کراچی میں اردو کے پروانوں کا میلہ:باھویں عالمی اردو کانفرنس2019

کراچی میں چار دن اردو زبان و ادب کے پروانوں کا میلہ آرٹس کونسل آف پاکستان کے زیر اہتمام سجارہا اوربارہویں عالمی اردو کانفرنس اپنی رعنایاں دکھا کر اختتام کو پہنچی۔ آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے زیر اہتمام ہونے والی یہ بارہویں عالمی اردو کانفرنس تھی جس میں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا کے بیشتر ممالک کے مندوبین نے شرکت کی۔ یہ کانفرنس پانچ روز جاری رہی۔ افتتاحی اجلاس5دسمبر2019کو سہ پہر تین بجے منعقد ہوا پھر روز وقفہ وقفہ سے مختلف اجلاس ہوئے اختتامی اجلاس8دسمبر 2019کو شام سات بجے ہو ا، اس طرح ادیبوں کا یہ میلا چار روز جاری رہا۔ تواتر کے ساتھ12 سال تک عالمی سطح کی کانفرنس منعقد کرنا واقعی قابل تعریف عمل ہے۔ ویسے تو اس طرح کے پروگرام ایک مضبوط اور مصمم ارادے والی ٹیم کے بغیر ممکن نہیں ہوا کرتے لیکن اس ٹیم کے آگے اگر انجمن طاقت ور، دھن کا پکہ لگا ہو تو بڑے سے بڑا کام آسان ہوجاتا ہے۔ آرٹس کونسل کی پوری ٹیم قابل مبارک باد ہے لیکن اس کانفرنس اور تسلسل کے ساتھ 12 کانفرنسیں منعقد کرنے کا تمام تر سہرا کونسل کے سر کردہ لیڈر احمد شاہ کو جاتا ہے۔ وہ گزشتہ 12 سال سے آرٹس کونسل کی سربراہی کسی نہ کسی عہدہ کی صورت میں کر رہے ہیں، وہ صدر ہوں یا سیکریٹری جنرل یا گورننگ باڈی کی عام رکن کونسل کے تمام امور انہیں کے گرد گھومتے ہیں۔ جس طرح پاکستان میں تمام سیاسی جماعتوں کے تمام امور اس کے سربراہ کے گرد گھومتے ہیں، خواہ انہیں سزا ہوچکی ہو، وہ ملک سے باہر ہوں، جیل میں ہوں، وہی اپنی جماعت کے سیاہ و سفید کے مالک ہوتے ہیں۔ اسی طرح آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی میں گزشتہ12 سالوں سے احمد شاہ صاحب کے اقتدار کا سورج پوری آب وتاب سے چمک رہا رہا ہے۔، 12 سالوں سے ہر الیکشن میں ان کا پینل فتح مند ہوتا ہے اور وہ کونسل کے سیاہ و سفید کے مالک قرار پاتے ہیں۔ لیکن اس میں ان کے وہ مثبت کام بھی ہیں جو انہوں نے کونسل کے لیے کیے۔ شہر میں زبان و ثقافت کے فروغ کے علاوہ آرٹس کونسل کی عمارت میں توسیع کے ساتھ ساتھ آرائش و زیبائش پر خصو صی توجہ دی گئی بقول احمد شاہ ”جب میں نے آرٹس کونسل میں قدم رکھا تھا تو اس کی گرانٹ دس لاکھ روپے تھی آج کروڑوں میں ہے“۔ ہونی بھی چاہیے تھی اس لیے کہ گزشتہ 12 سالوں میں مہنگائی جس تیزی سے بڑھی ہے اس کے پیشے نظر گرانٹ کا لاکھوں کی گرانٹ کا کروڑوں میں ہوجانا کوئی تعجب کی بات نہیں لیکن یہ کروڑں کی گرانٹ جدوجہد کے بغیر نہیں ہوئی ہوگی۔ اس کے لیے ذمہ داران نے سخت محنت اور کوششیں کی۔

عالمی ادبی کانفرنس کیونکہ گزشتہ 12 سالوں سے تواتر کے ساتھ منعقد ہو رہی ہیں، موجودہ کانفرنس12ویں کانفرنس ہے۔ ایک بات یہ بھی کہ کانفرنسوں کے منتظمین بھی وہ ہی چلے آرہے ہیں، چنانچہ ہر نئی کانفرنس کے انعقاد پر سابقہ کانفرنسوں کا تجربہ ان کے سامنے ہوتا ہے، جو کمی یا کوتاہی رہ جاتی ہے وہ اسے دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس وجہ سے کانفرنس کے تمام لوازمات وقت کے ساتھ بہتر ہونے چاہیے لیکن پھر بھی اتنا بڑا ایونٹ ہوتا ہے اس میں کچھ نہ کچھ کمی رہ ہی جاتی ہے۔مثال کے طور پر منتظمین کو یہ احساس ہوتا ہے کہ کس پروگرام میں عوام الناس کی تعداد زیادہ شریک ہوگی، چنانچہ حال کی نشستیں اور حتیٰ کہ سیڑھیوں اور اسٹیج کے سامنے نیچے فرش پر لوگوں کے بیٹھ جانے کے بعد کسی کے اندر آنے کی گنجائش نہیں ہوتی چنانچہ منتظمین نے حال سے باہر جو جگہ ہے اس میں اسکرین لگوا دی تاکہ جو لوگ آڈیٹوریم میں نہ ناسکیں وہ باہراسکرین پر وہ سب کچھ دیکھ اور سن سکیں جو اندر حال میں ہورہا ہے۔ اسی طرح ایک وقت میں ایک سے زیادہ سیشن کا احتمام بھی ہوا، یہ بھی کانفرنس کی ضرورت تھی، لیکن نقصان یہ ہوتا ہے کہ جو لوگ تمام سیشنز میں شریک ہونا چاہتے ہیں وہ کسی ایک پروگرام میں ہی شریک ہوسکتے ہیں۔ کانفرنس کا اختتامی پروگرام تقسیم ایوارڈ سے قبل انور مقصود کا پروگرام ہوتا ہے، انور مقصود کو دیکھنے اور سننے کے لیے سہ پہر سے ہی جاکر سیٹ پر قبضہ کرنا ضروری ہوتا تھا، ہم اسی گمان میں تھے اور آخری دن چار بچے سے جو سیٹھ پر قبضہ کیا، جب وقت آیا انور مقصود کے پروگرام کا تو اعلان کردیا گیا کہ یہ پروگرام باہر کھلی فضا میں ہوگا، چنانچہ ہمیں مجبوراً باہر جانا پڑا جہاں بیٹھنا تو دور کی بات اسکرین پر انور مقصود کو دیکھنا مشکل ہوگیا۔ مائک بھی صحیح طرح کام نہیں کر رہے تھے۔ کچھ اس بار انور مقصود بھی کچھ ڈرے ڈرے، سہمے سہمے، خوف زدہ لگ رہے تھے، انہوں نے غالب کے ساتھ اپنی گفتگو کو موضوع بنایا، سابقہ سال جون ایلیا کاخط ان کے نام موضوع تھا وہ زیادہ دلچسپ رہا۔ خیر ہم نے تو انور مقصود کو سنا اور واپسی کی راہ لی۔

سوشل میڈیا کی شمولیت نے کانفرنس کی کاروائی کو بہتر سے بہتر، خوب سے خوب تربنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ دسمبر شروع ہوتے ہی علمی و ادبی حلقوں میں کانفرنس کے انعقاد کا انتظار بے تابی سے شروع ہوجاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ کانفرنس میں شریک شائقین کی تعداد سے بخوبی لگا یا جاسکتا ہے۔ موجودہ کانفرنس میں بھی شریک رہا۔ کانفرنس کا افتتاحی اجلاس تاخیر سے شروع ہوا اس کی وجہ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ جو کہ مہمان خصو صی تھے اپنی مصروفیات کے باعث دیر سے تشریف لائے، ان کی وجہ سے کانفرنس وقت مقرہ پر بھی شروع نہ ہوسکی۔ حکومت کے وزیر ثقافت سید سردار علی شاہ بھی شریک رہے۔ سید مراد علی شاہ نے شاہ صاحب کو مبارک باد دی کہ انہوں نے 12 سالوں سے اردو کا میلہ بہت خوبصورت طریقے سے سجارکھا ہے اور مختلف علاقوں سے آنے والے شعراء کو کراچی میں جمع کر کے پیغام عام کیاہے، سندھ کی سرزمین فقرا اور درویشوں کی سرزمین ہے جن کا پیغام ہی ہمیشہ سے محبت و امن رہا ہے۔

افتتاحی اجلاس میں کلیدی مقالہ ہندوستان سے آئے ہوئے ادیب شمیم حنفی نے پیش کیا۔ احمد شاہ صاحب نے بھی خوب خوب مکھن لگایا شاہ صاحب کو۔ افتتاحی اجلاس میں ہر بڑے ادیب و شاعر کو اسٹیج پر بیٹھایا گیا، اچھی بات ہے، مہمانوں کو عزت دینی چاہیے، چند باقی رہ گئے تھے اگر انہیں بھی بلالیا جاتا تو اچھا تھا۔ معروف دانش ور شاعرہ زہرہ نگاہ معروف براڈ کاسٹر، ادیب رضا علی عابدی،امجد اسلام امجد، زاہدہ حنا، مہمان دانشور ہیروجی کتاؤ کا، جرمنی سے آئے ہوئے ادیب عارف نقوی، کشور ناہید، ڈاکٹر پیر زادہ قاسم صدیقی،اسد محمد خان، افتخار عارف، مسعود اشعر، حسینہ معین، ٹنگ سینگ شنگ، جاپان، نورالہدیٰ شاہ، وزیر ثقافت، حارث خلیق، اعجاز احمد فاروقی، سید محمد احمد شاہ، کمشنر کراچی اسٹیج پر تشریف فرما تھے۔

اس بار احمد شاہ صاحب کو افتتاحی اجلاس کے لیے کوئی میزبانی کے لیے صاف اردو بولنے والا میزبان نہیں ملایا کوئی حکمت آڑے آگئی۔ ڈاکٹر ہما میر، ڈاکٹر ہما بقائی، ادبی کمیٹی کی چیرئ پرسن ڈاکٹرامبر حسیب امبر، راشد نور، عارف باحلیم، اقبال خورشید بہت اچھے میزبان اور صاف ستھری اردو میں میزبانی کرتے ہیں۔ دیگر زبانیں بولنے والوں سے قطعناً اختلاف نہیں، وہ بھی اچھی اردو بولتے ہیں،لیکن افتتاحی سیشن کا تقاضہ تھا کہ میزبان کا خاص کردار ہوتا ہے اس کا خاص خیال رکھنا چاہیے تھا، اس کانفرنس کی پوری دنیا میں دھوم ہوتی ہے، پہلا تاثر ہی اچھا نہ جائے تو سوچ تو پیدا ہوتی ہے کہ اس میں کیامصلحت ہے، کس کی خوشی عزیز ہے، کسے خوش کرنا مقصود ہے، امید کی جاسکتی ہے کہ ایسی باتوں پر بھی آئندہ توجہ دی جائے گی۔

کا نفرنس پر صحافتی رنگ زیادہ دکھائی دیا، صحافت یا میڈیا سائنس سے تعلق رکھنے والے مختلف سیشنز کا حصہ رہے۔ بقول خرم سہیل ’یہ صحافتی میلا نہیں تھا ادبی میلا تھا، صحافت ادب پر غالب آتی دکھائی دی‘۔ تمام ہی دن مہمانوں کی بڑی تعداد نے دلچسپی کا مظاہرہ کیا، غالب کی ڈیر سو سالہ برسی کے حوالے سے سیشن ہوا، رہا،فہمیدہ ریاض کو بھی کانفرنس میں جگہ ملی، ان کی یاد تازہ کی گئی، جوش ملیح آبادی کی 121 ویں سالگرہ کا کیک بھی کاٹا گیا، بھارت سے شمیم حنفی صاحب ہی تشریف لاسکے، امید تو ان کی بھی نہیں تھی لیکن نہ معلوم بھارت سرکار نے انہیں کیسے اجازت دیدی۔ دیگر ممالک سے بھی مندوبین کی تعداد جو ہونی چاہیے تھی وہ نہیں تھی۔ چاپان کے ہیروجی کتاؤ نے غالب پر جو مقالہ پڑھا وہ اچھا تھا لیکن وقت کی کمی کے باعث ان کی بات مکمل نہ ہوسکی۔ کشمیر کے حوالے سے ڈاکٹر ہما بقائی نے مہمانوں کے ساتھ جو گفتگو کی وہ معلوماتی تھی، سہیل وڑائچ صاحب کا علیحدہ سے ایک ٹاک شو باہر جاری تھا، جب کہ وہ اپنا وہ پروگرام ختم کر کے کشمیر پرہونے والے پروگرام میں بھی آخر میں شریک ہوئے۔ میڈیا سائنس پر ہونے والا پروگرام بھی اچھا تھا۔ کانفرنس کا آخری سیشن انور مقصود کے ساتھ ہوتا ہے۔ اس کا بات کا اعلان عین وقت پر سامنے آیا کہ انور مقصود کا پروگرام آڈیٹوریم میں نہیں بلکہ باہر کھلے پنڈال میں ہوگا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایسے لوگوں کی بڑی تعداد جو انور مقصود کی گفتگو سننے کے لیے کئی گھنٹو سے آڈیٹوریم میں بیٹھی رہی، عین وقت پر اعلان پر سشدر رہ گئی نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لوگ جو اگلی نشستوں پر بیٹھ کر انور مقصود کو سننا چاہتے تھے، انہیں باہر کرسی بھی نہ مل سکی اور انہوں نے کھڑے ہوکر انور مقصود کو سنا، جہاں مائیک بھی صحیح طور پر کام نہیں کررہا تھا، کچھ انور مقصود بھی غالب پر اٹکے رہے۔ کانفرنس کے اختتام پر شیلڈ، سرٹیفیکیٹ اور انعامات کی تقسیم پر کانفرنس اختتام کوپہنچی۔
 

Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 865 Articles with 1437278 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More