پاکستان کے تعلیمی ادارے اور جمعیت کا کردار

اپنی بات کرنے سے پہلے میں چند ضرب المثل دینا چاہوں گا تاکہ میں جو کہنا چاہتا ہوں وہ میرے قارئین کواچھی طرح سے سمجھ آ سکیں۔ اردو کی ایک مشہور ضرب المثل ہے کہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس، اسی طرح سرائیکی کی بھی ضرب المثل ہے کہ "ڈکھی ہوئی جاہ ول ول ڈکھی دے ھ" اسی طرح ایک اور ضرب المثل مشہور ہے کہ "سہن اپڑیں کلے دے زور دے کڈدے"اردو ضرب المثل کا مطلب میرے قارئین کو سمجھ آگیا ہوگا اسی طرح پہلی سرائیکی کہاوت کا بھی یہی مطلب ہے کہ جو کوئی اگر پہلے پریشان یا تکلیف میں ہے تو وہ بار بار تکلیف میں آتا ہے جبکہ دوسری کہاوت کا مطلب ہے کہ کوئی بھی انسان اس وقت تک نہیں اچھلتا یا بڑے بڑے کام کرتا جب تک کہ اس کو کوئی اچھی سپورٹ نہ ہو۔ انہی کے ساتھ ایک اور کہاوت بھی قارئین کیلئے پیش خدمت ہے کہ " پانڑیں ہمیشہ جھک دو واہندے"اس کہاوت کا مطلب ہے کہ مار، بے عزتی، نفرت ، الزامات ہمیشہ چھوٹے طبقے کے حصہ میں ہی آتی ہے۔

اب میں اپنے اصل مدعے کی جانب آتا ہوں ۔ گزشتہ دنوں اسلامک انٹر نیشنل یونیورسٹی میں ایک افسوسناک واقعہ پیش آیا جس کی جتنی مذمت کریں کم ہے مگر کب تک ایسا چلے گا۔ہم کب تک مذمت کرتے رہیں گے۔کیا ایسے واقعات کو روکنے والا کوئی نہیں۔ اس واقعہ سے قبل بھی تعلیمی اداروں میں کئی ایسے واقعات رونما ہو چکے ہیں مگر افسوس ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں، حکومت، ہمارا میڈیا، پولیس حتی کہ کوئی بھی ادارہ اپنی ذمہ داریاں اچھے انداز سے نہیں نبھاتا یہی وجہ ہے کہ ایسے واقعات مسلسل رونما ہورہے ہیں۔

اسلامک انٹر نیشنل یونیورسٹی میں رونما ہونے والا واقعہ اصل میں تھا کیا۔ جمعیت کے طلباء نے ایک پروگرام ترتیب دے رکھا تھا جس میں لیاقت بلوچ صاحب و دیگر نامی گرامی احباب بھی شریک تھے۔ سرائیکی سٹودنٹس کونسل نے اس پروگرام کے خلاف احتجاج کیا کہ یہ رولز اینڈ ریگولیشن کے خلاف ہے اگر ایسا ہی ہے تو پھر ہمارے لیے پابندیاں کیوں ۔؟؟؟ میرے ذاتی خیال میں ان کی بات جائز ہے ۔ میری سٹودنٹس کونسل کے ایک ممبر سے بات ہوئی انہوں نے کہا کہ بے شک ہمارا احتجاج جمعیت کے پروگرام کے قریب ہی تھا مگر ہمارا احتجاج انتظامیہ کے خلاف تھا ہم نے جمعیت کے خلاف تو کوئی قدم نہیں اٹھایا تھا۔ سرائیکی سٹوڈنٹس کونسل کے طلباء نے جیسے ہی احتجاج شروع کیا جمعیت کے طلباء نے وہاں آکر ان کے ساتھ جھگڑا شروع کر دیا ۔ ظاہر سی بات ہے جمعیت کے پروگرام میں لیاقت بلوچ صاحب جیسی پرسنیلٹی موجود تھی تو جمعیت کے طلباء کو مزید اہمیت ملنی تھی اور انکی جرات اور فوں فاں بھی کچھ الگ سی ہونی تھی جبکہ سرائیکی سٹوڈنٹس کونسل کا کون وارث تھا ۔یہی وجہ تھی کہ سرائیکی طلباء پر جمعیت کے طلباء نے دھاوا بول دیا اور انہیں زخمی کیا۔ میڈیا نے بھی اپنی بریکنگ نیوز حاصل کی کہ لیاقت بلوچ کے پروگرام پر غنڈوں نے حملہ کر دیا۔اور ہماری روائتی پولیس کو بھی گاہک مل گئے۔

اب بات کرتے ہیں جمعیت کے سابقہ کارناموں کی تو جناب یہ9اکتوبر 2001 ؁ء کی بات ہے کہ بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی میں جمعیت کے طلباء نے ایک سٹوڈنٹ کو قتل کیا۔ اسی طرح جمعیت کے 5طلباء کو پولیس نے اس وقت گرفتار کیا جب انہوں نے پی ایس ایف کے 4طلباء کو تشدد کا نشانہ بنایا یہ واقعہ 2فروری 2008کو بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں پیش آیا۔ جبکہ 8مارچ 2014کو جمعیت کے طلباء نے شیعہ طلباء کو شناخت کر کے چن چن کر ان پر تشدد کیا یہ واقعہ جامعہ کراچی کا ہے۔ یہاں پر ایک مشہور ترین واقعہ پیش کرتا چلوں جو شاید ملک کے تمام افراد کے علم میں ہویہ واقعہ 15اپریل 2017 کا ہے جب ایک طالب علم مشال خان کو دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا یہ بات سبھی جانتے ہیں اور ملکی میڈیا پر بھی یہ خبر لگ بھگ ایک ماہ تک گردش کرتی رہی اور میڈیا نے ہی بتایا تھا کہ اس میں بھی جمعیت کے طلباء ملوث ہیں اور 23جنوری 2018کو جمعیت کے طلباء نے غنڈہ گردی کی اور الٹا سرائیکی طلباء کو ہتھکڑیوں کے زیور پہنا دئیے گئے یہ واقعہ پنجاب یونیورسٹی لاہور کا ہے ۔30جون 2019کو پیلے کالج لاہور میں پنجاب کونسل کے کوآرڈی نیٹر اور گارڈ پر حملہ کیا گیا پشتونوں نے صلح کرانا چاہی تو انکی بھی درگت بنا دی گئی الٹا پشتونوں کو پی ٹی ایم کے ارکان بنا کر چکر دیا گیا۔

اگر چند گزشتہ ماہ کی بات کریں تو بھی بہت سارے واقعات رونما ہوئے ہیں اور اکثریت میں جمعیت ہی شامل ہے 24ستمبر 2019کو پنجاب یونیورسٹی میں بلوچ طلباء پر حملہ کیا جس کا گورنر پنجاب نے نوٹس بھی لیا۔ تحقیقات بھی کرائی گئیں پتہ نہیں پھر کیا ہوا۔ کہاں سے دباؤ آیا میڈیا بھی خاموش اور حکومتی ارکان بھی خاموش ہو گئے۔ پھر 12دسمبر آیا جو سرائیکی سٹوڈنٹس کونسل کے طلباء کی شامت کا سورج لے کر طلوع ہوا۔ جمعیت کے طلباء نے سرائیکی سٹوڈنٹس پر بیہمانہ تشدد کیا اور ایم این ایز اور سینیٹرز کا سہارا لے کر الٹا ایف آئی آر بھی درج کرا دی جو کہ حقائق کے بالکل مترادف ہے ۔تازہ ترین اطلاعات کے مطابق جمعیت کے طلباء نیپھر پشتون طلباء کی ٹھکائی کر دی ہے ۔

ایک طالب علم سے اس متعلق بات ہوئی کہ آخر جمعیت والے یہ سب کیوں کرتے ہیں تو اس نے بتایا کہ یہ سب یونیورسٹی پر ہولڈ جمانا چاہتے ہیں۔ مزید سوالات پر پتہ چلا کہ بہت سے معاملات ہوتے ہیں جیسے ہاسٹلز میں من پسند کمرے لینا، پروفیسرز کے تبادلے، امتحانات میں سپرنٹنڈنٹ، نگران وغیرہ اپنے مرضی کے لگوانا اگر کوئی غلطی سے آجائے تو اس نگران یا سپرنٹنڈنٹ کو کمرہ امتحان سے ایک دو تین کر دینا اور پیپرز میں نقل یا پیپر کو پیپر ہونے سے پہلے لیک کرانا یہ ان تمام معاملات کیلئے کرتے ہیں۔ یہ سب باتیں میں حیران و پریشان ہو کر سن رہا تھا کہ یہ آخر یونیورسٹیوں میں کیا پڑھتے ہونگے پھر ہم جیسے لوگ تو جب پیپر دیتے تھے تو سپرنٹنڈنٹ یا نگران کے نام سے ہی ڈرتے تھے۔نگران کے کمرہ میں داخل ہونے پر ایسے لگتا تھا جیسا ہماری سانس ہی اٹک گئی ہو۔ مگر ہمت ہے ایسے طلباء کی ۔

اگریونیورسٹیز میں یہی صورتحال ہے تو یہ وہاں یا علم حاصل کرتے ہونگے۔ انتظامیہ کی کیا ذمہ داریاں ہیں ایسے افراد یا گروہ تو انتظامیہ کی بھی ایسی تیسی کر دیتے ہونگے۔یہ وائس چانسلرز یا پھر پروفیسرز جو تصاویر میں بڑے عالم فاضل نظر آرہے ہوتے ہیں ان پر تو بہت سارے سوال کھڑے ہو جاتے ہیں۔اس کے بعد حکومت ہے اگر یونیورسٹیز یا کالجز کی انتظامیہ انتظام نہیں سنبھال سکتی ایسے عناصر کو نہیں روک سکتی ان پر قابو نہیں پاسکتی تو حکومت کہاں ہے۔ حکومت کیا کر رہی ہے۔یا پھر حکومت کا بھی بس صرف ان پر چلتا ہے جن کا کوئی ولی وارث نہیں جن کی خیر خیریت پوچھنے والا کوئی حکومتی نمائندہ نہیں، جن کو کسی ایم این اے، وزیر ،مشیر یا سینیٹر کی کوئی سپورٹ نہیں۔

یہ کہتے ہوئے مجھے افسوس ہو رہا ہے کہ جماعت اسلامی کے کرتا دھرتا سرکار ٹیڑھی ٹوپی اور بدمعاش بلوچ نے بھی اپنے غنڈوں جیسے طلباء کی ہی سپورٹ کی انہیں کم از کم معاملہ کو صلح کی طرف لے جانا چاہیے تھا مگر افسوس انہیں جماعت اسلامی کے اس پر تشدد ونگ اسلامی جمعیت طلباء کے سابقہ کارنامے بھول چکے ہیں یا جان بوجھ کر نظر انداز کر رہے ہیں۔ راقم نے لگ بھگ دس واقعات کا ذکر جس میں ہر جگہ جمعیت شامل ہے ۔ جمعیت کے غنڈوں نے ایک کام کمال کیا کہ سندھی، مہاجر، بلوچ، پشتون سرائیکی کسی میں فرق نہیں کیا سب کو روندا سب کی دھلائی کی اور وہ کیا بات ہے اب وہ معصوم بھی ہے اور ان کے انتہائی، نیک ، پارسا، حاجی ، غازی ، نمازی لیڈران بھی انہیں مظلوم بنا کر پیش کررہے ہیں۔

مجھے معلوم ہے کہ یہ سب لکھنے کے بعدجماعتی اور جمعیت کے انتہائی دین دار، شریف النفس، نمازی میرے سوشل میڈیا یا پھر جہاں بھی ہونگے کیا کیا خرافات بکیں گے مگر مجھے پرواہ نہیں کیوں کہ میرے بابا جو کہ میڈیا سے ہی وابستہ ہیں انہوں نے ہمیں ایک ہی چیز سکھائی ہے کہ بیٹاحالات جیسے بھی ہوں مت گھبرانا سچ ہی لکھتے جانا ۔ یہاں پر میں حکومت پاکستان خصوصاً عمران خان سے گزارش کرونگا جو خود کو سرائیکی بھی کہتے ہیں کہ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں سرائیکی طلباء کے ساتھ جو زیادتی ہو رہی ہے اسے خود دیکھیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے اور اسلامی جمیعت طلباء کے سابقہ ریکارڈ پر بھی نظر دوڑائیں اور ان کو لگام دیں ورنہ یہ نہ ہو کہ حالات بہت خراب ہو جائیں اور بہت دیر ہو جائے۔یہاں پر ہمیشہ کی طرح اسی دعا کے ساتھ اپنے قارئین سے اجازت کا طلبگار ہوں کہ اﷲ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔ آمین
راقم کا تعلق سرائیکی وسیب کے ضلع مظفر گڑھ سے ہے
 

Imran Zaffar
About the Author: Imran Zaffar Read More Articles by Imran Zaffar: 24 Articles with 23654 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.