تربیت کا عمل خود سے شروع کریں !

ہم ایسی بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں جس سے نکلنے کا رستہ شاید ہی ہمیں ملے،جب تک کہ ہم خود کوئی کشت کرکے رستہ بنانے کی ہمت نہ کریں۔ یہ بند گلی اب ہمارے قومی شعور کے لیے گالی بن چکی ہے اور کیوں کہ ہم گالیاں سننے کے عادی ہیں اس لیے ہمارے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔ چلیں دل چسپی کے لیے ایک المیائی کہانی سنائیں، ایک نجی ٹی وی چینل کا اینکر صوبائی اسمبلی میں گَن لے کر پہنچ جاتا ہے ، قطع نظر اس کے کہ یہ ایک غیر اخلاقی حرکت کہی جا سکتی ہے کہ ہمارے قومی اداروں میں بیٹھے عوامی ہیروز وہی ہیں جنہیں عوام نے تاحکم ثانی ملک کے سیاہ وسفید فیصلوں پر مقرر کیا ہے۔ مسلح اینکر کو صوبائی اسمبلی میں مجرم کہا جاتا ہے، جب کا اس مقصد صرف اتنا تھا کہ عوام کے ٹیکسوں پر بننے والی یہ عالی شان اسمبلیاں اور ان میں براجمان ملک کا طاقت ور طبقہ ملک کی ترقی ،عوامی خوش حالی میں کتنا خون جلا رہا ہے۔دوسری طرف کا رد عمل تو بہرحال ممکنہ تھا،ہمیں حیرت ہوئی کہ اینکر کو’’جرات‘‘ کیسے ہوئی سوئی ہوئی قوم کوخوابِ غفلت سے جگانے کی ،لیکن احساس ندامت کا جنازہ کہیئے یا ہٹ دھرمی کا طوفان کہ ہمارے ہاں اپنی غلطی پر شرمندہ ہونے کی بجائے، اپنانکماپن چھپانے کے لیے الزام اسی پر دھر دیتے ہیں جو ہمیں ہماری کوتاہی دکھانے کے لیے کھڑا ہوتا۔

انسان سازی اور افرادی تربیت پر حکومتوں نے آج تک کام کیا اور نہ اسے اہم جان کر نصاب کا حصہ بنایا گیا۔ جس کی وجہ سے غیر تربیت یافتہ نسل کی ہری بھری کھیت تیار ہوئی اور جس کی اپنی تربیت نہ ہوئی بھلا وہ اپنے مستقبل اور ملک کے لیے کیا پھول بوٹے لگانے ہیں۔ آپ دیکھ لیجیے کہ سگنل پر دو منٹ رکنا مہذب قوم کی پہچان ہے،لیکن ہم ایک آدھ منٹ رک نہیں سکتے۔ پیچھے آنے والا یہ دیکھتے ہوئے کہ سامنے گاڑیوں کی لمبی قطار ہے، اپنے آگے والے کو ہارن بجا بجا کر کان کے کیڑے نکال دیتاہے۔ ایسوں کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ وہ کسی فلاحی ادادرے کی ایمبولنس چلا کر انسانیت کی مفت خدمت پر مامور ہو جائیں، اس طرح ان کا جلد بازی کا شوق ضرورہوگا البتہ مریضوں کا اﷲ مالک ہے ۔ ہما را اجتماعی شعور اپنے قد کاٹھ میں باوجود اس کے کہ ہم ایک مہذب قوم کے وارث ہیں چھوٹا ہوچکا ہے۔

مشاہداتی کہانیاں ہماری روز مرہ زندگی میں پیش آتی ہیں جس سے ہم قوم کے اجتماعی شعور کا نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں، ہم نے ایک پڑھے لکھے صاحب کو غلط اوور ٹیک کرنے پرمخالف گاڑی والے کوبے ہودہ گالیاں دیتے ہوئے سنا تو ہم نے کہا:’’ بھائی آپ کے ساتھ معصوم بچہ بیٹھا ہے ،اورآپ جو اول فول بول رہے ہیں اس کا مخالف پرتو کوئی اثر نہیں ہوگا، لیکن آپ کے بچے کی اخلاقی تربیت کے لیے یہ ایسا زہر ہے جس کا تریاق ہی موجود ہی نہیں۔ ہم سب نے دیکھا ہوگا کہ ہمارے بچے والدین کے ساتھ گاڑی میں جارہے ہیں ، شیشے کھلے ہوئے ہیں ،بچے کبھی ہاتھ باہر نکالتے ہیں کبھی سر ،کچھ کھاتے ہوئے جارہے ہیں توبتانے والا کوئی نہیں کہ کچرا گاڑی کے اندر ہی رکھنا ہے۔اگر ہم اپنی سوشل زندگی میں غیراہم کام نہ کریں تو ممکن ہے کہ ہم افراد کی تربیت میں غیر معمولی کردار ادا کرسکتے ہیں اور یہ کوئی مشکل بھی نہیں۔ کیوں کہ ہمارے ہاں ملکی سطح پر ایسے اداروں کا قیام عمل میں آنے کی امید نہیں جو ریاست کی سرپرستی میں افراد کی تربیت پر کام کریں،کیوں کہ افراد کی تربیت سے ہی ہم اپنا قومی تشخص قائم کرکے تہذیب کی روح کو زندہ رکھ سکتے ہیں۔

ہمیں پتا ہے کہ ہم ایک غیر تربیت یافتہ معاشرے میں رہتے ہیں جہاں افراد کی تربیت پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ مغربی ممالک میں ایسے اداروں کا قیام بتدریجاََ مشرقی ممالک کے زیادہ ہورہا ہے جہاں افراد کی تربیت کا بڑا غم رکھنے والے موجود ہیں اور وہ اس حساس معاملے پر گہری سوچ و بچار کے ساتھ کام کر کے آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ اس سے صرف ملکی ترقی میں اپنا حصہ بقدر جثہ ملا رہے ہیں بلکہ افراد کی تربیت سے معاشرے کی اصلاح بھی کررہے ہیں۔مثلاََ وہاں بچوں کی اخلاقی تربیت پرخاص توجہ دی جاتی ہے کہ مستقبل میں ان ہی سے نئی نسل نے پروان چڑھنا ہے ،وہ بچوں کو بتاتے ہیں کہ چلتی گاڑی سے بسکٹ ،ٹافی کے ریپر یا پھلو ں کے چھلکے نہیں پھینکتے، وہ لڑائی جھگڑوں سے بچوں کو دور رکھتے ہیں کہ ان لمحات میں لازماََ دشنام طرازی ہوتی ہے ،بچے جو دیکھتے ہیں وہی ان کی زندگی کا جز لازم بن جاتا ہے،پھروہ بڑے ہو کر وہی عمل دہراتے ہیں جو دیکھا، سنا، کیا ہوتا ہے۔ ان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اس طرح کوئی معاشرہ درست ہو سکتا ہے اور نہ ہی کوئی قوم تہذیبی برتری حاصل کرکے دوسری تہذیبوں پر اپنااثر چھوڑ سکتی ہے۔تربیت کا عمل اپنے آپ سے شروع کریں ، خود پر محنت کرنی چاہیے تا کہ ہم جس افرادی تربیت کے قحط کا شکار ہیں اپنی آنے والی نسلوں کو اس سے بچا سکیں۔

Muhammad Ansar Usmani
About the Author: Muhammad Ansar Usmani Read More Articles by Muhammad Ansar Usmani: 99 Articles with 97290 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.