ڈاکٹر غلام شبیر رانا
پہنچا جس وقت سے مکتوب
زندگی کا بندھا کچھ اسلوب
ارد و میں مستعمل لفظ ’’ اسلوب ‘‘ انگریزی زبان کے لفظ ’’STYLE‘‘کے مترادف
ہے ۔اس کے لفظی معنی طرز،روش، انداز بیاں ، طرزِ ادا،طریقہ، طریقِ
ادا،طور،صورت،راہ اور پیرایہ ٔ گفتارکے ہیں۔یہ کسی ادبی تخلیق کار کاخاص
پیرایۂ اظہار ہے جس میں وہ اپنے فکر و خیال کی لفظی مرقع نگاری اس موثر
انداز میں کرتاہے کہ بیان کی شدت قاری کے دِل کو مسخر کر لیتی ہے ۔گل دستۂ
معانی کو نئے ڈھنگ سے باندھنا اورایک پھول کے مضمون کو سو رنگ سے باندھنا
اسلوب کا معجز نما کرشمہ ہے ۔ یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ ایک تخلیق کار جب
پرورش لوح و قلم کا فریضہ انجام دیتا ہے تووہ قلب اور روح کی گہرائیوں سے
اس کو نمو بخشتا ہے۔تخلیقِ ادب کے سلسلے میں یہ بات پیش نظر رکھنا ضروری ہے
کہ ادب پارے اس وقت معرض وجود میں آتے ہیں جب تخلیق کار اپنے دل پہ گزرنے
والی ہر کیفیت کو الفاظ کے قالب میں ڈھالے۔ایک نیا ادب پارہ جب منصہ شہود
پر آتا ہے تو اس کا برا ہِ راست تعلق ایام گزشتہ کی تخلیقات سے استوار ہو
جاتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ کلاسیکی ادب کے ساتھ لمحہ ٔ موجود کی
تخلیقات ایک درخشاں روایت کی صورت میں منسلک ہیں ایک مثالی نظام ہمہ وقت
روبہ عمل لایا جاتا رہا ہے جس کی بدولت تخلیق کار کی منفرد سوچ سے آگاہی
ہوتی ہے ۔تخلیقی اظہار کے متعدد امکانات ہو ا کرتے ہیں۔ایک زیرک ،فعال اور
مستعد تخلیق کاراپنے صوابدیدی اختیارات کو استعمال کرتے ہوئے ان میں سے کسی
ایک کو اپنا ما فی الضمیر بیان کرنے کے لیے منتخب کرتا ہے یہی اس تخلیق کار
کا اسلوب قرار پاتا ہے ۔سیف الدین سیفؔ نے کہا تھا :
سیفؔ انداز بیاں بات بدل دیتا ہے
ورنہ دنیا میں کوئی بات نئی بات نہیں
زندگی کے سفر میں کچھ لوگ طعام ،ملبوسات، ادب اور فنون لطیفہ میں دلچسپی
رکھتے ہیں۔ ذوقِ سلیم سے متتمع افراد میں سے کچھ لوگ توخونِ جگر سے مزین
تصاویر میں دلچسپی لیتے ہیں ،بعض لوگوں کو من و سلویٰ پسند ہے لیکن پرورشِ
لوح و قلم کی نزاکت و نفاست کے رمزآ شنا لوگ الفاظ کے تاج محل بناکر ان میں
زندگی بسر کرنا اپنا نصب العین بناتے ہیں ۔ یہ تیشہ ٔ حرف ہی ہے جس کے وار
سے فصیلِ جبر منہدم کی جا سکتی ہے ۔ ارض ِوطن اور اہلِ وطن کے ساتھ قلبی
وابستگی اور والہانہ محبت ہر عہد میں باضمیر ادیبوں کے اسلوب کا امتیازی
وصف رہا ہے ۔پس نوآبادیاتی دور میں با شعور اور باوقارتخلیق کاروں نے
تخلیقِ فن کے لمحوں میں جذبۂ انسانیت نواز ی کا خیال رکھاہے ۔ انھیں یقین
ہے کہ چمنستانِ وطن محض چمکتے ہوئے کوہ ودمن کا نام نہیں بل کہ یہ تو
ابنائے وطن کے اجسام اور ارواح سے عبارت ہے ۔سوہنی دھرتی کی محبت سے
سرشاراس چمن کی عنادل نے چشمِ تصور سے ہمیشہ سرزمین ِ وطن کے گوشے گوشے سے
جوئے حیات کواُبلتے دیکھا ہے ۔مادرِوطن کی آغوش میں ہر شام مثلِ شامِ مصر
اور ہر شب مانندِ شبِ شیراز اُن کے لیے آسودگی اور مسرت کی نوید لاتی ہے ۔
اردو زبان کے تخلیق کار جہاں بھی پہنچتے ہیں، رومانوں کے اِس شہرِ طرب اور
حسین ارمانوں کی اِس خلد بریں کی یاد اُن کے قریہ ٔ جاں کو معطر کر دیتی ہے
۔یہی ان کا اسلوب ہے جو ان کی پہچان بن گیاہے ۔ مکہ، مدینہ ،نجف اور کر بلا
کی خاک کواپنی آ نکھ کا سرمہ بنانے والے اُردو زبان کے تخلیق کاروں کو
مغربی تہذیب کی جعلی چکا چوند اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری بالکل متاثر
نہیں کر سکی ۔ سر زمینِ وطن کے دیوانوں کے دشتِ جنوں اور پروانوں کی بزمِ
وفا کی یاد ہر جگہ انھیں مضطرب رکھتی ہے ۔اپنی مٹی پہ چلنے کا قرینہ سکھانے
والے ان جہاں نورد ادیبوں نے اپنی جنم بھومی کے بارے میں یہ واضح کر دیا ہے
کہ اس کا ہر ایک ذرہ اُنھیں اپنی جان سے بھی پیارا ہے۔ فلک کی ہم سر اس
زمین کے ذرات کا بوسہ دینے کو آکاش بھی سر نگوں ہو جاتاہے ۔ سداجنوں کے ساز
چھیڑ کر سرشار نگاہِ نرگس اور پابستۂ گیسوئے سنبل رہتے ہوئے ارض پاکستان کے
ساتھ پیمان ِ وفا باندھ کراس کی عظمت کے گیت گانے والے اور وطن کے بام و در
کی خیر مانگنے والے اردو زبان کے حساس تخلیق کاروں کا جذبۂ ملی سے لبریز
اسلوب تا ابد دلوں کو مرکزِ مہر ووفا کرتا رہے گا۔
آلامِ روزگار کی زد میں آنے والے ادیبوں کے جذبات واحساسات ان کی تحریروں
میں نمایاں ہوتے ہیں ۔ اپنے آنسو ہنسی کے خوش رنگ دامنوں میں چھپا کر ستائش
و صلے کی تمناسے بے نیاز رہتے ہوئے تخلیقِ ادب میں ہمہ وقت میں مصروف رہنے
والے مخلص اور صابر و شاکر تخلیق کار اب دنیامیں کم کم دکھائی دیتے ہیں
۔ادیبوں کی کتابِ زیست کے ناخواندہ اوراق کی مثال ا یک ایسی سوانحی یادداشت
کی سی ہے جس کی پیشانی پر سیلِ زماں کے تھپیڑوں اور محسن کش درندوں کی لُوٹ
مار ، عیاری ،مکر و فریب اور پیمان شکنی کے بکھیڑوں کا قشقہ کھنچاہے ۔ اس
سے پہلے کہ سمے کی دیمک چپکے چپکے کتابِ زیست کے اوراق کو چاٹ لے لوح ِ
جبینِ گُل پر خونِ دِل سے طلوع ِ صبح ِ بہاراں کانصاب لکھنا ہر ادیب کا
مطمح نظر بن جاتاہے ۔ اپنے موثر اسلوب کے ذریعے وہ اپنے تجربات پوری دیانت
سے حرف حرف زیبِ قرطاس کر تاہے ۔ ان کا اسلوب کسی جذبے کی موجودگی کے خاص
انداز سے روشناس کراتا ہے ۔ادبی تخلیق کاو ہ قوی ،فعال اور لائق صد رشک و
تحسین معیارجس کے اعجاز سے تخلیق کار اپنی تخلیقی فعالیت کو رو بہ عمل لاتا
ہے وہی تخلیق کار کا اسلوب قرار پاتا ہے ۔ادیب اپنے اسلوب کا دامن تھام کر
قلزم موضوعات کی غواصی کر کے اظہار و ابلاغ کے گہر ہائے آب دار بر آمد
کرتاہے ۔
اس حقیقت کو کبھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ ایک تخلیق کار تخلیق فن کے
لمحوں میں جب اپنے اشہب قلم کی جولانیاں دکھاتا ہے تو تخلیق ِفن کے اس فعال
جذبے کو بالعموم غیر شخصی تصور کیا جاتا ہے ۔بادی النظر میں یہ بات واضح ہے
کہ تخلیق کار کے لیے غیر شخصی معیار تک رسائی بہت کٹھن مرحلہ ہے ۔اس مرحلے
پر وہ تخلیقِ ادب کو اپنی اوّلین ترجیح سمجھتے ہوئے اپنے ذات کے بجائے فن
پر اپنی توجہ مرکوز کر دیتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ دردو غم اور مصائب
کا ایک غیر مختتم سلسلہ تخلیق کار کو ہر وقت بیدار رکھتا ہے ۔تخلیق کار پر
یہ بات بہت جلد واضح ہو جاتی ہے کہ اس کی شخصیت کی نسبت تخلیقِ ادب کو
زیادہ اہمیت حاصل ہے ۔اس کی تخلیقات کو دوام حاصل ہو گا اور انھی کی بدولت
اس کا نام بھی زندہ رہے گا ۔اسلوب در اصل ایک تخلیق کار کے تخلیقی تجربوں
کا آئینہ دار ہوتا ہے جسے دیکھ کر اس تخلیق کار کی شخصیت کے جملہ اسرار و
رموز کی گرہ کشائی ممکن ہے ۔اسلوب کے ذریعے ایک نقاد کو یہ موقع ملتا ہے کہ
وہ تخلیق اور اس کے لاشعوری محرکات کے بارے میں سمجھ سکے ۔مسائلِ عصر اور
زمانہ ٔحال کے تقاضوں کے بارے میں ادیب جو کچھ محسوس کرتا ہے اس کا اسلوب
ان تمام کیفیات کو منعکس کرتا ہے ۔ ایک تخلیق کار کے اندر ایک محتسب تلوار
لیے موجود ہوتاہے جو اسے در ِکسری پر صدا کرنے سے روکتاہے اور حق گوئی و بے
باکی پر آمادہ کرتاہے ۔ ادب کا حساس قاری چشمِ تصور سے تخلیق کار کے دِل پر
اُترنے والے سب موسم دیکھ لیتاہے ۔ زبان و بیان پر خلاقانہ دسترس کے معجز
نماکرشمے میر تقی میرؔ کے اسلوب میں نمایاں ہیں ۔جہاں میرتقی میر ؔ نے اپنے
عہد کے انحطاط پذیر معاشرے کے سیاسی اور معاشرتی حالات کی اس دیانت سے لفظی
مرقع نگاری کی ہے کہ وہ تاریخ اور اس کے پیہم رواں عمل سے آگہی اور حریت
فکر کا اہم حوالہ ثابت ہوتاہے ۔
جتنے ہیں یا ں امیر بے دستور
پھر بہ حسن سلوک سب مشہور
پہونچنا اُن تلک بہت ہے دُور
بات کرنے کا واں کسے مقدور
حاصل اِن سے نہ دِل کوغیر خراش
چار لُچے ہیں مستعدِ کار
دس تلنگے جو ہوں توہے دربار
ہیں وضیع و شریف سارے خوار
لُوٹ سے کچھ ہے گرمیٔ بازار
سو بھی قندِ سیاہ ہے یا ماش
حریت ِ ضمیر سے جینے کی تمنا رکھنے و الے ادیبوں کے دل پر جو گزرتی ہے وہ
اسے بلا تامل زیبِ قرطاس کر دیتے ہیں۔ ان کے دل میں جو کچھ کہنے کی خواہش
ہوتی ہے وہ جبر کاہر انداز مسترد کرتے ہوئے بیان کر دیتے ہیں ۔وہ الفاظ کو
فرغلوں میں لپیٹ کر پیش نہیں کرتے نہ ہی حشو وزوائد سے اپنی تخلیق کو آلودہ
ہونے دیتے ہیں۔ہوائے جور و ستم میں بھی وہ رخ ِ وفاکو بجھنے نہیں دیتے اور
متاعِ لوح و قلم چھین کر لب ِ اظہار پر تالے لگانے والوں سے براہِ راست
مخاطب ہو کر ان پر واضح کر دیتے ہیں کہ انھوں نے تیشۂ حرف سے فصیلِ جبر کو
مکمل طور پر منہدم کرنے کی ٹھان لی ہے ۔ غم ِ جہاں کا حساب کرتے وقت تخلیق
کار کو آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پسنے والے فریادکناں ،جگر فگاراورالم
نصیب انسانوں کے گروہ کے دکھ بے حساب یادآتے ہیں ،جو اپنے زخموں کے ایاغ
تھامے داد طلب ان کی طرف دیکھتے ہیں ۔وہ کسی مصلحت اندیشی کے بجائے اپنے
ضمیر کی آوازپر لبیک کہتے ہوئے براہِ راست حرفِ صداقت لکھتے جاتے ہیں۔
اسلوب کے ذریعے تخلیق کار کی ذاتی ترجیحات سے آگاہی ہوتی ہے ۔ایک موثر اور
جان دار اسلوب کا حامل تخلیق کار معاشرتی زندگی میں اپنے وجود کا خود اثبات
کرتا ہے ۔ممتازبرطانوی نقاد والٹر پیٹر ( 1839-1894 :Walter Pater) نے کہا
تھا:
" The style ,the manner ,wouldbe the man ,not in his unreasoned and
really uncharacteristic caprices,invoulantry or affected, but in
absoulately sincere apprehension of what is most real to him .(1)
ایک صاحبِ طرز ادیب جب قلم تھام کر مائل بہ تخلیق ہوتاہے تو اس کی دِلی
تمنا ہوتی ہے کہ اپنی بصیرت اور دُوراندیشی کور و بہ عمل لاتے ہوئے وہ خون
بن کر رگِ سنگ میں اُتر جائے ۔ وہ اس پر اسرار اندازمیں اپنے خیالات کی
لفظی مرقع نگاری کرتا ہے کہ رنگ ،خوشبو ،حسن و جمال ،اوجِ کمال اور شام ِ
زوال کے حقیقی مناظرقاری کو عصر ی آ گہی سے متمتع کرتے ہیں۔ تیزی سے گزرتے
ہوئے وقت میں مسرت و شادمانی ،راحت و سکون ،حزن و ملال اور یاس و ہراس کے
لمحات میں بہ یک وقت صبر و تحمل کا مظاہر اس کی مضبوط او ر مستحکم شخصیت
کاامتیازی وصف ہے ۔ ایک جری تخلیق کار زبان وبیان پر خلاقانہ دسترس کاثبوت
دیتے ہوئے، احتسابِ ذات کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ،حق وصداقت کا علم بلندکر
کے جب تخلیقِ ادب کا فریضہ انجام دیتاہے تو وہ حرف ِ صداقت کی ناگزیر اور
ابد آشنا سحر نگاری سے قارئینِ ادب کو چونکادیتاہے ۔قارئینِ ادب کے لیے سہل
الحصول مسرت کے یہ لمحات جمالیاتی تسکین کا موثروسیلہ ثابت ہوتے ہیں۔وہ ان
ادب پاروں کے عمیق مطالعہ سے جو حقیقی مسرت و شادمانی حاصل کرتاہے وہ دل کش
اسلوب ہی کا ثمرہے ۔ شاعری میں لفظ کی حرمت کلیدی اہمیت کی حامل سمجھی جاتی
ہے ۔منافقت ،قول و فعل کا تضاداور ہوس پرستی نے نوع ِ انساں کو اخلاقی
اعتبار سے تحت الثریٰ میں پہنچادیاہے ۔ ایک زیرک تخلیق کار مصائب آلام
کواپنے اعصاب پر سوار نہیں ہونے دیتا بل کہ فسطائی جبر کے خلاف بزدلانہ
انداز میں دہائی دینے کے بجائے اُسے نظر انداز کرکے نئے زمانے اور نئے صبح
وشام پیداکرنے کے لیے انہماک کا مظاہرہ کرتاہے ۔ تخلیق فن کے لمحوں میں ترک
و انتخاب بلا شبہ ایک کٹھن مرحلہ ہے ۔ اپنے دلی جذبات کو صفحۂ قرطاس پر
منتقل کرنے سے پہلے خیالات سے تصنع اور تکلف کی گرد صاف کرنا از بس ضروری
ہے ۔ ایک مرصع ساز کی حیثیت سے تخلیق کار جس طرح اپنے اسلوب میں غیر ضروری
باتوں اور غیر متعلقہ تفصیلات کو حذف کرکے صداقت کی طرف گامزن ہوکر لعل و
جواہر پر کندہ کاری کی سعی کرتا ہے وہ اس کی انفرادیت کی دلیل ہے ۔ ذوقِ
مطالعہ سے محروم قاری کا المیہ یہ ہے کہ اس کی کور مغزی اور بے بصری اسے
مزاج خانقاہی میں پختہ تر کر دیتی ہے اور وہ بے حسی ،بے عملی اور کاہلی کا
شکار ہو کرشب و رو زایک گونہ بے خود ی کے لیے سرگرداں دکھائی دیتاہے ۔
انسان دوستی کوشعار بنانے والا ادیب جبر کے سامنے کسی صورت میں سپر انداز
نہیں ہوسکتا۔وہ عیاری اور مکاری کا پردہ فاش کرنے میں کبھی تامل نہیں کرتا
۔ انسانی ہمدردی کو شعار بنانے والا تخلیق کار اپنے اسلوب کو ذاتی مفادات
اور حرص و ہوس سے آلودہ نہیں ہونے دیتا۔دستیاب معلومات میں سے ترک و انتخاب
کا مرحلہ تخلیق کار کے لیے بہت کٹھن ثابت ہوتاہے اس کے باوجود اسلوب کی
چھلنی سے حشو وزوائد الگ ہو جاتے ہیں۔ اپنے اسلوب میں وہ ٹھگوں کو آئینہ
دکھا کرہتھیلی پر سرسوں جما دیتاہے ۔ نظیرؔ اکبر آبادی(ولی محمد
:1740-1830) نے احسان فراموش، محسن کش ،پیمان شکن اور آ ستین کے سانپوں کی
سادیت پسندی پر اپنے منفر د اسلوب میں جوگرفت کی ہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔
کیا کیا فریب کہیے دُنیا کی فطرتوں کا
مکر و دغا و دُزدی ہے کام اکثروں کا
جب دوست مِل کے لُوٹیں اسباب مشفقوں کا
پھر کِس زباں سے شکوہ اب کیجیے دشمنوں کا
ہشیار یار جانی یہ دشت ہے ٹھگوں کا
یاں ٹُک نگاہ چُوکی اور مال دوستوں کا
کسی بھی شخص کے ساتھ معتبر ربط برقرار رکھنے کے لیے اسلوب کا سہارا لیا
جاتاہے۔اسلوب میں جب خلوص ،دردمندی اور ایثار کے جذبات کی فراوانی ہو تو
اعتماد بحال ہو جاتاہے ۔مرزا اسداﷲ خان غالب ؔ( 1797-1869) کے خطوط کااسلوب
ایساہے کہ ان میں مراسلے کو مکالمہ بنا دیاگیاہے ۔ جنگ آزادی 1857کی ناکامی
کے بعدتاجر کے رُوپ میں آنے والے برطانوی دہشت گردجب تاج ور بن بیٹھے تو
بہادرشاہ ظفر کوقید کر کے رنگون میں محبو س کر دیا گیا۔بہادر شاہ ظفر کے
تین بیٹوں کو گولیوں سے چھلنی کر دیا گیا۔ان شہزادوں کی لاشیں کوتوالی کے
چوک کے سامنے لٹکا دی گئیں جہاں ان بد نصیب شہزادوں کی بوٹیاں گِدھ اور کتے
کئی دِن تک نوچتے رہے ۔(2) برصغیر کے ناموراہلِ علم و دانش بھی بر طانوی
استبدادکی شقاوت آمیز نا انصافیوں اور فسطائی جبر سے محفوظ نہ رہ سکے
۔سانحہ 1857کے بے گناہ مقتولین میں ممتاز عالم امام بخش صہبائی (
1802-1857) کے خاندان کے اکیس افراد بھی شامل تھے ۔ (3) نو آبادیاتی دور
میں مرزا اسداﷲ خان غالب ؔنے اپنے ذہن وذکاوت کی بے پناہ قوت کے استعمال سے
استعماری جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کر دیا۔قلعۂ فراموشی میں محصور
برصغیر کے مظلوم باشندوں کوجن لرزہ خیزاور اعصاب شکن حالات کاسامنا تھاان
کا احوال مرزا اسداﷲ خان غالبؔ کی شاعری اور خطوط میں موجود ہے ۔مرزا اسداﷲ
خان غالب ؔنے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیاہے کہ جب گھر سے باہر
نکلنادشوار اور بات پر زبان کٹتی ہو تو بھی حرفِ صداقت لکھنے والے دِل کی
بات لبوں پر لاتے رہتے ہیں۔تخلیق کار کی روح اور قلب پر اُترنے والے موسموں
کے احوال کو جب ملبوسِ الفاظ نصیب ہوتاہے تو یہ اسلوب کی صورت میں مرکزِ
نگاہ بن جاتاہے ۔منفرد اندازِفکر کا مظہر یہ فنی اظہار جابر سلطان کے سامنے
کلمۂ حق کہنے کایہ اسلوب آج بھی قاری کے دل کو ایک ولوۂ تازہ عطا کرتاہے ۔
گھر سے بازار میں نکلتے ہوئے
زَہرہ ہوتا ہے آب اِنساں کا
چوک جس کو کہیں وہ مقتل ہے
گھر ،بناہے نمونہ زنداں کا
شہر دہلی کا ذرّہ ذرّۂ خاک
تشنہ ٔ خوں ہے ، ہر مسلماں کا
کوئی واں سے نہ آسکے یا ں تک
آدمی ،وال نہ جا سکے یاں کا
میں نے مانا کہ مِل گئے ،پھر کیا؟
وہی رونا تن و دِل و جاں کا
گاہ رو کر کہا کیے باہم
ماجرا دیدہ ہائے گِریاں کا
اِس طرح کے وصال سے ،یارب
کیا مٹے دِل سے داغ ہجراں کا
ایک ذہین تخلیق کار یہ بات اچھی طرح جانتاہے کہ عملی زندگی کے تجربات
ومشاہدات اور داخلی جذبات واحساسات کی حقیقی صورت گری اسلوب کا امتیازی وصف
ہے ۔مطالعۂ ادب سے معلوم ہوتاہے کہ کسی بھی تخلیق کار کا اسلوب محض مجرد
الفاط سے نہیں بل کہ ادب پارے کے مجموعی تاثر سے متشکل ہوتاہے ۔ جہاں تک
موضوعات کا تعلق ہے ان کااپنے ماحول ،موقع و محل ،تاریخ،سیاست اور معاشرت
سے گہر ا تعلق ہے ۔ایک تخلیق کار ان سب عوامل سے اثرات قبول کرتا رہتاہے
۔یہی وجہ ہے کہ اس کا اسلوب ہر لحظہ نیاطور نئی برقِ تجلی کا آئینہ دار بن
کر سامنے آ تاہے اور مر حلۂ شوق ہے کہ و ہ طے ہی نہیں ہو تا۔ مشتاق احمد
یوسفی ،محسن بھوپالی ،حمایت علی شاعراور پطرس بخاری کے اسالیب کا تنوع اس
بات کا ثبوت ہے کہ موقع محل کی مناسبت سے اسلوب میں تغیر و تبدل کا سلسلہ
جاری رہتا ہے ۔ اس سلسلے میں حرفِ صداقت کی اہمیت کو تسلیم کرنا تخلیق
کارکے لیے نا گزیر ہے ۔ اسلوب میں کبھی سوزوساز ِ رومی کی کیفیت ہے تو کبھی
پیچ و تابِ رازی کا سماں ہے :
پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس کے اسلوب کا جائزہ لیں تو معلم ہوتاہے کہ مرید
پور کا پیر بھی ایک مزاحیہ کردار ہے ۔اس مزاحیہ کردار کے بارے میں مرید پور
سے شائع ہونے والے ایک قلیل الاشاعت مقامی اخبار ’’مرید پور گزٹ ‘‘ نے
خصوصی اشاعت کا اہتمام کیا ۔ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس(1898-1958) نے
صرف دو ماہ تک چھپنے والے ’’ مرید پور گزٹ ‘‘ کی اس خصوصی اشاعت کے متعلق
لکھا ہے کہ اس کا مکمل فائل تو تاریخ کے طوماروں میں دب چکا ہے اور اب اس
گزٹ اوراس کے مدیر کاکسی کو اس کا اتا پتا معلوم نہیں۔مرید پور گزٹ کے مدیر
کا حلیہ پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس نے اپنے شگفتہ اسلوب میں اس طرح بیان
کیا ہے :
’’ رنگ گندمی ،گفتگو فلسفیانہ ،شکل سے چور معلوم ہوتے ہیں ۔ کسی صاحب کوان
کاپتامعلوم ہوتومرید پور کی خلافت کمیٹی کواطلاع پہنچا دیں اور عنداﷲ ماجور
ہوں۔نیز کوئی صاحب ان کو ہر گزہرگزچندہ نہ دیں ورنہ خلافت کمیٹی ذمہ دار نہ
ہوگی۔۔۔اس اخبار نے مرید پور کے پیر کے خطوط کے بَل پر جو خصوصی نمبر شائع
کیاوہ اِتنی بڑی تعداد میں چھپاکہ اُس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی
دکانوں پرنظر آتے ہیں ۔‘‘( مرید پور کا پیر )
مرزا محمدہادی رسواؔ (1857-1931)کے امراؤ جان ادا کی بیان کردہ آپ بیتی کی
اساس پر لکھے گئے ناول’’ امراؤ جان ادا ‘‘ کی کہانی مظلوم لڑکی کی ایسی
فریاد ہے جس میں اس عہد کی معاشرتی زندگی کی شقاوت آمیز نا انصافیوں کی
روداد نہایت موثر انداز میں بیان کی گئی ہے ۔ امراؤ جان ادا نے اپنی ہم
پیشہ،ہم مشرب و ہم راز طوائفوں کو اپنے ذاتی تجربات کی بنا پر جو نصیحت کی
ہے اس کااسلوب چشم کشا صداقتوں اورنفسیاتی حقیقت نگاری کی عمدہ مثال ہے :
’’ اے بے و قوف رنڈی !کبھی اس بُھلاوے میں نہ آنا کہ کوئی تجھے دِل سے چاہے
گا۔تیر اآشنا جوہروقت تجھ پر جان دیتاہے ۔چار دِن کے بعد چلتا پھرتا نظر آ
ئے گا۔ وہ تجھ سے ہر گزنباہ نہیں کر سکتااور نہ تو اس لائق ہے ۔سچی چاہت کا
مزا اُسی نیک بخت کاحق ہے جو ایک کا منھ دیکھ کے دوسرے کا منھ کبھی نہیں
دیکھتی ۔ تجھ جیسی بازاری شفتل کو یہ نعمت خدا نہیں دے سکتا۔‘‘
تخلیق ادب کے لیے مواد،معلومات ،مشاہدات اور تجربات کو بہت اہم خیال کیا
جاتاہے ۔اپنی تخلیقی تحریروں میں اپنے جذبات و احساسات کو اپنی خاس طرزِ
ادا سے نکھارعطا کرنامنفر د اسلوب کا اہم وصف ہے ۔ اسلوب جب ہر اعتبار سے
مستحکم صورت اختیار کر لیتاہے تو یہ تخلیق کار کی شخصیت کا ایک جزو بن
جاتاہے ۔ادیب کی شخصیت کے اوصاف اُس کی تحریروں میں اپنا رنگ دکھاتے ہیں ۔
قزاقوں کے دشت سے گزرنے والے قافلے کو متنبہ کرتے ہوئے حمایت علی
شاعر(1926-2019) نے آندھیوں اور بگولوں کے خطرے کے باعث رات ہو یا دن جاگتے
رہنے کا مشورہ دیا۔جبرکا ہرانداز مسترد کرتے ہوئے حریت ِضمیر سے جینے کے
لیے اسوۂ حسینؑ کوزادِ راہ بنانے والے اس جر ی تخلیق کار اور حریت فکر و
عمل کے اس مجاہد کا اسلوب فکر و نظر کو مہمیز کرتاہے :
اب بتاؤ جائے گی زندگی کہا ں یارو
پھرہیں برق کی نظریں سوئے آشیاں یارو
راہزن کے بارے میں اور کیا کہوں کھل کر
میرِ کارواں یارو میرِ کارواں یارو
اپنی شاعری میں ایک ذہین مرصع ساز کی حیثیت سے محسن بھوپالی (1932-2007)نے
دُرِ نایاب کو اس جرأت سے تارِ تخیل میں پرویاہے کہ ان کا اسلوب حریت فکر
کی پیکار اور ضمیر کی للکار بن کر جبر کے ایوانوں پر لرزہ طاری کردیتاہے ۔
محسن بھوپالی نے جوطرزِ فغاں ایجادکی وہی حریت ِ فکر کے مجاہد و ں کے لیے
طرزِ اد ابن گئی ۔موجودہ دور میں انسان شناسی اور حیات پیمائی کے لیے کسی
بھی شخص کی اُنگلیوں کے نشانات پر انحصار کیا جاتاہے ۔اسی طرح کسی ادیب کی
پہچان کے لیے اس کا اسلوب خضرِ راہ ثابت ہوتاہے ۔ قحط الرجال کے موجودہ دور
میں ظالم و سفاک استحصالی عناصر اپنے مکر کی چالوں سے جاہ و منصب پر
غاصبانہ طور پر قابض ہیں ۔وہ طالع آزما ،مہم جُو اور موقع پرست عناصر جو
شریک ِ سفر ہی نہ تھے پس نو آبادیاتی دور میں منزلوں پر ان کا غاصبانہ تسلط
ہو گیا۔ جس وقت فکروخیال کو الفاظ کے قالب میں ڈھالا جاتاہے توتخلیق کار کی
شخصیت اور اسلوب کے بارے میں تمام حقائق سامنے آ جاتے ہیں۔تخلیق کار کے ذہن
و ذکاوت اور سوچ کے انداز کی حقیقی کیفیت اس کے اسلوب میں دیکھی جاسکتی ہے
۔یہ اسلوب ہی ہے جو کسی تخلیق کار کی کارگہِ فکر کی عکاسی کرتا ہے ۔محسن
بھوپالی نے حرص و ہوس کے کچلے ہوئے استحصالی عناصرپر واضح کیاکہ جس مقام پر
ان کی منافقت ،سفاکی،محسن کُشی ،پیما ن شکنی اور انسان دشمنی نے جست کی
مظلوم انسانیت نے عزم و ہمت ،صبر واستقامت اورحوصلے سے کام لے کر اس سے آ
گے نکل کر منزلوں کی جستجو جاری رکھی ہے ۔اپنے اسلوب سے محسن بھوپالی نے
تاریخ کے ایک سبق کی طرف متوجہ کیا ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے کوئی سبق
سیکھا ہی نہیں ۔گلزار ِہست و بود میں غرورِ سرو و سمن کی نوعیت لمحاتی
ہے۔اگر قاتل تیشے تھامے باغ کے ساونتوں کے جسم چیرنے والے بھیڑ وں کے جامہ
میں نہاں بھیڑیاقماش کے باغبانوں کی رعونت کایہی حال رہا تو وہ خار و خس جو
اِن سے پہلے چمن کے کرتا دھرتا تھے پھر سے اس چمن کے سیا ہ و سفید کے مالک
بن کر یہاں مجبوروں کے چام کے دام چلائیں گے ۔محسن بھوپالی نے اس صریح جھوٹ
اور فکر و خیال کی لُوٹ مار پر گرفت کرتے ہوئے لکھا ہے :
جاہل کو اگر جہل کا انعام دیاجائے
اس حادثۂ وقت کو کیا نام دیا جائے
مے خانے کی توہین ہے رِندوں کی ہتک ہے
کم ظرف کے ہاتھوں میں اگر جام دیا جائے
ایک تخلیق کار اپنے ذ وق سلیم کو رو بہ عمل لاتے ہوئے سب سے پہلے موزوں
الفاظ کاانتخاب کرتاہے ۔اس کے بعد ان الفاط کو دل کش انداز میں ترتیب دے کر
انھیں حسین جملوں کا روپ عطا کرتاہے ۔ یہی پیرایۂ اظہار در اصل تخلیق کار
کا اسلوب ہے ۔اسلوب کی تشکیل میں پیرایۂ اظہار کوکلیدی حیثیت حاصل ہے جو
دِل فگاروں کو رختِ دِل باندھ کر منزلوں کی جستجو پر مائل کرتے ہیں ۔جہاں
تک مقاصداور مفاہیم کا تعلق ہے ان کی حیثیت ثانوی ہے ۔ذیل میں اسلوب اور
موضوع کے حوالے سے چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
رشید احمد صدیقی : (1892-1977) ’’ چارپائی‘‘ = ’’ ہندوستانی ترقی کرتے کرتے
تعلیم یافتہ جانورہی کیوں نہ ہوجائے، اس سے اس کی چارپائیت نہیں جدا کی جا
سکتی ۔ ۔۔ چارپائی ہندوستانیوں کی آخری جائے پناہ ہے ،فتح ہو یا شکست وہ رخ
کرے گاہمیشہ چارپائی کا۔ پھر وہ چارپائی پر لیٹ جائے گا،گائے گا،گالی دے
گایامناجات بہ درگاہ قاضی الحاجات پڑھناشروع کر دے گا۔‘‘ (4)
مشتاق احمد یوسفی ( 1923-2018):’’ چارپائی اور کلچر ‘‘=’’ قدرت نے اپنی
رحمت سے صفائی کا کچھ ایسا انتظام کر رکھاہے کہ ہر ایک چارپائی کو سال میں
کم از کم دو مرتبہ کھولتے پانی سے دھارنے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔جو نفاست
پسند حضرات جان لینے کایہ طریقہ جائزنہیں سمجھتے وہ چارپائی کواُلٹا کر کے
چلچلاتی دُھوپ میں ڈال دیتے ہیں ۔پھردِن بھر گھر والے کھٹمل اور محلے والے
عبرت پکڑتے ہیں ۔‘‘(5)
ہماری معاشرتی زندگی میں کتوں نے جو اندھیر مچا رکھاہے اُس سے عاجز آکر حسا
س لوگ تن پہ ردائے ماتم اوڑھ کر تیل اور تیل کی دھار دیکھنے کی کوشش کرتے
ہیں۔ کتوں کی سادیت پسندی کی وجہ سے ہر دانگ ذلت ،نحوست ،بے غیرتی،بے ضمیری
،لعنت وملامت اور بے توفیقی کی گھٹا چھائی ہوئی ہے ۔ گھاٹ گھاٹ کاپانی پینے
اور مظلوموں کالہوچاٹ چاٹ کر اپنی خار ش زدہ دُم لہرا کر کتے جب سر ِبازار
چلتے ہیں تو لوگ ان خارش زدہ سگان ِ راہ کو دیکھ کر سرا سیمگی کے عالم میں
دہائی دیتے ہیں کہ مار چلے مار چلے ۔اردو کے ممتازادیبوں کے اسلوب میں بھی
کتوں کاحوالہ موجود ہے ۔
پروفیسر احمد شاہ بخاری پطرس:’’ کتے ‘‘= پطرس کے اسلوب کااہم وصف یہ ہے کہ
وہ الفاظ کو فرغلوں میں لپیٹ کر پیش کرنے کے بجائے اپنی سوچ کو الفاظ کا
جامہ پہنا کرقاری کواحتساب ذات پر مائل کرتاہے ۔ پطرس کی تخلیقی زندگی کے
وہ تجربات جن کا تعلق فکر و خیال ،جذبات و احساسات ،نفسی اور باطنی کیفیات
سے ہے وہ سب ان کی شگفتہ تحریروں میں سمٹ آ ئے ہیں ۔ پطر س کے اسلوب کی بے
ساختگی کسی تکنیک کی محتاج نہیں بل کہ فکر و نظر کی بوقلمونی قاری کو مسحور
کر دیتی ہے۔یہ کہناغلط نہ ہو گاکہ تخلیق کار کی اپنی ذات ہی اس کے اسلوب کی
صورت میں سامنے آتی ہے ۔ ا پنے اس مزاحیہ مضمون میں پطرس نے کُوڑے کے ڈھیر
،شہر کے کوچہ و بازار یا حلوائی کے تھڑے کے نیچے پڑے آوارہ سگِ راہ کو
موضوع بنایا ہے۔کتے کا یہ خوف محض پطرس کی ذات تک محدود نہیں رہتا بل کہ
یاران ِ نکتہ داں کے لیے صلائے عام کی صورت اختیار کر لیتاہے ۔ تحریر کا
ایک ایک لفظ جس گل افشانی ٔ گفتارکامظہر ہے اس اسلوب کو دیکھ کر نگاہ بے
اختیار پطرس بخاری ہی کی طرف اُٹھتی ہے ۔
’’ کہوں کِس سے میں کہ کیاہے سگِ رہ بُری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا اگر ایک بار ہوتا
جب تک اس دنیامیں کتے موجود ہیں اور بھونکنے پر مُصر ہیں سمجھ لیجئے کہ ہم
قبر میں پاؤں لٹکائے بیٹھے ہیں۔پھر ان کتوں کے بھونکنے کے اصول بھی تو کچھ
نرالے ہیں ۔یعنی ایک تو متعدی مرض اور پھر بچوں بوڑھوں سبھی کو لاحق ہے ۔‘‘
(6)
مشتاق احمد یوسفی ( 1923-2018) : سیزر ،ماتا ہری اور مرزا =اپنے اس شگفتہ
مضمون میں مشتا ق احمد یوسفی نے اپنے نثری طرزِبیان میں ایک پالتو السیشن
کتے جس کا نام ’’ سیزر ‘‘تھا ، کو موضوع بنایا ہے۔ اس کے ساتھ ہی ایک
کتیا’’ ماتا ہری ‘‘ کا ذکر بھی ملتاہے ۔ مشتا ق احمد یوسفی نے اس کتے کی
ہئیت ِ کذائی بیان کرتے ہوئے اس بات کی طرف توجہ دلائی ہے کہ یہ کتا سدابے
ضرر لوگوں کے در پئے آزار رہتا ہے ۔یہ کتاخلقِ خدا کے لیے خوف ،دہشت اور
اذیت و عقوبت کا باعث بن جاتا ہے ۔
’’ بڑے آدمیوں کی ایک ہی رہی ۔آپ نے سنانہیں کہ نسلاً سب کتے ایک زمانے میں
بھیڑیے تھے؟آدمی کی صحبت میں اِن کابھیڑیا پن جاتا رہا،مگرخودآدمی۔۔۔۔۔‘‘
(7)
کنہیّا لال کپور (1910-1980) :’’ ہم نے کتا پالا ‘‘اس مضمون میں ایک ماہ کے
لیے فالتو مہمان کی حیثیت سے قیام کرنے والے ایک کتے کے بارے میں مزاحیہ
انداز میں لکھا گیا ہے ۔ کنہیّا لال کپور کے ان جملوں کی باہم تنظیم اور
حسن کاری نے سحر نگاری کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ
مصنف نے کوڑے کے ہر ڈھیرکوسونگھنے والے اور مفادات کے استخواں نوچنے والے
کتوں کے سر پر عصائے حرف کاوار کیاہے :
’’ آ پ خواہ مخواہ کتوں سے ڈرتے ہیں ،ہر کتا باولا نہیں ہوتاجیسے ہر انسان
پاگل نہیں ہوتا۔۔۔۔۔کتے کودیکھ کر چاہے وہ کتناہی شریف اور بے ضرر کیوں نہ
ہومجھے اس سے خدا واسطے کابیرہو جاتاہے ۔میرا بس چلے تو تمام کتوں کو ایک
لمبی چوڑ ی حوالات میں بند کردوں۔‘‘ (8)
اردو نثر کے اسالیب میں درآنے والے متشددکتوں کا ذکر چل نکلاتومناسب ہو گا
کہ یہ بھی دیکھاجائے کہ دیو جانس کلبی کے کتے کی نسل سے تعلق رکھنے والے
مقامی کتوں کے بارے میں اردوزبان کے شعرا کی گل افشانیٗ گفتار کا عالم کیا
ہے ۔ اپنے تجربات ،احساسات اور مشاہدات کو اشعار کے قالب میں ڈھالتے وقت
فیض احمدفیضؔ نے جس انفرادیت کا ثبوت دیاہے، وہ قاری کو حیرت زدہ کر دیتی
ہے ۔فیض احمد فیضؔ نے اپنے شاعرانہ طرزِ بیان میں ’’کتے ‘‘ کے بارے میں
لکھا ہے:
کتے
یہ گلیوں کے آوارہ بے کار کُتّے کہ بخشا گیا جن کوذوقِ گدائی
زمانے کی پھٹکار ،سرمایہ ان کا جہاں بھر کی دھتکار ،ان کی کمائی
نہ آرام شب کو،نہ راحت سویرے
غلاظت میں گھر ،نالیوں میں بسیرے
جو بگڑیں تو اِک دوسرے سے لڑا دو
ذرا ایک روٹی کا ٹکڑا دکھا دو
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اُکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اُٹھائے تو انسان سب سر کشی بُھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنالیں یہ آقاؤں کی ہڈّیاں تک چبا لیں
کوئی ان کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی ان کی سوئی ہوئی دُم ہِلا دے ( نقشِ فریادی )
امریکہ کے ممتاز ادبی تھیورسٹ سٹینلے فش( Stanley Fish ) نے نثر نگار کے
اسلوب کے دو انداز بتائے ہیں ایک کو وہ ماتحت انداز کانام دیتاہے جب کہ
دوسرے کانام اس نے اضافی انداز رکھاہے ۔ ادبی نثر کے جملوں کے ماہر مبصر کی
حیثیت سے سٹینلے فش نے تحریرمیں موزوں الفاظ کے انتخاب کواظہار و ابلاغ کے
لیے نا گزیر قراردیاہے ۔ تخلیق ادب کے حوالے سے ایک ذہین تخلیق کار کے لیے
اس کے تشخص کی بہت اہمیت ہے ۔جہاں تک اسلوب کی انفرادیت اور تشخص کا تعلق
ہے اس میں جوعوامل شامل ہیں ان میں تاریخی حقائق ،جغرافیائی حالات،زمان و
مکاں سے وابستہ ارتعاشات اور فکر و خیال کے تغیرات شامل ہیں ۔ جرمن فلسفی
اور ادبی نقادہر ڈر (Johann Gottfried Herder) نے قدیم یونانی مورخ ہیرو
ڈوٹس ( :C 425 BC Herodotus :B :C484BC,D)کے اسلوب کے بارے میں لکھا ہے :
" He organized his chronology in terms of winterand summer,a natural way
of accounting for thecourse of the war in his day,as appropriate for
general conducting a war as it was for shepherdess to count her life
time in terms of springs.He inserted speeches ,the documentation and the
mainsprings of that age,the collection and editing of which cost him so
much ,but which have the misfortune to regard by us as rhetorical
exercise embraced by great general."(9)
تاریخی تناظر میں دیکھیں تو تخلیقی فن کار کا اسلوب اپنے ما فی الضمیرکے
اظہار کی ایسی صورت ہے جس میں کئی نسلوں کی تہذیبی اقدار متکلم دکھائی دیتی
ہے ۔لسانی ارتقا ہو یا اصناف ادب کا فروغ دونوں کاتہذیب و ثقافت سے گہر ا
تعلق ہے ۔تخلیق کار جب قلم تھام کر تخلیق فن پر مائل ہوتاہے تو وہ آ ئینہ
ایام میں اپنی ہرادا پر نظر ڈالتاہے۔علم و ادب کی جو درخشاں روایات اسے
میراث میں ملتی ہیں اپنے اسلوب میں وہ انھیں تحفظ دیتاہے اور خوب سے خوب تر
کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھنے کی سعی کرتاہے ۔ سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی
زدمیں آنے کے بعدادب کے وہ خزینے جو تاریخ کے طوماروں میں دب گئے یا وہ
تخلیق کار جن کی ادبی کامرانیوں سے وابستہ حقائق ابلقِ ایام کے سموں کی گر
دمیں اوجھل ہوگئے ان پر تحقیقی نظر ڈالنامنفرد اسلوب کے حامل ادیب کی ذمہ
داری ہے ۔
اپنے پسندیدہ موضوع کوپیرایۂ اظہار عطا کرنے کے لیے تخلیق کار جس اسلوب کا
انتخاب کرتاہے اس کی تفہیم کے لیے ارتکازِ توجہ ناگزیر ہے ۔ فکر و نظر اور
گہری سوچ بچار کے بعداپنی تخلیقی صلاحیتوں کو باطن کی خارجی صورت عطا کرتے
ہوئے تخلیق کارکے دل پر جو حالات گزرتے ہیں ان کے بارے میں اطالوی مجسمہ
سازمائیکل اینجلو ( 1475-1565 :Michelangelo ) نے کہا تھا:
’’ مجسمہ سازبُت کو مر مر تراش کر نہیں بناتا بل کہ بُت اِبتدا ہی میں سنگِ
سفید میں موجود ہوتاہے اور جلوہ نمائی کا منتظر اور متقاضی ،استادِ کامل
محض پتھروں کی عارضی چادرکو علاحدہ کر دیتاہے ۔‘‘ (10)
روح اورقلب کی اتھاہ گہرائی میں اُتر جانے والی اثرآفرینی اسلوب کی مرہونِ
منت ہے ۔وادیٔ خیال میں مستانہ وار گھومتے وقت افکار کا جو خام مواد دستیاب
ہوتاہے اسے تاثیر سے دو آ تشہ بنا کر کندن بنانا اسلوب کا معجز نما کرشمہ
ہے ۔ حبس کے ماحول میں معاشرتی زندگی کی وضع ایسی بدلی ہے کہ لوگ طورسے بے
طور ہو گئے ہیں،حالات اورسے اور ہو گئے ہیں مگر افق پر کوئی بدلی دکھائی
نہیں دیتی۔ رابن ہڈ،ہلاکو اور چنگیزکے قبیح کردار اور لائق نفرت انسان
دشمنی کووتیرہ بنانے والے ظالم وسفاک اورموذی ومکار اور ابلیس نژاد درندے
مضمحل،مردم گزیدہ اوردرماندہ انسانوں کے سر کاٹ کاٹ کر زمین پاٹ پاٹ کر
دندناتے پھرتے ہیں ۔ یہ ایساعبرت خیز اوراعصاب شکن ا فسانہ ہے جومعاشرتی بے
حسی کامنھ بولتاثبوت ہے ۔ افکارِ تازہ سے مزّین ادب پارے کے اسلوب کا اہم
وصف یہ ہے کہ اس میں حسن و جمال او رفکر و خیال کی عطر بیزی سے قریۂ جاں
معطر ہو جائے اوراس کی تاب وتواں اور کشش قاری کو جہانِ تازہ میں پہنچا دے
۔ ادیب جب اپنی تخلیق میں مظلوم انسانیت کاوبال باندھے تو قاری اس کے
مطالعہ کے بعد اپنے دِل میں کئی کئی خیال باندھے ۔ذو معنی الفاظ سے ایہام
پیداکرکے شعر انے اپنے سادہ اسلوب میں بھی ظاہری طبعی حسن اورسراپانگاری سے
سحر نگاری کاسماں باندھاہے :
زلف لٹکاکے جس دم وہ سرِ بازار چلے
سب نے یہ حال دیکھ کر کہا مار چلے مار چلے
اردو نثر میں بے ساختہ شگفتگی اور بے تکلفی کی مظہر ظرافت کاجو ارفع معیار
غالبؔ کے خطوط میں نظر آتاہے وہ اپنی مثال آپ ہے ۔زندہ ادب تہذیبی ،ثقافتی
اور معاشرتی اقدار و روایات کے ارتقا میں اہم کردار ادا کرتاہے ۔ایک صاحب
اسلوب ادیب کلاسیکی ادب کے مطالعہ کو اس لیے شعار بناتاہے کہ وہ اسے ہر عہد
میں ذہنی بالیدگی اورفکری تنوع کے لیے ناگزیر سمجھتاہے ۔کلاسیکی ادب کے
دامن میں فکر و خیال ،تہذیب و تمدن اور سماج و معاشرت کے حوالے سے جوگنج
ہائے گراں مایہ موجود ہیں وہ قندِ مکر ر کی صورت میں نئی نسل کے سامنے پیش
کرناضروری ہے ۔اس قسم کے فنی تجربے ادبی جمود کے خاتمے اورذہنی بیداری میں
اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔کرنل محمد خان(1914-1999)کی گل افشانی ٔ گفتار
کاعالم دیکھ کر اردو کی کلاسیکی شاعری کی یادتازہ ہو جاتی ہے ۔کرنل محمد
خان کی فوجی زندگی کے شب و روز نے ان کی شخصیت پر گہرے اثرات مرتب کیے ۔سچ
تو یہ ہے کہ ان کی شخصیت ہی ان کا اسلوب بن گئی ہے ۔کرنل محمدخان کی با غ و
بہار شخصیت کاعکس شگفتہ الفاظ کی شکل میں صفحہ ٔ قرطاس پر اُبھرتا ہے تو
قاری بے اختیارمسکرانے لگتاہے ۔
’’ مہوکے وہ مضافات بھی چلتی گاڑی سے دِل فریب نظرآ رہے تھے جن سے چند مہلک
قسم کی فوجی مشقوں کی یادوابستہ تھی ۔ہیما پہاڑی تو ہمیں وادیٔ گنگا کی طرح
محبت کے اشارے کر رہی تھی ۔‘‘(11)
کرتے ہیں مسافر کو محبت سے اشارے
اے وادی ٔ گنگاترے شاداب نظارے اختر شیرانی (12)
’’ ان سب میں سے دلچسپ آدمی کیپٹن رام ناتھ تھے ۔ابتدائے جنگ میں رسالدار
تھے اوراگر جنگ نہ چھڑتی تو شاید رسالدار ہی جیتے اور مرتے ۔لیکن جنگ کے
فیض عام میں خانہ بر اندازانِ فوج نے آپ پر بھی کپتانی پھینک دی اور سچ تو
یہ ہے کہ ایسا کر کے آپ کا ستیا ناس کر دیا۔ یعنی ایک عظیم الشان رسالدار
کو ایک نہایت بے توفیقے افسر میں بدل دیا۔رام ناتھ اپنے سر ٹیفکیٹوں کے
علاوہ شکل و صور ت سے بھی نیم خواندہ لگتے تھے ۔آپ کا کپتان ہونا نہ صرف آپ
کے مزاج کے منافی تھابل کہ غالبا ً قضاو قدرکے ابتدائی منصوبے کے بھی خلاف
تھا۔آپ کسی کام میں کپتانی کرتے تو آپ سے حوالداری ہو جاتی ۔ پریڈپر جاتے
تو سپاہیوں پر دانت پیسنا شروع کر دیتے ۔ ‘‘ (13)
گُل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بل کہ ثمر بھی
اے خانہ بر اندازِ چمن کچھ تو اِدھر بھی (14)
عرصہ ہائے دہر کے ہنگاموں میں انسانیت کے ساتھ بے لوث محبت کو شعار بنانے
والاادیب قصہ ہائے فکر و عمل کو نئی تاب و تواں عطاکرتاہے ۔ اسلوب کی ندرت
سے تخلیق کار شیرازۂ اسباب کومنتشرہونے سے بچاتاہے اور متلاطم سمندر سے سر
گرم ِ ستیز رہنے کا حوصلہ عطاکرتاہے ۔وارفتہ نکہتوں کے ہجوم میں کھو کر
اسلوب میں وسعت نظر اورکیفِ کوثر وتسنیم کی نویدلاتا ہے ۔ جدتِ فکر کے
فراوں مواقع اسے مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوشِ ثریا کر دیتے ہیں۔اس
میں موسیقیت کاآ ہنگ اورحسن و جمال کا سنگ اسے منفرد رنگ عطاکرتاہے ۔ایک
زیرک تخلیق کار کا ناصحانہ اورتدریسی نوعیت کا منفرد اسلوب قاری کے دل میں
ایک ولولۂ تازہ پیدا کرکے نہ صرف اذہان کی تطہیر و تنویر کاہتمام کرتا ہے
بل کہ فکر ی استعدا د کو صیقل کر کے سعی ٔ پیہم پر مائل کر کے خود اعتمادی
اور احتساب ذات پر مائل کرتاہے ۔ جب قلعۂ فراموشی کے محصور مجبور انسانوں
کی فکر محبوس ہواور ان کی گفتار پر تعزیریں ہوں تو ایسااسلوب سفاک ظلمتوں
میں فروغ ِ نور کے لیے ستارۂ سحر بن جاتاہے اور مہیب سناٹوں بانگِ در ا
ثابت ہوتاہے ۔ ایک تخلیق کار کے پاس اس بات کاصوابدی اختیار ہے کہ وہ
تخلیقِ فن کے لمحوں میں اپنے لیے لائحۂ عمل وضع کرے۔ حریتِ ضمیر سے جینے کے
لیے اسوۂ حسین ؑکو زادِ راہ بنانے والے تخلیق کاروں کی بیاض ِ رخ پر صبحِ
بہاراں کی عطربیز صباحتیں بھی قربان کی جاسکتی ہیں ۔ادیب اپنی آزادمرضی سے
جو کچھ کہنا چاہے اسے اس کی اجازت ہونی چاہیے تاکہ فضائے فکر و عمل میں
نکھارپیدا ہو ۔ فیض احمدفیض ؔ نے ایسے لائق صد رشک و تحسین اسلوب کے بارے
میں کہا تھا:
چھوڑ ا نہیں غیروں نے کوئی ناوک ِدشنام
چُھوٹی نہیں اَپنوں سے کوئی طرزِ ملامت
اِس عشق نہ اُس عشق پہ نادِم ہے مگر دِل
ہر داغ ہے اِس دِل میں بہ جز داغِ ندامت
یہ اسلوب ہی جو کسی ادب پارے کو مجموعی اعتبار سے عمدہ یا فقید المثال
معیار کے پیشِ نظر عظیم قرار دینے کا فیصلہ کرنے میں نقاد کی رہنمائی
کرتاہے ۔عمدہ اور عظیم ادب میں اِمتیاز جہاں اوجِ خیال کا ثمر ہے وہاں اس
میں ہئیت کے بہ جائے موادکوزیادہ اہمیت حاصل ہے ۔عظیم ادب کی تخلیق میں
زبان وبیان کے قواعد و ضوابط کو زادِ راہ بناتے ہوئے اظہار و ابلاغ کے جملہ
محاسن کو اسلوب میں جگہ دینا ادیب کی اولین ترجیح رہی ہے ۔ عظیم ادیبوں نے
معاشرتی زندگی کودرپیش مسائل پر توجہ دیتے ہوئے مادی زندگی کی ہر احتیاج کو
بلا تامل اپنی تخلیق کا موضوع بنایا ۔ذہن و ذکاوت کے بر محل استعمال سے
قواعد پر عمل پیرا ہوکر مقصدیت اورافکارِ تازہ کی مشعل تھام کر سفاک ظلمتوں
کو کافور کر کے جہانِ تازہ کی جانب روشنی کا سفر جاری رکھا۔انگریز ی ادب کی
عظیم تخلیقات درج ذیل ہیں :
اطالوی ادیب دانتے ( 1265-1321 : Dante Alighieri) کی تصنیف :Divine Comedy
عظیم ادبی تخلیقات میں شامل ہے ۔ انیسویں صدی کے ممتاز بر طانوی ناول
نگارولیم میک پیس تھیکرے( 1811-1863 :William Makepeace Thackeray
)کاتاریخی ناول ہینری ایس منڈ ( Henry Esmond) کو بھی مواد کے معیار اور
تنوع کی بنا پر عظمت کا حامل سمجھا جاتاہے ۔ انگریزشاعر جان ملٹن (
1608-1674 :John Milton )کی فردو س گم گشتہ (Paradise Lost)،ایسی عظیم
تخلیق ہے جس کا ہر عہد کے ادب میں نشان ملے گا۔ فرانسیسی شاعروکٹر ہیوگو (
1802-1885:Victor Hugo) کے تاریخی ناول کم اذیت ناک ( Les Misérables)
کاشمار انیسویں صدی کی عظیم ادبی تخلیقات میں ہوتا ہے ۔
اُردو ادب میں مرزا اسداﷲ خان غالبؔ (1797-1869)کے دیوان ِ غالب کو عظیم
ادبی تخلیق کا درجہ حاصل ہے ۔ ڈاکٹر عبدالرحمن بجنوری نے اپنی تصنیف محاسن
کلا م غالبؔ میں لکھاہے:
’’ ہندوستان کی الہامی کتابیں دو ہیں مقدس وید اور دیوان غالبؔ۔لوح سے تمت
تک مشکل سے سو صفحے ہیں لیکن کیا ہے جو یاں حاضر نہیں۔کون سا نغمہ ہے جو اس
زندگی کے تاروں میں بیدار یا خوابیدہ موجود نہیں ہے ۔ شاعر کواکثر شعرا نے
اپنی اپنی حدِ نگاہ کے مطابق حقیقت اور مجاز جذبہ اوروجدان ذہن اور تخیل کے
لحاظ سے تقسیم کیا ہے مگر یہ تقسیم خود ان کی نا رسی کی دلیل ہے شاعری
انکشافِ حیات ہے جس طرح زندگی اپنی نمود میں محدود نہیں ۔شاعری بھی اپنے
اظہار میں لا تعین ہے ۔جمال الٰہی ہر شے میں رونما ہوتاہے آفرینش کی قدرت
جوصفات باری میں سے ہے شاعر کو بھی ارزانی کی گئی ہے ۔جہاں ملائکہ کارخانہ
ٔ ایزدی میں پوشیدہ حسن آفرینی میں مصروف ہیں ۔شاعریہ کام علی الاعلان
کرتاہے ۔اس لحاظ سے مرزا کو ایک رب النوع تسلیم کرنا لازم آتاہے ۔غالبؔ نے
بزمِ ہستی میں جو فانوسِ خیال روشن کیاہے کون سا ’’ پیکر ِ تصویر ‘‘ ہے جو
اس کے ’’ کاغذی پیراہن ‘‘پر منازلِ زیست قطع کرتا ہوا نظر نہیں آتا۔‘‘(15)
ادبی تنقیدمیں مختلف ادیبوں کے اسلوب کا تقابل جائزہ بہت اہمیت رکھتا ہے
۔مہدی افادی نے اردو زبان کے عناصر خمسہ (سر سید ،نذیر احمد،شبلی نعمانی
اورحالیؔ)کے اسلوب کے بارے میں اپنے خاص اندازمیں لکھا ہے :
’’ سر سید سے ’’معقولات ‘‘ الگ کر لیجئے توکچھ نہیں رہتے،نذیراحمدبغیر مذہب
کے لقمہ نہیں توڑ سکتے،شبلیؔ سے تاریخ لے لیجئے تو قریب قریب کورے رہ جائیں
گے۔حالی ؔ بھی جہاں تک نثر کاتعلق ہے سوانح نگاری کے ساتھ چل سکتے ہیں،لیکن
’’ آقائے اردو ‘‘ یعنی پروفیسر آزادصرف انشا پرداز ہیں ،جن کو کسی سہارے کی
ضرورت نہیں،اسی لیے واقعات بھی انھوں نے جس قدر لکھے ہیں ’’قصص ‘‘ ( یعنی
ٹیلز ‘‘ کی حیثیت رکھتے ہیں جنھیں ’’افسانۂ یارانِ کہن‘‘ سمجھئے۔ ‘‘ (16)
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ تخلیق اور تنقید میں مغائرت کے باوجود دونوں ایک
دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں ۔ تخلیق کار اور نقاد کے زاویہ ٔ نگاہ میں
جو اختلاف پایا جاتاہے وہ بعض اوقات ان کے اسلوب میں شدید تناؤ کی صورت
اختیار کر لیتاہے ۔اردو زبان میں تنقید کا آغازخواجہ الطاف حسین حالی
(1837-1914) کی کتاب مقدمہ شعر و شاعری سے ہوا۔ حالی ؔ نے تذکروں سے ہٹ کر
اردو تنقید کے لیے سب سے پہلے نئی راہ متعین کی ۔ کلیم الدین احمد نے اپنی
کتاب ’’ اردو تنقید پر ایک نظر ‘‘ میں جہاں اردوزبان کے مختلف ادیبوں کے
اسالیب کا تجزیزتی مطالعہ کیا ہے وہاں نو آبادیاتی دورسے وابستہ خود ان کے
اسلوب کے بارے میں بھی آ گہی ملتی ہے ۔مولانا الطاف حسین حالی ؔ کے بارے
میں کلیم الدین احمد نے یہ لکھاہے :
’’ خیالات ماخوذ ،واقفیت محدود،نظر سطحی،فہم و ادراک معمولی ،غور و فکر
ناکافی ،تمیزادنیٰ ،دماغ و شخصیت اوسط ۔یہ تھی حالیؔ کی کل کائنات ۔‘‘ (17)
اردو کے جری نقادوارث علوی ( 1928-2014)نے تنقید کو نیا آ ہنگ عطاکیا ۔وہ
مکتبی تنقید کی نارسائی کو دیکھتے ہوئے اس کے سخت خلاف تھے اس لیے اس تنقید
پرانحصار کرنے والے مدرس کے بارے میں انھوں نے لکھاہے :
’’مدرس ہر مضمون پر لکھ سکتا ہے ،ہر مجموعہ کلام پر تبصرہ لکھ سکتا ہے ،ہر
کتاب پر اپنی رائے دے سکتا ہے جو دوسروں کے کام آئے حالانکہ بہت سی کتابیں
ایسی ہوتی ہیں کہ آدمی تزکیہ نفس اور راہ ِ سلوک کے آخری مقام پر پہنچ کر
بھی ان کے متعلق لب کشائی کرے تو بھنچے ہوئے لبوں سے سوائے بے نقط ملفوظات
کے کچھ باہر نہ نکلے لیکن مدرس بے نقط کبھی نہیں بو لتا۔جب بھی بولتا ہے
تنقید ہی بو لتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ جب تک مدرس کے دم میں دم ہے وہ کسی شاعر
کو طبعی موت مرنے نہیں دیتا۔وہ جو دوسروں کے لیے مر گئے وہ بھی حنوط شدہ
ممیوں کی طرح مدرس کے مقالوں میں زندہ ہیں۔جن شاعروں پر نول کشور فاتحہ پڑھ
چکے ،ان کا عرس منانے کے لیے مدرس ماوراالنہر سے چلتا ہے تو پانی پت میں
آکر دم لیتا ہے ۔‘‘ (18)
مکتبی تنقید کے مسموم اثرات نے گلشنِ ادب کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی ہیں
۔مکتبی تنقید کی بے بضاعتی اور تہی دامنی پر گرفت کرتے ہوئے پروفیسرگوپی
چند نارنگ نے فرانس کے ممتاز ادبی تھیورسٹ ،فلسفی اور نقادرولاں بارتھ (
1915-1980:Roland Barthes )کے حوالے سے لکھا ہے :
’’مکتبی تنقید متن کے صرف متعینہ طے شدہ معنی کو صحیح سمجھتی ہے اور نہایت
ڈھٹائی سے اس پر اصرار کرتی ہے ۔متعینہ معانی تو صرف لُغوی معنی ہو سکتے
ہیں اور ادب میں اکثر و بیش تر بے ہُودگی کی حد تک غلط ہوتے ہیں ۔مکتبی
نقادوں کے بارے میں بارتھ نے لکھا ہے کہ ان کا ذہن چھوٹا اور نظر محدود
ہوتی ہے وہ ادعائیت کا شکار ہیں اور ادب میں اکثریت کے علم بردار ہیں؛اس
لیے ادب کے لطف و نشاط میں شرکت کے لیے ان کی آمریت کو تہس نہس کرناضروری
ہے ،‘‘(19)
مکتبی تنقید اور مدرس کی فکری نہج کے بارے میں وارث علوی نے ہمیشہ اپنے
تحفظات کا اظہار کیا ۔ وارث علوی نے محض خارجی حقائق پر توجہ نہیں دی بل کہ
اس مسئلے کے داخلی پہلو کو بھی مدِ نظر رکھاہے ۔یہ وہ طرزِ خاص ہے جو اوروں
سے تقلیداً بھی ممکن نہیں ۔ وارث علوی کے پیرایۂ بیان میں اس جری نقاد کے
ضمیر کی آواز پوری معنویت کے ساتھ مقتضائے حال کی ترجمان بن جاتی ہے ۔ہمارے
ہاں المیہ یہ ہے کہ جاہل کو اس کی جہالت کا انعام مل جاتا ہے ۔چربہ ساز
،سارق ،کفن دُزد اور لفاظ حشرات سخن کی چیرہ دستیوں نے تمام ادبی منظر نامہ
گہنا دیاہے ۔ قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں تحقیق اور تنقید کی حالت ِزار
کسی سے مخفی نہیں تنقیدی نشستوں نے انجمن ستائش ِ باہمی کی ناقابلِ برداشت
صورت اختیار کرلی ہے ۔ یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اورکیا ہے کہ عقابوں
کے نشیمن اب زاغوں کے تصرف میں ہیں ۔اس سے بڑھ کر المیہ کیا ہو گا کہ سمے
کے سم کے ثمر کے نتیجے میں جید جاہل ،خفاش منش کندہ ٔنا تراش اور بُزِ اخفش
رواقیت کے داعی بن بیٹھے ہیں ۔ جب سے سندی تحقیق کے ساتھ مدرسین کومالی
منفعت اور اضافی ترقیوں کی جھلک دکھائی گئی ہے ،تحقیق اور تنقید کو بازیچہ
ٔ ا طفال بنا دیا گیا ہے ۔اب ہر مدرس جلد از جلد ایم ۔فل اور پی ایچ ۔ڈی کی
ڈگریاں ہتھیا کر زرو مال سمیٹنے اور خود کو اعلا تعلیم یافتہ ثابت کرنے کے
لیے ہتھیلی پر سرسوں جمانے کی فکر میں مبتلا ہے تعلیمی اداروں میں مدرسین
کی صورت میں جو نام نہاد نقاد براجمان ہیں ،ان کی بو العجبیوں اور خام
خیالی نے ہمیں اقوام ِ عالم کی صف میں تماشا بنا دیاہے ۔تحقیق اور تنقید کے
نام پر جو گل کھلائے جا رہے ہیں انھیں دیکھ کر ناطقہ سر بہ گریباں ہے کہ اس
کے بارے میں کیا کہا جائے اور خامہ انگشت بہ دنداں ہے کہ اس سانحے کے متعلق
اپنے جذبات حزیں کا اظہار کن الفاظ میں لکھا جائے ۔اپنے ایک مضمون ’’روح کی
اڑان ‘‘ میں وارث علوی نے اپنی طرزِ خاص میں اس لرزہ خیز ،اعصاب شکن اور
روح فرسا المیہ کے تضادات ،ناہمواریوں اور بے اعتدالیوں کے بارے میں
ہمدردانہ شعور اجاگر کرتے ہوئے نہایت دردمندی اور خلوص سے لکھا ہے :
’’مدرسہ کی فضا ہی ایسی ہوتی ہے کہ لسان العصر ،بلبل شیراز اور طوطیٔ ہند
سب سُرمہ پھانک لیتے ہیں۔صرف مدرس ہے جو ٹراتا رہتا ہے اور کلاس روم کے در
دیوار ان معلومات سے گونجتے رہتے ہیں جن کا توانا تخلیقی تجربات سے دُور کا
بھی سرو کار نہیں ہوتا۔ہر ذی روح کی طرح مدرس بھی عمرِ دراز کے چار دن مانگ
کر لاتا ہے۔۔۔۔دو پی ایچ۔ڈی کے موضوع کی تلاش میں اور دو موضوع پر
’’کام‘‘کرنے میں صرف ہو جاتے ہیں۔مدرس کے لیے پی ایچ ۔ڈی کے مقالے کی وہی
اہمیت ہے جو داستانی عہد کے سورماؤں کے لیے ہفت خواں کی ہوا کرتی تھی کہ
ہفت خواں نہ ہوں تو سورماؤں کے لیے کنویں میں جھانکنے کے سوا کوئی کام ہی
نہ رہتا۔مدرس ان عجوبہ ٔ روزگار لوگوں کی اولادِ معنوی ہے جو اگلے زمانے
میں چاول پر قل ہو اﷲ لکھا کرتے تھے ،کہ اُن ادیبوں پر بھی جن کا ادبی جثہ
چاول کے دانہ سے کچھ ہی بڑا ہوتا ہے پانچ سو صفحہ کا ڈاکٹریٹ کا مقالہ
لکھنا اس کے دائیں ہاتھ کا کھیل ہے ‘‘(20)
جدید دور میں اردو زبان کے ممتاز ادیبوں نے اپنے اسلوب کی تشکیل میں
اردوزبان کے کلاسیکی ادب اور عالمی کلاسیک کا بہ نظر غائر جائزہ لیاہے ۔
اردو زبان کے ادیبوں نے اظہار و ابلاغ کے داخلی اور خارجی پہلوؤں پر نگاہیں
مرکوزکرتے ہوئے ،ہرقسم کے تصنع کو نظر انداز کرتے ہوئے سادگی ،سلاست اور بے
تکلفی کوشعاربنایاہے ۔کورانہ تقلید سے دامن بچاتے ہوئے جدت اورتنوع کو زادِ
راہ بنانے پر اصرارکیا ہے ۔ موزوں ترین الفاظ کا انتہائی مستحسن انداز میں
استعمال ان کا مطمح نظر رہاہے ۔اس کا مثبت نتیجہ یہ نکلاکہ اردو زبان نے
دنیا کی بڑ ی زبانوں میں اپنی جگہ بنالی ہے ۔اسلوب کے مطالعہ سے کسی تخلیق
کار کے عہد کے حالات معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز کی تفہیم میں مدد ملتی
ہے ۔اسلوب ایک ایسا طرزِ احساس ہے جو کسی بھی مصنف کے عہد کی تہذیبی و
ثقافتی اقدارکا امین بن جاتاہے۔
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Dr.Ghulam Shabbir Rana ( Mustafa Abad Jhang City )
مآخذ
1.Walter Pater : Appreciations, Macmilan And Co. London,1889,Page, 34
2 ۔فرمان فتح پوری ( ڈاکٹر ): ہندی اردو تنازع،نیشنل بک فاؤنڈیشن،اسلام
آباد، اشاعت اوّل ،1977 ،صفحہ ،79
3 ۔رئیس احمد جعفری : بہادر شاہ ظفر اور ان کا عہد ،کتاب منزل ،لاہور
،اشاعت اوّل صفحہ 50
4۔ رشید احمدصدیقی : مضامین رشید، انجمن ترقی ارد ہند ،دہلی ، سال اشاعت
،1986، صفحہ 83
5۔مشتاق احمد یوسفی : چراغ تلے ،پہاڑی بھوجلہ ،دہلی ، سال اشاعت ،2001،
صفحہ 113
6۔احمدشاہ بخاری پطرس : پطرس کے مضامین ، حالی پبلشنگ ہاؤس دہلی ، بار سوم
،2000 ، صفحہ 54
7۔ مشتاق احمدیوسفی : خاکم بدہن ،ادبی دنیا،اردو بازار، دہلی ،اشاعت اول
،1973، صفحہ 43
8۔ کنہیّا لال کپور : گردِ کارواں ، ساقی بک ڈپو ،دہلی ، جدید ایڈیشن، 1987
، صفحہ 157
On World History.Routledge ,London , 2015,Page, 9.Johann Gottfried
Herder:
10۔ بہ حوالہ سیّد عابد علی عابد : انتقاد ،ادارۂ فروغ ِ اُردو ،لاہور ،
بارِ اوّل ، 1956، صفحہ 170
11۔محمدخان کرنل : بجنگ آمد ، ایجو کیشنل پبلشنگ ہاؤس ،دہلی، سال اشاعت
،2013 ، صفحہ38
12۔ اختر شیرانی :اخترستان ( نظموں کا دوسر ا مجموعہ ) ،ناشران کتاب
منزل،لاہور ، طبع اوّل ،1946 صفحہ 91
13۔محمدخان کرنل : بجنگ آمد، صفحہ ،152
14۔مرزا محمدرفیع سودؔا: کلیاتِ سوداؔ،مرتبہ ڈاکٹر شمس الدین صدیقی
،جلداوّل ،مجلس ترقی ادب،لاہور ،سال اشاعت ،1973،صفحہ 494
15۔عبدالرحمٰن بجنوری ڈاکٹر :محاسن کلام غالب ؔ، انجمن ترقی اردو پریس
،اورنگ آباد ،طبع ثانی ،1925، صفحہ 1
16۔ایم مہدی حسن افادی الاقتصادی :افادات مہدی،مطبوعہ مطبعحکیم برہم ،گورکھ
پور ، طبع ثانی،1923، صفحہ 227
17۔کلیم الدین احمد : اردو تنقید پر ایک نظر ،بک امپوریم سبزی بازار، پٹنہ
، اشاعت ،1983 صفحہ110
18۔وار ث علوی :’’روح کی اڑان ‘‘،مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو ،راول پنڈی
،جلد 22،شمارہ جنوری ۔مارچ 2013، صفحہ 11۔
19۔بہ حوالہ گوپی چند نارنگ :ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات ،سنگ ِ
میل پبلی کیشنز ،لاہور ،1994 ، صفحہ 163۔
20۔وار ث علوی :’’روح کی اڑان ‘‘،مضمون مشمولہ ماہ نامہ چہار سو ،راول پنڈی
،جلد 22،شمارہ جنوری ۔مارچ 2013،صفحہ 11۔
|