پڑھے لکھوں کا باہمی تصادم

 پڑھے لکھے لوگوں کے آپس میں الجھنے سے معاشرہ بہت سے معاملات پر سوالیہ انداز میں پھر سے غور کرنے پر مجبور ہو رہا ہے۔ ان حالات میں معاشرے کے دانشوروں کی ذمہ داریاں اور بڑھ جاتی ہیں کہ وہ لوگوں کو اس نازک صورتِ حال میں کچھ راہنمائی فراہم کریں۔ وکلا اور ڈاکٹروں کے موجودہ تصادم کے تناظر میں کچھ ’حالیئے‘ معززقارئیں کی خدمت میں پیش کئے جاتے ہیں اس خیال ، سوچ اور امید کے ساتھ کہ شاید ہم بہتر قوم اور معاشرہ بن سکیں۔
۱۔ معاشرے کی بنیادی اکائیوں کا باہم الجھنا معاشرے کو کھوکھلا کر دے گا۔
۲۔ ابھی ذاتوں کا تعصب ختم نہیں ہو کہ پیشوں اور شعبوں کا تعصب زور پکڑ گیا ہے۔
۳۔ وکلا اور ڈاکٹر صاحبان معاشرے کے جزوِ لازم ہیں، ان کا ٹکراؤ معاشرہ افورڈ نہیں کر سکتا۔
۴۔ وکلا اور ڈاکٹروں کا آپس میں الجھنا معاشرے کے سب لوگوں کی ناکامی ہے۔
۵۔ وکلا اور ڈاکٹر معاشرے کی پہچان بلکہ شان ہیں ان کے رویئے قابلِ تعریف ہوں تو اچھا ہے۔
۶۔ پی آئی سی کا واقعہ پورے معاشرے اور خاص طور پر حکومت کی ناکامی ہے۔
۷۔ پولیس اور دوسرے انتظامی ادارے اپنے ہونے کا ثبوت فراہم کرنے سے قاصر رہے۔
۸۔ بنیادی تعلیم اور اخلاقی رجحانات پر نئے سرے سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔
۹۔ والدین کی نظریاتی بہتری کی سب سے زیادہ ضروت ہے۔
۱۰۔ ہمارے معاشرے میں والدین، اولاد میں تعصبات پیدا کرنے کی بنیادی محرکات ہیں۔
۱۱۔ ہمارے تعلیمی نصاب میں کچھ لوگوں سے نفرت معاشرے کے استحکام کے لئے کافی سمجھ لی گئی ہے۔
۱۲۔ مذہبی اور سیاسی انتہا پسندی تو پہلے سے موجود ہے ،اور اب پیشہ جاتی انتہا پسندی سر اٹھا چکی ہے۔
۱۳۔ ہمارا معاشرہ اسلامی و فلاحی نظریاتی اساس سے مفاداتی اور تعصباتی اساس کی طرف سرک گیا ہے۔
۱۴۔ ہر شعبہ اپنی حکومت قائم کرنے کا خواہاں ہے۔
۱۵۔ اداروں کے مابین تصادم اور پیشوں کے مابین تعصب تقویت پکڑ رہا ہے۔
۱۶۔ پڑھے لکھے لوگوں کا آپس میں الجھنا تعلیم اور تہذیب پر سوالیہ نشان لگا تا ہے۔
۱۷۔ دانش وروں کے لئے یہ لمحہ فکریہ ہے۔
۱۸۔ مستقبل کے متعلق سوچنے کی اشد ضرورت ہے۔
۱۹۔ بچوں میں پیشوں کا تعصب پیدا کرنے سے گریز کیا جائے۔
۲۰۔ دینی اور صوفیانہ تعلیمات کے فروغ کی ضرورت بڑھ گئی ہے۔
۲۱۔ اسلام ، انسانیت اور پاکستان کے نام پر باہمی اور ذاتی اختلافات کو بھلا دینا وقت کی ضرورت ہے۔
۲۲۔ اگر اسلام ہی ہمیں متحد نہ رکھ سکا تو پھر کون رکھے گا،اسلام نے ہاتھ اور زبان کی حدود کا تعین کر دیا ہے۔
۲۳۔ پڑھے لکھے لوگوں کی لڑائی ملکی نقصان اور جگ ہنسائی کا باعث بنتی ہے۔
۲۴۔ قرآن اور حدیث سے رہنمائی لینے کی ضرورت زیادہ محسوس ہونے لگی ہے۔
۲۵۔ تمام پیشے اور ملکی باشندے قابلِ احترام اور معزز ہیں، حتیٰ کہ ایک خاکروب کی بھی بے توقیری کی گنجائش نہیں۔
۲۶۔ کالے کوٹ اور سفید شرٹ سب کی اپنی اپنی جگہ عزت وتوقیر ہے۔
۲۷۔ ملک وقوم اور سب سے بڑھ کر اپنے رب اور رسولﷺ کو خوش کرنے کے لئے اپنے فرائض انجام دینے چاہیئیں۔
۲۸۔ اگر ہم اچھے مسلمان بن جائیں تو اچھے انسان اور اچھے پاکستانی خود بخود ہی بن جائیں گے۔
۲۹۔ نئی نسل کو پہلے سے موجود تعصبات سے نکالنے کی ضرورت ہے جب کہ حالات نئے تعصبات کو جنم دے رہے ہیں۔
۳۰۔ اساتذہ اور خاص طور پر پروفیسرز کی اس صورتِ حال میں ذمہ داری دوچند بلکہ سہ چند ہو جاتی ہے۔
۳۱۔ سکولوں اور کالجوں میں طلبہ وطالبات کو بہتر اخلاقی اور نظریاتی تعلیم ملنی ضروری ہو گئی ہے۔
۳۲۔ ہمیں اپنے ملک اور ملکی حدود کی طرف سے بھی چوکس رہنا چاہیئے۔
۳۳۔ کھوکھلے معاشرے اپنی عمریں گھٹا لیتے ہیں۔
۳۴۔ مضبوط معاشرے کا سب سے پہلا تقاضا ’اتحاد‘ ہے۔
۳۵۔ آج ہمیں ایک بار پھر اتحاد، ایمان اور نظم وضبط کا سبق پڑھنے کی ضرورت ہے۔
۳۶۔ ہمیں اپنے نظریئے اور رویئے بہتر کرنے کی اشدضرورت ہے۔
۳۷۔ اگر ہم نے اپنا آج نہ سنبھالا تو کل کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔
۳۸۔ غلطی کرنا انسان کا شیوہ ہے لیکن غلطی پر ’اڑ‘ جانا شیطان کا شیوہ ہے۔
۳۹۔ غلطی پر معافی مان لینا اچھا عمل ہے اور معافی نہ مانگنا نا مناسب ہے۔
۴۰۔ معافی مانگے والے کو معاف کر دینا قابلِ تعریف ہے۔
۴۱۔ معاف کر دینے والا ہمیشہ برتر ہوتا ہے ۔
۴۲۔ انسانی معاشرے معاف کئے بغیر وجود نہیں رکھ سکتے۔
۴۳۔ معاف کرنا اورمعاف کرنے والا اﷲ کو پسند ہے۔


 

Niamat Ali
About the Author: Niamat Ali Read More Articles by Niamat Ali: 178 Articles with 284410 views LIKE POETRY, AND GOOD PIECES OF WRITINGS.. View More