میں نے اسلام کیوں قبول کیا؟ پہلی قسط

میں ایک ایسے راجپوت گھرانے میں پیدا ہوا جو ہندومت کے دیوی دیوتاﺅں پر پختہ ایمان رکھتا تھا۔ بچپن ہی سے مجھے مجبوراً مندروں میں جاکر دیوی دیوتاﺅں کی پرستش کرنا پڑی، تاہم میرے ضمیر نے مجھے یہ احساس شدت سے دلانا شروع کیا کہ یہ دیوی یا دیوتا وہ اصل خدا نہیں جو کچھ دے یا لے سکے۔ مگر مجھ میں اپنے والدین کے خلاف بغاوت کی ہمت نہ تھی جو کہ ان دیوی دیوتاﺅں پر کامل ایمان رکھتے تھے۔

میری امی جو بعض دیویوں کے زیر اثر تھیں اور اب بھی ہیں، اپنے گھر کے مندر کے سامنے دن رات بیٹھ کر عبادت کرتیں کیونکہ دیویوں سے انہیں جنون کی حدت تک عقیدت تھی۔ بچپن ہی سے میں مبینہ طور پر دیویوں کے زیراثر عورتوں کا ناچنا پسند نہیں کرتا تھا۔

ایک مسلمان کنبہ ہمارا قریبی ہمسایہ تھا۔ ہمارے درمیان تعلق پیدا ہوگیا اور میں ان کے گھر جانے لگا اور کبھی کبھی میں نماز کے وقت ان کے ہاں جا پہنچتا۔ ان کے نماز کے طریقے اور انداز سے مَیں متاثر ہوا۔ یہ انداز میں نے کسی اور مذہب میں نہیں دیکھا۔

آہستہ آہستہ میری مسلمانوں سے دوستی ہونے لگی اور میں ان کے پاس رہنے لگا۔ مختصر یہ کہ گیارہویں کلاس میں پہنچا تو میرے اردگرد کے تمام دوست مسلمان تھے۔ مسلمان ہونے کا جذبہ میرے دل میں روز بروز پروان چڑھتا گیا۔

کالچ سے چھٹی کے بعد میں نے کوئی جزوقتی ملازمت تلاش کرنے کا فیصلہ کیا اور مجھے سٹینو گرافر کی ملازمت مل گئی۔ رفتہ رفتہ میں نے اپنے افسر سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا شروع کیا تو انہوں مجھے یہ یقین دلایا کہ ہندومت ہی دنیا کا سب سے قدیم اور سچا مذہب ہے اور کوئی دوسرا مذہب اس سے بہتر نہیں۔ اس طرح وہ 3 سال تک یعنی مارچ1984 ءتک مجھے قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ میرے والدین نے ایک حسین راجپوت لڑکی سے میری منگنی کردی۔ اُدھر کالج میں ہر طرح کی برائیوں نے مجھے اپنی گرفت میں لے لیا۔

مشکلات: سینٹ ونسنٹ کالج میں میری شہرت دن بہ دن خراب ہونے لگی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تیسرے اور آخری سال میں مجھے داخلہ نہیں دیا جائے گا اور بالآخر ایسے ہی ہوا۔ سال دوم کے بعد پرنسپل نے مجھے داخلہ دینے سے انکار کردیا اور مجھ سے کہا کہ کسی اور کالج میں چلے جاﺅ جو کہ میرے لیے نا ممکن تھا کیونکہ کوئی کالج بھی آخری برسوں میں کسی طالب کو داخلہ نہیں دیتا تھا۔

میں نے ہندو دیوی دیوتاﺅں سے دعائیں کرنا شروع کیں مگر وقت گزرتا اور میرا کام نہ ہوا۔ تین ماہ اسی طرح گزر گئے اور پرنسپل صاحب مجھے داخلہ دینے سے برابر انکار کرتے رہے۔ میری تمام امیدیں ختم ہوگئیں تو امید کی ایک نئی کرن نمودار ہوئی۔یہ امید تھی اللہ سے جسے میں پہلے پہچانتا نہ تھا اور جو مجسم یا پیکرِ محسوس ہونے سے ماورا ہے۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ اگر مجھے اس کالج میں داخلہ مل جائے تو میں شادی کے بعد مسلمان ہو جاﺅں گا۔ حیرت انگیز بات تو یہ تھی کہ جو کام تین ماہ میں نہ ہوسکا وہ دو دِن میں ہوگیا اور میرا اللہ تعالیٰ پر ایمان پختہ ہوگیا۔

پھر مجھے اسلام کے لیے شادی تک انتظار نہ کرنا پڑا۔ میں نے اپنی ہندو منگیتر سے پوچھا کہ وہ قبولِ اسلام کے بعد بھی مجھ سے شادی کرنے کو تیار ہوگی؟ اُس نے طرح طرح کے جذباتی الفاظ میں مجھے یقین دلایا کہ شادی کے بعد وہ بھی اسلام قبول کر لے گی۔ یہاں یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ میں نے والدین سے مشورہ نہیں کیا۔

بالآخر 2 نومبر1985کو میں کلمہ طیبہ پڑھ کر مسلمان ہوگیا اور مہاراشٹر ہیرالڈ نامی جریدے میں میں نے اپنے قبولِ اسلام کا اعلان شائع کرا دیا۔ پھر تو میرے لیے مصائب شروع ہوگئے۔ پہلے میرے والدین نے گھر میں میری زندگی عذاب بنا دی اور میری منگنی ٹوٹ گئی۔ میری منگیتر کے الفاظ نقش برآب ثابت ہوئے اور اس کی مجھ سے دلچسپی ختم ہوگئی۔ اس دوران میرے والد نے فاطمہ نگر میں ایک فلیٹ بک کرا لیا تھا اور یکم جنوری1985 سے میرا خاندان وہاں منتقل ہوگیا اور مجھے اس نازک عمر میں دنیا کے حوادث و آلام کا سامنا کرنے کیلئے تنہا چھوڑ دیا۔معاشرے اور غیر مسلموں نے میری بہت مخالفت کی۔ مگر جب کسی آدمی کے دل میں ایمان جگہ پا لے تو وہ اس دنیاوی مکرو فریب کی بجائے صرف اللہ ہی سے ڈرتا ہے۔

اسلام کا مطالعہ: میں نے اسلام کا مطالعہ شروع کیا اور پہلی ہی نظر میں اس کے دلکش حسن اور قرآن کے علمی خزانے نے مجھے مسحور کردیا۔ میں محسوس کرنے لگا کہ مجھے بہترین علم حاصل ہو رہا ہے۔

صورت حال بدل گئی تھی۔ اب میں ہر طرح کی برائیوں کی سے پاک ہو چکا تھا۔ کلیتاً حدیث پاک کو مدنظر رکھ کر میں نے صاف ستھری اور پاکیزہ زندگی بسر کرنا سیکھ لیا۔ ختنے کی ضرورت ہی نہ پڑی کیونکہ وہ قدرتی طور پر بچپن ہی سے موجود تھا۔ شاید قدرت نے پہلے ہی میرے قبولِ اسلام کا فیصلہ کرلیا تھا۔ اسلام کی دولت کو حاصل کرنے کے لیے ہمیں والدین، بہن بھائیوں اور اپنے معاشرے کو چھوڑنا پڑتا ہے لیکن پیدائشی مسلمانوں کو اسلام کی دولت کسی محنت، مشقت یا تکلیف کے بغیر ہی مل جاتی ہے۔

اسلام وہ واحد مذہب ہے جو نہایت دلکش طریقے سے زندگی میں انقلاب لاتا ہے۔ میں نسلی مسلمانوں سے کہتا ہوں کہ آپ لوگوں کو اسلام پیدائشی طور پر نصیب ہوا مگر میں نے اپنی پسند سے اسے اختیار کیا۔ میرے اور آپ کے درمیان یہی ایک فرق ہے، جو بہت بڑا امتیاز ہے۔

اب میرا نام عبدالعلیم خان ہے اور میں اپنی ضعیف العمر دادی اماں کے ساتھ 10 ۔این پی ایس لائنز، ایسٹ سٹریٹ، اولڈ پول گیٹ، پون۔411 001 میں رہتا ہوں اور حق پا کر بہت اطمینان کی زندگی بسر کرہا ہوں۔ میرا سابق نام منوج چندرپال پردیشی تھا۔ میری اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ تمام دنیا کے مسلمانوں کے ایمان کو توانا کردے اور انہیں پاکیزہ اور نیک زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین)

نوٹ: یہ واقعہ محترم محمد حنیف شاہد کی کتاب"Why Islam Is Our Only Choice" سے لیا گیا ہے ۔ جس کا واحد مقصد لوگوں تکحقانیتِ اسلام کی معلومات پہنچانا ہے۔ جیسا کہ آج کل عیسائی اور دوسرے مذاہب کے لوگ اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرنے میں مصروف عمل ہیں۔ اس وقت میں ہمارے نوجوانوں کی بہترین رہنمائی کیلئے یہ ایک انمول تحفے سے کم نہیں۔
Akhtar Abbas
About the Author: Akhtar Abbas Read More Articles by Akhtar Abbas: 22 Articles with 62801 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.