ہاتھیوں کی لڑائی اور میں ۔۔۔!

ڈھائی ہزار برس قبل دریائے جہلم کے کنارے سکندراعظم اور مہاراجا پورس کے درمیان زبردست جنگ ہوئی تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ ہاتھی پر بیٹھ کر جنگ کرنے والے دشمن کو تہس نہس کردیا کرتے تھے ، ہاتھی میدان جنگ کا ایک ایسا دستہ ہوتا تھا جو شمشیر زنوں، شہسواروں، تیر اندازوں اور نیزہ بازوں کی پرواہ کئے بغیر مخالف کو کچل دیا کردیتے تھے ۔ گوکہ مہاراجا پورس ایک بہادر جنگجو تھا ،لیکن سکندر کے پاس جنگجوؤں کے ساتھ ایسے مدبر بھی تھے جو جنگی حکمت عملی اور دشمن کے مزاج کو سمجھتے تھے ، مہاراجا پورس نے سکندراعظم سے مقابلہ کرنے کے لئے ایک زبردست فوج تیار کی جس میں ہاتھیوں کا ایک دستہ بھی شامل تھا ۔ مہاراجا پورس کو اپنے ہاتھیوں اور سورماؤں پر یقین تھا لیکن سکندر اعظم کو ارسطو جیسے استاد اور ذہین مدبروں ملے تھے جنہوں نے اپنے دماغ کا درست استعمال کرتے ہوئے ہاتھی کو ڈرانے کے لئے آگ کا استعمال کیا ۔ شعلہ نوا تیروں سے ہاتھی بھڑک اٹھے اور اپنی ہی فوج کو روند ڈالا ، سکندر نے جنگ میں فتح حاصل کرلی ، لیکن مہاراجا نے شکست قبول کرنے کے بجائے مقابلہ کیا اور زخموں سے چور چور ہونے کے باوجود ہتھیار نہیں ڈالے، گرفتار ہوا ، بہادری سے سامنا کیا۔سکندر نے اس کو بہادری کی وجہ سے معاف کردیا تھا جس کے بعد وہ دوست بن گئے۔ ہزاروں برس بیت گئے لیکن آج بھی کہا جاتا ہے کہ’’ وہ افراد جو گھبراہٹ میں اپنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچائیں وہ پورس کے ہاتھی ہوتے ہیں ‘‘۔

جنگ صرف جدید ہتھیاروں سے نہیں لڑی جاتی بلکہ اس کے لئے باقاعدہ حکمت عملی نہایت ضروری ہے ۔ طاقت ، حکمت اور قسمت جب تک ساتھ نہ ہو تو کوئی جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔ المیہ ہے کہ آج پھر پورس و سکندر کے درمیان جنگ جا ری ہے۔ ہاتھی کون استعمال کررہا ہے اور اس کو ڈرانے کے لئے آگ کون لگا رہا ہے ، اسے سمجھنے کی اشد ضرورت ہے۔ لیکن دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ پورس و سکندر بے شک لڑرہے ہوں ، ہاتھی چاہے پورس کے لشکر کو کچلیں یا سکندر کے دَل کو تہس نہس کریں ، نقصان دونوں طاقت کے استعاروں کو یکساں ہورہا ہے۔ ان دونوں کے پاس اپنے اپنے ارسطور اور مدبر بھی ہیں ، لیکن انکا دماغ نہ کیوں کام نہیں کررہا ، یہ تاریخ کی عجیب سی جنگ ہے کہ لڑنے والا خود اپنے آپ سے لڑ کر خود کو ہی نقصان پہنچا رہا ہے ، پھر اپنے زخموں سے چور چور بھی ہے ، شکست بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتا ، ہتھیار بھی نہیں ڈالنے کو تیار نہیں ، حالاں کہ حالت جنگ میں اپنا بازو تک کٹوا چکے ہیں۔

ان حالات میں صلح کرانے کے لئے ایک قوت موجود ہے لیکن وہ غیر فعال ہے۔ شنہشاہ دارا کی طرح، اُس کے اپنے لوگ سازش کرکے جنگ پر اُکسا رہے ہیں ، آج کا سکندرجنگی حکمت عملی کی سمجھ بوجھ نہیں رکھتا ، ورنہ وہ شنہشاہ دارا کی طرح بے وقوفی نہ کرتا ، ماضی کے سکندر نے دارا کے بیوی بچوں کو قیدی بنا لیا تھا ،اُس نے سکندر کو پیغام بھیجا کہ وہ ’’ ڈیل ‘‘ کرلے ، آدھی ایرانی سلطنت دے دوں گا ، لیکن سکندر نے کہا کہ اگر کوئی اور پیش کش ہے تو خود آکر بات کرے ، پھر سکندر نے مصر کو بھی اس طرح فتح کیا کہ بغیر جنگ لڑے بغیر کامیابی حاصل کرلی ، سکندر نے دارا کے بیوی بچوں کا بہت خیال رکھا ۔پھراس نے بہترین حکمت عملی سے پورا ایران فتح کیا ، بتایا جاتا ہے کہ دارا کو اپنے ہی لوگوں نے قتل کردیا تھا ،کیونکہ وہ میدان جنگ میں پیٹھ دکھا کر بھاگاتھا ، سکندر پے در پے فتوحات کے بعد خود کو ’’یونانی دیوتا زیوس ‘‘ کی اولاد سمجھنے لگا تھا ، لیکن ’’ لکی توس ‘‘ نے اسے دیوتا ماننے سے انکار کیا تو سکندر نے اپنے نیزے سے اپنے عزیز دوست کو قتل کردیا، فوج میں بددلی پھیل گئی ، وہ سکندر کو مقدس ماننے کو تیار نہ تھے۔وہ اب مزید جنگ نہیں چاہتے تھے انہوں نے سکندر کو واپس جانے پر مجبور کردیا ۔سکندر اعظم نے نوجوانی میں دنیا کے بڑے حصے کو فتح کیا ، اُس کی موت خود عبرت کی الگ داستان ہے۔ دنیا کو فتح کرنے والا سکندر جب اس جہان سے گیا تو دونوں ہاتھ خالی تھے ۔

حیران ہوں کہ میرے وطن میں جنگ کو روکنے والا ایک ایسا طاقت ور اپنے قوت کو جاننے کے باوجود نہ جانے کیوں اُس ہاتھی کی طرح ہوگیا ہے جس کے پیروں میں پڑی بیڑیاں ، اُس کی طاقت وحکمت کو سلب کرچکی ہیں ، گوکہ وہ اُن بیڑیوں کو اپنی بے پناہ طاقت و حکمت سے توڑ سکتا ہے لیکن وہ ہمیشہ اپنی تقدیر کا انتظار کرتا رہتا ہے کہ شائد قسمت اُس کا ساتھ دے ، شائد اقتدار کا ہما اُس کے سر بیٹھے۔ یہ طاقت ور اپنی ناتوانی کو حکمت اور ہمت سے ختم کرکے اپنی تقدیر خود لکھ سکتا ہے ، لیکن نہ جانے کیوں صور اسرافیل کا انتظار کررہا ہے ۔ ایک بار پھر بڑھ کر ایسا کرسکتا ہے کہ ہاتھیوں کی اس لڑائی میں اپنے لاؤ لشکر کو نقصان پہنچنے سے روک سکے ۔ یقین کیجئے وہ بالادست ، طاقت ور لامحدود اختیارات کا حامل ہے ، سب کچھ ہے ، بس سکندر کی فوج کی طرح بیزار ، اتفاق ویکجہتی سے محروم ہے۔ نہ جانے کیوں نہیں سمجھتا کہ ناک کی سیدھ میں جانے والا ہمیشہ ٹھوکر کھا کر گرتا ہے ، دائیں بائیں دیکھ کر چلنے و الا محفوظ رہتا ہے۔ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ریت سے سر باہر کیوں نہیں نکال رہا ، کبوتر کی طرح خطرات کو دیکھنے کے باوجود آنکھیں بند نہ کیوں کرلیتا ہے۔

میر ے لئے بہت مشکل ہے کہ میں ہاتھیوں کی اس لڑائی میں خود کو دانستہ کچلنے کے لئے کود پڑوں ، میں ڈرتا ہوں اس لئے آج بھی کھل کر اُن کا نام بھی نہیں لے سکتا ،لیکن اپنے وطن سے بے انتہا محبت کرتا ہوں ، یہ سرزمین میرا دل ،میری پہچا ن ہے ، یہ ہے تو میں ہوں، میر ی عزت و قوت ہے ، میں اپنی سرزمین پر ایک بار پھر ڈھائی ہزا برس پرانی تاریخ نہیں دیکھنا چاہتا کہ فاتح کے جیت کے باوجود دونوں ہاتھ خالی ہی ہوں۔ جب کہ اس جنگ کو روکنے والے اپنے اونچے شاندار ایوانوں میں بیٹھ کر آپس کی جنگ میں اختیارات کی جنگ کو نظر انداز کررہے ہیں ، اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کے لئے ناقابل تلافی نقصان دیکھتے ہوئے فروعی مفادات میں الجھے ہوئے ہیں۔نہ جانے کیوں ایسالگتا ہے کہ ایک ایسا خفیہ ہاتھ ، طاقتوروں سے بھی زیادہ قوت رکھتا ہے جو جب چاہے کسی کے بھی گریبان پر ہاتھ ڈال کر اُسے چاک کرسکتا ہے اور طاقت رکھنے والے کچھ کرنے کے قابل نہیں رہتے ، بلکہ کاٹھ کے اُن پتلیوں کے مانند ہوجاتے ہیں جنہیں پس پردہ ہاتھ اپنی مرضی سے جو چاہیں کراتے رہتے ہیں ، خفیہ ہاتھ انہیں اُس وقت تک متحرک رکھتا ہے جب تک اُس کا دل چاہتا ہے ، خفیہ ہاتھ کی انگلیوں میں جب ڈور نہیں ہوتی تو کاٹھ کی پتلیاں بے جان گر جاتی ہیں۔
 

Qadir Khan
About the Author: Qadir Khan Read More Articles by Qadir Khan: 937 Articles with 657035 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.