آپ کے بینک کارڈ کا خفیہ کوڈ کتنا اہم ہے؟

image


ان کارڈز کی بدولت شہریوں کو اب اپنے کارڈ سے ادائیگی کرتے ہوئے کارڈ مشین میں صرف اپنا کارڈ ہی نہیں بلکہ چار ہندسوں پر مشتمل خفیہ کوڈ بھی ڈالنا ہوگا اور اس کے بغیر ادائیگی ممکن نہیں ہوگی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بینک صارفین سٹرپ کارڈز کی جگہ اب چپ کارڈز کا استعمال کریں۔

لیکن جہاں ان نئے کارڈز سے فراڈ اور چوری کے واقعات کم ہو سکتے ہیں وہیں ذرا سی بے احتیاطی سے یہ نئے کارڈز صارفین کے لیے پریشانی کا باعث بھی بن سکتے ہیں۔

اکثر صارفین مشین میں اپنا چار ہندسوں پر مشتمل خفیہ کوڈ خود ڈالنے کی بجائے دکاندار، ویٹر یا متعلقہ شخص کو بتا دیتے ہیں، جس سے فراڈ کا خدشتہ بڑھ جاتا ہے۔

بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ زیادہ سکیورٹی فیچرز والے ان نئے اے ٹی ایم اور کریڈیٹ کارڈ سے کیا واقعی فراڈ اور چوری کے واقعات میں کمی لائی جا سکتی ہے اور ان کو استعمال کرتے ہوئے اور پاس یعنی پوائنٹ آف سیل مشین میں چار ہندسوں پر مشتمل خفیہ کوڈ ڈالتے ہوئے صارفین کو کون سی احتیاطی تدابیر اپنانی چاہییں؟
 

image


نئے کارڈز میں ’نیا‘ کیا ہے؟
محمد عثمان سہیل سلک بینک میں سینئر ریلیشن شپ آفیسر ہیں۔ انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ پرانے اے ٹی ایم کارڈز میں بھی چپ کا فیچر تو موجود تھا لیکن اب جو چپ لگائی گئی ہے اس میں سکیورٹی فیچرز پہلے سے زیادہ ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ پہلے کسی بھی مشین میں اے ٹی ایم یا کریڈیٹ کارڈ لگانے سے رقم کی منتقلی ہو جاتی تھی لیکن اب نئے کارڈز میں ایسا نہیں ہے۔

’اب ہمیں کارڈ کو سوائپ کرتے ہوئے مشین میں چار ہندسوں پر مشتمل خفیہ کوڈ دینا ہوگا اور پھر ہی رقم کی منتقلی ممکن ہو گی۔‘

نئے چپ والے کارڈز کو کیسے استعمال کیا جائے؟
محمد عثمان نے بتایا کہ گذشتہ کچھ عرصے میں بینکوں میں اے ٹی ایم کارڈز کے ذریعے بہت زیادہ فراڈ ہو رہے تھے۔

’اے ٹی ایم مشینوں میں جب کارڈ ڈالا جاتا تھا تو مشین میں پہلے سے ایسی ڈیوائسز موجود ہوتی تھیں جو کارڈ کو ہیک کر لیتی تھیں لیکن نئے چپ کارڈ اب صارف کو اضافی سکیورٹی فراہم کرے گا۔‘

محمد عثمان نے ان نئے کارڈز کو استعمال کرنے اور فراڈ سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر بتاتے ہوئے کہا کہ صارفین اپنے کارڈ کا خفیہ کوڈ کسی صورت بھی کسی کو نہ بتائیں۔

’ہر بینک یہ ہدایات دیتا ہے کہ اپنا پاسورڈ کسی کے ساتھ شیئر نہ کیا جائے۔ اس نئے چپ والے کارڈز سے ان فراڈز میں کمی آئے گی۔‘

انھوں نے کہا کہ کسی بھی ریستوران یا دکان میں کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے دکاندار یا ویٹر کو اپنا خفیہ کوڈ بتانے کے بجائے اپنے ہاتھوں سے اسے پاس یعنی پوائنٹ آف سیل مشین میں ڈالیں۔
 

image


رقم کی واپسی پر بینک پالیسی کیا ہے؟
اگر کوئی شخص کسی کو اپنا پاسورڈ بتا دیتا ہے اور اس کے ساتھ فراڈ ہو جاتا ہے تو رقم واپسی سے متعلق بینک کی پالیسی کیا ہے؟

اس سوال کا جواب دیتے ہوئے محمد عثمان نے دوبارہ یہی بات دہرائی کہ کوئی بھی صارف اپنا خفیہ کوڈ کسی سے بھی شیئر نہ کرے اور اگر ایسا ہو جاتا ہے اور صارف بینک سے رجوع کرتا ہے تو اس صورت میں بینک انھیں صرف دوبارہ خفیہ کوڈ شیئر نہ کرنے کی ہدایات ہی دیتا ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ یہ نجی بینکوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے صارفین کو نئے کارڈز کے استعمال اور خفیہ کوڈ کی اہمیت کے بارے میں آگاہ کریں۔

تاہم یہ نیا کارڈ وصول کرنے والے ایک صارف عابد حسین نے ہمیں بتایا کہ ان کے بینک کی جانب سے انھیں اس تبدیلی کے بارے میں کوئی خاص آگاہی نہیں دی گئی۔

’میں نے ان (بینک والوں) سے پوچھا کہ یہ چپ والا سسٹم کیا ہے، مجھے ان کی بات زیادہ سمجھ نہیں آئی لیکن انھوں نے کہا کہ آپ کو نیا چپ والا کارڈ دے رہے ہیں جس میں آپ کی سیفٹی سکیورٹی زیادہ ہوتی ہے، آپ کو کہیں ادائیگی کرتے ہوئے دستخط نہیں کرنا پڑیں گے۔‘

عابد نے یہ بھی بتایا کہ وہ کریڈٹ یا اے ٹی ایم کارڈ سے ادائیگی کرتے وقت مشین میں خفیہ کوڈ ہمیشہ خود ڈالتے ہیں۔

’مجھے ہمیشہ دکاندار مشین خود لا کر دیتے ہیں، کبھی ایسا نہیں کہ مجھے کہا گیا ہو کہ ہمیں اپنا خفیہ کوڈ بتا دیں۔ لیکن میں نے دیکھا ہے کہ بہت سے لوگ اپنا پن کوڈ بتا دیتے ہیں۔‘

اسلام آباد کی جی 10 مارکیٹ کے ’ڈے نائٹ نامی سپر سٹور کے کیشیئر جانس خان نے ہمیں بتایا کہ ہم کارڈ استعمال کرنے والے گاہگوں کو مشین دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اپنا پاس کوڈ خود لگا دیں۔

’ہمارے پاس یونائٹڈ بینک لمیٹڈ کی مشین ہے، اور ہمیں بینک اور انتظامیہ کی جانب سے بھی یہ کہا گیا ہے کہ گاہک کو پاس ورڈ خود ڈالنے دیں۔‘


Partner Content: BBC URDU
YOU MAY ALSO LIKE: