درد_زندگی - قسط_نمبر_08

حیا یار تم نے اچھا نہیں کیا سمیر کے ساتھ وہ تم سے معافی مانگنے آیا تھا اور تم نے ۔۔۔۔

حیا جیا کی طرف غصے سے دیکھنے لگی تو جیا چپ ہو گئی ۔۔۔۔۔۔
*

آج سمیر کے گھر پارٹی تھی اور سمیر نے یہ کام اویس کو دیا تھا کے وہ کسی بھی طرح وہاں حیا کو لے ایں ۔۔۔۔۔

اویس نے جیا کے ساتھ مل کے حیا کو پارٹی میں جانے کے لئے رازی کیا ۔۔۔۔
**

فلیٹ کے بیسمنٹ میں مسلسل چکر کاٹتا ہوا سمیر اویس کا انتظار کر رہا تھا

اویس نے اسے بتایا کہ وہ حیا کو لے کر پہنچنے والا ہے تب سے سمیر بیسمنٹ میں چکر کاٹتے ہوئے ہر دو سے تین منٹ بعد ایک نظر کلائی پر بندھی ہوئی ریسٹ واچ پر ڈالتا۔۔۔ اویس کی کار بیسمنٹ کے اندر داخل ہوئی تو سمیر نے سکون کا سانس لیا

"تم تو پندرہ منٹ میں آنے والے تھے دس منٹ اوپر کیسے لگے"
اویس کار سے نکل کر سمیر کے پاس آیا تو سمیر اس سے پوچھنے لگا

"یار مین روڈ پر کافی ٹریفک تھا۔۔۔۔۔
اویس سمیر کو بتا رہا تھا مگر سمیر کی نظر کار میں حیا پر تھی ۔۔۔۔ جو جیا کے ساتھ باتوں میں مصروف تھی ۔۔۔۔

اویس نے سمیر کی نظروں کا تعاقب کرکے کار کا دروازہ کھولا ۔۔۔۔

اویس وہ خود کھول سکتی ہے دروازہ ۔۔۔۔۔

یار میں تو صرف مدد کر رہا تھا ۔۔۔۔۔اویس سمیر کو دیکھتے ہوئے بولا ۔۔۔۔۔۔

"میں نے تم سے مدد مانگی صرف وہ کام کرو جو بولا جائے"
سمیر بولتا ہوا کار کے پاس آیا

اوہ ہیلو میڈم ۔۔۔۔!! آب کار سے اتروگی یا اٹھا کے لیکے جاؤں ۔۔۔۔

سمیر شرارتی انداز میں بولا ۔۔۔۔

تم یہاں بھی حیا کار سے اتر کر آب غصے سے سمیر کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔

جس کی بات پے سمیر ہنسنے لگا ۔۔۔۔

میری برتھڈے پے میں نہیں ہونگا تو کیا میری روح ہوگی ۔۔۔۔۔

تمہاری برتھڈے ۔۔۔آب سمیر کی بات پر حیا کو ایک اور جھٹکا لگا ۔۔۔۔۔

حیا اندر چلو میں بتا تھی ہوں جیا حیا کا ہاتھ پکڑ کے اسے اندر لیکے آیی ۔۔۔۔

کیا مطلب تمھیں پتا تھا کے ہم سمیر کے گھر جا رہے ہیں ۔۔۔

تم نے مجھ سے جھوٹ بولا کے سرپرائز ہے ۔۔۔۔

یہ سرپرائز تھا تمھارا ۔۔۔۔۔حیا جیا سے شکوہ کرنے لگی ۔۔۔

نہیں یار اویس نے ریکویسٹ کی کے سمیر تم سے معافی مانگنا چاہتا ہے ۔۔۔۔

جیا اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔

نہیں معاف کرونگی اسے ۔۔۔۔۔حیا آب سمیر کی طرف غصے سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔
*

جو کے اپنے دوستوں سے ہنس ہنس کے باتیں کرنے میں مصروف تھا ۔۔۔۔۔

جیا کو گھر سے کال آیی تو وہ سائیڈ پے کال پک کرنے آیی کیوں کے اندر تیز سونگز لگے تھے ۔۔۔۔۔

اویس موقع دیکھ کے حیا کو جوس دینے لگا ۔۔۔۔۔کیوں کے اویس کو پتا تھا کے حیا ڈرنک نہیں پیتی ۔۔۔۔

حیا بغیر کچھ بولے خاموشی سے جوس پینے لگی شاید غصے سے اسکا گلا سکھ گیا تھا ۔۔۔۔۔

تبھی اویس سمیر کو آنکھ مارتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔تیرا کام ہو گیا ۔۔۔۔۔۔

جوس پینے کے بعد حیا کا سر چکرانے لگا ۔۔۔۔

تبھی سمیر نے اکے اسے تھام لیا ۔۔۔۔

اور بے ہوش پڑے حیا کے وجود کو اپنے بازو میں اٹھاتا ہوا اسے کمرے تک لایا

فلیٹ کا لاک اویس نے کھولا تھا تو آزھاد حیا کو لیتے ہوئے اندر داخل ہوا ۔۔۔۔۔

"جاو اویس باقی کا کام مکمل کرو اور اب کی بار کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے ۔۔۔۔۔

اویس کو آب کسی بھی طرح جیا کو سمبھلنا تھا ۔۔۔۔۔

سمیر اویس کو دیکھتا ہوا آرڈر دینے لگا۔۔۔ اویس یس کہہ کر روم سے نکل گیا

سمیر حیا کو بیڈروم میں لاکر بیڈ پر لٹا چکا تھا۔۔۔۔۔

حیا آنکھیں بند کئے بیڈ پر لیٹی ہوئی ابھی بھی بے ہوش تھی مگر ساتھ ساتھ وہ سمیر کے ہوش بھی اڑا رہی تھی،،

سمیر نے فرسٹ ٹائم اسے اتنا تیار سجا سنورا دیکھا تھا،، بیڈ پر حیا کے پاؤں کے پاس بیٹھ کر وہ حیا کے پاؤں میں موجود سینڈل کے اسٹیپ کھولنے لگا

"دیکھا اپنی ضد کا انجام، یہ ہوتا ہے بات نہ سننے کا نتیجہ۔۔۔

کتنے پیار سے سمجھا رہا تھا ۔۔۔مگر تم میں بہت غرور ہے ۔۔۔۔

سمیر حیا کے بےحد قریب آ کر اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے باتیں کر رہا تھا۔۔۔ وہ حیا کا ملائم گال پر اپنی انگلیاں پھیرتا ہوا اس سے کھ کر روم سے نکل گیا ۔۔۔۔۔۔


( ناول :- جاری ہے )
 

Aiman Shah Bangash
About the Author: Aiman Shah Bangash Read More Articles by Aiman Shah Bangash: 14 Articles with 12905 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.