گمشدہ راہی

ایک روز میں فجر کی نماز کے لیے چٹاگانگ کی ایک مسجد میں گیا جسے جامع مسجد کے نام سے جانا جاتا ہے ۔ نماز اور دعا کے بعد پہلی صف سے کھڑا ہو کر ایک شخص نمازیوں کی طرف منہ کر کے مخاطب ہوا (میں چونکہ کافی عرصہ بنگلہ دیش میں رہا ہوں اس لیے بنگلہ زبان اچھی طرح سمجھ لیتا ہوں)سب سے پہلے اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہنا شروع کیا جس کا اردو میں ترجمہ کچھ یوں ہے ۔ میرا نام پروفیسر علیم الدین ہے اور میں چٹاگانگ کالج میں ہسٹری پڑھاتا ہوں،مجھے ایک سوال جو ہر وقت میرے ذہن کو جھنجوڑتا رہتا ہے اور لاکھ سوچ بچار کے باوجود میں ا س سوال کا جواب نہیں پا سکا۔

میں ہر روز ایک نئی مسجد میں فجر کی نماز پڑھ کر نمازیوں سے اس سوال کا جواب پوچھتا ہوں مگر آج تک دو سال کے عرصے میں مجھے کسی نے اس سوال کا ایسا جواب نہیں دیا جس سے میرا ذہن مطمئن ہو سکے ۔!تھوڑی دیر کے لیے وہ خاموش ہو کر نمازیوں کو یوں دیکھنے لگا جیسے استاد اپنے طالب علموں کو دیکھ کر اندازہ لگا رہا ہو کہ ان میں کونسا ذہین طالب علم ہے جو میرے سوال کا جواب دے سکے گا ۔

ادھر سب نمازی اس کی طرف غور سے دیکھ کر اندازہ لگا نے کی کوشش کر رہے تھے ، میں بھی یہی سوچ رہا تھا کہ دیکھنے میں تو یہ شخص پاگل نہیں لگتا ۔ پھر کیا یہ کسی مالی مشکل میں ہے یا پھر زیادہ پڑھ لکھ کر بھی لوگ پاگلوں جیسی حرکتیں کرنے لگتے ہیں یہ انہی میں سے ایک ہے اور سچی بات تو یہ ہے کہ میں اسے کچھ اسی قسم کا آدمی سمجھا جو انگلش میں اچھی خاصی تقریر کر کے لوگوں پر اپنی پڑھائی کا رعب جماتے ہیں بعد میں دیوانوں جیسی حرکت کر کے چل دیتے ہیں ۔ مگر جب اس نے اپنا سوال دہرایا تو سب نمازیوں کو چپ سی لگ گئی، کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے سوال کا کیا جواب دے ۔سب اسے خاموشی سے دیکھ رہے تھے ، کچھ لوگ تو خاموشی سے جوتا اٹھائے اسے عجیب نظروں سے دیکھتے ہوئے گھر کے راستے پر ہو لیے کچھ تلاوت میں مشغول ہو گئے۔

آپ پوچھیں گے کہ آخر وہ کیا سوال تھا جس کے لیے اتنی تمہید باندھی جا ر ہی ہے ؟؟

سوال یہ تھا کہ ”آپ سب نمازی مل کر مجھے وہ راستہ بتائیں جس پر چل کر سب فرقوں کے مسلمان یکجا ہو سکیں کوئی شیعہ نہ ہو کوئی سنی نہ ہو کسی کو وہابی نہ کہا جائے کسی کو دیوبندی نہ کہا جائے، کوئی کسی پر انگلی نہ اٹھائے کو ئی کسی کو برا نہ کہے، بس مجھے وہ راستہ بتا دیجئے میں مطمئین ہو کر چلا جاؤں گا اور سب کو اسی راستے پر بلانے کی کوشش کروں گا۔

سب لوگ اپنی اپنی جگہ سوچنے لگے کہ ایسا کونسا راستہ ہے ؟ اتنے میں کچھ تبلیغی جماعت والے لوگ جو حسب معمول ایک طرف کتاب لے کر بیٹھے تھے انہوں نے موصوف کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تو علیم الدین صاحب نے وہیں کھڑے کھڑے جواب دیا بھائی آپ لوگوں کے ساتھ بھی میں تین دن لگا چکا ہوں مگر مجھے میرا گوہر مقصود حاصل نہیں ہوسکا ۔ آپ کا راستہ قابل تحسین ہے مگر مجھے وہ راستہ چاہیے جس پر سب فرقے ایک ساتھ چل سکیں!!!

وہیں پر ایک گورے چٹے عمر رسیدہ صاحب توانا جسم سفید لمبی ریش سر پر سفید رنگ کا رومال جیسے مولوی صاحبان اوڑھتے ہیں جسم پر کالے رنگ کا عربی لمبا جبہ پہنا ہوا، میں نے انکو ہمیشہ اگلی صف میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا، سب پہلے مسجد میں آتے اور سب سے آخر میں جاتے۔ آتے جاتے کبھی کبھی سلام دعا ہو جاتی ،ان کی پروقار شخصیت نے مجھے ان کا تعارف حاصل کرنے پر مجبور کر دیا ، معلوم ہوا کہ وہ پاکستانی فوج میں ائر فورس میں کپٹن کے عہدے پر تھے پھر ریٹائر ہو نے کے بعد صرف اور صرف مسجد کے ہو کر رہ گئے، اردو بھی بہت اچھی بول لیتے تھے ،پاکستانی ہونے کے ناطے مجھ سے بڑے پیار سے باتیں کرتے اپنی پرانی یادیں تازہ کرتے اپنے فوجی دوستوں کا بڑے پیار سے نام لیتے خاص کر اپنے ایک سینئر کا نام لیتے کہ ایک دفعہ میری بیوی کو بچہ ہونے والا تھا گھر سے ایمرجنسی کا ٹیلیگرام آیا میں اس وقت کراچی میں تھا َ۔

جب چھٹی کے لیے بڑے صاحب کے پاس گیا تو انہوں نے ٹیلیگرام دیکھ کر کہا، جوان فوراً جنگی طیارہ لے کر چٹاگانگ پہنچو دیر نہیں ہونی چاہیے اور میں ایک جیٹ طیارہ لے کر یہاں پہنچا تو اللہ تعالی نے مجھے بیٹا عطا کیا جس کا نام میں نے اپنے بڑے صاحب کے نام پر یوسف خان رکھا ، وہ بات اب بھی جب میں اپنے بیٹے سے کرتا ہوں تو اس کا سینہ فخر سے پھول جاتا ہے۔

بات ہو رہی تھی علیم الدین صاحب کے سوال کی کیپٹن صاحب کا تو ضمنی طور پر ذکر آ گیا ، یہ بھی ضروری تھا کہ بہت سے لوگ جو یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ بنگالی سب خراب ہوتے ہیں ایسا نہیں ہے اچھے خراب مل کر ہی تو دنیا ہے ،اچھی اور تعریف کے قابل تو صرف اور صرف اللہ پاک کی ذات ہے۔

کیپٹن صاحب نے علیم الدین کو اپنے پاس بلا کر پیار بٹھایا اور فرمانے لگے پروفیسر صاحب اس طرح کا سوال وہ کرتا ہے جس مسلمان کے دل میں مسلمانوں کے لیے بہت درد ہوتا ہے یا پھروہ غیر مسلم کرتا ہے جو اسلام کے لیے دلوں میں کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے کہ دیکھو یہ مسلمان تو آپس میں لڑتے مرتے رہتے ہیں غالباً تم بھی اسی پروپیگنڈہ کے شکار لگتے ہو ۔ حالانکہ فرقے ہر قوم میں ہیں کیا ہندو کیا عیسائی یا کوئی اور بات وہی ہے کہ سامنے والے کی آنکھ کا بال نظر آجاتا ہے اپنی آنکھ کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا۔ پھر پوچھا آپ کتنے بھائی ہو ؟ انہوں نے جواب دیا ہم لوگ چار بھائی ہیں علیم الدین کے بولنے کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ بھی کیپٹن صاحب کی شخصیت سے متاثر ہے، میں بھی تجسس بھرا چہرہ لے کر ان کے پاس جا بیٹھا کہ مسئلے کا حل جاننے کا اشتیاق تھا۔ تو کیا چاروں بھائی پروفیسر ہو ؟ کیپٹن صاحب نے سوالیہ نظروں سے پروفیسر صاحب کو دیکھتے ہوئے پوچھا ، جواب نہیں میں تھا ، ایک بھائی وکیل ہے ایک گاﺅں میں باپ دادا کی زمین کی دیکھ بھال اور کھیتی باڑی کرتا ہے غرض چاروں بھائی علیحدہ علیحدہ کام کرتے ہیں ، الگ الگ گھروں میں رہتے ہیں۔

جب کوئی دکھ مصیبت آتی ہے تو کیا کرتے ہو ؟ کیپٹن صاحب نے ذرا چھبتی ہوئی آنکھوں سے دیکھتے ہوئے پھر سوال کیا؟

بولے ایک ساتھ ہو جاتے ہیں اور مل جل کر اس مصیبت کا مقابلہ کرتے ہیں۔

بس یہی تمہارے سوال کا جواب ہے۔ پگلے اللہ پاک اگر چاہتا تو کیا سب کو مسلمان پیدا کر دیتا ،سب کو امیر بنا دیتا ، سب گورا پیدا کر دیتا کوئی کالا نہ ہوتا۔چاہے تو سب لڑکیاں ہی پیدا ہوں ،وہ چاہے تو سب لڑکے ہی پیدا ہوں الغرض وہ قادر مطلق ہے وہ جو چاہے کر سکتا ہے یہ نظام ہستی کو چلانا اسی کا کام ہے اگر کوئی مساوات کی بات کرتا ہے تو وہ خدا کے غضب کو آواز دیتا ہے۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے
”ملک ماہی دا وسے کوئی رووے تے کوئی ہسے“ (مُلک پیارے کا بستا ہے کوئی روتا ہے کوئی ہنستا ہے)

اللہ سے دعا ہے کہ ہم سب کو گمراہی کے گڈے میں گرنے سے بچائے۔ آمین
H.A.Latif
About the Author: H.A.Latif Read More Articles by H.A.Latif: 58 Articles with 83990 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.