بسم اللہ الرحمن الرحیم
السلام علیکم ورحمتہ اللہ !
آپ تما م دوستوں سے گزارش ہے کہ اس تھریڈ کو آخر تک ایک دفعہ ضرور پڑھیے گا۔
عبد اللہ ہسپتال میں پٹیوں میں جکڑا لیٹا تھا۔۔۔وہ اپنے پورے ہوش و حواس
میں تھا۔۔۔لیکن ہلنے جلنے سے معذور تھا۔۔۔عبد اللہ اپنے ماضی میں کھویا ہوا
تھا ۔۔۔اس کو اپنے بچپن کا زمانہ یاد آرہا تھا۔۔۔جب وہ اپنے گھر میں سب سے
لاڈلہ تھا۔۔۔اس کے والدین اس کی جائز نا جائز تمام خواہشیں پوری کرتے
تھے۔۔۔اسی وجہ سے وہ تھوڑا ضدی اور خود سر ہوتا جارہا تھا۔۔۔صرف عبداللہ کے
داد جان ہی تھے جو اس کو روکتے اور ٹوکتے رہتے تھے۔۔۔اور جب بھی موقعہ ملتا
اس کو سمجھانے بیٹھ جاتے۔ ۔۔ہاں عبداللہ اپنے دادا جان کی باتیں ضرور سنتا
تھا ،لیکن مجبوری میں۔۔۔دادا جان عبداللہ کو زیادہ تر قرآن اور حدیث کا درس
دیتے رہتے تھے۔۔۔اور عبد اللہ بس کسی نہ کسی طرح اپنی جان چھڑا کر بھاگنے
کی جستجو میں لگا رہتا تھا۔۔۔
پھر وقت نے کئی کروٹیں لیں اور عبداللہ کی زندگی میں کئی تبدیلیاں آگئیں
۔۔۔ایک تو اس کے دو بھائی بہن دنیا میں آچکے تھے اور دوسری بڑی تبدیلی اس
کے دادا جان اس دنیا سے جاچکے تھے۔۔۔ایک طرف تو عبداللہ کودادا جان کے لمبے
لمبے لیکچر سے جان چھوٹ چکی تھی لیکن دوسری طرف اس کے بھائی بہن کی وجہ سے
والدین کی محبت تینوں بہن بھائیوں میں تقسیم ہو گئی تھی ۔۔۔اور وقت کے
گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک طرف عبداللہ کی بری عادتوں میں اضافہ ہوتا رہا
دوسری طرف اپنے بہن بھائی سے بھی زیادہ نہیں بنتی تھی۔۔۔
پھر وقت نے مزید کروٹیں لیں اور عبداللہ نے جوانی کی حدود میں قدم رکھا۔۔ ۔عبداللہ
بچپن سے ہی پڑھائی میں ذہین تھا۔۔ ۔اور وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی میں ترقیاں
طے کرتا گیا۔۔۔لیکن عبد اللہ کی بچپن کی بری عادتیں اس کی جوانی کے ساتھ
ساتھ ہی چلتی رہیں بلکہ ان میں شراب اور شباب کا بھی اضافہ ہوگیا تھا۔۔۔پھر
بالاخر ایک وقت میں اس نے اپنی پسند کی شادی بھی کرلی۔۔۔اور ساتھ ساتھ ایک
بزنس بھی شروع کردیا تھا۔۔۔ذہانت نے اس کا بڑا ساتھ دیا اور بزنس میں تیزی
سے ترقیوں کی منازل طے کرتا گیا۔۔۔لیکن بے ایمانی دھوکہ اور جھوٹ اس کی
فطرت میں شامل ہوچکا تھا۔۔۔پھر ساتھ ہی اس کے دو بیٹے بھی ہوگئے ۔۔۔اور
دوسری طرف اس کی بہن اور بھائی کی بھی شادیاں ہوگئیں۔۔۔اور ایک وقت آیا جب
اس کے ماں باپ بھی دنیا سے چلے گئے۔۔ ۔جب جائیداد کے بٹوارے کی بات آئی تو
اس نے کسی نہ کسی طرح جعسازی کر کے ساری جائیداد اپنے نام کروالی۔۔۔اور
اپنے بہن بھائی کو پھوٹی کوڑی بھی نہ دی۔۔۔بس وہ اور اس کی بیوی چاہتے تھے
کہ کسی نہ کسی طرح اپنے بچوں کا مستقبل روشن کردیں ۔۔۔ وقت گزرنے کے ساتھ
ساتھ بچے جوان ہوگئے۔۔ ۔اور اس نے اپنے بچوں کی شادیاں بھی کردیں۔۔۔عبداللہ
کا بزنس دن دونی رات چوگنی ترقی کرتا رہا۔ عبداللہ کا شمار شہر کے چند بڑے
بزنس مین میں ہوتا تھا۔۔۔پھر ایک دن عبداللہ کی بزنس کی ایک بہت بڑی ڈیل
تھی جس کی میٹنگ میں اس کو جانا تھا۔۔۔وہ اپنی سوچ میں گم تھا کہ کسی طرح
اگر اس کو یہ ڈیل مل جائے تو اس کا شمار ملک میں بڑے بزنس مین میں
ہوگا۔۔۔اچانک ایک دم اس کے ڈرائیور نے بہت تیزی سے بریک لئے اور گاڑی ایک
دم گھوم سی گئی لیکن دیر ہوچکی تھی۔۔۔سامنے آنے والا بے قابو ٹرک عبداللہ
کی گاڑی کو روندتا ہوا ایک دیوار میں جا گھسا۔۔۔ اور عبداللہ کی آنکھوں میں
اندھیرا چھا گیا۔۔۔اور وہ بے ہوش ہوگیا۔۔۔جب اسے ہوش آیا تو وہ اسپتال کے
بیڈ پر لیٹا تھا۔۔۔ اس نے ہلنے کی کوشش کی لیکن سارے بدن میں ایک تیز درد
کی لہر دوڑ گئی۔۔۔ اس کے کانوں میں بڑے بیٹے کی آواز آئی بابا کو ہوش
آگیا۔۔۔لیکن عبد اللہ نے بولنے کی کوشش کی تو وہ بول نہ سکا ۔۔۔ اس نے نظر
گھما کر دیکھا تو اس کی دونوں بہو بیٹے اور بیوی کھڑے تھے۔۔۔اچانک اس کے
سینے میں تیز درد اٹھا اور تیز تیز سانسیں لینے لگا۔۔۔چھوٹا بیٹا چلایا
ڈاکٹر دیکھیں بابا کو کیا ہوا۔۔۔ڈاکٹر بھاگ کر آیا اس نے چیک کیا۔۔۔پھر عبد
اللہ کے کانوں میں ڈاکٹر کی آواز آئی کہ ہم نے ان کی رپورٹ دیکھیں ہیں ان
کی ایک پسلی ٹوٹ کر دل کے قریب گھسی ہوئی ہے۔۔۔ اوراس پوزیشن میں ہم ان کے
ہارٹ کا آپریشن نہیں کر سکتے اور ویسے بھی ان کے بچنے کا چانس بہت کم ہے۔
یہ کیا ؟؟؟عبد اللہ کے کانوں پر تو یہ بات بجلی بن کر گری۔عبداللہ نے تو آج
تک کبھی وہم اور گمان میں بھی نہ سوچا تھا کہ ایک دم یقینی موت اس کے سامنے
آکر اس طرح کھڑی ہوجائے گی؟اب تو عبد اللہ کی اندرونی کیفیات میں زلزلہ
آگیا۔۔۔اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ اٹھ کر بھاگ جائے۔کبھی سوچنے لگتا
ہے کاش یہ خواب ہو۔۔۔لیکن یہ تو حقیقت ہے ۔۔۔بالکل اصل حقیقت۔۔۔ایک دم اس
کا ذہن بچپن میں دادا جان کے بتائے ہوئے قرآن اور حدیث کے درس کی طرف
چلاگیا۔۔۔دادا جان بتاتے تھے کہ ایک نہ ایک دن سب نے مرنا ہے۔۔۔اورموت کیسے
آتی ہے۔۔ ۔روح کیسے نکالی جاتی ہے۔۔۔کتنی تکلیف ہوتی ہے۔۔۔جیسے کسی زندہ
بکرے کی کھال اتاری جارہی ہو۔۔۔عبداللہ نے اپنی ساری زندگی کیسے گذاری وہ
سب اس کے سامنے آگئی ۔
یاد آیا دادا جان نے یہ بھی بتایا تھا کہ برے آدمی کی روح کس قدر تکلیف سے
نکالی جاتی ہے۔۔۔عبد اللہ اند ر ہی اندر کانپنے لگا۔۔۔ میرے ساتھ اب ایسے
ہی ہونے والا ہے۔کیا ہوگا میرا ؟کیا میں یہ تکلیف برداشت کر سکوں گا ؟
لیکن مسئلہ یہیں تو نہیں ختم ہوگا ۔۔۔دادا جان نے تو یہ بھی بتایا تھا کہ
جب مردے کو قبر میں دفنا دیا جاتا ہے۔۔۔تو قبر میں منکر نکیر آجاتے ہیں۔۔ ۔جو
سوال جواب شروع کرتے ہیں ان کے ہاتھ میں ایساہتھوڑا ہوتا ہے کہ وہ جب مارتے
ہیں تو مردہ زمین کے کتنے ہی اندر چلا جاتا ہے۔۔۔پھر دادا جان یہ بھی بتاتے
تھے کہ ناجائز راستوں سے کمائی ہوئی دولت کیسے سانپ اور بچھو بن کر مردے کو
ڈستے ہیں۔۔۔اور قبر میں جہنم کی کھڑکی کھول دی جاتی ہے۔۔۔اور قبر کیسے مردے
کو دباتی ہے کہ ایک پسلی دوسری پسلیوں میں گھس جاتی ہے۔۔۔عبداللہ ہلنے جلنے
سے معذور تھا لیکن یہ باتیں سوچ کر اس کے اندر تو اسی زبردست ہلچل مچ گئی ،وہ
بے چین ہوگیا۔۔۔چیخنا چاہتا تھا لیکن آواز نہیں۔۔ ۔دھاڑیں مار مار کر رونا
چاہتا تھا ،لیکن آنکھ میں آنسو نہیں۔۔۔عبد اللہ بری طرح کانپتے ہوئے سوچ
رہا ہے کہ دنیا میں تو میرے ذرا سا سر میں بھی درد ہوتا تھا تو میری بیوی
بچے کتنی خدمت کرتے تھے ڈاکٹر بلاتے تھے۔۔۔دوائی دیتے تھے۔۔۔ لیکن اس تکلیف
پر کون میرے زخم پر مرہم رکھے گا؟کون تیماداری کرے گا؟ کیا یہ تکلیفیں صرف
ایک دو دن کے لئے ہوں گی؟نہیں نہیں اس کو تو یاد آیا دادا جان نے بتایا تھا
کہ یہ عذاب تو قیامت تک ملتا رہے گا ۔۔۔اور نہ جانے قیامت کب آئے گی ؟ایک
سال ،دس سال،سو سال،ہزار سال،نہ جانے کب قیامت آئے گی اور کب تک یہ عذاب
چلتا رہے گا۔۔۔لیکن کیا اس کے بعد جان چھوٹ جائے گی ؟عبد اللہ کے اندر سے
کوئی چلایا کہ نہیں نہیں ہر گز نہیں پھر دادا جان نے بتایا تھا کہ قیا مت
میں میدان حشر ہوگا۔۔۔اور وہ ایک دن دنیا کے پچاس ہزار سال کے برابر ہوگا۔
۔۔سب لوگ ایک میدان میں جمع ہوجائیں گے ۔۔۔سوا نیزے پر سورج ہوگا،زمین
تانبے کی ہوگی۔۔۔کھوپڑیاں ابل رہی ہوں گی۔۔۔یااللہ !کیا ایسے کوئی آدھا
سیکنڈ بھی گزار سکے گا ؟اور کہاں پچاس ہزار سال کا دن ؟اور پھر ہر شخص اپنے
اپنے اعمال کا حساب دے گا۔
لیکن پھر کیا جان چھوٹ جائے گی؟عبد اللہ کا یاد آیا کہ دادا جان نے بتایا
تھا کہ اس کے بعد برے لوگوں کا نامہ اعمال الٹے ہاتھ میں دیا جائے گا اور
پھر ایک پل صراط پر سے گزرنا ہوگا۔۔۔جو بال سے زیادہ باریک اور تلوار سے
زیادہ تیز ہے۔۔۔اور اس کے نیچے جہنم۔۔۔اُف جہنم کا دادا جان نے بتایا تھا
کہ جہنم کی آگ کو نہ جانے کتنے سو سال بھڑکایا گیا تو آگ سفید ہو گئی پھر
کتنے سو سال بھڑکایا گیا تو لال ہوگئی اور پھر کتنے سو سال بھڑکایا گیا تو
کالی ہوگئی۔۔۔ایسے پل صراط سے گر کر کالی جہنم کی سیاہ آگ میں جلنا۔
(میرے اللہ تو ہم سب کو محفوظ فرمانا۔ آمین)
یہ سوچ کر عبداللہ کا بال بال کانپ رہا تھا کہ میرا کیا انجام ہونے والا ہے
؟اچانک اس کے سینے میں ایک اور تیز درد اٹھا اور اس کی سانسیں اکھڑنے لگیں۔
ان اکھڑتی سانسوں کے ساتھ نزع کی حالت میں عبداللہ اب یہ دنیا کی زندگی کی
آخری سوچ میں تھا کہ اب سے کچھ دیر بعد میری زندگی ختم ہوجائے گی۔۔۔اب میرے
ساتھ وہی سب کچھ ہونے والا ہے جیسا کہ قرآن پاک اور احادیث پاک میں بتا یا
گیا ہی جو میرے دادا جان سے بتایا تھا سمجھایا تھا لیکن میں نے سب کچھ بھول
بھال کر اپنے ساری زندگی جائز نا جائز ،عیش و عشرت میں گذار دی۔۔۔کاش کہ یہ
سب خواب ہو ۔۔۔یاکاش مجھے تھوڑا وقت مل جائے ۔کاش !کاش!کاش!
لیکن دوستوں یہ وقت دوبارہ نہیں ملتا۔اور عبد اللہ کی آنکھیں بند ہوگئیں ۔اور
اس کی روح پرواز کر چکی تھی۔اور عبد اللہ اپنے اس سفر کی جانب چل پڑا جس
سفر پر تمام انسانوں نے ایک نہ ایک دن جانا ہے ۔
ہر انسان کا ایک وقت مقرر ہے۔انسان دنیا میں آتا ہے تو اس کو لازمی موت کا
ذائقہ چکھنا پڑتا ہے۔نہ جانے اس دنیا میں کتنے لوگ آچکے ہیں بڑے بڑے
بادشاہ،طاقتور ،چھوٹے ،بڑے ،غریب ،امیر،نیک و بد،کافر ،مشرک سب کے سب نے
اپنے حصہ کا وقت گذارا اور دنیا سے رخصت ہوتے گئے۔
ہم اور آپ بھی یہاں آج یہ تھریڈ پڑھ رہے ہیں۔۔۔کل نہ جانے کس کس نے دیکھنی
ہے اور کس نے قبر کی گود دیکھنی ہے۔۔۔اور آج نہیں تو کل ،نہیں تو دس دن
بعد،یا ایک ماہ بعد،یا ایک سال بعد ،یا دس سال بعد ،یا پچاس سال بعد،یا سو
سال بعد ایک نہ ایک لمحہ ہے جو ہماری زندگی میں بھی ایسا آئے گا۔۔ ۔جو عبد
اللہ کی زندگی میں آیا۔۔۔ عبد اللہ کو تو اتنا کچھ سوچنے کا موقعہ بھی ملا
۔۔۔مگر دوستوں ضروری نہیں ہم سب کو یہ سب سوچنے کا موقعہ بھی ملے ۔۔۔اور
اگر ہمیں اتنا موقعہ بھی ملے تو بھی کس کام کا ؟نزع کے وقت آنے سے پہلے
پہلے ہی کی توبہ قبول ہوتی ہے۔۔۔نزع کا وقت آجانے کے بعد تو توبہ بھی قبول
نہیں ہوتی۔۔۔اور کس کی زندگی میں وہ لمحہ کب آجائے کسی کو خبر نہیں ۔۔۔کسی
کے لئے نزع کا یہ لمحہ کسی حادثے کی صورت میں آسکتا ہے ۔۔۔کسی کے لئے
بیماری کی صورت میں لیکن دوستوں یاد رکھیے کہ یہ لمحہ ہماری زندگی میں ضرور
آنے والا ہے۔۔۔اور اس لمحے کے آجانے کے بعد پچھتاوے سے کچھ نہیں حاصل
ہوگا۔۔۔ہمارے پاس جو وقت ہے وہ آج ہے ،ابھی ہے اسی سیکنڈ ہے۔۔۔ایک بزرگ نے
اس موقعہ کے لئے بہت خوبصورت مثال دی ہے۔کہ جب انسان کے نزع کا وقت آتا ہے
تو اس کی سب سے بڑی خواہش ہوتی ہے کہ کاش اس کو تھوڑی مہلت مل جائے۔لیکن یہ
خواہش اس وقت بے کار ہوتی ہے۔ تو ان بزرگ نے فرمایا کہ آپ یوں سمجھ لیں کہ
آپ کے نزع کا وقت آگیا ہے اور آپ نے دل و جان سے خواہش کی کی آپ کو مہلت مل
جائے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو مہلت دے دی ۔
تو دوستوں کہنے کا مطلب ےہ ہے کہ ہم آج سمجھ لیں کہ ہمارا نزع کا وقت آگیا
تھا اور ہم نے مہلت مانگی اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں مہلت دے دی۔ ۔۔اب ہم نے
اپنی مہلت کے ختم ہونے سے پہلے پہلے وہ تیاریاں کر نی ہیں کہ جب واقعی ہم
پر نزع کا وقت آئے تو پھر ہمیں پچھتاوا نہ ہو کہ اب ہمیں مہلت مل جائے ۔۔۔کیوں
کہ اس کے بعد مہلت نہیں ملے گی۔۔۔اور پھر یاد رکھیے کہ ہم سب بھی عبد اللہ
ہی کی طرح ہیں کہ کہیں ہم دولت کے پیچھے ہیں تو کہیں عزت و شہرت کے پیچھے
ہیں تو کہیں کسی لڑائی جھگڑے کے پیچھے ہیں۔۔۔اور ہماری مقرر کردہ مہلت ختم
ہوتی جارہی ہے۔۔ ۔اور وہ لمحہ کسی بھی وقت آسکتا ہے۔۔۔ پھر آپ خود ہی سوچ
لیں کہ وہ نزع کا وقت،روح کا نکلنا،قبر میں سوال جواب،قبر کا عذاب ،روز
محشر کا حساب کتاب،پل صراط،اور جہنم۔
اور اس کے برعکس اگر ہم اس دنیا وی زندگی میں اپنے نفس پر جبر کر کے اللہ
تعالیٰ کی فرما برداری اور رسول پاک صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل
کریں گے ۔
پھر ہمارے لئے یہ لمحہ کیسا بن سکتا ہے؟جو خوشیوں کی نوید لے کر آئے
گا۔۔۔اور خوشیاں بھی ہمیشہ ہمیشہ کی۔۔۔نعمتیں ہی نعمتیں۔اور نعمتیں بھی
ہمیشہ کی۔۔۔
روح کا آرام سے نکلنا۔۔ ۔فرشتوں کا استقبال۔۔۔قبر میں سوال جواب میں
آسانی۔۔۔عذاب قبر سے نجات۔۔۔قبر میں قیامت تک کے لئے سو جانا۔۔۔پھر محشر
میں اٹھنا۔اور اللہ تعالیٰ کے عرش کے سائے میں جگہ ملنا۔۔۔حساب کتاب میں
آسانی۔۔۔نامہ اعمال سیدھے ہاتھ میںملنا۔۔۔پل صراط پر برق رفتاری سے گذر
جانا۔۔۔جنت پر استقبال۔۔۔نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا مبارک
دیدار۔۔۔نبی کریم صلیٰ اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے آب کوثر۔۔۔جنتیوں
کے حسین و جمیل محل۔
نہایت حسین و جمیل حوریں ۔۔۔نہ کھانے کی فکر۔۔۔نہ کمانے کی فکر۔۔۔نہ بیماری
کی فکر۔۔۔نہ لڑائی جھگڑوں کی فکر۔۔۔آرام ہی آرام
اللہ تعالیٰ کی جنت میں دعوت۔۔۔ حضرت داﺅد علیہ السلام کا کلام سننا۔۔۔حضور
صلیٰ اللہ علیہ وسلم کا کلام سننا جس سے تما م جنتی مدہوش ہوجائیں گے ۔۔۔اور
اس کے بعد اپنے رب العالمین کا کلام سننا جس سے جنت کے در و دیوار جھومنے
لگ جائیں گے۔(سبحان اللہ)
اور جنت کی سب سے بڑی نعمت اپنے رب العالمین،رب کائنات کا دیدار(سبحان
اللہ)اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ عظیم الشان نعمتیں عطا فرمائے۔آمین ثمہ آمین
اس کے بعد اللہ تعالیٰ کی ایک اور بڑی نعمت ۔۔۔اللہ تعالیٰ کی رضا۔۔۔یہ
جنتیوں کے لئے ایک عظیم نعمت ہے ۔کہ اللہ تعالیٰ جنتیوں سے راضی ہوگیا اور
اب کبھی ناراض نہ ہوگا۔سبحان اللہ۔(ےااللہ ! ہم سب کو یہ نعمتیں عطا
فرما۔آمین ثمہ آمین)
دوستوں اس لمحے کے آنے کے بعد دونوں منظر آپ کے سامنے ہیں۔۔۔الحمد للہ ہم
سب مسلمان ہیں۔۔۔اورہم سب کا قرآن پاک اور احادیث پاک پر ایمان ہے۔۔۔تو ہم
سب کو یہ یقین اپنے دل و دماغ میں بٹھا لینا چاہیے کہ ہماری زندگی میں یہ
لمحہ ضرور آنے والا ہے،اور ہم سب کو اس لمحے سے مہلت مل گئی ہے۔۔۔اگلے لمحے
کی ہمیں خود خبر نہیں۔۔۔ بس اب ہم نے اپنی باقی عارضی اور انتہائی مختصر سی
زندگی (آخرت کے ایک دن کے مقابلے میں صرف ڈھائی منٹ کی زندگی)کو اپنے نفس
پر جبر کر کے صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے احکامات کی تابعداری اور رسول پاک
صلیٰ اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق گذارنا ہے۔۔۔دوستوں ہماری آج تک کی
زندگی تو گذر ہی چکی ہے آگے کی کتنی باقی ہے یہ کسی کو نہیں پتہ۔۔۔ہم جو
مال کما رہے ہیں یا جو کچھ کر رہے ہیں وہ اپنے گھر والوں کے لئے کر رہے ہیں
جو چند دن تک ہماری یاد میں روئیں گے اور پھر سب کے سب اپنے کام دھندے میں
لگ جائیں گے۔۔۔اور ہمارے جائز نا جائز کمائے ہوئے مال پر عیش کریں گے ۔
تو ہم کیوں نہ اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو وہ دولت دیں جو ہمارے مرنے
کے بعد نہ صرف ہمارے کام آئے بلکہ ہمارے گھر والوں کے بھی مرنے کے بعد ان
کے کام آئے۔۔۔اور یہی اپنے گھر والوں سے سچی محبت کا تقاضہ ہے۔۔۔لیکن یاد
رکھیے یہ سب کرنے کے لئے اپنی خواہشوں پر جبر کرنا ہے۔۔۔جو آسان کام نہیں
تو مشکل بھی نہیں۔۔۔لیکن اس کا انجام ضرور بہت اچھا اور اچھا بھی ایسا کہ
جس کی اچھائی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے ہے۔۔۔لیکن اگر آپ نے آج پھر ان سب باتوں
کو نظر انداز کیا تو جان لیں کہ آپ چاہیں نہ چاہیں وہ لمحہ آپ کی زندگی میں
قریب سے قریب تر آتا جارہا ہے جو بے خبر ی میں آپ کے سامنے آجا ئے گا اور
اس وقت کا پچھتانا ضائع اور بے کار جائے گا۔۔۔تو اپنے آج کو غنیمت سمجھ
لیں۔۔۔اور اپنی سوچ اور زندگی کا رخ موڑ دیں۔
دوستوں یہ تو ہوا ہمارا انفرادی مسئلہ۔۔۔اب آجائیں ہمارے اجتماعی مسئلہ کی
طرف۔۔۔پورے ملک میں عریانی ،فحاشی،رشوت،سود، بد امنی، کرپشن، جھوٹ،
دھوکہ،لڑائی جھگڑے، قتل و غارت گری ،ہر طرف بے چینی،بے یقینی وغیرہ
وغیرہ۔۔۔دوستوں ےہی ہمارے ملک کے بے پناہ مسائل کی سب سے بڑی وجہ بھی
ہے۔۔۔آج ہم اپنے آس پاس دیکھ سکتے ہیں کہ تقریباً ہم سب ہی موت سے غافل
ہیں۔۔۔اور اس نزع کے وقت سے غافل ہیں جو کسی بھی لمحہ ہمارے سامنے یقیناً
آنے والا ہے۔۔۔جس سے آج تک کوئی بھی نہ بچ سکا۔۔۔دوستوں ہمارے معاشرے میں
اس وقت اس احساس کو جگانے کی شدید ضرورت ہے۔۔۔جب ہمارے معاشرے میں یہ احساس
جاگے گا تو یقینا ہمارا معاشرہ بہتری کی طرف چل پڑے گا۔
یاد رکھیے! معاشرہ کسی آدمی کا یا کسی ادارے کا نام نہیں ہے۔۔۔بلکہ معاشرہ
تو ہم ہیں ۔۔۔آپ ہیں ۔۔۔ہمارے گھر والے ہیں ۔۔۔ آپ کے گھر والے ہیں۔۔۔ہمارے
اور آپ کے ملنے جلنے والے،پڑوسی، دوست ،عزیز ،رشتہ دار ہی تو ہیں۔
ہم جیسے جیسے یہ پیغام اور اس احساس کو اپنے آس پاس کے لوگوں تک پھیلاتے
جائیں گے اور جیسے جیسے لوگوں میں ےہ احساس جاگتا جائے گا ۔۔۔بالکل اس اس
طرح ہم اور آپ اور ہمارے آس پاس کے لوگ اس یقینی” لمحے“ کو ہر وقت یاد رکھ
کر اپنی اپنی اصلاح میں لگتے جائیں گے۔۔۔اور اس کے بعد ان شاءاللہ ہمارے
معاشرے میں سدھار پیدا ہونا شروع ہوتا جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
ثمہ آمین |