تھا جس کی ماں نے اسے اسکول بھیجتے ہوئے
وعدہ کیا تھا کہ تم آج اسکول چلے جاؤ واپسی پر میں خود تمھیں لینے آؤں گی ۔
زاہد حسین کی ماں نے اسے اسکول چھوڑا اور واپس گھر کی طرف روانہ ہو گئی-
گھر جا کر اس نے جلدی جلدی گھر کے کام سمیٹنے شروع کر دیے تاکہ زاہد حسین
کی چھٹی تک کاموں سے فارغ ہو سکے اسی اثنا میں اسے آرمی پبلک اسکول پر دہشت
گردوں کے حملے کی اطلاع ملی ۔وہ سب کچھ چھوڑ کر دیوانہ وار اسکول کی جانب
بھاگی جہاں پر سے دھماکوں اور گولیوں کی آوازیں آرہی تھیں -
ماں چیخ چیخ کر زاہد حسین کو پکارنے لگی کہ چھٹی کا وقت ہو گیا ہے وہ اپنے
بیٹے کو لینے آگئی ہے مگر اس کو حفاظتی اداروں نے اسکول کے قریب نہ جانے
دیا- اس کی دماغی حالت کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہ تھی-
یہاں تک کہ دہشت گردوں کو مارنے کے لیے آپریشن کا آغاز ہوگیا یہ وقت ایک
ماں کی زندگی کا مشکل ترین وقت تھا اس کے لبوں پر اپنے بیٹے کے ساتھ ساتھ
اندر موجود تمام بچوں کی زندگی کے لیے دعا تھی-
مگر وہ بے چاری اس بات سے بے خبر تھی کہ اس کا پیارا زاہد حسین اب ان دعاؤں
کی ضرورت سے آزاد ہو چکا ہے- کسی بزدل دہشت گرد کی گولی نے اس کا معصوم
سینہ چھلنی کر دیا ہے مگر ماں کا دل یہ ماننےکو تیار نہ تھا کہ اس کے بچے
کے ساتھ کچھ ہو سکتا ہے-
|
|
مگر ہونی کو کوئی نہیں روک سکتا جب زاہد حسین کا جنازہ اس کے گھر آیا تب
بھی اس کی ماں اسی انتظار میں تھی کہ چھٹی ہو گی تو وہ زاہد کو اسکول سے
لینے جائے گی- اس کا ذہن اسی جگہ رک گیا
اس کے بعد سانحہ کے تین ماہ تک زاہد حسین کی ماں کی یہی روٹین رہی کہ وہ
صبح صبح جیسے تیسے گھر کے کام ختم کرتی اور اسکول کے دروازے کے باہر جا کر
کھڑی ہو جاتی- جب چھٹی کے وقت بچے اسکول سے بچے اسکول سے نکلتے تو لاچار
ماں اپنے بچے کا نام پکار پکار کر اس کو تلاش کرتی اور روتی چلاتی رہتی-
اس کے گھر والوں نے اس کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی مگر اس کی ذہنی حالت
کچھ بھی سوچنے سمجھنے کے قابل نہ تھی مجبوراً اس کے گھر والوں کو اس کو گھر
میں پابند کرنے کے لیے زنجیروں سے باندھنا پڑا-
یہ ایک ماں کی کہانی نہیں ہے اے پی ایس میں شہید ہونے والے ڈیڑھ سو بچوں کی
مائیں اسی کرب سے گزرتی ہیں- دسمبر کے مہینے کا آغاز ان کو ان کے کبھیی نہ
بھولنے والے بچوں کی یاد سے آرزدہ کر دیتا ہے اور بے ساختہ ان کے قدم اسکول
کے دروازے کی جانب بڑھ جاتے ہیں-
|