مساجد کی توہین سے بچیں

الحمدﷲ ہم مسلمان ہیں۔تمام مسلمان اﷲ اوراسکے حبیب ﷺ کے بتائے ہوئے اصول وضوابط کے تابع ہیں۔قرآن میں ہرچیزکابیان موجودہے۔آقاعلیہ الصلوۃوالسلام نے تمام امورمیں ہماری رہنمائی فرمائی۔ہماری مساجدہمارے اپنے سبب سے محفوظ نہیں ہیں ۔جب ہم اسلامی شعائر کاتقابل کرتے ہیں دیگر مذاہب کے مذہبی مقامات سے توواضع ہوجاتاہے ۔ ہندواپنے مندرکا احترام کرتے ہیں عیسائی اپنے کلیساء کااحترام کرتے ہیں۔سکھ اپنے گردوارے کااحترام کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔لیکن مسلمان اپنی مساجد کاکم ادب کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔سوشل میڈیاپرایسی کتنی ویڈیوزآپکومل جائیں گی۔جس میں آپ نے ان چیزوں کا مشاہدہ کیاہوگا۔ ہمارے وزیراعظم عمران خان نیازی جب کرتارپور بارڈر کھولاگیا۔گرونانک گردوارے میں سرپرسفیدکپڑاباندھے نظرآئے۔سکھوں نے اپنے مذہبی مقام پرننگے سرجانے کی اجازت وزیراعظم عمران خان نیازی کو بھی نہ دی۔کیونکہ سکھ اپنے مذہبی مقامات کاادب کرتے ہیں ۔ہندواپنے مذہبی مقامات مندروں کاادب واحترام کرتے ہیں۔عیسائی بھی اپنے مذہبی مقامات کاادب واحترام کرتے ہوئے نظرآتے ہیں۔مسلمانوں کے عظیم مذہبی مقدس مقامات میں سے مساجد ہیں ۔جن کاادب واحترام بحیثیت مسلمان ہرایک پرلازم و ضروری ہے۔مساجد کو بیت اﷲ کہاگیا ہے۔یہ شعائراﷲ ہیں ۔شعائر اﷲ کا ادب واحترام وتعظیم وتکریم بحیثیت مسلمان لازم ہے۔کیونکہ رسول مکرم شفیع معظمﷺنے مساجدکاادب واحترام کرنے کاحکم ارشادفرمایا مساجد کوبچوں اورپاگلوں اوربیع وشرااورجھگڑے اورآوازبلندکرنے اورحدودقائم کرنے اورتلوارکھینچنے سے بچاؤ۔

ہمارے ہاں مساجد میں کیاہورہا ہے بحیثیت مسلمان غوروفکرکرنے کی ضرورت ہے۔ کیاہم حضورﷺکے فرمان پرعمل کررہے ہیں ۔اگرہم صرف دو مساجدکاجائزہ لیں تو واضح ہوجائے گاکہ ہم مسلمان اپنے مقدس مقامات میں سے مساجد کاکتناادب و احترام کر رہے ہیں۔شاہ فیصل مسجد پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک عظیم الشان مسجد ہے۔جسے جنوبی ایشیا کی سب سے بڑی مسجدہونے کااعزازحاصل ہے ۔اس مسجد کاسنگ بنیاد شوال المکرم1396ھ بمطابق اکتوبر1976ء کورکھاگیا اورمسجد کی تکمیل1987ء میں ہوئی۔اس مسجد میں بیک وقت تین لاکھ نمازی نماز پڑھ سکتے ہیں ۔افسوس کی بات یہ ہے کہ مسلمانوں نے اس مسجد کوصرف اپنی سیرگاہ تک محدود کیاہوا ہے۔اس مسجد میں آپ لوگوں کو بدنگاہی کرتے بھی دیکھے گے۔ شاہ فیصل مسجد میں آپکو لڑکے اور لڑکیاں موج مستی کرتے اور تصویریں بناتے نظر آئیں گے۔اسی طرح سوشل میڈیاپرگردش کرتی ایک تصویر نظرسے گزری جوشاہ فیصل مسجدکے احاطے کی ہے جس میں ایک پاکستانی کریکٹراپنی بیوی کے ساتھ مسجد کے احاطے میں مستی کرتا ہوانظرآتا ہے۔اور دوسری بادشاہی مسجد جولاہور میں واقع ہے۔اس مسجدکواورنگزیب عالمگیربادشاہ نے1673ء تعمیرکروایا۔اس مسجد میں بیک وقت ساٹھ ہزارلوگ نمازپڑھ سکتے ہیں۔یہ عظیم الشان مسجدمغلیہ خاندان کے دور کی ایک شاندار مثال ہے۔اورلاہور کی شناخت بن چکی ہے۔بادشاہی مسجد، فیصل مسجد اسلام آباد کے بعد پاکستان کی دوسری بڑی مسجد ہے۔22فروری،1974ء کولاہور میں منعقدہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر39سربراہان مملکت نے نمازجمعہ اس مسجدمیں اداکرنے کی سعادت حاصل کی۔لیکن اب حالات کا جب مشاہدہ کرتے ہیں تو یہ بات روزروشن کی طرح عیاں ہوجاتی ۔کہ بادشاہی مسجد عبادت کے لئے نہیں بلکہ سیروتفریح کیلئے بنائی گئی ۔کیونکہ بادشاہی مسجد میں لوگ آپ کو سیلفیاں بناتے نظر آئیں گے۔نوجوان نسل کے لڑکے اور لڑکیاں موج مستیاں کرتے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے نظر آئیں گے۔جن خواتین کومسجد میں عبادت کرنے کیلئے خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے دور میں منع کیاگیا آج وہی خواتین ونوجوان لڑکیاں بادشاہی مسجدمیں بعض محرم کے ساتھ اور بعض غیرمحرم کے ساتھ گھومتی ہوئی نظرآتی ہیں۔اکثرعورتیں پاکی وپلیدی کے مسائل سے لاعلم ہوتی ہیں۔مسجد کے تقدس کوپامال کیاجاتا ہے۔میں صرف ان دو مساجد کو زیربحث لایا ہوں ۔انکے علاوہ کتنی مساجد ہیں ۔جن کے تقدس کو اسی انداز سے پامال کیاجاتا ہے۔مساجد تو اﷲ کی عبادت کے لئے ہیں ۔لیکن ان مساجد میں کیاہورہا ہے کسی سے پوشیدہ نہیں ہے ۔مساجدسے ایسی بے حیائی ختم ہونی چاہیئے۔پڑھے لکھے لبرلزطبقے کواس بات کاعلم ہونا چاہیے کہ یہ مساجد کوئی سیرگاہ نہیں ہیں بلکہ یہ تو اﷲ کی عبادت کے لیئے ہیں ۔مساجد میں سیروتفریح کے لئے خواتین کاداخلہ ممنوع ہوناچاہیے۔جیسے سیدنا داتا علی ھجویری رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ کے مزار پرانوارپر پہلے خواتین مسجد کے احاطے میں داخل ہوتی اور مسجد کے اندر چلی جاتی تھیں۔لیکن حکومتی سطح پرپابندی ہونے کے سبب سے اب داتا صاحب مسجد کی بے حرمتی خواتین کے سبب سے نہیں ہوتی۔ایسے ہی تمام مساجدکے آداب کیلئے حکومتی سطح پرخاص اقدام ہونا چاہیئے۔بحیثیت مسلمان ہمیں مساجد کاادب و احترام بجا لانا چاہیے ۔مساجد کاتقدس حضورﷺکے فرمان کے مطابق ملحوظ خاطر ہونا چاہئیے۔
 

Muhammad Ibrahim Owaisi
About the Author: Muhammad Ibrahim Owaisi Read More Articles by Muhammad Ibrahim Owaisi: 2 Articles with 1907 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.