ڈاکٹر غلام شبیررانا
جس طرح رخشِ حیات پیہم رو میں ہے اسی طرح روزمرہ زندگی کے معمولات کے بارے
میں جانچ پرکھ کا سلسلہ بھی ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ تاریخ
ِادب کے مطالعہ سے تخلیق ادب سے بھی پہلے تنقیدی شعور کی موجودگی کے آثار
ملتے ہیں ۔ اپنے ماحول ،معاشرت اور سماج کے بارے میں سوچ کوزندگی کی تنقید
سے تعبیر کیاجاتاہے ۔ آفاق کی اس کا ر گہ ِ شیشہ گری میں پھونک پھونک کر
قدم رکھنے اور سانس بھی آ ہستہ لینے کی تلقین اس لیے کی جاتی ہے تا کہ
آبگینوں کو ٹھیس نہ لگ جائے ۔اسی کا نام تنقیدی بصیرت ہے جس کے بغیر عملی
زندگی میں کسی کام کی تکمیل ممکن ہی نہیں۔اردو زبان میں مستعمل لفظ ’’
تنقید‘‘کا مفہوم خوب اور ناخوب میں امتیاز کرنا ہے ۔ عربی زبان میں یہ
مفہوم نقداور انتقادکے الفاظ سے ادا ہوتاہے ۔عربی ،اردو ،پنجابی اور فارسی
زبان کی کتب میں تنقید کے لیے محاکمہ، دادِسخن ،موازنہ اور تقریظ کے الفاظ
بھی استعمال کیے جاتے ہیں ۔یونانی زبان کے لفظ ’’ KRINEIN ‘‘ سے جانچ پرکھ
اور سمجھ مراد ہے ۔ نقاد ذہن و ذکاوت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے کسی تخلیقی فن
پارے کے محاسن و معائب کے بارے میں جو مستحکم،قابل فہم اور قابل اعتبار
تجزیہ پیش کرتاہے وہ تنقید کے ذیل میں آ تا ہے ۔ادبی تخلیقات کے بارے میں
نقادجو رائے ظاہر کرتاہے وہ اس کی علمی فضیلت، زبان و بیان پر خلاقانہ
دسترس، حق گوئی ،بے باکی ،دیانت اور صداقت کی مظہر ہوتی ہے ۔ ادب پاروں کی
تشریح و تجزیہ کے دوران میں نقاد جن تنقیدی اصولوں پر انحصارکرتاہے وہ ایک
فلسفیانہ عمل کے مرہونِ منت ہیں ۔ انگریزی زبان کے الفاظ ’’CRITICISM ،
APPRECIATION ،ASSESMENT ،JUDGEMENT ،ESTIMATE ،EVALUATION‘‘سے بھی حق
وصداقت سے کام لیتے ہوئے منصفانہ انداز میں کھوٹے اور کھرے میں امتیا زکا
مفہوم مراد لیا جاتاہے ۔ادب اور فنون لطیفہ کی جانچ پرکھ میں یونانیوں کے
ذوق ِ سلیم کا ایک عالم معترف ہے ۔ ادب اور فنون لطیفہ کوتنقید کی کسوٹی پر
جانچنے پرکھنے کے سلسلے میں یونانیوں نے جو ابد آ شنا،مطلق اور لازم رہنما
اصول وضع کیے ان کی افادیت مسلمہ ہے ۔ تنقید میں فہم و ادراک اورذوق ِسلیم
کو بروئے کار لاتے ہوئے ادب اور فنون لطیفہ کی تخلیقات کے معیار کے بارے
میں کسی حتمی رائے کااظہارکیاجاتاہے ۔ بادی النظر میں یہ حقیقت روزِ روشن
کی طرح واضح ہے کہ کسی بھی تخلیق کے جملہ محاسن اور معائب پرگہری نظر
ڈالنانقاد کانصب العین ہوتاہے ۔ ادب پاروں کی تنقید کے لیے فلسفیانہ اصولوں
کی اساس پر ایک لیے ایک موثر لائحہ عمل مرتب کرنانقادکی بنیادی ذمہ داری ہے
۔اسی لائحہ عمل کو زادِ راہ بنا کر وہ ادب پاروں کی تحلیل و تجزیہ کے مراحل
سے عہدہ بر آہونے کی سعی کرتاہے ۔ ادب اورفنون لطیفہ میں تیزی سے بدلتے
ہوئے معائر اور اسالیب کے پیشِ نظر نقادیہ دیکھتا ہے کہ تخلیق ِ فن کے
لمحوں میں ایک تخلیق کار نے گل دستہ ٔ معانی کو نئے ڈھنگ سے آراستہ کرنے
اورایک گلِ تر کے مضمون کوسو رنگ سے مزین کرنے کے لیے کیالائحۂ عمل اپنایا
ہے ۔ ادبی تنقید در اصل تخلیق اور اس کے پس پردہ کارفرما ان تمام لا شعوری
محرکات کااحاطہ کرتی ہے اوراس طرح تخلیقی فن پاروں کی اہمیت و افادیت کو
اجاگر کر کے فن پاروں کے مقام کا تعین کرتی ہے ۔ تنقید جب تحلیل و تجزیہ
اور تو ضیح کو مقیاس العمل بناتی ہے توفن پاروں کی جمالیاتی اقدار کے بارے
میں حقیقی شعورکی بیداری کے امکانات سامنے آتے ہیں اور افکارِ تازہ کی مشعل
فر وزاں کر کے سفاک ظلمتوں کو کافور کر کے جہان ِ تازہ کی جانب پیش قدمی کو
یقینی بنایا جاسکتاہے ۔ عالمی کلاسیک کی حقیقی قدر ومنزلت صرف تنقید ہی سے
ممکن ہے ۔ ہر عہد کے ادب کے متعلق حقائق کی گرہ کشائی تنقید کا معجز نما
کرشمہ ہے ۔تخلیق ادب کے محرکات اوراس کے ذوقِ سلیم پر مر تب ہونے والے
اثرات کا جائزہ لے کر تنقید یدِبیضا کا معجزہ دکھاتی ہے ۔ تخلیق ِادب کو
مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کرنے کی غرض سے خوب سے خوب تر کی
جستجو تنقید کا اہم وصف ہے ۔تنقید قاری کے ذوق ِسلیم کو اس طرح مہمیزکرتی
ہے کہ اس کا مرحلۂ شوق طے ہی نہیں ہوتا۔ بے لاگ تنقیدی تجزیے پڑھنے کے
بعدقاری اس نتیجے پر پہنچتاہے کہ اس ہوائے بے اماں میں جس مشعل میں تاب و
تواں ہوگی صرف وہی مشعل فروزاں رہے گی ۔ سیل زماں کے مہیب تھپیڑوں کی زدمیں
آ کر لفاظ حشرات ِادب کے چربے، سرقے،شعبدہ بازی کی مظہر قلابازیاں اور جعل
سازیاں خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گی۔ جہاں تک ادب کے بارے میں افلاطون (
Plato:428BC-348BC) کے نظریات کا تعلق ہے انھیں ادبی تنقید کے دائرے میں
شامل کرنے کے بارے میں تحفظات پائے جاتے ہیں۔ ارسطو (384BC-322 BC :
Aristotle ) کی بوطیقا میں ڈرامے کو اہمیت دی گئی ہے ۔ ممتاز رومن شاعر اور
ادیب ہوریس ( 65BC-8 BC Horace: ) اور سس رو (Cicero: 106 BC-43BC ) اور
کوئنتی لیانس ( 35AD-100AD : (Marcus Fabius Quintilianus کے عہد میں
تنقیدکے دھندلے نقوش ملتے ہیں ۔ یورپ میں عیسائی عہد میں لان جائنس (
Louginus) اور اطالوی شاعر اورنقاد دانتے ( Alighieri : 1265-1331 Dante )
کی تحریروں میں تنقیدی معائر قابل توجہ ہیں۔ یورپ میں ادبی حیات ِنو کے دور
پر نظر ڈالیں تو اطالوی ادیب مارکو گرولیمو ودا ( 1485-1566:Marco Girolamo
Vida ) اور فرانسیسی شاعر اور نقادجوشیم دوبیلی ( 1522-1560 :Joachim du
Bellay) ,اور سپین کے ناول نگار،شاعر اور ڈرامہ نگار لوپ دی ویگا(
1562-1635 : Lope de Vega ) نے تنقید کے ارتقا میں اہم کردار ادا کیا ۔
اگرتاریخ تناظر میں دیکھیں تو بر طانیہ میں ادبی تنقید کے ابتدائی نقوش
جارج پتو نہم ( 1529-1590 : George Puttenham ) کی معرکہ آرا تصنیف The
Arte of English Poesie (1589). میں ملتے ہیں ۔ اس کے بعد سر فلپ سڈنی (Sir
Philip Sidney: 1554–1586)) نے اپنی کتاب Apologie for poetrie (1595), میں
تخلیق ادب پر تنقیدی خیالات کااظہارکیا۔ تاریخی تناظر میں تنقید کے مختلف
النوع معائر دیکھنے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ تنقید نے ہر عہد میں ادب
اور فنون لطیفہ فنون لطیفہ کو جہد للبقا کی مظہر ایک ایسی ارتقائی کیفیت سے
تعبیر کیاہے جس میں زندگی کے تمام مظاہر باہم مربوط ہو کر یکساں انداز میں
دھنک رنگ منظر نامہ مرتب کرتے ہیں۔تنقید قارئینِ ادب کو بتانِ وہم و گماں
کے طلسم اورخیال و خواب کے سرابوں سے نکال کر جمالیات کے حقیقی پہلوؤں سے
روشناس کرانے میں ممد و معاون ثابت ہوتی ہے ۔ ایک نامیاتی کل کی حیثیت سے
دیکھتے ہوئے تنقیدنے ہمیشہ ترتیب و تنظیم کی تمناکو مہمیزکرنے کی سعی کی ہے
۔ یہ تحلیل و تجزیہ کے ذریعے اس لائحہ عمل کو سامنے لاتی ہے جسے رو بہ عمل
لاتے ہوئے تخلیق فن کے لمحوں ایک تخلیق کار نے خون بن کر رگِ سنگ میں
اُترنے کی کوشش کی۔ تنقید کو ذوق ِسلیم کو نمو دینے والی ایک خود مقصدی
توضیحی سرگرمی قرار دیتے ہوئے جدیدیت کے علم بردار بیسویں صدی کے ممتاز
برطانوی نقاد ٹی ۔ایس ۔ایلیٹ ( 1888-1965: T.S.Eliot )نے لکھاہے :
ـ " The critic,one would suppose ,if he i sto justify his
existence,should endeavour to iscipline his personal prejudices and
cranks --tares to which we are all subject--and compose his diferences
with as many of his fellows as possible,in the common pursuit of true
judgemdent." (1)
ایک جری نقاد کے اشہب ِقلم کی جولانیاں محض حقائق کی جانچ پرکھ تک محدود
نہیں رہتیں ۔ اسے یہ دیکھنا چاہیے کہ تخلیق ِفن کے لمحوں میں صریر ِ ِخامہ
کو نوائے سروش سے تعبیر کرتے ہوئے تخلیق کار کِس قسم کے حالات اور کِن
مراحل سے گزرا۔ الفاظ کے اسراف سے بچتے ہوئے اسے یہ دیکھناچاہیے کہ مرحلۂ
شوق طے کرتے وقت ایک زیرک تخلیق کارکی ادب کے افادی پہلوؤں کو اجاگر کرنے
کی مساعی کہاں تک ثمر بار ثابت ہوئی ہیں۔ کسی بھی زبان کے ادب کی تنقید اس
امر کی متقاضی ہے کہ پرورشِ لوح و قلم کرنے والے تخلیق کار کے اسلوب کی
نوعیت اوراس کے پس پردہ کر فرما تمام محرکات کی گرہ کشائی کی جائے ۔ ادبی
تنقید تمام اصناف ِادب جن میں تنقید،ناول ،افسانہ ،داستان ،سوانح نگاری
،سفرنامہ ،خود نوشت ،ڈراما،نظم ،غزل ،مثنوی،ہجو،قصیدہ ،رباعی ،مرثیہ اور
تراجم شامل ہیں کے مطالعہ پر محیط ہے ۔ادب پاروں کے سنجیدہ مطالعہ
،غیرجانبدارانہ تجزیہ اور مثبت و تعمیری انداز فکر بلند پایہ تنقید کے
امتیازی اوصاف ہیں۔فرانسیسی فلسفی ہنری برگساں( 1859-1941 :Henri Bergson
)سے متاثر برطانوی نقاد میڈلٹن مرے( :1889-1957 John Middleton Murry ) نے
اپنی کتاب ادب کے پہلو ( Aspects Of Literature )میں لکھاہے :
" The true literary critic must have a humanistic philosophy .His
inquiries must be modulated,subject to an intimate ,organic governance
by an ideal of the good life." (2)
اس عالمِ آب و گِل میں ادب فطرت کے مظہریات اور مقاصد کی ترجمانی کرتاہے
۔ادب اور فنون لطیفہ کو زندگی کے مثبت شعور سے بھی تعبیر کیاجاتاہے ۔جہاں
تک تنقید کا تعلق ہے اس کا قصرِ عالی شان ادب اور فنون لطیفہ کے مثبت شعور
کی اسا س پر استوار ہے ۔تنقید فکری ہم آ ہنگی کی ایسی مانوس فضا پیداکرتی
ہے جس کے معجزنمااثر سے ایک زیرک ،فعال اور مستعد پارکھ معجزۂ فن کی خون
جگر سے نمود کے مراحل کو فن کارانہ انداز میں سامنے لا کر یدِ ببیضاکا
معجزہ دکھاتاہے ۔ادب کے جمالیاتی محاسن پر گہری نظر رکھنے والے نقاد یہ
واضح کر دیتے ہیں کہ دل سے نکلنے والی ہر آواز زندگی کے بارے میں اس قدر
قابلِ فہم ،رمربوط اور قوتِ پرواز سے متمتع ہوتی ہے کہ یہ دلوں کومسخر کر
لیتی ہے ۔ تنقید کے حقیقی منصب کے بارے میں یہ حقیقت واضح ہے تاریخ اوراُ س
کے پیہم رواں عمل کو زادِ راہ بناتے ہوئے تنقیدایک ٹھوس اورقابلِ عمل نوعیت
کی درجہ بندی پر اپنی توجہ مرکوز رکھتی ہے ۔اس درجہ بندی کے وسیلے سے
کلاسیکی عہد کے فن کاروں کے فکر و خیال کے ارتقا ئی مدارج کے ساتھ ساتھ
دورِ جدید کے تخلیق کاروں کی ادبی کامرانیوں کے بارے میں تمام حقائق سامنے
آ جاتے ہیں۔قدیم و جدید کے مباحث سے یہ بات روزروشن کی طرح واضح ہو جاتی ہے
کہ قدرت کے کارخانے میں سکوں محال ہے ۔ہر عہد کے تخلیق کار نے خوب سے خوب
تر کی جستجو کو اپنا مطمح نظر بناتے ہوئے نئے تخلیقی تجربات جاری رکھے ۔
تخلیق ِفن کے لمحات میں ہر لحظہ نیا طور نئی برقِ تجلی کاکرشمہ دامنِ دِل
کھینچا ہے ۔ برطانوی نقاد میتھیو آرنلڈ ( 1822-1888:Matthew Arnold) نے
لکھاہے :
" The critical power is of lower rank than the creative.True ;but in
assertingto this proposition ,one or two things are to b kept in mind
.It is undeniable that the exercise of creative power,that a free
creative activity,is the highest function of man ;it is proved to be so
by man,s finding in it his true happiness." (3)
تنقید میں مختلف النوع عوامل کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے ۔ مطلق اورلازم کی
کیفیات بھی تخلیقی محرکات پراثرانداز ہوتی ہیں۔ ذہن و ذکاوت ،قلب اور
روح،جسم اور مادہ ان سب تخلیقی عوامل سے تنقید کا گہراتعلق ہے ۔فرانسیسی
فلسفی رینے ڈس کارٹیس ( :1596-1650 René Descartes ) نے بصیرت اور اس کے بر
محل استعمال کوتخلیقی عمل کے لیے ناگزیرقرار دیاہے ۔ذہن وذکاوت کے استعمال
سے جہاں ستاروں پر کمند ڈالنا ممکن ہے وہاں فکر و خیال کی کجی سے عیوب بھی
سامنے آتے ہیں۔اس دنیامیں کوئی بھی کام دشواراور ناممکن نہیں ہے ۔ضرورت اس
امر کی ہے کہ طویل اور پیچیدہ معاملات کو ممکنہ حد تک اس انداز میں تقسیم
کیا جائے کہ مشکلات پر قابو پانے میں کوئی امر مانع نہ ہو ۔ برطانوی نقاد
سموئیل ٹائلر کالرج( 1772-1834: Samuel Taylor Coleridge )نے لکھا ہے :
"The assumption,andthe form of speaking have remained, though the denial
of all other properties to matter but that of extension ,on which denial
of all other properties to matter but that ofextension ,on which denial
the whole system of dualism is grounded,has been exploded."( 4)
ایک تخلیق کار کی تخلیقات کا تجزیاتی مطالعہ ،اسلوب کی وضاحت اور جمالیاتی
اقدار کا انصاف اور عدل سے کام لیتے ہوئے استحسان نقادکااہم منصب ہے ۔ایک
مکمل نوعیت کے تنقیدی بیان میں تخلیق اور اس کے پس پردہ کار فرمامحرکات کے
بارے میں متعدد حقائق کی جانب اشارہ کیا جاتاہے ۔تنقیدی بصیر ت سے مزین یہ
بیان تخلیقِ فن کے بارے جن مختلف عوامل کی جانب متوجہ کرتاہے وہ قاری کے
لیے اس فن پارے کی تفہیم میں خضر راہ ثابت ہوتے ہیں ۔ایک دیانت دار نقاد
انصاف کا ترازو ہاتھ میں لے کر اپنے ذاتی تجربات ،مشاہدات اور تاثرات کو رو
بہ عمل لاتے ہوئے تخلیقی فن پارے کے بارے میں سب حقائق کی گرہ کشائی کرتاہے
۔ جہاں تک تنقیدی تاثرات کاتعلق ہے نقاد اپنی توجہ اس امر پر مرکوزرکھتاہے
کہ تخلیق فن کے اہم حوالوں کاجائزہ لیتے وقت تہذیبی و ثقافتی میراث کوبھی
پیشِ نظررکھیں۔ بیسویں صدی کے ممتاز برطانوی نقاداور ماہر تعلیم آیور آرم
سٹرانگ رچرڈز(1893-1979 :I. A. Richards )نے لکھا ہے:
"The literature of Criticism is not small or negilible ,and its chief
figures,from Aristotle to onwards,have often been among the first
intellects oftheir age.Yet the modern student,surveying the field
andnoting the simplicity of the task attempted andthe fragments of work
achieved,may reasonably wonder what has been andis amiss. " (5)
رالف والڈ و ایمرسن ( :1803-1882 ( Ralph Waldo Emerson نے ان لوگوں پر
گرفت کی ہے جو خود رائی کا شکار ہیں اور جنھوں نے وادی ٔ خیال میں مستانہ و
ار گھومنے والوں کے اسلوب کاتجزیہ کرتے وقت غیر جانب دارانہ انداز میں اپنے
فہم وادراک کوروبہ عمل لانے میں تامل کیاہے :
" Thoughtless people contadict as readily the statement of perceptions
as of opinions,or rather much more readily ;for they deo not distinguish
between perception of notion .They fancy that I choose to see this or
that thing .But perception is not whimsical, but fatal. (6)
تاریخِ ادب کے مطالعہ سے معلو م ہوتا ہے کہ ادب اورفنون لطیفہ میں ادبی
تنقیدکا آغاز سترہویں صدی میں ہوا۔مظاہر ِفطرت کی نقالی کے نظریے کے تحت
تخلیق کار فطرت کے مظاہر کی نقالی میں انہماک کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ جب قاری
کے رد عمل اور تاثرات کی بات ہو تو اسے حقیقت پسندی پر محمول کیا جاتاہے
۔یہ سلسلہ اٹھارہویں صدی تک جاری رہا ۔اس کے بعد انیسویں صدی میں
اظہاروابلاغ کے نئے آفاق تک رسائی کی تمنا میں تخلیق کاراور تخلیق پر توجہ
مرکوز ہو گئی۔ بیسویں صدی میں نئی تنقید کے علم برداروں نے معروضی حقائق
کوپیشِ نظرر کھتے ہوئے تخلیق کے بیانیہ کوخودکفیل وجود قرار دیا۔ادبی تنقید
نے جن شعبوں پرگہرے اثرات مرتب کیے ہیں ان کے حوالے سے اس کی درج ذیل اقسام
ہیں:
۱۔ اخلاقی تنقید ( : 300 BC Moral Criticism ) تا زمانہ حال۔ ڈرامائی تشکیل
پر مبنی اخلاقی تنقیدی رجحان میں فن پارے کا فکر ی و فنی جائزہ لیتے وقت
انسانی زندگی کے ساتھ اس کے ربط کو مدِ نظررکھنے پر اصرار ہے ۔ اگرچہ اس
میں خامیوں پر گرفت کی جاتی ہے مگر یہ ضروری نہیں کہ محض عیب جوئی اور
ناصحانہ انداز ہی اپنایاجائے۔ اس کے مطابق ادب پارے کی جانچ پرکھ کے لیے
رسمی طریقے کے بجائے اخلاقی معائر پرزیادہ توجہ دی جاتی ہے ۔بر طانوی نقاد
ڈی ۔ایچ۔لارنس ( 1885-1930 D. H. Lawrence : )نے تنقید کے اس رجحان کو
قدرکی نگاہ سے دیکھا۔ جن نقادوں نے اس تنقیدی رجحان کوپسند کیا ان میں ٹی
۔ایس ۔ایلیٹ : 1888-1965) (T. S. Eliotاور ایف ۔آر لیوس ( 1895-1978:F. R.
Leavis) شامل ہیں ۔ برطانوی نقاد جان رسکن (1819-1900 : John Ruskin)کا
خیال تھاکہ ادب کی اخلاقیات ہی اسے معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرنے کا
وسیلہ ہے ۔ بر طانوی نقاد والٹر پیٹر ( 1839-1894 : Walter Pater )نے جان
رسکن کے تنقیدی خیالات سے اتفاق نہیں کیا۔والٹر پیٹر نے ادب کو ایک گونہ بے
خودی کاوسیلہ قرار دیا۔اخلاقی تنقید کے اس رجحان کو لائق تحسین سمجھے والے
ادیب یہ چاہتے تھے کہ مطالعۂ ادب سے سیرت و کردار کی مثبت انداز میں تعمیر
و تشکیل کو یقینی بنایا جائے ۔اخلاقی تنقید کا یہ رجحان جنسی جنون ،فحاشی
،عریانی ،جنسی جنون اور ابتذال پر گرفت کرنے کی ایک سعی ہے ۔
۲۔ رسمی نو عیت کی تنقید ،نئی تنقید ، نوارسطولین تنقید(Neo-Aristotelian
Criticism) سال 1930تا حال۔ خطیبانہ ،رسمی ،منصفانہ اور منطقی نوعیت کی اس
تنقید کوکسی فن پارے کے داخلی محاسن کی گرہ کشائی پر توجہ مرکوز رکھنے میں
اوّلیت کا اعزاز حاصل ہے ۔ اس تنقید میں تخلیق کے انتخاب ،اس کی تحلیل و
تجزیہ اورتنقید وتحقیق کے لیے لائحہ عمل وضع کرنے کے بعد محاکمہ کی کوشش کی
جاتی ہے ۔ سوچ کے نموپانے ،تخلیق کے سوتے ،اختراعات،اسلوب ،اظہاراور
یادداشت کو اس تنقیدمیں کلیدی اہمیت کاحامل سمجھا جاتاہے ۔اس کے ساتھ ساتھ
اس تنقید میں ان تاثرات کا بھی مکمل احاطہ کیا جاتاہے جن کا اس تخلیق کے
ساتھ انسلاک کیا گیاہے ۔جہاں تک افلاطونی تنقید کا تعلق ہے اس میں ادب کے
ان تمام افادی پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھاجاتاہے جن کا اخلاقیات سے گہرا تعلق
ہے ۔نئی تنقید کے ارتقا پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتاہے کہ لفظ نئی تنقید
(New Criticism)کو سب سے پہلے جول الیس سپنگرن (Joel Elias
Spingran,B:17-5-1875,D:25-7-1939) نے اپنے ایک لیکچر میں استعمال کیا جو
اس نے نو مارچ 1910کو امریکہ کی کو لمبیا یو نیورسٹی میں دیا۔ یہ لیکچر سال
1911میں کتابی صورت میں شائع ہوا۔ جول الیس سپنگرن نے قدیم تنقیدی دبستانوں
کو ہدف تنقید بناتے ہوئے اس امر پر زور دیا کہ تنقید کو جدید دور کے تقاضوں
سے ہم آہنگ کر نا ضروری ہے۔ سال 1920سے سال1930کے عرصے میں نئی تنقید کے
ابتدائی دھندلے نقوش بحر اوقیانوس کے پار کے ممالک اور امریکی ادبیات پر
دکھائی دیتے ہیں نئی تنقید نے سیاق و سباق(Context) کو غیر اہم قرار دے کر
متن(Text)کو خود کفیل قرار دیتے ہوئے اس کے عمیق مطالعہ پر اپنی توجہ مرکوز
کر دی۔نئی تنقیدکے پیروکاروں نے اس امر کی طر ف توجہ دلائی کہ ہر متن کی
مرکزی وحدت ہوتی ہے ۔ اب یہ قاری کی بنیادی ذمہ داری ہے کہ وہ اس وحدت کی
جستجو میں انہما ک کا مظاہرہ کرتے ہوئے متعلقہ حقائق تک رسائی حاصل کرے
۔قاری کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ متن کی پوری دیانت داری سے ترجمانی کرے اور
اس امر کی صراحت کرے کہ کون سے موزوں طریقے اختیار کرتے ہوئے متن کے ہر حصے
نے مرکزی وحدت کی تشکیل میں اعانت کی ہے ۔نئی تنقید نے اندیشہ ہائے دُور
دراز کو ہمیشہ لائق استرداد ٹھہرایا اور ہر قسم کے گمراہ کن وسوسوں سے نجات
حاصل کرنے کی راہ دکھائی۔ اس تنقید نے تخلیق اور تخلیق کار کے تاریخی
اورسوانحی حوالے کو کبھی لائق اعتنانہ سمجھا۔نئی تنقید کے پیرو کاروں نے
واضح کیا کہ خزاں یا بہار کے آنے یا جانے کا دکھ یا سکھ سے کوئی تعلق نہیں
۔سب موسموں کا تعلق دِل کی کلی کے کھلنے اور مر جھانے سے ہوتا ہے ۔جب کسی
کا دل اُداس ہوتا ہے تو ایسی حالت میں اُسے سار اشہر سائیں سائیں کرتا
محسوس ہوتاہے ۔اگر متن میں خزاں کے ذکر سے مراد رنج و الم کا بیان ہے تو
ایسی صورت میں قاری کا متن کا مطالعہ کرتے وقت ملول ہونا قابل فہم ہے۔ادبی
تخلیق کے متن میں گھر کے بام و در اور دیواریں اگر دائمی مفارقت دینے والوں
کی یاد میں نوحہ کنا ں ہوں توقاری کی آنکھیں بھی اس ہجومِ یاس کو دیکھ کر
پُرنم ہو سکتی ہیں۔اگر دل میں تازہ ہوا کے جھونکے نہ آئیں تو طلوع صبح
بہاراں کا اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔نئی تنقید سے پہلے ادبی تنقید کاجھکاؤ
تاریخ کی جانب تھا۔متن کی تفہیم کے سلسلے میں ادبی نقاد بالعموم زبان کے
ارتقا اور تخلیق کے تاریخی پس منظر کو بنیادی اہمیت کا حامل قرار دیتے تھے۔
بیسویں صدی کے وسط تک اس تنقید نے خوب رنگ جمایا۔اس تحریک کا نام’’نئی
تنقید‘‘ ممتازامریکی ادیب جان کرو و رینسم(John Crowe
Ransom,B:30-04-1888,D:03-07-1974) کی سال 1941میں شائع ہونے والی تنقید کی
اہم کتاب "The New Criticism" میں بھی موجود ہے۔ شعبہ تنقید میں گراں قدر
خدمات اور مقبولیت کی بنا پر جان کرو رینسم کو نئی تنقید کے فلاسفر جنرل کے
نام سے یاد کیا جاتا ہے ۔
۳۔ نفسیاتی تنقید (PSYCHOLOGICAL CRITICISM) سال 1930تا حال۔ اس میں سوئٹزر
لینڈ کے ماہر نفسیات کارل یونگ ( Carl Jung: 1875-1951) ، آسٹریا سے تعلق
رکھنے والے مشہور نفسیات دان اور ماہر علم الاعصاب سگمنڈفرائڈ ( 1856-1939
:Sigmund Freud ) کو اس کا بنیادگزار سمجھاجاتاہے ۔فرائڈ کے جن شاگردوں نے
اس تنقیدکو مروج و مقبول بنانے کی کوشش کی ان میں آسٹریا کا ماہر نفسیات
الفریڈ ایڈ لر ( 1870-1937 : Alfred Adler )، آسٹریا کا ماہر نفسیات (
1884-1939:Otto Rank )،کار ل یونگ اور جرمن خاتون ماہر نفسیات کیرن ہا رنی
( 1885-1952:Karen Horney )شامل ہیں ۔ ان ماہرین نفسیات کی تنقیدات میں
فرائڈ کے افکار کی بازگشت سنائی دیتی ہے ۔ نفسیاتی تنقید کے ابتدائی نقوش
ارسطو ،لانجائنس اور ہوریس کی تنقیدی تحریروں میں ملتے ہیں ۔عصر حاضر میں
نفسیاتی تنقیدکو تخلیق ادب اور تفہیم ادب میں بہت اہم مقام حاصل ہے ۔
برطانوی شاعر،فلسفی اور نقاد ایس۔ٹی کولرج ( 1772- 1834 :Samuel Taylor
Coleridge )کی تنقیدی کتاب ’’ بائیو گرافیا لٹریریا‘‘ ( Biographia
Literaria )کو نفسیاتی تنقید کی تفہیم کے سلسلے میں کلیدی اہمیت حاصل
ہے۔تخلیق ادب کے پس پردہ کار فرمانفسیاتی گتھیوں ،جذباتی مسائل ،احساسات کے
گرداب اور لاشعور میں پنہاں اضطراب کا تحلیل نفسی کے ذریعے مطالعہ اس تنقید
کا خاص موضوع ہے۔یونگ اور ایڈلر نے فرائڈ کے نظریۂ تحلیل نفسی کو لائق
اعتنانہیں سمجھا۔ایڈلر نے لا شعور کو اجتماعی لا شعور قرار دیا۔جدید دور
میں فرائڈ کے نظریہ تحلیل نفسی نے علم و ادب پر دُور ر س اثرات مرتب کیے
ہیں ۔فرائڈ نے حیات انسانی کے معمولات میں جنس کو غیر معمولی اہمیت دی ہے
۔اس کاخیال ہے کہ اپنی تسبیح ِ روز وشب کا دانہ دانہ شمارکرتے وقت ہر فرد
جنس کے جذبے سے گہرے اثرات قبول کرتا ہے ۔جنس وجنوں سے وابستہ ہزاروں
خواہشیں ایسی ہیں کہ ہر خواہش پہ دم نکلتا ہے ۔یہاں تک کہ اپنی نا آسودہ
خواہشات سے گلو خلاصی حاصل کرنا کسی فرد کے بس کی بات نہیں ۔اس قسم کی نا
آسودہ خواہشیں دِل کے مقتل میں خوں نہیں ہوتیں بل کہ وہ تحت الشعور میں
ڈیرے ڈال دیتی ہیں اور فردکی زندگی میں ذہنی انتشار اور جذباتی اضطراب
کاباعث بن جاتی ہیں ۔تخلیق ادب پر بھی ان کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔
۴۔مارکسی تنقید(Marxist Criticism) سال 1930تا حال: اس تنقید میں جرمن
فلسفی ،مورخ ،ماہر معاشیات ،سیاستدان اور ماہر عمرانیات کارل مارکس (
1818-1883 :Karl Marx )اور روسی سیاست دان لینن ( 1870-1924:Vladimir Lenin
)کے نظریات کاغلبہ ہے ۔مارکسی تنقید نے اس بات پر اصرار کیا کہ زندگی کے
مادی مسائل عوام کی سیاسی ،سماجی اور فکری کیفیات پر دُور رس اثر ات مرتب
کرتے ہیں۔ادب اور زندگی کا تعلق مارکسی تنقید کاہم موضوع رہاہے ۔ روس میں
پلیخوف ( 1856-1918 :Georgi Valentinovich Plekhanov )ا ورمغرب میں برطانوی
مارکسی ادیب کرسٹوفر کاڈول ( 1907-1937: Christopher Caudwell )اور ہنگر ی
سے تعلق رکھنے والے مارکسی فلسفی لوکاس( 1885-1971 : György Lukács )نے
مارکسی تنقید کے فروغ میں گہری دلچسپی لی ۔اردو ادب میں جن ترقی پسند
نقادوں نے اس تنقید کو اپنایاان میں سید سجادظہیر ،ڈاکٹر اخترحسین رائے
پوری ،ڈاکٹر عبدلعلیم اور سید احتشام حسین کے نام قابل ذکرہیں ۔
۵۔قاری کے رد عمل پرمبنی تنقید( Reader-Response Criticism) سال 1960 تا
حال:اس تنقید میں کسی ادب پارے کے تخلیق کی طرح قاری کے رد ِعمل کو بھی
کلیدی اہمیت کاحامل سمجھا جاتاہے ۔یہ قاری ہی ہے جو قلزمِ ادب کی غواصی
کرکے متن کے ساتھ اپنی قلبی وابستگی اور ذہنی انسلاک سے مفاہیم و مطالب کے
گوہر ہائے آبدار بر آمد کرتاہے ۔ ادب کا ذہین قاری ادب پارے کا بہ نظر غائر
جائزہ لینے کے بعداس کی تحلیل و تجزیہ اور تشریح کرتاہے۔اس کے علاوہ ادب
پارے پر کی جانے والی سبک نکتہ چینیوں کو لائق استرداد ٹھہرا کر موثر انداز
میں ادب پارے کا دفاع کرتا ہے۔ کُند ذہن اور ہذیان کے مارے ہوئے سادیت
پسندوں اور لفاظ حشرات ادب کی پیدا کردہ بیزار کن یکسانیت ، مایوس کن
جموداور تباہ کن بے عملی پر کاری ضرب لگاناادب کے ذہین قاری کا فرض اوّلین
ہے ۔ ادب پارے کے متن کے مطالعہ کے دوران میں ہئیت اور موادکے متعلق باشعور
قاری کی بصیرت افروز باتیں ادب پارے کے مقام اور مرتبے کا تعین کرتی ہیں ۔
عالمی ادب کے جن نقادوں نے اس تنقید کے فروغ میں حصہ لیا ان میں ڈیوڈ
بلیچ(David Bleich)،سٹینلے فش ( Stanley Fish)،نارمن ہالینڈ ( Norman
Holland) اور سی ۔ایس لیوس(C. S. Lewis )شامل ہیں۔
۶۔ساختیات (Structuralism)،علاماتی ابلاغ کی تنقید سال 1920 تا حال
سوئٹزر لینڈکے ماہر لسانیات سوسئیر( 1857-1913:Ferdinand de Saussure) کو
ساختیات کا بنیاد گزار تسلیم کیاجاتاہے ۔ ساختیات نے سال 1950میں روشنی کے
سفر کاآغاز کیا۔پس ساختیات (Poststructuralism)نے سال1960میں خوب رنگ جمایا
۔ پس ساختیات کے موضوع پرکام کرنے والوں میں جو ادیب شامل ہیں ان کے نام
درج ذیل ہیں :
رولاں بارتھ (Roland Barthes)،ژاک لاکاں (Jacques Lacan)، جولیا
کرسٹیوا(Julia Kristeva)اور مشل فوکاں ( Michel Foucaul)
اس کے بعد اسی سال (1960)ردِ تشکیل (Deconstruction) پر توجہ مرکوز ہوگئی۔
فرانسیسی فلسفی ژاک دریدا ( 1930-2004:Jacques Derrida ) نے رد تشکیل پر
کام کیا ۔
۷۔ نئی تاریخ سازی ،ثقافتی مطالعات (New Historicism, Cultural Studies) کی
تنقید سال 1980 تا حال:اس تنقیدمیں کسی فن پارے کا جائزہ لیتے وقت تخلیق
کار کی نجی زندگی ،سماجی و معاشرتی حالات اور اس کے تاریخی پس منظر کوپیشِ
نظر رکھا جاتاہے ۔مطالعۂ ادب میں تاریخ کی اہمیت و افادیت کو پیشِ نظر
رکھتے ہوئے اس عہد کے سیاسی اور عمرانی حالات کے بارے میں محتاط رائے دی
جاتی ہے ۔روایتی دانش وروں ،تانیثیت پسندوں اور ثقافتی مادیت پسندوں کے
معاندانہ روّیے کے باوجودنئی تاریخ سازی ،ثقافتی مطالعات کی تنقیدنے دس
سال(1980-1990) کے عرصے میں بہت مقبولیت حاصل کی ۔اس تنقید کو فروغ دینے
میں جن نقادوں نے اہم کردار اداکیا ان میں شیکسپئیر کی شخصیت اور اسلوب پر
اختصاصی مہارت رکھنے والے امریکی نقاد سٹیفن جے گرین بلیٹ (Stephen Jay
Greenblatt) کا نام نمایا ں ہے ۔ سٹیفن جے گرین بلیٹ کاشمار ’’ نئی تاریخ
سازی ،ثقافتی مطالعات کی تنقید‘‘ کے بنیاد گزاروں میں ہوتاہے ۔ اپنے گراں
قدر مضامین میں جے گرین بلیٹ نے نئی تنقیدNew Criticism) رسمیت ( Formalism
) اور تاریخ سازی (Historicism) میں موجود حد فاصل کی صراحت کی ۔
۸۔پس نوآبادیاتی تنقید (Postcolonial Criticism) سال1990 تا حال: اس تنقید
میں جن نقادوں نے دلچسپی لی ان میں ایڈورڈ سعید(Edward Said)،گائتری
چکروارتی سپی واک (Gayatri Chakravorty Spivak)، کامو بریتھ ویٹ (Kamau
Brathwaite)، ڈومینک لاکاپرا (Dominick LaCapra )، ہومی کے بھابا (Homi K.
Bhabha) شامل ہیں۔تاریخ ،عمرانیات اور سیاسیات پر گہری نظر رکھنے والے ان
نقادوں نے افریقہ ،ایشیا، خلیج میکسیکو کے جنوب مشرق میں واقع جزائر کیربین
( Caribbean islands) اور جنوبی امریکہ کی نوآبادیات کی تاریخ اور ثقافت کا
مطالعہ کیا اور یہ دیکھا کہ انیسویں صدی عیسوی اور بیسویں صدی عیسوی میں
سامراجی طاقتوں کی ان نو آبادیات کے قسمت سے محروم باشندوں پر جو کوہ ِغم
ٹوٹااس کے کیا نتائج نکلے ۔آمریت اور سامراج کے خلاف غلاموں کا لہو سوزِ
یقین سے گرمانے کے لیے ماضی میں جن ممتاز ادیبوں نے خدمات انجا م دیں ان
میں جنوبی افریقہ سے تعلق رکھنے والے سیاست دان ،صحافی ، مترجم ،سیاست دان
اورماہر لسانیات سولو من پلاٹجی ( 1876-1932: Solomon Tshekisho Plaatje
)کا نام قابل ذکر ہے ۔ پہلی عالمی جنگ (1914-1918) کے دوران میں اور اس کے
بعدسولو من پلاٹجی نے افریقہ میں بر طانوی استعمار کے خلاف کھل کر
لکھا۔کلکتہ میں مقیم بنگالی زبان کی شاعرہ ،ناول نگار، مترجم اور مضمون
نگارٹورو دت ( 1856-1877 :(Toru Dutt نے اپنی تحریروں سے اس خطے میں بے
یقینی ختم کرنے کی کوشش کی۔ سروجنی نائیڈو( : 1879-1949 Sarojini Naidu )نے
انیسویں صدی عیسوی کے اواخر اور بیسویں صدی عیسوی کے آغاز میں نوآبادیاتی
جبر کے خلاف جو طرزِ فغاں ایجا د کی وہی پس نوآبادیاتی دور میں بھارت میں
طرزِ ادا ٹھہری ۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد پُوری دنیا میں فکر و نظر کی کایا پلٹ گئی۔ محکوم
اقوام کا لہو سوزِ یقیں سے گرمانے والے قائدین نے ممولے کو عقاب سے لڑنے کا
ولولہ عطا کیا ۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ سامراجی طاقتوں کو اپنا بوریا بستر
لپیٹ کر اپنی نو آبادیات سے بادِلِ نا خواستہ کُو چ نا پڑا ۔ وقت کے اس ستم
کو کبھی فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ جاتے جاتے سامراجی طاقتوں نے اپنے مکر
کی چالوں سے یہاں فتنہ و فساد اور خوف و دہشت کی فضا پیدا کر دی۔ پس نو
آبادیاتی تنقید کے علم بردار نقادوں کاخیال ہے کہ ساتا روہن اور گُرگ منش
شکاری ہمیشہ نئے جال تیار کرتے رہتے ہیں ،زنجیریں بدلتی رہتی ہیں مگر الم
نصیب محکوموں کے روز و شب کے بدلنے کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔ان
نقادوں نے یہ بات ہمیشہ زور دے کر کہی کہ جب تک کسی قوم کے افراد احتسابِ
ذات پر توجہ مرکوز نہیں کرتے اور حریتِ ضمیر سے جینے کی راہ نہیں اپناتے اس
وقت تک اُن کی قسمت نہیں بد ل سکتی۔حریتِ فکر و عمل اور حریتِ ضمیر سے جینے
کی روش وہ زادِ راہ ہے جو زمانۂ حال کو سنوارنے ،مستقبل کی پیش بینی اور
لوح ِ جہاں پر اپنا دوام ثبت کرنے کا وسیلہ ہے۔ پس نو آبادیاتی دور میں
دہشت گردی ، مفاد پرستی ، حرص اور ہوسِ زر نے ایک بحرانی کیفیت اختیار کر
لی ہے ۔ان اعصاب شکن حالات میں سیرت و کردار کی تعمیر وقت کا اہم ترین
تقاضا سمجھا جاتا ہے ۔پس نو آبادیاتی دور پر نظر رکھنے والے نقادوں نے اس
جانب متوجہ کیا کہ ہر فرد کو اپنی ملت کی تقدیر سنوارنے میں اہم کردار کرنا
پڑے گا۔ایک با شعور اور ذمہ دار شہری کو یہ بات زیبا نہیں کہ وہ محض اپنی
ذات کے نکھار،نفاست،تزئین اور عمدگی کو مرکزِ نگاہ بنالے بل کہ ضرورت اس
امر کی ہے کہ وہ حریتِ ضمیر سے زندگی بسر کرے اور حریتِ فکر و عمل کو شعار
بنائے۔عملی زندگی میں اپنے جذبات،احساسات،اور اظہار و ابلاغ کے جملہ انداز
حق و صداقت سے مزین کرے۔ پس نو آبادیاتی مکتبہ ٔفکر کے نقادوں نے پس نو
آبادیاتی مطالعات پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ جہاں تک ادب میں پس نو آبادیاتی
مطالعات کا تعلق ہے اس کے بارے میں یہ بات بلاخوفِ تردید کہی جاسکتی ہے کہ
ان میں نو آبادیاتی دور کے محکوم باشندوں کے زوایہ ٔنگاہ ،وقت کے بدلتے
ہوئے تیور ،فکر و خیال کی انجمن کے رنگ اور ان کے آ ہنگ پیشِ نظر رکھے جاتے
ہیں۔پس نو آبادیاتی مطالعات نو آبادیات کے باشندوں کی خاص سوچ پر محیط ہوتے
ہیں۔ جری تخلیق کار اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کی نو آبادیات
کے وہ مظلوم باشندے جو طویل عرصے تک سامراجی غلامی کا طوق پہن کر ستم کش ِ
سفر رہے مگر سامراجی طاقتوں کے فسطائی جبر کے سامنے سر جھکانے سے انکار کر
دیا،ان کا کردار ہر عہد میں لائق صد رشک وتحسین سمجھا جائے گا۔یہ دیکھا
جاتا ہے کہ سامراجی طاقتوں کو جب اپنی نو آبادیات میں منھ کی کھانا پڑی اور
ہزیمت اُٹھانے کے بعد جب وہ بے نیلِ مرام اِن سابقہ نو آبادیات سے نکلنے پر
مجبور ہوئے تو اس کے بعد ان نو آبادیات کے با شندوں نے آزادی کے ماحول میں
کس طرح اپنی انجمنِ خیال آراستہ کی۔ استعماری طاقتوں نے دنیابھر کی پس
ماندہ اقوام کو اپنے استحصالی شکنجوں میں جکڑے رکھا۔سامراجی طاقتوں کی
جارحیت کے نتیجے میں ان نو آبادیات کی تہذیب وثقافت،ادب،اخلاقیات،سیاسیات
،تاریخ ،اقدار و روایات اور رہن سہن کے قصر و ایوان سب کچھ تہس نہس ہو گیا۔
پس نو آبادیاتی مطالعات میں اس امر پر نگاہیں مرکوز رہتی ہیں کہ ان کھنڈرات
کے بچے کھچے ملبے کے ڈھیر پر نو آزاد ممالک کے باشندوں نے آندھیوں اور
بگولوں سے بچنے کے لیے کیا تدابیر کیں اور سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں سے
صحنِ چمن کو کس طرح محفوظ رکھا۔تیسری دنیا کے ممالک کے مسائل اور اس کے
نتیجے میں آبادی میں رونماہونے والے تغیر و تبدل کا جائزہ ان نقادوں کا خاص
موضوع ہے۔
۹۔تانیثیت کی تنقید سال 1960 تا حال :تانیثیت نے خواتین کے حقوق اور مفادات
کے تحفظ کواپنامطمح نظر بنایا۔ تانیثیت کو ادبی حلقوں میں ایک نوعیت کی
تنقید سے تعبیر کیا جا تا ہے ۔اس کا مقصد یہ ہے کہ خواتین جنھیں معاشرے میں
ایک اہم مقام حاصل ہے ان کی خوابیدہ صلاحیتوں کو نکھارا جائے اور انھیں
تخلیقی اظہار کے فراواں مواقع فراہم کیے جائیں ۔مغرب میں اسے 1970میں
پذیرائی ملی ۔ یورپی دانشوروں نے اس کی ترویج و اشاعت میں گہری دلچسپی لی
۔اس طرح رفتہ رفتہ لسانیات اور ادبیات میں تانیثیت کو ایک غالب اور عصری
آگہی کے مظہر نظریے کے طور پر علمی اور ادبی حلقوں نے بہت سراہا۔1980کے بعد
سے تانیثیت پر مبنی تصورات کو وسیع تر تناظر میں دیکھتے ہوئے اس کی سماجی
اہمیت پر زور دیا گیا۔اس طرح ایک ایسا سماجی ڈھانچہ قائم کرنے کی صورت تلاش
کی گئی جس میں خواتین کے لیے سازگار فضا میں کام کرنے کے بہترین مواقع
ادستیاب ہوں ۔تانیثیت کی علم بردار خواتین نے ادب کے وسیلے سے زندگی کی
رعنائیوں اور توانائیوں میں اضافہ کرنے کی راہ دکھائی۔ان کا نصب العین یہ
تھا کہ جذبات ،تخیلات اور احساسات کو اس طرح الفاظ کے قالب میں ڈھالا جائے
کہ اظہار کی پاکیزگی اور اسلوب کی ندرت کے معجز نما اثر سے خواتین کو قوت
ارادی سے مالا مال کر دیا جائے اور اس طرح انسانیت کے وقار اور سر بلندی کے
اہداف تک رسائی کی صورت پیدا ہو سکے ۔اس عرصے میں تانیثیت کی باز گشت پوری
د نیا میں سنائی دینے لگی ۔خاص طور پر فرانس ،برطانیہ ،شمالی امریکہ ،ریاست
ہائے متحدہ امریکہ اور کینیڈا میں اس پر قابل قدر کام ہوا۔یہ بات قابل ذکر
ہے کہ تانیثیت کی شکل میں بولنے اور سننے والوں کے مشترکہ مفادات پر مبنی
ایک ایسا ڈسکورس منصہ شہود پر آیاجس نے خواتین کے منفرد اسلوب کا اعتراف
کیا گیا ۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ نسائی جذبات میں انانیت نمایاں رہتی ہے مگر
یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ ان کے جذبات میں خلوص، ایثار،مروت
،محبت اور شگفتگی کا عنصر ہمیشہ غالب رہتا ہے ۔تانیثیت نے انسانی وجود کی
ایسی عطر بیزی اور عنبر فشانی کا سراغ لگایاجو کہ عطیہ ٔ خداوندی ہے ۔اس
وسیع و عریض کائنات میں تمام مظاہر فطرت کے عمیق مشاہدے سے یہ امر منکشف
ہوتا ہے کہ جس طرح فطرت ہر لمحہ لالے کی حنا بندی میں مصروف عمل ہے اسی طرح
خواتین بھی اپنے روز و شب کا دانہ دانہ شمار کرتے وقت بے لوث محبت کو شعار
بناتی ہیں۔خواتین نے تخلیق ادب کے ساتھ جو بے تکلفی برتی ہے اس کی بدولت
ادب میں زندگی کی حیات آفریں اقدار کو نمو ملی ہے ۔موضوعات ،مواد ،اسلوب
،لہجہ اور پیرایہ ٔ اظہار کی ندرت اور انفرادیت نے ابلاغ کو یقینی بنا نے
میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ۔تانیثیت کا اس امر پر اصرار رہا ہے کہ
جذبات،احساسات اور خیالات کا اظہار اس خلوص اور دردمندی سے کیا جائے کہ ان
کے دل پر گزرنے والی ہر بات بر محل ،فی الفوراور بلا واسطہ انداز میں پیش
کر دی جائے
۱۰۔جنس کی تنقید سال 1970 تا حال:گزشتہ دو عشروں میں ادب اور ثقافت کے
شعبوں میں تنقید ی افق کی وسعت کودیکھ کر اہلِ عالم دنگ رہ گئے ہیں ۔ جنس
کی تنقید در اصل تانیثیت کی توسیع ہے ۔اس کے موضوعات میں عورتیں
،مرداورخواجہ سرا شامل ہیں۔خاص طورہم جنس پرستی کے مسائل(LGBTQ issues
)پرتوجہ دی جاتی ہے۔
انسانی جنس سے وابستہ خصوصیات کی اساس پر تعمیر ہونے والے فکر و خیال کے
قصر و ایوان قاری کے لیے منفرد تجربہ ہیں ۔ ثقافتی امور کے ماہر ٹونی
پیوروس (Tony Purvis) نے لکھا ہے :
"The critical attention to,and analysis of,cultural texts as well as
sexual practices hasbeen matched by a prodigious theoretical output .
(7)
۱۱۔ تاثراتی تنقید : اس تنقید میں یہ دیکھا جاتاہے کہ تخلیق کار کی تخلیق
نے نقادپر کیا اثرات مرتب کیے ۔اس کے سوتے جمالیاتی تنقید ہی سے پھوٹتے
ہیں۔جمالیاتی تنقید میں جس وقت داخلیت کاغلبہ ہو جاتاہے تو وہ تاثراتی
تنقید کی صورت اختیار کر لیتی ہے ۔ بر صغیر میں تاثراتی تنقید کو بالعموم
قدرکی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا۔اس کاسبب یہ ہے کہ اس خطے کے حالات نے ایسا
رخ اختیار کر لیاہے جہاں فکر و خیال کا رخ مادیت کی جانب ہو گیا ہے ۔اس صور
ت ِحال میں تخلیق کار، محقق اورنقادتخلیق ادب کے سماجی پس منظر کو بہت اہم
خیال کرتے ہیں ۔
۱۲۔امتزاجی تنقید: امتزاجی تنقید نے تنقید کے دوسرے دبستانوں کے پہلو بہ
پہلو نیا زمانہ اور نئے صبح و شام کی تخلیق کی راہ دکھائی۔امتزاجی تنقید نے
اقتضائے وقت کو سمجھتے ہوئے معاصر ادبی تھیوری کے بارے میں جو موقف اپنایا
اسے وقت کا اہم تقاضا سمجھا جاتا ہے ۔امتزاجی تنقید نے فکری جمود اور
یکسانیت کے خاتمے پر زور دیا اور تنقید کے مختلف دبستانوں کے امتزاج سے
ایسا دھنک رنگ منظر نامہ مرتب کرنے کی راہ دکھائی جس کا کرشمہ دامن ِ دل
کھنچتاہے ۔ تخلیق کار،تخلیق اور قاری کے ربط باہمی سے تخلیقی فعالیت کے
نظام کو منضبط شکل عطا کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرناامتزاجی تنقید کا نمایاں
وصف سمجھا جاتاہے ۔بادی النظر میں یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ تخلیق کار
،تخلیق اور قاری کی جولاں گاہ کااحاطہ کرنا امتزاجی تنقید کا اہم ترین نصب
العین رہاہے ۔ٍادب میں مروّج و مستعمل مختلف نو عیت کے تنقیدی نظریات کی
مثال اینٹوں کی سی ہے جن کے ربط باہمی سے تنقید کا قصر عالی شان تعمیر
ہوتاہے ۔امتزاجی تنقید نے تنقید کے مختلف دبستانوں کے بنیاد گزاروں کے
خیالات سے بھی بھر پور استفادہ کیا ہے ۔ امتزاجی تنقید کے بنیاد گزار اس
امر پر اصرار کرتے ہیں کہ کسی بھی ادبی تخلیق سے مطالب و معانی کے گہر ہائے
آ ب دار تلاش کرنے کے لیے اس کے خارجی محاسن کے بجائے اس کے داخلی معدن کی
جستجو ناگزیر ہے ۔تخلیق کامحض سطحی مطالعہ کرنے کے بجائے اس کی غواصی پر
توجہ دی جائے تا کہ اس کی تہہ میں موجود گنجینہ ٔ معانی تک رسائی کو یقینی
بنایا جا سکے۔
۱۳۔ جمالیاتی تنقید: قدیم یونانی فلسفی ڈیمو کرائیٹس(Democritus) نے سب سے
پہلے جمالیات پر توجہ دی۔ ایتھنز کے فلسفی افلاطون (Plato) نے جمالیات کے
قواعد و ضوابط کی تدوین پر توجہ مرکوز رکھی۔ اس نے واضح کیاکہ یہ کائنات
ابھی نا تمام ہے جہاں حسن فطرت اور مظاہر جمال کی ارفع صورت دستیاب نہیں ۔
تنقید میں جمالیات کی جانب ڈیکارٹ ،کانٹ ،گوئٹے ، شو پنہار اور ہیگل نے
توجہ دی ۔اپنی نوعیت کے اعتبار سے جمالیات کو حسن اور فنی مہارت کے فلسفے
سے تعبیر کیا جاتاہے ۔ادب میں جمالیاتی اقدار کی اہمیت مسلمہ ہے ۔نقادکے
لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ ادب کی جمالیاتی اقدار کو پسِ پشت ڈال کر کسی
ادب پارے کا محاکمہ کر ے ۔ایک تخلیق کار جب اپنی حسیاتی کیفیات کوپیرایۂ
اظہار عطاکرتاہے تو وہ حسن کاری کی سعی کرتا ہے ۔حسن ایک سر بستہ راز ہے
جسے الفاظ میں بیان کرنا بہت مشکل ہے ۔ جمالیات کے موضوع پر ڈیمو
کرائیٹس(Democritus) اورہیرا کلیٹس (Heraclitus) کے نظریات میں بعد
المشرقین تھا۔ایپی کیورس (Epicurus)نے عیش کوشی اور مسرت و انبساط کوزندگی
کامقصدقرار دیتے ہوئے فہم و ادراک کواس جانب توجہ دینے پرمائل کیا۔اس کا
خیال تھا کہ زندگی میں صرف وہی فعالیت مستحسن ہے جو حصول مسرت میں معاون
ہو۔جمالیاتی حس پیہم ارتقائی مدارج طے کرتی رہتی ہے ۔اطالوی مصور لیونارڈو
داونسی ( 1452-1519 :Leonardo da Vinci)کی شہرہ ٔ آفاق تصویر ’’ مونا
لیزا‘‘ کے چہرے پر موجود روح اور قلب کی گہرائی میں اُتر جانے والی مسکراہٹ
کی کیفیت مصورکی پیہم آ ٹھ برس کی جگر کاوی کا ثمر ہے ۔ جمالیات کی اصطلاح
متعارف کرانے کے سلسلے میں جرمن فلسفی بام گارٹن ( : 1714-1762 Alexander
Gottlieb Baumgarten ) کو اولیت کااعزازحاصل ہے ۔جمالیاتی تنقید ادب پاروں
میں حسن کے منابع اور حسن کے ادراک پر توجہ دیتی ہے ۔انگریزی زبان کے لفظ’’
Aesthetics‘‘ کے لیے اردو کا لفظ’جمالیات ‘ اس کا درست مترادف نہیں۔اس کے
لیے حسیات ،وجدانیات ،ذوقیات زیادہ موزوں تھے مگر یہ مستعمل نہ ہو سکے ۔ادب
پارے کی وضاحت کے بجائے یہ تنقید محض حسن و جمال تک محدود ہے اس لیے یہ
ذاتی پسند و نا پسند کی مظہربن جاتی ہے ۔
۱۴۔ سائنٹیفک تنقید: فرانسیسی مورخ و نقادٹین ( 1828-1893 : Hippolyte
Taine )کا شمارسائنٹیفک تنقید کے بنیادگزاروں میں ہوتا ہے ۔ تجزیاتی نوعیت
کی اس تنقید میں تخلیقی فن پارے کا تجزیاتی مطالعہ کرنے سے قبل نہ صرف فن
پارے بل کہ اس عہد کے عمرانی ،معاشرتی ،سماجی اور عقائدکی مجموعی صورت حال
کا غیر جانب دارانہ تجزیہ نا گزیرہے ۔ متعین مقاصد کے حصول کے لیے روزمرہ
زندگی کے تجربات اور مشاہدات منطقی انداز میں جانچ پرکھ اس تنقید کاخاص
موضوع رہا ہے۔کسی بھی ادبی تخلیق سے مطالب و معانی کے گہر ہائے آ ب دار
تلاش کرنے کے لیے اس کے خارجی محاسن کے بجائے اس کے داخلی معدن کی جستجو
ناگزیر ہے ۔ کسی بھی ادبی تخلیق کامحض سطحی مطالعہ کرنے کے بجائے اس کی
غواصی پر توجہ دی جائے تا کہ اس کی تہہ میں موجود مطالب و مفاہیم کے گنج
ہائے گراں مایہ تک رسائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
اس کائنات میں فطرت کے مظاہر کے اسرار و رموز کی گرہ کشائی کرتے وقت جو
اسلوب اپنایاگیاہے تنقید اس پر نگاہ ڈالنے کی ایک سعی ہے ۔ وہ ادب پارے جن
میں کم و کیفِ حیات کی لفظی مرقع نگاری کی گئی ہے اورمظاہر فطرت سے قلبی
وابستگی اور والہانہ محبت کااظہار کیا گیا ہے وہ تنقید کا محبوب موضوع ہیں۔
قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں ہوس ،حرص ،خود غرضی ،موقع پرستی ،مکر و
فریب اور استحصال کے باعث سماجی اور تمدنی زندگی میں انتشار کی جوکرب ناک
صور ت پیدا ہو گئی ہے اس نے نوع انساں کو ناقابل اندمال صدمات سے دو چار کر
دیا ہے ۔ اس انتشارنے جہاں معاشی ،اقتصادی ،عمرانی اور معاشرتی سطح پر
گمبھیر صورت اختیار کر لی ہے وہاں ادب پر بھی اس انتشار کے مسموم اثرات
مرتب ہوئے ہیں۔تنقید نگار علم بشریات ،فلسفہ اور نفسیات کے حوالے سے تمام
مسائل کی جانچ پرکھ پر اصرار کرتا ہے ۔یہی وہ مقام ہے جب تنقید کی ہمہ گیری
کاتاثر پختہ تر ہو جاتاہے اور تنقیدادب اورفنون لطیفہ کے حصار سے باہر نکل
کرحیات و کائنات،تہذیب و تمدن ،معاشرے اور سماج کو درپیش مسائل کے بارے میں
اپنا واضح موقف پیش کرتی ہے ۔اردو تنقید کی حدود کے بارے میں محمد حسن
عسکری نے لکھاہے :
’’میری سمجھ میں توایک بڑی سیدھی سادی سی بات آئی ہے ۔آدمی نے کوئی کتاب
پڑھی ،اچھی معلوم ہوئی ،جی چاہا اوروں کو بھی بتا ؤں ۔اب اُس نے ایسے
تصورات اوراصطلاحیں ڈھونڈیں جن کی مدد سے وہ دوسروں کو قائل کرنے میں
کامیاب ہو گیا۔یہ ہوئی تنقید ۔‘‘ ( 8)
ماضی میں اردو زبان میں لکھی جانے والی تنقید کی مجموعی صورت حال حد درجہ
غیر امیدافزا رہی ہے ۔کلیم الدین احمد نے اس موضوع پر اپنے خیالات ظاہر
کرتے ہوئے لکھاہے :
’’اردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے ۔یہ اقلیدس کا خیالی نقطہ ہے یامعشوق
کی موہوم کمر :
صنم کہتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے؟کس طرف کو ہے ؟کدھر ہے ؟ ‘‘ (9)
اردو زبان کے ارتقا پر نظر رکھنے والے محققین کاخیال ہے کہ اردو میں تنقید
کے دھندلے نقوش قدیم تذکروں اور مولانا محمد حسین آزادؔ کی تحریروں میں
دیکھے جا سکتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ ان تذکروں میں مصنفین نے اپنے جن ذاتی
تاثرات کوشامل کیا ہے وہ حقیقی تنقید نہیں ۔ ان تذکروں میں شاعر کی نجی
زندگی ،شاعری اور شخصیت کے بارے میں مختصر تاثرات شامل کیے جاتے تھے مگر
تنقیدی روح نا پید تھی ۔ قدیم شعرا کا نمونہ کلام شامل کرتے وقت تنقیدی
بصیرت ،احساس و ادراک کی نفاست اور نزاکت اور ذہن و ذکاوت کورو بہ عمل لاتے
ہوئے جانچ پر کھ پر توجہ نہیں دی گئی ۔کلیم الدین احمدنے اردو کے قدیم
تذکروں میں شامل کی گئی معلومات کے بارے میں لکھا ہے :
’’ ان تذکروں کا بلند ترین نقطہ ہے ’’ بسیار خوش گو است ‘‘ ۔میر حسن اسی
رنگ میں میر ؔ و سودا ؔ کی مدح سرائی کرتے ہیں۔کام کی بات صرف اسی قدر ہے
کہ سودا ؔ قصیدہ کے مردِ میدان ہیں اور میرؔ غزل کے بادشاہ۔اس کے علاوہ
لفاظی ہے ،عبار ت آرائی ہے لیکن کوئی ٹھوس بات نہیں ۔تذکروں کاتمام نقص یہی
ہے۔ہر جگہ لفظوں کا سیلاب ہے ان لفظوں سے کوئی خاص باتیں دماغ پر نقش نہیں
ہوتیں ۔ہر نقش نقش برآب کی طرح جلدمِٹ جاتاہے ۔کبھی یہ عبار ت آرائی مضحکہ
خیزحدتک پہنچ جاتی ہے اور طبیعت منغض ہو جاتی ہے ۔‘‘ (10)
محمد حسین آزادکی تصنیف ’’ آبِ حیات ‘‘ اور مولانا حکیم سیدعبدالحئی کی
کتاب’’ گلِ رعنا‘‘ کو تذکرہ نویسی اور تنقید کے وسطی دو ر سے تعبیر کیا
جاتا ہے ۔ محمد حسین آزادکی تحریروں میں نقد و نظر کے معیار کا فقدان ہے
۔انھوں نے مشرقی زبانوں کے ادبیات پر تو کسی حدتک توجہ دی مگر یورپ کی علمی
وادبی کامرانیوں پرانھوں نے بہت کم لکھا۔ اپنی تصنیف’’ آب ِحیات‘‘ میں وہ
تذکروں کی تقلید کی روش سے بچ نہ سکے ۔آبِ حیات میں ادیبوں کے بارے میں ان
کی رائے غیر واضح ہے ۔ جہاں تک ارد و زبان میں تنقید کا تعلق ہے گلِ رعنا
اور آب ِ حیات کے علاوہ کسی تذکرے یا قدیم ادبی تاریخ میں تنقید کی
امیدافزا صورت دکھائی نہیں دیتی ۔ مغربی ممالک میں علم و ادب کی ترقی کو
پیشِ نظر رکھتے ہوئے الطاف حسین حالیؔ اورمولانا شبلی نعمانی نے اردو تنقید
کوتذکروں کی محدود فضاسے نکل کر جہانِ تازہ کی جانب سفر کی راہ دکھائی۔
الطاف حسین حالیؔ اورمولانا شبلی نعمانی کی تنقید کے متعلق محمد حسن عسکر ی
نے لکھاہے :
’’شبلی مرحوم اور حالی مرحوم پر انگریزوں کی ایسی ہیبت طاری ہوئی تھی کہ
انگریزی ادب سے ابتدائی واقفیت کے بغیر اُنیسویں صدی کی انگریزی تنقیدسے دو
چار چلتے ہوئے خیالات اخذ کر لیے اوراپنے ادب کوان محدودتصورات میں اس طرح
مقیدکیاکہ آنے والی نسلوں کے ادبی فہم اور ادبی ذوق کو غارت کر گئے ۔‘‘
(11)
عصر ِ حاضر میں تحقیق اور تنقید کے نام پر مدارس میں جو گل کھلائے جا رہے
ہیں انھیں دیکھ کر ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس کے بارے میں کیا کہا جائے
اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس سانحے کے متعلق اپنے جذبات حزیں کا اظہار
کن الفاظ میں لکھا جائے ۔اپنے ایک مضمون ’’روح کی اڑان ‘‘ میں وارث علوی نے
اس لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور روح فرسا المیہ کے تضادات ،ناہمواریوں اور بے
اعتدالیوں کے بارے میں ہمدردانہ شعور اجاگر کرتے ہوئے نہایت دردمندی اور
خلوص سے لکھا ہے :
’’مدرسہ کی فضا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لسان العصر ،بلبل شیراز اور طوطیٔ ہند
سب سُرمہ پھانک لیتے ہیں۔صرف مدرس ہے جو ٹراتا رہتا ہے اور کلاس روم کے در
و دیوار ان معلومات سے گونجتے رہتے ہیں جن کا توانا تخلیقی تجربات سے دُور
کا بھی سرو کار نہیں ہوتا۔ہر ذی روح کی طرح مدرس بھی عمرِ دراز کے چار دن
مانگ کر لاتا ہے۔۔۔۔دو پی ایچ۔ڈی کے موضوع کی تلاش میں اور دو موضوع پر
’’کام‘‘کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔مدرس کے لیے پی ایچ ۔ڈی کے مقالے کی وہی
اہمیت ہے جو داستانی عہد کے سورماؤں کے لیے ہفت خواں کی ہوا کرتی تھی کہ
ہفت خواں نہ ہوں تو سورماؤں کے لیے کنویں میں جھانکنے کے سوا کوئی کام ہی
نہ رہتا۔مدرس ان عجوبۂ روزگار لوگوں کی اولادِ معنوی ہے جو اگلے زمانے میں
چاول پر قل ہو اﷲ لکھا کرتے تھے ،کہ اُن ادیبوں پر بھی جن کا ادبی جثہ چاول
کے دانہ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے پانچ سو صفحہ کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ لکھنا اس
کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ ‘‘ (12)
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مدرس جب مکتبی تنقید کی صورت میں
پنے اشہب قلم کی جو لانیاں دکھانے کے لیے تحقیق و تنقید کی وادی میں داخل
ہوتا ہے تو ز ندگی کے تمام حقائق اس ابلہ کے ابلق کے سموں کی گرد میں اوجھل
ہو جاتے ہیں۔تاریخ ،نفسیات ،ادبیات،علم بشریات اور عمرانیات کے بارے میں
مدرس کا علم بے حد محدود ہوتا ہے ۔اپنی نام نہاد تحقیق میں وہ جو نتائج پیش
کرتا ہے وہ اس قدر گم را ہ کن ہوتے ہیں کہ قاری اس مجرمانہ اسلوب اور
پشتارہ ٔاغلاط کو دیکھ کر سر پیٹ کر رہ جاتا ہے ۔ فرانسیسی ادبی تھیورسٹ
،فلسفی اور نقادرولاں بارتھ (Roland Barthes : 1915-1980) بھی مکتبی تنقید
کے مسموم اثرات سے آگا ہ تھا ۔ اُس کے خیالات اور وارث علوی کے خیالات میں
گہری مما ثلت پائی جاتی ہے ۔مکتبی تنقید پر گرفت کرتے ہوئے رولاں بارتھ نے
لکھا ہے :
’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ طے شدہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت
ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے ۔متعینہ معانی تو صرف لُغوی معنی ہو سکتے
ہیں اور ادب میں اکثر و بیش تر بے ہُودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں ۔مکتبی
نقادوں کے بارے میں بارتھ نے لکھا ہے کہ ان کا ذہن چھوٹا اور نظر محدود
ہوتی ہے وہ ادعائیت کا شکار ہیں اور ادب میں اکثریت کے علم بردار ہیں،اس
لیے ادب کے لطف و نشاط میں شرکت کے لیے ان کی آمریت کو تہس نہس کرناضروری
ہے ۔‘‘ (13)
وارث علوی نے تیشہ ٔ حرف سے مکتبی تنقیدکی جعلی عمارت کو منہدم کرنے کی سعی
کی ہے اور ہمہ دانی کے داعی مدرس کو آ ئینہ دکھایا ہے :
’’مدرس ہر مضمون پر لکھ سکتا ہے ،ہر مجموعہ کلام پر تبصرہ لکھ سکتا ہے ،ہر
کتاب پر اپنی رائے دے سکتا ہے جو دوسروں کے کام آئے حالانکہ بہت سی کتابیں
ایسی ہوتی ہیں کہ آدمی تزکیہ نفس اور راہ ِ سلوک کے آخری مقام پر پہنچ کر
بھی ان کے متعلق لب کشائی کرے تو بھنچے ہوئے لبوں سے سوائے بے نقط ملفوظات
کے کچھ باہر نہ نکلے لیکن مدرس بے نقط کبھی نہیں بو لتا۔جب بھی بولتا ہے
تنقید ہی بو لتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب تک مدرس کے دم میں دم ہے وہ کسی شاعر
کو طبعی موت مرنے نہیں دیتا۔وہ جو دوسروں کے لیے مر گئے وہ بھی حنوط شدہ
ممیوں کی طرح مدرس کے مقالوں میں زندہ ہیں۔جن شاعروں پر نول کشور فاتحہ پڑھ
چکے ،ان کا عرس منانے کے لیے مدرس ماوراالنہر سے چلتا ہے تو پانی پت میں
آکر دم لیتا ہے ۔‘‘ (14)
تفہیم ادب کے سلسلے میں موازنہ اورتقابل بھی تنقید کاایک موثر انداز
سمجھاجاتا ہے۔اردو میں تقابلی تنقیدکی مثال مولاناشبلی نعمانی( 1857-1914)
کی تصنیف’’ مُوازنہ انیس ودَبیر ‘‘ ہے۔مولانا شبلی نعمانی نے اپنی اس کتاب
میں اپنے عہد کے دو مرثیہ گو شعرا میرببر علی انیس ؔ (1803-1874) اور
مرزاسلامت علی دبیرؔ(1803-1875) کے اسلوب کا تقابلی مطالعہ کیا ہے ۔
عالم ہے مکدر کوئی دِل صاف نہیں ہے
اِس عہدمیں سب کچھ ہے پر انصاف نہیں ہے (مرزاسلامت علی دبیرؔ)
دل صاف ہو کس طرح کہ انصاف نہیں ہے
انصاف ہو کس طرح کہ دِل صاف نہیں ہے (میرببر علی انیس ؔ)
انصاف سے دیکھو مرزا صاحب نے میرصاحب ہی کے لفظوں کواُلٹ پلٹ کیا ہے لیکن
کِس بُری طرح سے کہ محض لفظی گورکھ دھندا رہ گیاہے ۔‘‘ ( 15)
10۔محرم 61ہجری کو عصرکے وقت جب حضرت امام حسینؑ کے تمام عزیز واقارب
،معتمدساتھی اور جانثار رفقاشہید ہوگئے تووہ میدانِ کربلا میں تنہا بیٹھے
تھے ۔اتفاق سے ایک راہ رو کااُدھر سے گزر ہوا۔اس راہ رو کے استفسارپر حضرت
امام حسینؑ نے اپنے بارے میں یہ کہا:
یہ تو نہیں کہا کہ شہ ِ مشرقین ہوں
مولا نے سر جُھکاکے کہامیں حسین ہوں (میرببر علی انیس ؔ)
اسی واقعہ کی لفظی مرقع نگاری کرتے ہوئے میر انیسؔ کے معاصر مر ثیہ نگار
دبیر ؔنے کہا:
فرمایامیں حسین علیہ السّلام ہوں (مرزاسلامت علی دبیرؔ)
دو معاصر مر ثیہ نگاروں کے محولہ بالا مصرعوں میں مولانا شبلی نعمانی کی
تقابلی تنقید پر اپنی رائے کااظہارکرتے ہوئے ڈاکٹر احسن فاروقی نے لکھاہے :
’’ اس پر مولانا(شبلی نعمانی)نے جو طباعی فرمائی ہے (اورخاص طور پر
مرزادبیرؔکے اس مصرع کوموازنہ میں پیش کرکے :
فرمایا میں حسین علیہ السلام ہوں
جواُن کے نزدیک بلاغت سے خالی ہے )وہ حد درجہ مضحک ہو کر رہ گئی ہے ۔‘‘
(16)
ممتاز نقاد گدا حسین افضل شخصیات کے تقابلی مطالعہ کو بلاغت کے لیے بہت
مفیدسمجھتے تھے ۔وہ کسی شیخی خور ابلہ اور کندہ ٔ ناتراش ،جنسی جنونی ،رذیل
طوائف ، لٹیرے،گلوکار ،آمر ، سنگ تراش اورعادی دروغ گو کے بارے میں علی
الترتیب یہ کہتے تھے :
’’ یہ متفنی تو اس عہد کا شیخ چلّی ہے ،حسن و رومان کا یہ شہزادہ تو آج کے
دور کا پُورن بھگت ہے ،یہ حسینہ تو امراؤ جان اداہے ،یہ شخص تواپنے زمانے
کا رابن ہُڈ ہے۔ ،یہ سازندہ تو ہمارے عہد کا تان سین ہے۔ یہ آمر تواپنے
زمانے کا ہٹلر ہے ،یہ سنگ تراش توجدید دور کامائیکل اینجلو ہے اور یہ سفلہ
جھوٹاتو برطانیہ کا رسوائے زمانہ کذاب وِل رِسٹن ( Will Riston :1808-1890)
ہے۔‘‘
اردو تنقید میں بھی تقابل کے کئی جملے کہے جاتے ہیں مثلاً آغا حشر کاشمیری
کو بر صغیر کا شیکسپئیر کہنا، شاعر رومان محمد داؤدخان اختر شیرانی
کواردوزبان کا جان کیٹس (John Keats) کہنا اب عام سی بات سمجھی جاتی ہے ۔
پس نو آبادیاتی دور میں تیسری دنیا کے ممالک میں چند استثنائی مثالوں
کوچھوڑ کر ماضی میں اردو تنقیدبالعموم مصلحت اندیشی اور مدلل مداحی کی راہ
پر گامزن رہی ہے ۔اس کا نتیجہ یہ نکلاکہ ان نو ا ٓبادیات میں ضعفِ بصارت کا
دور مسلط رہا اور پست ادبی معائر کو برداشت کرتے ہوئے بونے کو باون گزاسمجھ
لیا گیا۔ حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنانے کے بجائے مصلحت اندیشی کے تحت
الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کرحقِ نمک ادا کرنے پر توجہ مرکوز رہی ۔ کورانہ
تقلید،حقائق سے شپرانہ چشم پوشی اور بے بصری کے مظہر اس روّیے نے امیدوں کی
فصل غارت کر دی اور جری تخلیق کاروں کی محنت اکارت چلی گئی ۔چور محل میں
جنم لینے والے سانپ تلے کے ہر بچھو کو تھپکی دینے والے موقع پرستوں کو کھل
کھیلنے کا موقع مل گیا۔طفیلی حشرات الارض نے سادہ لوح انسانوں کا خون
نچوڑلیا۔حرص و ہوس کے اسیرموقع کی تاک میں تھے جب انھوں نے یہ دیکھا کہ
بھینس کے آگے بِین بجانے والے اور بے وقت کی راگنی الاپنے والے خچر بیچ کر
اور مُردوں سے شرط باندھ کر لمبی تان کر سو چکے ہیں تووہ بھی انسانی ہمدردی
کی اداکاری کے لیے میدان میں کُود پڑے ۔ ان اعصاب شکن حالات میں دکھی
انسانیت سے عہدِ وفاکا استواررکھنا ہی علاج ِ گردشِ لیل و نہارہے ۔
اگرتنقید کڑا معیاربرقرارکھے تومگر مچھ کے آ نسوبہانے والے جعلی غم
خوارکوئی بھی عذرِ لنگ پیش کریں ادب کاقاری ان کے دکھاوے اور بہلاوے کے
فریب میں نہیں آسکتا۔سمے کے سم کاثمر ہمیں متنبہ کررہا ہے کہ اگر ہم راحت و
کامرانی اوردائمی مسرت کے حصول کے تمنائی ہیں توہزار خوف میں بھی ہمیں زباں
کو دِل کارفیق بناکر حریتِ فکر و عمل کا علم بلند کرناہوگا۔ ہمیں اب خود ہی
یہ طے کرنا ہو گا کہ کون سااندازہمارے لیے مستحسن ہے اور کون ساتباہ کن ۔
احتسابِ ذات کایہی انداز اب مقبول ومروّج ہو گا۔
-------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Dr.Ghulam Shabbir Rana( Mustafa Abad ,Jhang City )
مآخذ
Selected Essays,1917-1932, Harcourt,Brace and Company ,New
York.1932,Page, 14 1.T.S.Eliot :
2.John Middleton Murry: Aspects Of Literature , New York ,1920,Page,7
3.Matthew Arnold :Essays In Criticism,A.L. Burt Company ,New York, 1865,
Page, 3
4.S.T.Coleridge: Biographia Literaria, Vol.I,Oxford,1907, Page, 88.
5.I.A.Richards: Principles Of Literary Criticism, Fourth
Edition,London,1930,Page,5
6.Ralph Waldo Emerson: Essays,Lectures And Orations, London,
1848,Page,85
7. Patrica Waugh : Literary Theory and Criticism,Oxford University Press
,New York, 2006,Page ,427.
8۔محمد حسن عسکری :مجموعہ ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور ،سا ل اشاعت 2000،صفحہ
894
9 ۔کلیم الدین احمد:اُردو تنقیدپر ایک نظر ،سرفراز قومی پریس،لکھنو،بار سوم
،1969،صفحہ 10
10۔کلیم الدین احمد: اُردو تنقیدپر ایک نظر ،صفحہ 25
11 ۔محمد حسن عسکری :مجموعہ ،سنگ میل پبلی کیشنز،لاہور ،سا ل اشاعت
2000،صفحہ 651
12 ۔وار ث علوی :’’روح کی اڑان ‘‘،مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو ،راول
پنڈی ،جلد 22،شمارہ جنوری ۔مارچ 2013،صفحہ 11۔
13 ۔بہ حوالہ گوپی چند نارنگ :ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات ،سنگ ِ
میل پبلی کیشنز ،لاہور ،1994 ،صفحہ 163۔
4 1۔وارث علوی :’’روح کی اڑان ‘‘ صفحہ 11۔
15۔شبلی نعمانی : مُوازنہ انیس و دبیر ، انوار المطابع ،لکھنو، صفحہ 282
16۔محمداحسن فاوقی : اردو میں تنقید ، لکھنو، صفحہ 94
|